Tag: مشہور جاسوس

  • رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    ہندوستان میں کمپنی کی حکومت جب مستحکم ہوگئی تو اس کے ساتھ ہی یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ روس اپنے سیاسی تسلط کو وسطی ایشیا میں بڑھا رہا تھا اور کمپنی کے حلقوں میں یہ تصور عام تھا کہ روس وسط ایشیا پر قبضہ کرتے ہوئے ایران کی مدد سے افغانستان آئے گا اور یہاں سے ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ لہٰذا کمپنی کی حکومت نے بخارا، خیواء، یارقند، ہنزہ، ایران اور افغانستان میں مخبروں اور سفارت کاروں کے ذریعے ان علاقوں کے سیاسی حالات، جغرافیائی حدود اور راستوں کی تحقیقات کے لیے معلومات فراہم کیں۔ یہ مخبر سیاحوں اور تاجروں کا بھیس بدل کر ان علاقوں میں گئے۔

    ان جاسوسوں میں سے ایک Richard Burton (سنہ ولادت 1821) تھا، جسے عربی اور فارسی کے علاوہ کئی اور دوسری زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ بعد میں اس کی شہرت بطور مترجم، مشرقی علوم کا ماہر اور جاسوس کی وجہ سے ہوگئی۔ اس کے کیریئر کا آغاز کمپنی کی فوج میں جس کا کمانڈر چارلس نیپیر تھا، شروع ہوا اور جب چارلس نیپیر نے سندھ پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا۔

    رچرڈ برٹن کے کیریئر کا ایک اہم حصہ 1853ء میں حج کا سفر تھا۔ چونکہ مکہ مدینہ میں غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اس نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر پہلے خود کو ایرانی اور بعد میں افغان باشندہ کہا۔ چونکہ اسے فارسی زبان پر مہارت تھی اس لیے کسی کو اس کے یورپی ہونے کا شک نہیں گزرا۔ اپنے حج کے سفر کی معلومات کو اس نے نوٹس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا۔ حج کے بارے میں اہلِ یورپ کو یہ تجسس تھا کہ وہاں کیا رسومات ہوتی ہیں اور کیسے حج کیا جاتا ہے۔ رچرڈ بر ٹن سے پہلے بھی کچھ سیاح بھیس بدل کر حج کا سفر کر چکے تھے اور انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شائع بھی کرایا تھا۔ انہی میں سے ایک (متوفی John Burk Hardt (1817 تھا جس نے ابراہیم کے نام سے مکہ مدینے کا سفر 1814ء میں کیا۔

    رچرڈ بر ٹن نے ان یورپی سیاحوں کے سفر ناموں کا مطالعہ کیا تھا، تا کہ وہ خود کو مسلمان ثابت کر کے حج کی مذہبی رسومات کو بھی ادا کر سکے۔ اس وقت حجاز اور نجد کے علاقے ترکوں کے زیر حکومت تھے اور مکہ مدینہ جانے والے راستے حاجیوں کے لیے غیر محفوظ تھے۔ راستے میں عرب بد و قبائل حاجیوں کے قافلوں کو لوٹتے تھے۔ رچرڈ برٹن سفر کی تمام معلومات کو اکٹھا کر کے قاہرہ سے بحری جہاز کے ذریعے جدہ روانہ ہوا۔ اس نے جہاز میں جانے والے مسافروں کا حال بھی لکھا ہے کہ تکالیف اٹھا کر جدہ پہنچتے تھے۔ جدہ سے مدینے تک کا سفر اونٹ اور اونٹنیوں کے ذریعے کیا۔ اس سفر میں اس کا ایک ہندوستانی نوکر بھی اس کے ساتھ تھا۔ برٹن نے بہت جلد عربوں سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور ان کی عادات اور رسم و رواج اختیار کر لی۔ خاص طور سے وہ بار بار لکھتا ہے کہ عربوں میں کافی پینے اور تمباکو کے استعمال کرنے کا بہت رواج ہو گیا تھا اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس میں برابر کا شریک تھا۔ برٹن نے پہلے مدینے کا رخ کیا اور قیام کر کے رسول کے مقبرے کی زیارت کی اور پھر حضرت حمزہ کے مزار پر بھی گیا۔ اس دوران وہ پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور مسلمانوں کے طور طریقے پر عمل کرتا تھا۔ مدینے کے قیام کے بعد وہ حج کے موقع پر مکہ گیا اور وہاں اس نے حج کی تمام رسومات ادا کیں اور کسی کو یہ شک نہیں ہونے دیا کہ وہ غیر مسلمان ہے۔

    حج سے واپسی کے دوران اس نے دو جلد میں اپنے سفر کے حالات لکھے ہیں خاص طور سے اس نے تفصیل کے ساتھ ان رسومات کا ذکر کیا ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہیں، اسی سفر نامے کے ذریعے اہل یورپ کو مسلمانوں کے حج کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوئیں۔

    رچرڈ برٹن کی دوسری اہم تصنیفات میں مشہور عربی داستان الف لیلہ کا انگلش ترجمه The Book of the Thousand Nights and a Night ہے۔ اس نے ہندوستانی جنسیات پر لکھی جانے والی کتاب کاما سوتر اور عربی میں لکھی جانے والی کا Perfumed Garden کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کی خدمات کے عوض رائل سوسائٹی آف جیوگرافی نے اسے اپنا ممبر بنایا اور برطانوی حکومت نے اسے Knighthood یا سر کا خطاب دیا۔ ان تصنیفات کے علاوہ اس نے اور بھی کئی موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔

    1890ء میں اس کی وفات ہوئی اور اس کے مقبرے کو خیمے کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔ برٹن کی شخصیت اس لیے اہم ہے کہ اس نے بیک وقت کئی ملکوں کی سیاحت بھی کی، جاسوسی بھی کی۔ غیر ملکی زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اپنے تجربات اور علم کو تصنیف و تالیف کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ اس سے اس کی ذہانت اور توانائی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ کہ ایک فرد اپنی شہری زندگی میں بیک وقت کئی منصوبوں کو پورا کر سکتا ہے۔

    (ڈاکٹر مبارک علی کتاب "ماضی کی داستان” سے اقتباسات)

  • ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری کو ایک صدی پہلے آج ہی کے دن فائرنگ اسکواڈ نے عدالت کے حکم پر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ماتا ہری کو یورپ کے کئی ممالک میں نہایت اثر و رسوخ کی حامل ایسی عورت کہا جاتا ہے جس نے وہاں کی حکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔

    جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ‘ہنی ٹریپ’ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد بہت شہرت ملی۔ 15 اکتوبر 1917 کی ایک صبح سلیٹی رنگ کی فوجی گاڑی میں ماتا ہری کو پیرس کی مرکزی جیل سے نکال کر اُس مقام پر پہنچایا گیا جہاں اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔ 41 سالہ ولندیزی خاتون ماتا ہری نے ایک لمبا کوٹ اور اپنے سَر پر چوڑا ہیٹ پہن رکھا تھا۔

    ماتا ہری شعلہ جوالہ اور رقص میں بے بدل تھی جس کے چاہنے والوں میں مختلف ممالک کے وزیر، صنعت کار اور فوجی جنرل تک شامل تھے۔ لیکن پھر پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور ماتا ہری کو ایک جاسوسہ کے طور پر وہ کام کرنا پڑا جس نے اسے موت کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ اُس زمانے میں حکومتیں بھاری معاوضے اور مراعات کا لالچ دے کر جاسوسی کے لیے ایسی شخصیات کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں جو دشمن ملک کے مقتدر حلقوں میں مقبول ہوں اور اثر و رسوخ کی حامل بھی۔

    ماتا ہری ایک بے باک عورت تھی جو رقص میں‌ مہارت رکھتی تھی اور اپنے دور میں سلیبرٹی بن چکی تھی۔ حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا اور اس کے نیم عریاں رقص نے فرانس میں اسے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے قریب کردیا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ جاسوسی کرنے پر مجبور کردی گئی اور اسے ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا۔ گرفتاری کے بعد مقدمہ کا سامنا کرنے والی ماتا ہری پر ‘الزامات’ ثابت ہوگئے اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے سزا پر عمل درآمد کرنے والے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    ماتا ہری کا اصل نام مارگریٹ زیلے تھا جو نیدر لینڈ کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل زیلے کا سنہ پیدائش 1876ء ہے جس نے ماتا ہری کے نام سے شہرت پائی۔ اس نے یہ نام انڈونیشیا میں قیام کے دوران اپنایا تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ ماتا ہری کی شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور رشتہ ختم ہونے کے بعد وہ فرانس چلی گئی تھی اور پھر پیرس میں بطورِ رقاصہ وہ سب کو اپنی اداؤں سے زیر کرنے میں‌ کام یاب ہوگئی۔

    مارگریٹ زیلے ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اس کی شادی کر دی لیکن 26 سال کی عمر میں‌ ماتا ہری رشتہ ختم کرکے واپس پیرس پہنچ گئی۔ وہ رقص کی ماہر تھی اور وہاں ایک کلب میں نیم عریاں رقص کا مظاہرہ کرنے لگی۔ جلد ہی ماتا ہری اپنے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کی بدولت یورپ بھر میں مشہور ہوگئی۔ اس نے خوب دولت کمائی، لیکن چند سال بعد نجانے کیوں اس کی کشش ماند پڑ گئی۔ ماتا ہری جو مال و دولت اور آسائش کی عادی ہوچکی تھی، لیکن اب اس کے چاہنے والے اس سے دور ہورہے تھے اور وہ مقروض ہوتی چلی گئی۔ زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    فرانس کے مقتدر حلقوں میں ماتا ہری کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جرمن سفارت کار نے رابطہ کیا اور ماتا ہری کو پرکشش معاوضے پر فرانسیسی حکومت کے اہم راز اسے دینے پر آمادہ کر لیا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اپنی اداؤں اور تمام حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    ابتدائی کام یابیوں نے ماتا ہری کو حوصلہ دیا اور تب اس رقاص جاسوسہ نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان کے سامنے فرانس کی محب وطن اور خیر خواہ بن گئی اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کر دیا۔ دوسری طرف فرانسیسی حکام کو پہلے ہی اس پر شبہ تھا اور پھر یہ حقیقیت زیادہ دیر چھپ نہ سکی کہ وہ ڈبل ایجنٹ ہے اور جرمنی کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ فرانس کی جانب سے اسے آزمانے کے لیے متعدد خفیہ مشن سونپے گئے اور ساتھ ہی اس کی کڑی نگرانی بھی کی جانے لگی۔ ایک دن ماتا ہری کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔

    یہ وہ کہانی ہے جو اس وقت فرانس کی حکومت اور گزشتہ ایک صدی کے دوران جنگوں اور اتحادی افواج کی تاریخ پر مبنی کتب میں رقم کی جاتی رہی ہے، لیکن چند سال پہلے کچھ حقائق کی بنیاد پر کہا گیا کہ ماتا ہری ڈبل ایجنٹ تھی جسے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس زمانے کے اخبار مرچ مسالہ لگا کر اپنی رپورٹو‌ں میں بتاتے رہے کہ ماتا ہری اتحادی فوج کے افسروں کو لبھا کر ان سے راز اگلواتی اور جرمن فوج کے حوالے کر دیتی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے۔ لیکن ایک صدی بعد فرانسیسی وزارتِ دفاع نے کچھ ایسی دستاویزات جاری کی تھیں جن سے دنیا کی تاریخ کی اس مشہور جاسوسہ کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے۔ ان میں ماتا ہری سے تفتیش کی دستاویزات بھی شامل ہیں جو اب نیدرلینڈز میں ماتا ہری کے آبائی شہر کے ایک میوزیم میں محفوظ ہیں۔ بی بی سی پر اس حوالے سے شایع شدہ ایک مضمون کے مطابق گذشتہ برسوں میں کئی تاریخ دان اس جاسوسہ کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ماتا ہری کو اس لیے قربان کر دیا گیا کہ فرانسیسی حکومت کو جنگ میں پے در پے ناکامیوں کا جواز پیدا کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک خط کا بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن حقائق وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں اور چوںکہ یہ جاسوسی اور اتحادی افواج سے متعلق سرگرمیوں اور خفیہ مشن کا معاملہ تھا تو ماتا ہری کی گرفتاری کے بعد کچھ حقائق اور اہم باتیں پوشیدہ ہی رکھی گئیں اور ان کا تحریری یا زبانی کسی کو علم نہیں ہوسکا۔

    ماتا ہری کو پیرس کے مشرقی مضافات میں واقع شیتو دے ونسین میں فائرنگ اسکواڈ نے گولیاں ماری تھیں‌۔ وہ 12 سپاہی تھے جنھوں نے سزائے موت پر عمل درآمد کیا۔ ماتا ہری کی لاش کسی نے وصول نہیں کی اور اسے پیرس کے ایک میڈیکل کالج کو دے دیا گیا جہاں نے انسان کا پوسٹ مارٹم کرنا سیکھا۔ ماتا ہری کا سَر میوزیم آف اناٹومی میں محفوظ کر دیا گیا تھا لیکن بیس سال قبل وہ چوری ہو گیا۔