Tag: مشہور تحریریں

  • آپ مضمون نگار بننا چاہتے ہیں؟ جانیے کیا کرنا چاہیے!

    آپ مضمون نگار بننا چاہتے ہیں؟ جانیے کیا کرنا چاہیے!

    کسی موضوع پر کوئی مضمون سپردِ قلم کرنا یا لکھنا ایک فن ہے۔

    نام وَر اہلِ قلم اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور مختلف موضوعات پر مضامین جہاں اردو داں طبقے کے ذوق کی تسکین اور ان کی معلومات میں‌ اضافہ کرتے ہیں، وہیں ان میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے جذبات اور احساسات کو کیسے الفاظ کا جامہ پہنائیں کہ ایک جامع اور معیاری مضمون سامنے آئے۔

    مطالعہ اور کسی موضوع پر لکھنا بے پناہ خوشی دیتا ہے۔ یہ انسانی ذوق و شوق کی تسکین کا مفید اور تعمیری مشغلہ ہی نہیں، ذہن و فکر کی بیداری اور قلبی راحت کا ذریعہ بنتا ہے، اس طرف توجہ دی جائے تو ہمارا شمار اہلِ قلم میں بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے لکھنے میں مہارت دماغ سوزی اور مسلسل مشق کے ساتھ آتی ہے جس میں آپ کا وسیع مطالعہ نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لکھنے والے کی کوئی بھی تحریر فنی طور پر زیادہ پختہ اور اس میں تسلسل و ربط نظر آتا ہے۔ اگر آپ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ مضمون پڑھیے۔

    مضمون نگاری کی مشق کے چند آسان طریقے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔

    مشق کا پہلا طریقہ:
    جس عنوان پر آپ کو لکھنا ہے اس عنوان کی کوئی کتاب یا چند مضامین اپنے سامنے رکھ لیں اور مطالعہ شروع کر دیں۔ دورانِ مطالعہ اہم باتوں پر کچی پنسل سے خط کھینچتے رہیں، خط کشیدہ سطور میں مکمل پیراگراف ہونا چاہیے، یعنی بات ادھوری اور ناقص نہ معلوم پڑتی ہو۔ درمیان میں کوئی نامانوس لفظ آجائے تو اسی وقت لغت اٹھا کر اس کے معنیٰ دیکھ لیں۔ مطالعہ مکمل کرنے کے بعد تمام خط کشیدہ پیراگرافوں کو اپنے طور پر ایک نئی ترتیب کے ساتھ اپنی کاپی پر نقل کر لیں۔ اس کا اہتمام ضروری ہے کہ آپ کے ذریعے دی گئی جملوں کی ترتیب سے مضمون کا تسلسل ختم نہ ہونے پائے اور نہ کہیں مضمون کے موضوع میں تبدیلی واقع ہو۔

    مشق کے اس پہلے اسٹیج کے تئیں آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ لکھے لکھائے مضمون سے چند پیراگرافوں کا انتخاب کر کے ان کو اپنی ترتیب کے مطابق اس طور پر نقل کرنا ہے کہ نہ کہیں بات بدلتی دکھائی دے اور نہ تسلسل بہکے۔ مشق کے اس طریقے پر کم از کم چار پانچ مضامین ترتیب دیجیے۔

    مشق کا دوسرا مرحلہ:
    دورانِ مطالعہ چند پیراگرافوں کا انتخاب کر لیں اور ان پر کچی پنسل سے خط کھینچ دیں، اس کے بعد اپنے طور پر ترتیب دے کر الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ مترادف الفاظ لاکر نقل کریں۔ مثلاً:

    اصل پیراگراف:
    "بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو ماضی اور حال سے زیادہ مستقبل پر نظر رکھتی ہیں، نظیر اکبرآبادی کا شمار ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے، یہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عوامی جذبات، احساسات اور خیالات عوامی زبان میں نظم کیے۔”

    الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ:
    "بہت سی شخصیات ماضی اور حال سے بڑھ کر مستقبل پر نگاہ رکھتی ہیں، نظیر اکبرآبادی کا شمار ان ہی شخصیات میں ہوتا ہے، وہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عوامی افکار و جذبات اور احساسات کو انہی کی زبان میں نظم کیا۔”

    ہدایت:
    مشق کا یہ طریقہ بھی آٹھ دس دن تک جاری رکھیں۔

    مشق کا تیسرا مرحلہ:
    گزشتہ طریقے کو ہی دہرائیں گے، لیکن یہاں محض الفاظ میں نہیں، بلکہ پیراگرافوں کے جملوں میں بھی تبدیلی کریں گے۔ مثلاً گزشتہ پیراگراف کو ہی اب جملوں کی ترمیم کے ساتھ نقل کرتے ہیں:

    "بہت سی بلند شخصیات حال و گزشتہ سے کہیں زیادہ آئندہ وقت کی فکر کرتی ہیں، نظیر اکبر آبادی انہی میں سے ایک ہیں، وہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عام آدمی کے جذبات و خیالات اور تفکرات کو اپنی شاعری کے ذریعے اسی کی زبان میں پیش کیا ہے۔”

    ہدایت:
    مشق کے اس سلسلے کو بھی ہفتہ بھر جاری رکھیں۔

    مشق کا چوتھا مرحلہ:
    کسی بھی مضمون کو کم از کم تین مرتبہ سراپا آنکھ بن کر پڑھیے، درمیان میں جو نئے الفاظ ملیں، ساتھ ساتھ لغت میں ان کے معانی دیکھیے، جب مضمون پڑھ لیا جائے تو اپنے ذہن میں اس کا ایک خلاصہ تیار کیجیے اور سوچیے کہ لکھنے والے نے اپنی تحریر میں کیا پیغام دیا ہے، اس تحریر میں اور کیا کیا باتیں آنی چاہیے تھیں، جو نہ آسکیں، لہٰذا اپنے ذہن میں اسی عنوان پر ایک خاکہ تیار کر کے اس کو اپنے طور پر اپنے الفاظ اور جملوں میں لکھنا شروع کر دیجیے۔

    ٭پہلی مرتبہ جو ذہن میں آئے لکھتے جائیے، عمدہ الفاظ اور خوب صورت جملوں کے چکر میں ہنوز مت پڑیے۔

    ٭یہ سچ ہے کہ ہر لفظ کے بعد آپ کا قلم رکے گا، ہر جملے کے بعد آپ کو سوچنا پڑے گا اور ہر سطر کے بعد آپ کی ہمت جواب دینا چاہے گی، لیکن آپ کو قلم کاپی سمیٹ کر رکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ جب لکھنے کا ارادہ کر لیا ہے تو لکھنا ہی ہے ، خواہ کتنا ہی وقت لگے۔ آہستہ آہستہ الفاظ کی آمد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور جملوں کا بنانا سہل معلوم ہوگا، پھر آپ جس ایک صفحے کو ایک گھنٹے میں لکھتے تھے چند منٹوں میں لکھنے لگیں گے۔

    ٭مضمون کو مکمل کرنے کے بعد ایک دو مرتبہ خود اصلاح کی نظر سے پڑھیے اور ایک ایک جملے پر غور کیجیے، جہاں جو لفظ بدلنے کے قابل ہو بدل ڈالیے، جو باتیں عنوان سے الگ ہوں قلم زد کر دیجیے اور جس قدر ہو سکے اپنے اعتبار سے اپنی تحریر کو سنوارنے کی کوشش کیجیے، اس کے بعد اس کو دوسری جگہ صاف صاف نقل کرکے اپنے کسی قلم کار استاذ سے اصلاح کرائیے، پھر جہاں استاذ نشان دہی کرے وہاں غور کیجیے کہ کیا خامی تھی اور کیسے درست ہوئی؟

    ہدایت:
    مشق کے اس سلسلے میں استاذ سے اصلاح کرانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ خود آپ کی اصلاح آپ کی تحریر کو کافی نہ ہو جائے۔

    تحریر کا سلیقہ
    تحریروں کی مختلف اقسام ہیں۔ مثلاً مضمون، رپورٹ، خط، درخواست اور تقریر وغیرہ۔ ہر طرح کی تحریر کو لکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، کیوں کہ ہر تحریر کا مقصد جدا ہوتا ہے، آپ کا اندازِ تحریر ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کا مقصد پوری طرح حاصل ہو جائے، درج ذیل ہدایات کو مد نظر رکھ کر اچھی تحریریں لکھی جاسکتی ہیں۔

    لکھنے کے مقصد سے واقفیت:
    لکھنے سے پہلے سوچیں کہ آپ کیوں لکھ رہے ہیں؟ مضامین یا "اسائمنٹ” میں آپ کا مقصد ہوتا ہے: حقائق اور معلومات کی فراہمی اور ان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا۔ دورانِ تحریر اپنا مقصد ہمیشہ ذہن نشیں رکھیں اور اپنے اصل موضوع سے دور نہ جائیں۔

    اندازِ تحریر کا انتخاب:
    دورانِ گفتگو ہم اپنے الفاظ اور خیالات کا انتخاب موقع محل کی مناسبت اور اپنے سامعین کی مطابقت سے کرتے ہیں۔ اپنے منیجر یا استاذ سے ہماری گفتگو کا اسلوب دوستوں کے ساتھ گفتگو کے انداز سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں سے ہم مختلف طرح سے بات کرتے ہیں۔ اسی طرح اچھی تحریر کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہی روش اپنائیں، لکھنے کا طریقہ ایسا ہو کہ جن قارئین کے لیے آپ لکھ رہے ہیں وہ آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکیں اور مقصدِ تحریر کو بخوبی جان سکیں۔

    منصوبہ کے ساتھ لکھنے کی ابتدا:
    اکثر لوگ بغیر منصوبہ بندی کے لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے تحریر بےترتیب ہو جاتی ہے۔ مضمون کا تسلسل اور خیالات کا ربط باقی نہیں رہ پاتا۔ یاد رہے کہ اگر آپ کوئی مضمون یا مختصر اخباری رپورٹ لکھنے جا رہے ہیں تو ایک واضح منصوبہ اور اس منصوبے کے تحت بنا ہوا ایک مکمل خاکہ ہی ایک کام یاب اور پُر اثر تحریر کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔

    قاری کے لیے لکھیں، اپنے لیے نہیں:
    آپ کے لکھنے کا مقصد اپنی تجاویز اور معلومات دوسروں تک پہنچانا ہے، ہر لفظ اور جملہ لکھتے ہوئے یہ مقصد آپ کے ذہن میں رہنا چاہیے۔ اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کس قاری کے لیے ہے؟ آپ کو پتا ہے کہ جو آپ لکھ رہے ہیں ، کیوں اور کس لیے لکھ رہے ہیں؟ ورنہ آپ بآسانی مقصد سے بھٹک سکتے ہیں۔ بعض اوقات آپ قاری کو بالکل بھول کر اپنے لیے لکھنا شروع کر دیتے ہیں، اس طرح نہ صرف آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے ، بلکہ آپ دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔

    قاری کی راہ نمائی:
    آپ کا کام پڑھنے والوں کی مدد کرنا ہے، تاکہ وہ آپ کے پیغام کو پڑھ کر سمجھ سکیں اور آپ کی تحریر انہیں کسی نیک عمل پر آمادہ کرے۔ وہ آپ کی تحریر پڑھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کریں یا آپ کی تحریر ان کی ذہنی تسکین کا ذریعہ بنے۔ قاری آپ کی تحریر کو مکمل طور پر سمجھ جائے۔ ایک فقرے کا دوسرے فقرے سے اور ایک پیراگراف کا دوسرے پیراگراف سے مربوط ہونا بہت ضروری ہے، یہ ربط تحریر میں روانی لاتا ہے اور قاری کے لیے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ تحریروں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ عام فہم ہوں، اپنے مقاصد کو ظاہر کریں اور لکھنے والے کا پیغام قاری تک پہنچائیں۔

    (کتاب فنِ مضمون نگاری، مؤلفہ مولانا آفتاب اظہر صدیقی)

  • امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امن ( peace ) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔

    اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

    اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔

    اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولا دریافت کریں جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہو جائے۔

    یہ فارمولا صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے اعراض کا اصول ( principle of avoidance )۔ یعنی ٹکراؤسے ہٹ کر اپنا سفر طے کرنا۔

    اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیّارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہا ہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit) پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سے اختیار کرنا ہے۔

    اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔

    (نام ور عالم، دانش اور مصنّف مولانا وحید الدین خان کے قلم سے)