Tag: مشہور جنگجو

  • ناول، فلم اور کمپیوٹر گیمز تک ولیم والس کا شہرہ کیوں؟

    ناول، فلم اور کمپیوٹر گیمز تک ولیم والس کا شہرہ کیوں؟

    دنیا کی تاریخ میں کئی ایسے نام وَر گزرے ہیں جن کا تذکرہ تو اوراقِ کتب میں محفوظ ہے، لیکن ان کے بارے میں حقائق سے زیادہ لوگوں کی دل چسپی ان سے منسوب قصّے، کہانیوں اور لوک داستانوں زیادہ مقبول ہیں۔ ایسے کرداروں کی کسی مقصد اور منزل کے تعاقب میں جدوجہد کو نہ صرف لوک داستانوں‌ میں سمیٹا گیا بلکہ ان کرداروں کو شائقین نے بڑے پردے پر بھی دیکھا اور یہ فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ اسکاٹ لینڈ کا ولیم والس بھی ایسا ہی ایک نام ہے جو تاریخ میں انگلینڈ کا باغی، لیکن اپنی قوم کے لیے جنگجو اور اسکاٹ لینڈ کا محافظ مشہور ہے۔

    ولیم والس کا سنِ پیدائش اور وفات مشکوک ہے۔ مشہور ہے کہ وہ 1270ء میں پیدا ہوا اور 1305ء میں اسے انگریز سرکار نے پھانسی دے دی تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ ولیم والس نے اسکاٹ لینڈ میں پہلی بار انگلستان سے آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا اور انگلینڈ کے شاہ ایڈورڈ اوّل کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ اس تاریخی کردار کو پہلی بار پندرھویں صدی میں بلائنڈ ہیری نامی مصنف نے اپنے ناول میں‌ جگہ دی اور اسے افسانوی انداز میں‌ پیش کیا۔ مصنف نے ولیم سے متعلق‌ حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا۔ ہالی ووڈ کی مقبول ترین فلم بریو ہارٹ اسی ناول سے ماخوذ ہے جس کے ہدایت کار میل گبسن ہیں۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو لکھا ہے کہ 1291ء میں ولیم والس کے والد نے بھی انگریزوں سے لڑتے ہوئے جان دے دی تھی۔ ولیم والس کی انگریزوں‌ سے نفرت اور ان کے لیے غم و غصّے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

    انگریز سپاہیوں سے اس جنگجو کے بھڑنے کا ایک واقعہ مشہور ہے جس کے مطابق ایک مقامی بازار میں مچھلیاں پکڑنے کا مقابلہ ہو رہا تھا، اس موقع پر دو انگریز سپاہیوں نے ولیم والس کو للکارا جس کے بعد کسی بات پر ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور دونوں‌ انگریز سپاہی ولیم والس کے ہاتھوں‌ جان سے گئے۔ انگریز سرکار نے اس کی گرفتاری کا پروانہ جاری کر دیا۔

    مشہور ہے کہ ولیم والس نے ایک انگریز گورنر کے بیٹے کو قتل کر کے اسکاٹ لینڈ میں‌ انگریزوں‌ کے خلاف باقاعدہ مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی پہلی جنگ 11 ستمبر 1297ء کو لڑی گئی جسے دنیا "جنگِ اسٹرلنگ برج” کے نام سے جانتی ہے۔ اس ولیم والس اور اینڈریو مورے کی قیادت میں‌ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے متوالوں‌ نے انگریزوں کو کچل کر رکھ دیا تھا۔

    اس کے اگلے برس ایک اور معرکہ ہوا جس میں والس کو شکست ہوئی اور اسکاٹ لینڈ کو زبردست جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ والس کو وطن چھوڑ کر فرانس جانا پڑا، لیکن 1303ء میں وہ اپنے وطن لوٹ آیا جہاں 1305ء میں اسے گرفتار کرلیا گیا۔ ایک اسکاٹ سپاہی نے انگریز سرکار کو اس کی مخبری کردی تھی۔ گرفتاری کے بعد والس کو لندن لے جایا گیا جہاں اس پر مقدمہ چلا اور اسے سزائے موت سنا دی گئی۔

    مشہور ہے کہ والس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اسے برہنہ کرکے شہر بھر میں‌ پھرایا گیا اور پھانسی کے بعد اس کے جسم کے کئی ٹکڑے کر دیے گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ولیم والس کا سَر تن سے جدا کرکے لندن برج پر لٹکا دیا گیا تھا۔

    بلائنڈ ہیری کے علاوہ بھی ولیم والس کے کردار پر متعدد ناول اور مصنفین کی کتب منظر عام پر آئیں۔ 1810ء میں جین پورٹر نے اس پر ایک افسانہ لکھا۔ اس کے بعد جی اے ہینٹی نے 1885ء میں ولیم کو اپنے ناول کا کردار بنایا جب کہ انیسویں صدی میں والٹر اسکاٹ نے اپنی کتاب میں‌ والس کو "اسکاٹ لینڈ کا ہیرو” بنا کر پیش کیا تھا۔

    سنیما کی طرف دیکھیں تو تاریخ کا یہ جنگجو اور آزادی کا متوالا 1995ء میں بڑے پردے پر میل گبسن کی جس فلم میں‌ نظر آیا تھا، اس نے بہترین فلم اور بہترین ہدایت کاری سمیت 5 اکیڈمی ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے والوں نے بھی اس کردار کے ساتھ اسکرین پر جنگیں لڑی ہیں۔

  • مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    اکوڑہ خٹک نامی گاؤں کو سولہویں صدی عیسوی میں ملک اکوڑہ خان خٹک نے آباد کیا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے انھیں اس علاقے کی جاگیر داری اور اٹک کے گھاٹ سے دریائے سندھ عبور کرنے والوں سے راہداری (ٹول ٹیکس) وصول کرنے کا اختیار نامہ دیا تھا جس کے بعد ملک اکوڑہ خٹک نے اسی جگہ مستقل سکونت اختیار کی اور یہ علاقہ انہی سے منسوب ہوگیا۔

    ملک اکوڑہ خٹک پشتو زبان کے مشہور شاعر اور مجاہد خوش حال خان خٹک کے پڑ دادا تھے۔ اب اسے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک تاریخی قصبہ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جو ضلع نوشہرہ میں واقع ہے۔

    اس قصبے کے ایک نام وَر اور پشتو کے ممتاز شاعر و ادیب خوش حال خان خٹک کو صاحبِ سیف و قلم بھی کہا جاتا ہے۔ پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک مجاہد کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور پشتو زبان میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔

    وہ 1613 میں اکوڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائل عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے تو مغل حکم راں شاہ جہاں نے انھیں قبول کرلیا، مگر بعد میں کسی وجہ سے اورنگزیب نے ان کی سرداری قبول کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، لیکن گرفتار ہوئے اور انھیں‌ رن تھمبور کے قلعے میں قید کردیا گیا۔ بعد میں‌ وفادار اور مطیع رہنے کے وعدے پر انھیں آزاد کیا گیا، مگر انھوں‌ نے شاہی افواج کے خلاف کارروائیاں‌ جاری رکھیں اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اورنگزیب خود ان کے خلاف میدان میں نکل آیا۔ خوش حال خان خٹک اور ان کے ساتھیوں کو اس میں شکست ہوئی اور پشتو ادب کا یہ نام ور اور حریت پسند 1689 میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    خوش حال خان خٹک کی زندگی، شخصیت اور فن پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں‌۔ انھیں‌ کثیر الجہت اور نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جن کے تذکرے کے بغیر پشتو ادب کی تاریخ ادھوری ہے‌۔