Tag: مشہور تاریخی عمارتیں

  • قدیم اٹلی کے سیاسی انتشار اور افراتفری میں فنونِ لطیفہ کا سفر

    قدیم اٹلی کے سیاسی انتشار اور افراتفری میں فنونِ لطیفہ کا سفر

    یورپ کا قدیم اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے نہایت زرخیز علاقہ آج جمہوریہ اٹلی کی شکل دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اٹلی یا اطالیہ قدیم دور ہی سے علم و فنون میں نمایاں‌ رہا ہے۔ یہاں‌ کے معمار، سنگ تراش اور مجسمہ سازوں کے علاوہ مصوّروں کا دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اٹلی قدیم تہذیبوں کا گواہ اور تمدن کی نشانی ہے۔

    اٹلی کی تاریخ نہایت طویل ہے، جسے پانچویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک دیکھیں‌ تو وہ زمانہ روم اور رومن سلطنت کی ترقی کا زمانہ تھا اور 476ء میں اس کا زوال اور پھر سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ چھٹی صدی میں لاطینی تہذیب و تمدن کو عیسائیت کی علم برداری میں ابھرنے کا موقع ملا۔

    آٹھویں، نویں اور دسویں صدی میں کئی حملے، جنگیں ہوئیں اور ریاستیں بنیں ٹوٹیں۔ بغاوتیں اور اس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں‌ افراتفری کا سلسلہ جاری رہا۔

    کئی سو سال تک اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا اور ان میں آپس میں سخت لڑائیاں ہوتی رہیں۔ انہی حالات کا فائدہ فرانس، اسپین، آسٹریا کی ریاستوں نے اٹھایا جو مسلسل انتشار اور خانہ جنگی کے شکار اٹلی پر نظر جمائے ہوئے تھیں۔ جرمنی نے بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ فرانس اور اسپین کے مابین بھی اٹلی پر قابض ہونے کے لیے رقابت کا سلسلہ جاری رہا۔

    آخر 1494ء میں فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم کی فوج نے اٹلی پر حملہ کردیا اور بعد میں 1559ء تک اس کا بڑا حصّہ اسپین کے قبضے میں چلا گیا۔ انقلابِ فرانس نے ایک بار پھر اٹلی کی سیاسی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی۔ نپولین بونا پارٹ نے اس کے بڑے حصّہ پر قبضہ کرلیا اور تمام پرانے اداروں کو توڑ دیا۔ 1848ء کے بعد معاشی بدحالی اور بے چینی بڑھی اور ہزاروں اطالوی ترکِ وطن کرگئے۔

    تب 1882ء میں حکومتِ اٹلی اور جرمنی کا معاہدہ ہوا۔ اس وقت اٹلی نے افریقا پر قبضہ کرنا اور کالونی میں‌ تبدیل کرنا شروع کیا۔ پہلے ایریٹیریا اور صومالیہ کے کچھ حصّے اس کی نو آبادی بنے۔ ایجادات کی صدی میں‌ ترکی کے ساتھ لڑائی کے بعد اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کر لیا۔

    1935ء میں مسولینی اقتدار میں‌ آیا تو فسطائی قوتیں پروان چڑھیں۔ مسولینی اور ہٹلر کے اتحاد نے یورپی ممالک میں بغاوتوں اور انتشار کا فائدہ اٹھایا اور جنگی کارروائیاں شروع کیں۔ بعد میں‌ یہ دونوں ہی انجام کو پہنچے اور یکم جنوری 1946ء کو اس قدیم ملک کے لیے ایک نیا جمہوری آئین مرتب کیا گیا۔

    اطالیہ کی سرحد فرانس،آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ سے ملتی ہے جب کہ کچھ چھوٹے آزاد علاقے بھی اٹلی میں‌ شامل ہیں۔ اس کا دارالحکومت روم ہے اور یہ پارلیمانی جمہوریہ ہے۔

    اٹلی جانے والے وہاں کے میوزیم میں عہدِ قدیم کے عجائب اور نوادر کے ساتھ تہذیب و ثقافت کے وہ نقش دیکھ سکتے ہیں‌، جو آج بھی صدیوں پہلے کے رہن سہن، تمدن، سماج سے لے کر جنگی میدان اور مختلف شعبہ ہائے حیات کی کہانی سناتے ہیں۔

    کئی قدیم عمارتیں جن میں‌ صدیوں پہلے رعایا اور سلطنت کے باسیوں کی زندگی کے اہم فیصلے کیے گئے، اور ایسے معبد، کلیسا اور مقامات جنھوں‌ نے طاقت اور اثرورسوخ کے بل پر صدیوں حکومتی امور میں دخل دیا اور بغاوتوں اور خانہ جنگیوں کا سبب بنے۔ مذہب اور ریاست کی کشاکش کے ساتھ اٹلی میں‌ فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں‌ وہ کام ہوا جس کی نظیر نہیں‌ ملتی۔ اس خطّے اور ملک کو مختلف ادوار میں مصوّروں، مجسمہ سازوں اور معماروں اور موسیقاروں نے اپنے فن سے جگمگایا۔

  • صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    عالی شان محلّات، بلند و بالا قلعے اور پُرشکوہ عمارات صدیوں سے شاہان و امرا کی شان و شوکت کی علامت اور یادگار کے طور پر تعمیر کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں عظمتِ رفتہ کی یہ نشانیاں ہمارے لیے دیدنی ہیں۔

    یورپ کی بات کی جائے تو وہاں‌ ہر سال کروڑوں سیاح ایسے محلّات اور قلعوں کی سیر کو آتے ہیں‌، جن کا منفرد طرزِ تعمیر ہی نہیں‌ ان سے منسوب داستانیں، مستند تاریخی واقعات اور حقائق بھی ان کی دل چسپی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں ہم یورپ کی اُن پانچ عمارتوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی شان و شوکت اور تب و تاب آج بھی برقرار ہے۔

    ونڈسر کیسل
    یہ عظیم الشان برطانوی محل قدیم ترین شاہی رہائش گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ صدیوں‌ سے اس محل میں شاہی خاندان آباد ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ونڈسر کیسل کی تعمیر 1078 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی اور کسی زمانے میں یہ عمارت شاہی افواج کی قیام گاہ کے ساتھ ساتھ بطور جیل بھی استعمال ہوتی رہی۔ یہ ایک پُرشکوہ عمارت اور طرزِ‌ تعمیر کے اعتبار سے نہایت خوب صورت ہے جو برطانوی ملکہ کی مرکزی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ برطانوی تاج دار کی اس محل میں موجودگی کی صورت میں یہاں مخصوص مینار پر ان کا پرچم لہرا دیا جاتا ہے۔

    شوئن برُن پیلس
    لگ بھگ تین صدی اور اس سے کچھ زائد عرصہ ہوا جب پندرہویں صدی عیسوی کی ایک عمارت کی ازسرِ نو تعمیر کے ساتھ اس کے وسیع احاطے میں ایک محل کھڑا کر دیا گیا اور اسے شوئن برُن پیلس کا نام دیا گیا جس کا مقامی زبان میں مطلب خوب صورت بہار تھا۔ یہ محل آسٹرو ہنگیرین بادشاہت کی یادگار ہے جسے آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹیریسا نے یوں آباد کیا کہ یہ یورپی شاہی خاندانوں کا سب سے بڑا اور اہم مرکز بن گیا۔ آج کے جمہوریہ آسٹریا کے شہر ویانا میں سالانہ لاکھوں‌ لوگ اس عظیم الشان محل کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    ویرسائیے پیلس
    یہ 1677 کی بات ہے جب فرانس کے دارالحکومت پیرس کے نواح میں اس وقت کے بادشاہ لُوئی (چہار دہم) نے ویرسائیے پیلس کو شاہی رہائش گاہ کے طور پر اپنایا۔ یہ محل اٹھارہ سو کمروں پر مشتمل ہے اور یورپ کے بڑے محلات میں سے ایک ہے۔ ویرسائیے پیلس کی خوب صورتی اور اس کا طرزِ تعمیر اس دور میں مثالی ثابت ہوا اور مشہور ہے کہ یورپ کے دیگر حکم رانوں اور امرا نے اسی طرز پر اپنے قصر تعمیر کروائے۔ فرانس کا یہ محل آج بھی سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

    پیٹر ہوف پیلس
    خلیج فن لینڈ کے کنارے تعمیر کیا گیا یہ محل روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے مغرب کی طرف واقع ہے اور سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز ہے۔ تاریخ‌ کی کتب بتاتی ہیں‌ کہ اس محل میں موسمِ گرما میں روسی زار پیٹر اوّل قیام کرتا تھا۔ 1723 کی اس عظیم یادگار کی انفرادیت اور اس کا حُسن اس میں‌ بنائی گئی آبی راہ داریاں ہیں۔ اس کے بیرونی اور داخلی راستوں پر حوض، تالاب اور ان میں‌ موجود فوّارے اس کی دل کشی بڑھاتے ہیں۔

    توپکاپی پیلس
    ترکی جانے والے سیاح مشہور شہر استنبول کا توپکاپی پیلس دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ اس محل کے چار بڑے حصّے ہیں اور اسے ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے جو پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں اس وقت کے سلاطین کی رہائش گاہ ہی نہیں‌ بلکہ انتظامی امور کا مرکز بھی تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ یہ محل ایک چھوٹے سے شہر کی طرح تھا جس میں لگ بھگ پانچ ہزار رہتے اور اپنے اپنے کام انجام دیتے تھے۔

  • عقبہ بن نافع، قیروان شہر اور مسجد

    عقبہ بن نافع، قیروان شہر اور مسجد

    جامع القیروان الاکبر تیونس کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے جسے مسجد عقبہ بن نافع بھی کہتے ہیں۔

    قیروان شہر کی بنیاد عقبہ بن نافع نے رکھی تھی اور تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ شہر کے ساتھ ہی اس نے مسجد کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا تھا۔ یہ سن 670 عیسوی کی بات ہے اور آج قیروان کا شمار تیونس کے جدید اور مشہور شہروں میں‌ ہوتا ہے۔

    اس قدیم مسجد کا رقبہ 9000 مربع میٹر ہے جسے ایک زمانے میں جامعہ کا درجہ حاصل تھا۔ کہتے ہیں اس مسجد کے احاطے میں دینی اور دنیوی تعلیم دینے کے لیے اس دور کی قابل اور اہم مذہبی شخصیات کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

    اس شہر پر بربروں نے یلغار کی تو یہاں ہر طرف تباہی پھیل گئی اور کئی اہم عمارتوں‌ کو شدید نقصان پہنچا جس میں مساجد اور مدارس بھی شامل تھے۔

    تاریخ میں ہے کہ مختلف ادوار میں اس مسجد کی تعمیر و مرمت اور توسیع کا کام بھی ہوتا رہا اور اس کے موجودہ ڈھانچے کو غلبی خاندان کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کو دو سو سال گزرے تو مختلف فرماں رواؤں نے اس میں مرمت و توسیع کا کام کروایا، اور ضرورت کے مطابق ستونوں کا اضافہ، منبر و محراب کی تزئین و آرائش، صحن کو وسعت دی جاتی رہی، مگر بنیادی ڈھانچہ وہی رہا جو اغلبیوں نے تعمیر کروایا تھا۔

    یہ مسجد قلعہ نما ہے۔ اس کی دیواریں موٹے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ صحن کے درمیان ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی نتھر کر ایک زیرِ زمین مخصوص جگہ پر ذخیرہ ہوجاتا تھا اور بعد میں اسے استعمال کیا جاسکتا تھا۔

    مسجد کا منبر مضبوط لکڑی کا بنا ہوا ہے اور آج بھی کئی سو صدی پرانا یہ منبر اسی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مسجد کا مینار بھی گیارہ سو سال سے اسی شان اور وقار سے قائم ہے۔

    آج بھی قدیم مقامات اور تاریخی عمارتیں دیکھنے کا شوق رکھنے والے جب تیونس پہنچتے ہیں، تو قیروان شہر کی یہ مسجد ضرور دیکھنے جاتے ہیں۔

  • اَشوری کون تھے؟

    اَشوری کون تھے؟

    اقوام اور تہذیبوں کے ہزاروں برس پر پھیلے سلسلے کو قدیم آثاروں کی دریافت کے بعد جب جاننے کی کوشش کی گئی تو ماہرین نے اپنے علم اور دورِ جدید کے آلات کی مدد سے ان کے دور کے سیاسی، سماجی حالات، رہن سہن اور طور طریقوں کے بارے میں‌ اندازہ لگایا اور قیاس کر کے تاریخ مرتب کی جس میں سے ایک اشوریہ تہذیب بھی ہے۔

    آثار و تاریخ کے ماہرین کے مطابق اشوریہ کا زمانہ تقریباً دو ہزار برس قبل مسیح کا ہے۔ یہ شمالی عراق کے دریا دجلہ اور فرات کے وسط میں پھلنے پھولنے والی ایک تہذیب تھی جسے اس زمانے کے اشوریہ حکم رانوں اور سورماؤں نے عظیم سلطنت کے طور پر منوایا۔

    اشوریہ کا دورِ عروج آیا تو یہ مصر، شام، لبنان، آرمینیا اور بابل تک پھیل گئی۔ ماہرین کے مطابق اس تہذیب نے شہر اشور کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا اور اسی نسبت سے بعد میں یہ اشوریہ سلطنت مشہور ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تہذیب خاصی زرخیز اور تمدن سے آشنا تھی۔ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اشوریوں نے معبد اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کی تھیں۔

    شاہِ اشور بنی پال کے اس دنیا سے جانے کے بعد یہ سلطنت زوال کی طرف بڑھی اور کہتے ہیں کہ اہلِ بابل نے انھیں نینوا سے نکال کر خود اس پر قبضہ کرلیا اور پھر اشوری سلطنت کا خاتمہ بھی کر دیا۔

    ماہرین نے قدیم آثار اور اشیا کی مدد سے جانا کہ اشوری علوم و فنون کے دل دادہ تھے۔ ان میں‌ غاروں کی دیوارں، چٹانوں پر مختلف جانوروں، جنگجوؤں اور اشیا کی تصاویر، مجسمے وغیرہ شامل ہیں۔ اس تہذیب کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں‌ شاہِ اشور کے کہنے پر کتب خانے بھی بنائے گئے جن میں مذہب، تاریخ، جغرافیہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔

    ہزاروں برس پہلے کے کتب خانوں میں کاغذی کتابیں‌ نہیں‌ تھیں بلکہ اس زمانے میں عالم اور قابل شخصیات اپنی تحقیق، مشاہدات اور تجربات کو کچی مٹی سے بڑی بڑی تختیوں پر تصویری شکل میں محفوظ کرواتے تھے۔ ان تختیوں یا لوحوں پر قدیم سومیری دور کی طرح علامتوں، مختلف اجسام کی اشکال اور اشاروں کے ساتھ ان لکیروں سے مختلف معلومات محفوظ کی جاتی تھیں، جنھیں اس دور میں آج کی طرح الفاظ اور زبان کا درجہ حاصل تھا اور وہ سمجھی اور پڑھی جاسکتی تھیں۔

    (قدیم تاریخ اور آثار سے انتخاب)