Tag: مشہور جنگیں

  • میدانِ جنگ میں اپنی حکمتِ عملی کی وجہ سے شہرت پانے والے جرنیل

    میدانِ جنگ میں اپنی حکمتِ عملی کی وجہ سے شہرت پانے والے جرنیل

    دنیا کی تاریخ میں کئی جنگیں اور وہ سپاہ سالار بھی مشہور ہیں، جنھوں نے اپنی دلیری و شجاعت اور دشمن کے مقابلے میں جنگی میدان میں بہترین حکمتِ عملی اپنا کر فتح حاصل کی اور اپنی قوم کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ آج بھی ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

    ایک دور تھا جب سپاہ سالار یا جرنیل کسی جنگی مہم اور محاذ پر نہایت اہم اور مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور میدانِ جنگ میں‌ خود بھی اپنے سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑتے تھے۔ انھیں‌ آج کی طرح‌ دشمن ملک کے اہم راستوں اور مقامات کے بڑے بڑے نقشے، جاسوسی کے ذرایع اور دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے جدید آلات میسر نہیں‌ تھے، لیکن میدانِ‌ جنگ میں اترنے والا کوئی جرنیل اپنی غیرمعمولی قابلیت اور اٹل ارادوں کی بدولت دشمن پر غلبہ پا لیتا تھا۔ یہاں ہم مغربی دنیا کے چند بڑے جرنیلوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے دور میں بہترین جنگی حکمتِ عملی اپنا کر تاریخ میں اپنا نام ایک بہادر، باصلاحیت اور قابل سپاہ سالار کے طور پر درج کروایا۔

    فریڈرک دی گریٹ پروشیا کا فریڈرک دوم اپنے دور میں جدید جنگ و جدل کا طالبِ علم تھا اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں اس نے جدید جنگ کے موضوع پر اپنی گرفت اور اس حوالے سے باریکیوں کو سمجھنے کے بعد فوجیوں کی راہ نمائی اور تربیت کا کام انجام دینا شروع کیا۔ اس نے آسٹریا کے خلاف سپاہیوں کو مسلسل جنگیں لڑنے کے لیے تیار کیا۔ آسٹریا اس وقت رومی سلطنت کی بڑی طاقت تھا۔ فریڈرک لڑائیوں میں فوجیوں کی براہ راست قیادت کرتا تھا اور اس کی جنگی حکمتِ‌ عملی اور لڑائی کے میدان میں فیصلہ کرنے کی قوّت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔

    جارج ایس پیٹن دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی قوتوں میں ایک متنازع شخصیت تھا لیکن ان کی فتوحات میں اس کے کردار کو نظر انداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے جرمن فوجیوں کی یلغار کا اسی انداز سے جواب دیا۔ اس جرنیل کی بدولت یورپ میں اتحادیوں کو مسلسل آگے بڑھنے اور دشمن کی افواج پر غلبہ پانے کا موقع ملا۔

    جون آف آرک کا نام تاریخ میں ایسی جنگجو لڑکی کے طور پر محفوظ ہے جس نے نوجوانی میں جنگ کے میدان میں بے جگری کا مظاہرہ کیا اور اپنی دلیری کے لیے مشہور ہوئی۔ فرانس کی یہ جنگجو لڑکی صرف 19 برس کی تھی جب اس نے انگلینڈ کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ غیبی آوازیں سنتی ہے اور جو ہدایات ملتی ہیں ان پر عمل کرتی ہے۔ وہ فرانس کے بادشاہ کی کام یابیوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انگریز فوجیوں کی گرفت میں آگئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ فرانس نے اس کی جنگی حکمتِ عملی سے دشمن کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا تھا۔

    رابرٹ ای لی کا نام امریکہ کی خانہ جنگی کے حوالے سے لیا جاتا ہے جس نے کنفیڈریشن کی حامی قوتوں کو کئی جھڑپوں میں‌ شکست دی۔ کہتے ہیں کہ اس ماہر جرنیل کی پالیسیاں اور لڑائی کے طریقے ایسے تھے کہ اس کے مخالفین کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا اور اس کے جنگجوؤں کو بہت کم جانی نقصان ہوتا تھا۔

    ہنی بال وہ جرنیل تھا جس سے روم سب سے زیادہ خوف کھاتا تھا۔ مشہور تھا کہ ہنی بال کو اس کے والد نے رومیوں کے خلاف لڑنے کے لیے شروع ہی سے ذہنی طور پر تیار کیا تھا اور لڑائی کے لیے اس کی خوب تربیت کی تھی۔ ہنی بال نے پرانے جنگی حربے ترک کر کے جدید طریقے اپنائے۔

    جولیس سیزر قابل ترین رومی جرنیل تھا جس کی جنگی حکمت عملی نے رومی سلطنت کو وسعت دی۔

  • جنگوں سے گریز اور ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟

    جنگوں سے گریز اور ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟

    قدیم دور میں‌ جب گولہ بارود اور آتشیں‌ اسلحہ سے نہیں‌ بلکہ روایتی اور سادہ ہتھیاروں سے جنگیں‌ لڑتی جاتی تھیں تب بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی تھیں، لیکن قدرتی ماحول اور زمین پر بسنے والی جنگلی حیات کو ان سے خطرہ نہیں‌ تھا۔ آج کا انسان جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور اپنے دشمن ہی کو نہیں‌ کرّۂ ارض کے ماحول کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے جس کے نتیجے میں‌ انسانی وجود کو شدید اور سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    آج ہماری زمین پر موجود سبزہ اور جنگلات، سمندر، دریا، پہاڑ، صحرا، میدان قدرت کا دیا ہوا ہر تحفہ جنگی تباہ کاریوں سے متاثر ہے۔ جدید ہتھیاروں‌ کے ساتھ لڑی گئی جنگوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بیسویں صدی سب سے خطرناک تھی، جس میں ایٹم بم کا تجربہ کیا گیا۔ اس صدی میں جنگوں کی وجہ سے انسان اور حیوان ہی نہیں قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوا اور اس کے اثرات آج بھی دنیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

    جاپان کے شہر پر ایٹم بم گرایا گیا اور کمبوڈیا، ویتنام، عراق، لبنان اور افغانستان سمیت کئی خطّے جنگوں سے متاثر ہوئے جس نے انسانی آبادیوں‌ کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ زمین اور اس کے ماحول کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا۔ ماحول کے اس بگاڑ نے موسم کو عدم توازن کا شکار اور شدید کر دیا ہے۔

    بسیویں صدی میں ڈیڑھ سو سے زائد بڑی جنگوں میں‌ 16 سے لے کر 25 کروڑ اسّی لاکھ انسانی جانیں‌ ضایع ہوئیں‌۔ جنگ مخالف اور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں‌ کہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے 6.5 پانچ فیصد کی موت کی ذمہ داری ایسی ہی جنگیں اور مسلح تصادم ہیں۔ عالمی جنگوں کے دوران فوجیوں‌ اور کروڑوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد جدید دور کی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں میں 75 فیصد عام شہری تھے۔

    آج کی جنگ میں پہلا نشانہ اپنے دشمن کی فوج اور اس کی اہم تنصیبات تو ہوتی ہیں‌ لیکن ساتھ ہی ماحول بھی برباد ہوتا ہے۔ جب زمین پر ٹینک آگے بڑھتے ہیں اور گولہ بارود داغا جاتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کارروائی کی جاتی ہے تو قدرتی ماحول براہ راست اس کی زد میں‌ ہوتا ہے۔ جنگی طیارے جب بارود برساتے ہیں تو یہ ہر قسم کا سبزہ اور قدرتی حیات کو اجاڑ دیتا ہے۔ میزائل کھیتوں اور فصلوں کو برباد کرکے خوراک کے بحران کو جنم دیتی ہے۔ جوہری دھماکوں کی وجہ سے مضبوط چٹانوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر تاب کاری کی وجہ سے لاکھوں انسان معذوری اور امراض کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔

    جنگ میں کسی بھی قسم کے ہتھیار استعمال کیے جائیں وہ ہمارے ماحول کو زہر آلود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب بنتے ہیں۔ ویت نام کی جنگ کے بعد اس ملک کے جنگلات، کھیت اور باغات پر 25 ملین بم گرائے گئے جب کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا جن میں زہریلے مادّوں اور دیگر کیمیائی آزمائشوں سے زمین کی سطح، انسان ہی نہیں‌ پہاڑ اور زمین کی اندورنی تہوں کے ساتھ دریاؤں کے پانی کو بھی نقصان پہنچا اور ہر نوع کی حیات کے لیے خطرات پیدا ہوئے۔ کمبوڈیا میں 1300 مربع میل رقبہ زمینی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ناقابلِ کاشت ہو گیا۔ انگولا میں 10 ملین زمینی بارودی سرنگوں نے بھی زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جب کہ افغانستان اور بوسنیا سمیت دنیا کئی حصوں میں آج بھی بارودی سرنگیں انسانی زندگی اور ماحول کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں۔

    1991 میں خلیجی جنگ کے دوران عراق پر 88 ہزار ٹن بم گرائے گئے، اور پانی کا نظام، چار بڑے ڈیمز اور کئی انرجی پلانٹ جنگی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے۔ جنگوں‌ کی وجہ سے آبی حیات اور پرندے ہلاک اور متاثر ہوئے اور زمین میں‌ کئی ایسی گیسیں پیدا ہوئیں جو آج درجۂ حرارت میں‌ اضافے زمین میں بگاڑ کا سبب ہیں۔

    اعداد و شمار کے مطابق 2002 میں افغانستان میں ایک چوتھائی ملین کلسڑبم گرائے گئے جب کہ 2003 میں عراق پر 28 ہزار راکٹس، بم اور میزائل برسائے گے۔ 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران بھی ایک ملین سے زائد کلسٹر بموں کی بارش کی گئی۔ گزشتہ 25 برسوں میں موزمبیق، السلواڈور، لبنان، روانڈا، لائیبریا، یوگنڈا، کولمبیا، صومالیہ، کانگو، برونڈی اور ایتھوپیا سمیت کئی ممالک میں جنگوں اور مسلح تصادم کی وجہ سے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔

    انٹرنیشنل پیس بیورو، جنیوا کے مطابق دنیا بھر کی فوجیں اوزون کی تہ میں دو چوتھائی کلوروفلورو کاربن گیسوں کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کی جنگی تیاریاں بڑے پیمانے پر مہلک مادے پیدا کرنے کے موجب بنیں۔ دنیا کی سات بڑی عسکری قوتوں نے 2400 سے زائد جوہری دھماکے زیر زمین اور زمین کے اوپر کیے۔

    اس وقت دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں۔ چرنوبل کا حادثہ آج بھی لاکھوں انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ جوہری تنصیبات پر کوئی ایک حادثہ بھی کتنے بڑے پیمانے پر ماحول کو متاثر کر کے بے شمار انسانی جانوں کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔

  • وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ ستمبر 1788ء کی ایک رات تھی جب ایک خوں ریز تصادم نے ترک فوج کے لیے وہ راستہ آسان کر دیا جس سے گزر کر وہ غالب اور فاتح رہی، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تر فوج نے اس میں‌ دشمن کا مقابلہ نہیں‌ کیا بلکہ آسٹریا کی فوج نے غلط فہمی کے سبب آپس میں گردنیں مار کر سلطنتِ‌ عثمانیہ کی فوج کو گویا کارانسیبیش خود ہی سونپ دیا۔ یہ شہر آج یورپ میں رومانیہ کا حصّہ ہے۔

    عثمانی ترک اور آسٹریا کی فوج کے درمیان معرکے زوروں پر تھے اور ایک موقع پر جب آسٹریا کی ایک لاکھ فوج کارانسیبیش گاؤں کے قریب خیمہ زن تھی تب یہ واقعہ پیش آیا۔

    آسٹریائی فوج کے چند جاسوسوں اور قیادت پر مشتمل ایک دستہ عثمانی فوج کی نقل و حرکت اور پیش قدمی کا جائزہ لینے روانہ ہوا اور دریائے ٹیمز عبور کر کے آگے بڑھا تو انھیں راستے میں شراب فروخت کرنے والے ملے۔ یہ جاسوس بہت تھکے ہوئے تھے۔ انھوں نے شراب پینے اور کچھ دیر سستا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ بڑی بدبختی اور ذلّت و رسوائی کا سبب بن گیا۔ جاسوسوں نے کچھ زیادہ شراب پی لی اور نشے میں دھت ہو کر رہ گئے۔

    تھوڑی دیر بعد آسٹریائی پیادہ فوج کا ایک اور دستہ وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے بھی اس محفلِ عیش میں شریک ہونا چاہا، لیکن وہاں پہلے سے موجود شراب کے نشے میں دھت جاسوسوں نے انھیں اپنے ساتھ شریک کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں کے درمیان تکرار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی جھگڑے کے دوران کسی سپاہی سے گولی چل گئی اور پیادہ دستے کے چند سپاہیوں نے یہ شور مچا دیا کہ عثمانی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ ادھر نشے میں دھت جاسوس دستے کے سپاہیوں نے یہ سن کر خیال کیا کہ عثمانی فوج پیچھے سے حملہ آور ہو گئی ہے، چنانچہ وہ گھبراہٹ اور افراتفری میں وہاں سے کچھ فاصلے پر موجود پیادہ فوج کی طرف بھاگے۔ انھیں یوں اپنی طرف آتا دیکھا تو پیادہ سپاہی بھی یہی سمجھے کہ عثمانی فوجی آگئے ہیں اور ان جاسوسوں کے پیچھے ہیں۔ الغرض رات کی تاریکی میں جو شور اور افراتفری اس مقام پر تھی، اس نے کسی کو بھی کچھ سمجھنے سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ایک غلط فہمی نے بڑی بدحواسی کو ان کی صفوں میں جگہ دے دی تھی۔ چنانچہ اس فوج نے اپنے مرکز کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔

    آسٹریا کی فوج میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سپاہی تھے۔ ان میں اکثر جرمن زبان بولتے تھے اور بعض سرب زبان اور کچھ کروشیائی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی زبان میں چیخ پکار کرنے لگا اور نشے کی حالت میں یوں بھی ان کے سوچنے سمجھنے کی طاقت پوری طرح بحال نہ تھی۔

    ادھر آسٹریائی فوج کے یہ دونوں گروہ جب اپنے گھوڑوں پر سوار اپنے فوجی پڑاؤ کی طرف بڑھے تو وہاں موجود سپاہ یہ سمجھی کہ یہ ترک ہیں اور ان پر حملہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مورچہ بند ہو کر فائر کھول دیا اور یوں ایک ہی ملک کی فوج کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔ وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ پوری فوج میں افراتفری اور انتشار تھا اور حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی۔

    اس روز رات کی تاریکی میں آسٹریا کا یہ لشکر اپنے ہاتھوں ہی مٹ گیا۔ اس معرکے میں 10 ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے جب کہ باقی جان بچانے کی غرض سے ادھر ادھر بھاگ نکلے۔

    اس تصادم کے دو روز بعد عثمانی فوج اس مقام تک پہنچی تھی۔ جہاں آسٹریائی فوج نے خیمے لگائے تھے، وہ دراصل ایک گاؤں کا نزدیکی علاقہ تھا۔ ترکی کی فوج کو یہاں مردہ اور زخمی فوجی ملے اور ان کا اسلحہ بھی ہاتھ آیا۔

    زخمی فوجیوں کی زبانی عثمانی فوج کو صورتِ‌ حال کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی اور انھوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے کارانسیبیش شہر پر باآسانی قبضہ کر لیا۔

  • "ارطغرل” جو سمندری طوفان کی نذر ہو گیا

    "ارطغرل” جو سمندری طوفان کی نذر ہو گیا

    ترکی کی ڈراما سیریز ارطغرل غازی کا شہرہ اور ناظرین میں‌ اس کے کرداروں کی مقبولیت کا اندازہ اس ڈرامے سے متعلق شایع و نشر ہونے والی خبروں، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور اس ان پر تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے۔

    ہم آپ کو اسی تاریخی کردار سے موسوم اُس بحری جہاز کے بارے میں‌ بتارہے ہیں جو غرقاب ہو گیا تھا اور اس سمندری طوفان کی وجہ سے پیش آنے والے اس حادثے میں سلطنتِ عثمانیہ کے کئی وفادار اور جاں نثار ہلاک ہوگئے تھے۔

    1863 میں عثمانی بحریہ نے ایک جنگی جہاز تیار کیا جس کا نام ارطغرل رکھا گیا۔ 1890 میں اس بحری جہاز کو جاپان کے ساحل سے واپسی پر واکایاما پریفیکچر کے قریب سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑا جس کے دوران ارطغرل کا رخ پتھریلے ساحل کی طرف مڑ گیا اور تباہ ہو گیا۔ جہاز کے سمندر میں‌ ڈوبنے سے 500 سے زائد ملاح اور اس کا عملہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھا جن میں ریئر ایڈمرل علی عثمان پاشا بھی شامل تھے۔

    یہ جہاز دوستانہ روابط کے فروغ کے لیے ایک مقصد کے تحت جاپان بھیجا گیا تھا اور حادثے کے بعد جاپانی بحریہ کے دو چھوٹے جہازوں نے 69 لوگوں کی زندگی بچائی تھی۔

    اس بحری جہاز کی تیاری کا حکم 1854 میں سلطان عبد العزیز اوّل نے دیا تھا جسے سلطنتِ عثمانیہ کے بانی کے والد ارطغرل سے موسوم کیا گیا۔

    تاریخ میں‌ اس بحری جنگی جہاز سے متعلق لکھا ہے کہ اس کے لکڑی سے بنے تین مستول تھے، جہاز کی لمبائی 79 میٹر (260 فٹ) جب کہ چوڑائی 15.5 میٹر (51 فٹ) اور 8 میٹر (26 فٹ) گہرا تھا۔

    اس جہاز میں دخانی انجن کی مشینری اور برقی قمقمے بھی نصب تھے۔

  • "ایجنٹ اورنج” جسے بڑے بڑے ڈرموں میں لایا جاتا تھا!

    "ایجنٹ اورنج” جسے بڑے بڑے ڈرموں میں لایا جاتا تھا!

    ویتنام کی جنگ کے دوران ایجنٹ اورنج (Agent Orange) کا بہت شہرہ ہوا جو دراصل مضرِ صحت اور نہایت خطرناک کیمیائی مواد تھا۔

    یہ کیمیائی مواد جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس کا یہ نام اُن بڑے ڈرموں کی رنگت کی وجہ سے پڑا تھا جن میں اسے بھر کر لایا جاتا تھا۔

    یہ کیمیائی مواد 1961 سے 1971 کے دوران جنوبی ویتنام کے جنگلات اور دیہات میں چھڑکا جاتا رہا تاکہ گھنے جنگلوں‌ اور دیہات کی زرعی زمینوں‌ میں چھپے مسلح باغیوں اور مزاحمت کرنے والوں کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ اس مواد کی مدد سے جنگلات کو تلف کرتے ہوئے گوریلوں کو ان پناہ گاہیں اور ٹھکانے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، لیکن مقامی آبادی اور وہاں‌ کے معصوم اور نہتے انسان‌ اس سے شدید متاثر ہوئے۔

    کہا جاتا ہے کہ 80,000 مکعب میٹر سے زیادہ مواد ویت نام میں استعمال کیا گیا۔ اس جنگ کے لیے امریکی 1965 میں ویت نام پہنچے تھے اور 1973 تک موجود رہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں 5 لاکھ سے زائد فوجی ویت نام بھیجے گئے تھے۔

    ایجنٹ اورنج کی وجہ سے ویتنام میں لوگ‌ کینسر اور مختلف جینیاتی امراض کا شکار ہوئے۔

    اس کیمیائی مواد کو امریکا کے اس وقت کے بڑے صنعتی اداروں نے تیار کیا تھا اور امریکا کے اس اقدام نے ویتنام کے لوگوں‌ کو ان کے جنگلوں اور سبزے سے ہی محروم نہیں‌ کیا بلکہ انھیں‌ جسمانی نقصان اور بیماریاں بھی دیں‌۔

    تاریخ‌ نے یہ ظلم اور انسانیت کے نام پر دہرا معیار بھی دیکھا کہ امریکی حکومت نے اس کیمیائی مواد سے متاثرہ اپنے فوجیوں کو جرمانے کے طور پر کئی لاکھ ڈالر ادا کیے، جب کہ اس کا اصل نقصان ویتنام کے لوگوں کو ہوا تھا۔

    ایجنٹ اورنج نے 48 لاکھ ویتنامی شہریوں کو متاثر کیا اور ان میں‌ سے چار لاکھ موت کے منہ میں‌ چلے گئے، پیدا ہونے والے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مختلف امراض کا شکار تھے اور لاکھوں لوگ معذور ہوئے۔