Tag: مشہور حکایات

  • وزیر کا جھوٹ (حکایت)

    وزیر کا جھوٹ (حکایت)

    کسی بادشاہ نے ایک جرم میں‌ گرفتار شخص کو قتل کر دینے کا حکم دیا۔ سپاہی اسے کھینچ کر دربار سے باہر لے جا رہے تھے تو اس شخص نے سخت ناامیدی کے عالم میں بادشاہ کو برا بھلا کہا اور گالیاں دے دیں۔

    مزید سبق آموز حکایات اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    کسی نے سچ کہا ہے کہ جب جان پر بن آئے اور انسان کو فرار کی راہ سجھائی نہ دے بلکہ بے بس ہوجائے تو اپنی جان بچانے کی خاطر تلوار کی دھار کو بھی ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی زندگی سے ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آ کر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے۔ یہی کچھ اس آدمی کے ساتھ ہوا۔

    بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا کہہ رہا ہے۔ ایک نیک خصلت اور ذہین و باتدبیر وزیر نے عرض کیا۔ حضور یہ قیدی کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطا معاف کر دیتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو رحم آگیا اور اس نے فوراً قیدی کی خطا معاف کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم سنایا۔

    دربار میں موجود ایک اور وزیر جو اس دانا وزیر سے حسد کرتا تھا، اس نے یہ دیکھا تو بول اٹھا، حضور! ہمارے ساتھی وزیر کو جھوٹ نہ بولنا چاہیے۔ اس قیدی نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں بھی دی ہیں۔

    بادشاہ نے اس کی بات سنی اور کچھ توقف کے بعد درباریوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے پہلے وزیر کی جھوٹی بات اپنے اس وزیر کی سچّی بات سے زیادہ پسند آئی۔ وہ بات اس موقع پر مناسب تھی اور یہ سچّ ہمارے ایک اور وزیر نے بُری نیت سے بولا۔ ایک جھوٹ سے مجھے رحم اور نرمی کرنے کا موقع ملا اور ایک سچ مجھے مشکل میں ڈال رہا ہے۔ میں اپنے وزیر کے برمحل جھوٹ سے خوش ہوا ہوں۔ اس موقع پر عقل مند لوگوں نے کہا کہ جھگڑا فساد پیدا کرنے والی سچّی بات سے وہ جھوٹ زیادہ بہتر ہے جس سے فساد اور انتشار مٹ سکتا ہو۔

    اکثر یہ حکایت شیخ سعدی سے منسوب کی جاتی ہے اور اس میں صاحبِ مسند اور بااختیار لوگوں کے لیے یہ سبق ہے کہ ایسا شخص جس کا کہا کوئی فرماں‌ روا بہت مانتا ہو، اسے چاہیے کہ ہمیشہ موقع کی مناسبت سے اور حالات کی نزاکت کو دیکھ کر صلاح دے اور اچھی بات کرے۔

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • پُراسرار درویش

    پُراسرار درویش

    قریبی واقع تکیہ (خانقاہ) کی محراب اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ خانقاہ کے باغ میں لگے شہتوت کے درخت بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔

    یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔

    ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری کی طرف اس طرح لپکتے، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔

    اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی، اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔ جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچّے بھی بیک زبان دعائیہ آواز سے پکارتے، ‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’ مگر وہ درویش کوئی جواب دیے بغیر گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا، تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔

    میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں، ‘‘بابا! یہ کون لوگ ہیں؟’’
    ‘‘یہ اللہ والے لوگ ہیں۔’’ جواب ملتا ہے اور پھر وہ تنبیہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’

    میں چپ ہوجاتا ہوں کیونکہ میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں کا دیوانہ تھا۔
    ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوب صورت شفق پھیل چکی تھی اور بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے مجھے محلے میں واپس جانے کے لیے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔

    میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔ کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی باغ کے درمیان والے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔

    وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا دراز قامت، اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا۔ گویا نور کا سرچشمہ ہو، اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی، سفید پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا۔ اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوب صورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں….‘‘مجھے شہتوت اچھے لگتے ہیں….’’ لیکن وہ صاحب نہ تو کچھ بولے اور نہ ہی کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا۔ ‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔

    بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد
    ( بلبل نے اپنے جگر کا خون پیا اور پھول حاصل کیا)

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لیے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔ میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔ اس واقعے کو میں نے والد صاحب سے بیان کیا۔ میری بات سن کر وہ مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے زور دے کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا تو وہ بول اٹھے، ‘‘یہ نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر ہی کے ہوسکتے ہیں….مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے….’’

    میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو والد صاحب نے پوچھا:‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے’ میں نے طوطے کی طرح وہ الفاظ رٹ دیے: ‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    والد صاحب نے پوچھا۔ ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت کو یاد کیا اسے سمجھتے بھی ہو….؟ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟’’

    ‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔ میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: ‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’

    اس واقعے کے بعد سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا اور باغ کے احاطے میں جاکر شیخ اکبر کا انتظار کرنے لگتا، مگر وہ نظر نہیں آتے۔ میں اونچی آواز میں کہتا:‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔ میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا۔ میں اس واقعہ کو یاد کرتا رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا، سوچتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟ یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟

    کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا؟ نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے….؟ یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے؟ ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

    مگر شیخ کا وہ خیالی وجود بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔ یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے، اور میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔

    عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
    ‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
    مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
    ‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
    شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

    ‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

    یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
    میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
    یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
    میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
    والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
    ‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
    ‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’
    ‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
    شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
    میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
    میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
    ‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
    شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
    یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
    جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
    ‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
    جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
    ‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
    شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
    یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

    ‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

    بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’

    (نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایاتِ حارتنا’’ (محلّہ کی کہانیاں) سے ایک منتخب کہانی کا اردو ترجمہ)

  • سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    صدیوں پہلے کی بات ہے ملک اطالیہ میں ایک دریا کے کنارے بسے گاﺅں میں ڈیوڈ اور سیموئیل نامی دو بھائی رہتے تھے جو طاقت ور اور خوبرو تھے، لیکن غریب تھے۔

    اکثر ان کے پاس سوائے اس مچھلی کے، کھانے کو کچھ بھی نہ ہوتا جسے وہ دریا سے پکڑ کر لاتے۔ ایک روز وہ بغیر کچھ کھائے طلوعِ آفتاب کے وقت سے ہی دریا میں‌ ڈور ڈالے بیٹھے تھے۔ دن گزرتا رہا اور یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اور پھر دریا میں غروب ہونے کو آیا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اپنی مچھلی پکڑنے کی ڈور سمیٹیں، گھر جائیں اور سو جائیں کہ بڑے بھائی نے محسوس کیا، اس کی ڈور ہل رہی ہے۔ اور جب انہوں نے اسے باہر کھینچا تو اس کے کانٹے پر ایک ننھی سی سنہری مچھلی اٹکی ہوئی تھی۔

    ”کیا بدبختی ہے۔ اتنی ننھی مُنی سی مچھلی!“ ڈیوڈ چلّایا، ”خیر کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، میں اسے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ابالوں گا اور ہم رات کے کھانے میں اسے کھائیں گے۔“

    ”اوہ، نہیں مجھے مت مارو!“ مچھلی نے دہائی دی۔ ”میں تمہارے لیے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہوں، واقعی میں ایسا کر سکتی ہوں۔“

    ”تم احمق ہو!“ وہ چلّایا، ”میں نے تمہیں پکڑ لیا ہے، اور میں تمہیں کھاﺅں گا۔“
    لیکن اس کے بھائی سیموئیل کو مچھلی پر ترس آ گیا اور اس کی حمایت میں بولا؛
    ”اِس ننھی سی جان کو زندہ رہنے دو۔ یہ تو ایک لقمے کے برابر بھی نہیں۔ اور ہمیں کیا پتہ کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہو اور ہم اس کی لائی خوش قسمتی کو ٹھکرا رہے ہوں! اسے دریا میں چھوڑ دو۔ یہی مناسب ہے۔“

    مچھلی بولی، ”اگر تم مجھے زندہ رہنے دو گے تو کل صبح تمہیں دریا کے کنارے دو شان دار گھوڑے، جن پر عمدہ اور عروسی کاٹھیاں پڑی ہوں گی ملیں گے اور تم دو سورماﺅں کی طرح مہم جوئی کے لیے دنیا بھر میں جا سکو گے۔“

    ”پیارے بھائی، یہ سب بکواس ہے۔“ ڈیوڈ چھوٹے سے مخاطب ہوا۔ ” ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مچھلی سچ بول رہی ہے اور اس کی بات پوری ہوگی۔“

    سیموئیل مچھلی کی حمایت میں پھر بولا؛ ”بھائی! اسے زندہ رہنے دو۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو ہم اسے کبھی نہ کبھی دوبارہ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس کی کہی بات پر ایک بار اعتبار کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔“

    ان کے درمیان دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار ڈیوڈ مان گیا اور اس نے مچھلی کو دریا میں واپس ڈال دیا۔ اس رات وہ دونوں کچھ کھائے بغیر ہی سوئے اور رات بھر خوابوں میں انہیں یہی خیال آتا رہا کہ اگلا دن ان کے لیے کیا انہونی لے کر آرہا ہے۔

    وہ سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی جاگ گئے۔ اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے۔ وہاں، جیسا کہ ننھی سنہری مچھلی نے کہا تھا، دو زبردست، توانا سفید گھوڑے کھڑے تھے جن پر سجیلی کاٹھیاں پڑی تھیں اور ان پر دو زرہ بکتر اور ان کے نیچے پہننے والے لباس بھی پڑے تھے۔ پاس ہی دو تلواریں، زادِ راہ کے طور پر کچھ چیزیں اور سونے کے سکّوں سے بھرے دو بٹوے بھی تھے۔ یہ سب واقعی ان کے لیے انہونی سے کم نہیں‌ تھا۔

    ”دیکھا بھائی۔“ سیموئیل نے کہا، ”کیا آپ اب شکر گزار نہیں ہیں کہ آپ نے مچھلی کو نہیں کھایا؟ وہ واقعی ہمارے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا بننے والے ہیں۔ اب ہمیں اپنی اپنی مہم پر نکلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک راستہ اختیار کریں گے تو میں دوسرے پر جاﺅں گا۔“

    ”ٹھیک ہے۔“ ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ”لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔“

    ”بھائی، کیا آپ سامنے انجیر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے کہا، ”ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ ہم اس درخت کے پاس آئیں اور اس کے تنے پر تلوار سے ایک گھاﺅ لگائیں۔ اگر اس سے دودھ رِسا تو ہم جان لیں گے کہ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں اور خوش حال ہیں لیکن اگر اس میں سے خون نکلا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ایک مر چکا یا اس کی جان سخت خطرے میں ہے۔“

    اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی، سونے کے سکّوں سے بھری چرمی تھیلیاں اور تلواریں کمر پر باندھیں، زادِ راہ لادا، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر گھوڑوں پر بیٹھ کر گاﺅں کے چوراہے تک تو ساتھ ساتھ گئے لیکن پھر ڈیوڈ دائیں طرف مڑ گیا اور سیموئیل نے بائیں کو منہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

    ڈیوڈ گھوڑا دوڑاتا ایک اجنبی مملکت کی سرحد پر جا پہنچا۔ اس نے سرحد پار کی اور خود کو ایک بڑے دریا کے کنارے پایا۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پر ایک خوبصورت لڑکی ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ ڈیوڈ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے ساری زمین ایسے جلی ہوئی دکھائی دی جیسے کسی نے اس پر آگ برسائی ہو؛ جلی ہوئی گھاس، ٹنڈ منڈ سوختہ درخت، یہاں تک کہ آگ کی حدّت اور تپش سے دریا کے کنارے پر موجود ریت بھی پگھلی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔

    اس نے لڑکی سے اونچی آواز میں پوچھا؛ ”تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔“

    لڑکی نے روتے ہوئے اسے بتایا؛ ”میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ اس دریا میں ایک سات سَروں والا اژدہا رہتا ہے جو اپنے ہر نتھنے سے آگ برساتا ہے۔ اسے اس سے باز رکھنے کے لیے میرے والد کو ہر روز کھانے کے لیے ایک جوان دوشیزہ کی بلی دینی پڑتی ہے۔ اس نے میرے باپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اس ساری مملکت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے اور اب اس ملک میں کوئی جوان لڑکی نہیں بچی، اس لیے میرے والد نے بے بس ہو کر مجھے ہی اس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ جیسے ہی اس اژدہے کو بھوک لگی، وہ آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔“

    ”میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہیں نہ کھا پائے۔“ ڈیوڈ نے اسے دلاسا دیا۔

    ”نہیں، نہیں، یہاں مت رکو، ورنہ وہ تمہیں بھی ہڑپ کر جائے گا۔“ ، شہزادی تڑپ کر بولی۔

    ”نہیں لڑکی، میں یہیں رہوں گا۔“ ڈیوڈ بولا، ”اور تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا۔“

    ”یہ ممکن نہیں ہے۔ اسے آج تک کوئی نہیں مار سکا حالانکہ میرے والد نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ جو کوئی بھی اسے مارے گا، اس سے میری شادی کر دی جائے گی۔ تم اس خوف ناک بلا کو نہیں جانتے۔ یہ پہلے بھی بہت سے خوبرو جوانوں کو جو میرے ساتھ شادی کے لالچ میں اسے مارنے آئے تھے ہلاک کر چکی ہے۔“

    ”لیکن میں تو تم سے شادی کے لالچ میں یہاں نہیں آیا۔“

    ”ٹھیک ہے لیکن پھر بھی تم یہاں سے چلے جاﺅ تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آئے۔“

    ”لیکن میں تمہیں یوں مصیبت میں گھرا چھوڑ کر بھی تو نہیں جا سکتا۔ تم مجھے بس اتنا بتاﺅ کہ سات سَروں والا یہ اژدہا کس طرف سے آئے گا؟“

    ”وہ دریا کی پاتال سے اوپر ابھرے گا۔ ویسے اگر تم نے مجھے بچانے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو میرا مشورہ مانو، ایک طرف ہٹ کر اس بڑے پتھر کی اوٹ میں چلے جاﺅ جو تمہارے دائیں ہاتھ ہے۔ جب اژدہا اوپر ابھرے گا تو میں اس سے کہوں گی، ’اے اژدہے تم آج دو انسانوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیروں میں بندھی ہوں۔‘ یہ سن کر وہ یقیناً تمہاری طرف لپکے گا۔“

    ڈیوڈ پتھر کی اوٹ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دریا میں تلاطم کی آواز سنی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑی سات سَروں والی بلا اس طرف بڑھی جہاں شہزادی چٹان کے ساتھ بندھی تھی۔ وہ بھوکی تھی اور جلد ہی کچھ کھانا چاہتی تھی۔ شہزادی چلّا کر بولی ”اے اژدہے تم آج دو لوگوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو، کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔“

    یہ سن کر اژدہا منہ کھولے ڈیوڈ کی طرف بڑھا تاکہ ایک ہی بار اسے ہڑپ کر لے۔ ڈیوڈ نے اچھلتے ہوئے میان سے تلوار نکالی اور تب تک اژدہے سے لڑتا رہا جب تک اس نے اس کے ساتوں سر قلم نہ کر لیے۔ اژدہا جب مر گیا تو اس نے شہزادی کو آزاد کیا۔ شہزادی نے اسے کہا؛

    ”اب جب کہ تم نے بلا کو مار دیا اور مجھے بچا بھی لیا ہے تو تم میرے والد کے اعلان کے مطابق میرے خاوند بنو گے۔ چلو محل چلتے ہیں۔“

    ”لیکن میں تو ابھی تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ابھی دنیا میں اور بھی گھومنا پھرنا ہے۔ لیکن اگر تم میرا سات سال اور سات مہینے تک انتظار کر سکو تو ہماری شادی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک میں واپس نہ آﺅں تو تم کسی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہو۔ میں بلا کی ساتوں زبانیں کاٹ کر ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ بھول جانے کی صورت میں، تم انہیں دیکھ کر پہچان لو کہ یہ میں ہی تھا جس نے اژدہے کو ہلاک کیا تھا۔“

    یہ کہہ کر ڈیوڈ نے عفریت کی ساتوں زبانیں کاٹیں، انہیں شہزادی کے دیے دو شالے میں لپیٹا، کاٹھی کے ساتھ لٹکایا، گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔

    اسے گئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ وہاں بادشاہ کے دیوانِ خاص کا بیٹا پہنچا، شہزادی ابھی اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔ اُسے بادشاہ نے یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس کی بیٹی پر کیا بیتی تھی۔ اس نے جب شہزادی کو اپنے سامنے محفوظ اور آزاد پایا جس کے قدموں میں اژدہا مرا پڑا تھا تو اس کے دل کو بدنیتی نے گھیرا اور اس نے شہزادی سے کہا؛ ”تم اپنے والد سے جا کر کہوگی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے اژدہے کو مارا اور تمہیں بچایا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور یہیں اژدہے کے ساتھ زمین میں گاڑ دوں گا۔ اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ تمہیں اژدہے نے کھایا یا میں نے تمہاری جان لی۔“

    بیچاری شہزادی کیا کرتی؟ اب تو ڈیوڈ سا سورما بھی جا چکا تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اسے دیوانِ خاص کے بیٹے کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے اس کی بات مان لی۔ دیوان خاص کے بیٹے نے بلا کے ساتوں سر کاٹے اور انہیں لیے شہزادی کے ہمراہ بادشاہ کے پاس چلا گیا۔

    بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ملک بھر میں جشن کا سماں بندھا۔ ایک شاہی تقریب میں دیوان خاص کے بیٹے نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح دریائی بلا کو مارا اور شہزادی کو بچا لیا۔ اس پر بادشاہ نے اعلان کیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنا رہا ہے۔

    شہزادی جو ڈیوڈ کی بہادری کی قائل ہو چکی تھی اور اپنا دل بھی اس کو دے بیٹھی تھی اس نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ اس شادی کو سات سال اور سات ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ پہلے تو بادشاہ نہ مانا۔ دیوانِ خاص اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ سے احتجاج کیا۔ شہزادی بہرحال اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس پر بادشاہ نے بیٹی کی بات مان لی۔

    اُدھر ڈیوڈ دنیا بھر کی سیر کرتا کئی اور معرکے سر کرتا رہا اور پھر ایک روز شہزادی کے دیس لوٹا۔ سات سال اور سات مہینے کا عرصہ ختم ہونے میں ایک دن ہی بچا تھا۔ محل میں شادی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے گیا اور بولا: ”بادشاہ سلامت! مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے کیونکہ یہ میں ہی ہوں جس نے سات سروں والی دریائی بلا کو مارا تھا۔“

    بادشاہ اس کی بات سن کر غصے میں آیا اور بولا؛ ”تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟“

    ڈیوڈ نے شہزادی کا دو شالہ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا جس میں سات سکڑی ہوئی زبانیں پڑی تھیں۔ بادشاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔

    ”میرے پیارے بابا، یہ جوان سچ کہہ رہا ہے۔ اسی نے سات سروں والے اژدہے کو مارا تھا اور اس کی زبانیں کاٹی تھیں۔ کڑھائی والا دو شالہ میرا ہی ہے جو میں نے اسے زبانیں لپیٹنے کے لیے دیا تھا۔ یہی میرا خاوند بننے کے لائق ہے۔ میری یہ بھی التجا ہے کہ آپ دیوانِ خاص کے بیٹے کو بھی معاف کر دیں کہ اس پر شیطان غالب آ گیا تھا اور اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے اسی لیے آپ سے شادی ملتوی کروائی تھی کہ اصل سورما نے اسی مدت میں‌ لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔“

    ”اس مکاری کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ دیوانِ خاص کے بیٹے کا سر فوراً قلم کر دیا جائے۔ میں دیوانِ خاص کو اس کے عہدے سے بھی ہٹاتا ہوں اسے اور اس کے پورے خاندان کو بھی تا حیات پابند ِسلاسل رہنا ہو گا۔“ بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ڈیوڈ کی شادی شہزادی سے ہو گئی۔ یوں ڈیوڈ اس کے ساتھ بادشاہ کے محل کے پاس ہی ایک دوسرے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    ایک شام ڈیوڈ کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے شہر سے دور پہاڑ پر ایک تیز روشنی چمکتی دکھائی دی۔

    ”یہ کیسی روشنی ہے؟“ اس نے بیوی سے پوچھا۔ اس کی بیوی نے ایک آہ بھری اور بولی،”اسے مت دیکھیں۔“ ”یہ اس مکان سے نکل رہی ہے جہاں ایک بہت ہی چالاک جادوگرنی رہتی ہے جسے آج تک کوئی بھی مار نہیں سکا۔“

    بہتر ہوتا کہ شہزادی اسے یہ نہ بتاتی کیونکہ اس کے الفاظ نے ڈیوڈ میں پھر سے یہ خواہش جگا دی تھی کہ وہ اپنی بہادری کو اس چالاک جادوگرنی کے خلاف آزمائے۔ اس رات ڈیوڈ کی خواہش اس کے دل و دماغ میں پلتی رہی اور جب صبح ہوئی تو وہ اپنی بیوی کے آنسوﺅں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔

    فاصلہ اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ اندھیرا ہونے تک پہاڑ کے دامن تک ہی پہنچ پایا۔ قلعہ نما مکان سے نکلنے والی روشنی نے آگے کا راستہ ایسے روشن کر رکھا تھا جیسے آسمان پر چمکتا چاند، رات میں راستے روشن کر دیتا ہے۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو اسے اس کی ہر کھڑکی سے روشنی پھوٹتی نظر آئی جس نے قلعے کے گرد ا گرد ایک شیطانی حصار بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی تلوار کی مدد سے اس حصار کو چیرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ایک وسیع کمرے میں ایک سیاہ آبنوسی کرسی پر ایک مکروہ بُڑھیا بیٹھی تھی۔ اس کی کرسی سیاہ تو تھی لیکن یہ نیلے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔

    ”آگے مت بڑھنا ورنہ میں اپنے سَر کے بالوں میں سے ایک بال توڑوں گی اور تم نیلی آگ کے ہاتھوں پتھر ہو جاﺅ گے۔“ وہ بولی۔

    ”کیا بکواس ہے!“ ڈیوڈ غصّے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ” خاموش رہ بڑھیا، ایک بال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“اس نے کہا۔

    یہ سن کر بڑھیا نے اپنا ایک بال توڑا اور اسے ہوا میں ڈیوڈ کی طرف اچھالا۔ یہ نیلی آگ کے ایک تیر میں بدلا اور ڈیوڈ کی طرف لپکا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنی تلوار سے کاٹنا چاہا لیکن اس کی تلوار چُوک گئی اور تیر اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کا کندھا ٹھنڈی آگ سے سرد ہوا اور پھر اس کے باقی کے اعضا اور جسم بھی وہیں منجمد ہو گیا۔

    یہی لمحہ تھا جب اس کا بھائی سیموئیل، جسے ڈیوڈ برسوں پہلے ایک موڑ پر چھوڑ آیا تھا، اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس سوچ میں غلطاں تھا کہ جب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، ڈیوڈ کیا کرتا رہا ہو گا اور کیا وہ خیریت سے ہے؟

    ”مجھے انجیر کے درخت کے پاس جانا چاہیے۔“ اس نے خود سے کہا، ”اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں۔“
    وہ اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور صحراﺅں، میدانوں اور جنگلوں سے گزرتا انجیر کے درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے اس کے تنے میں تلوار سے ایک گھاﺅ لگایا۔ گھاﺅ کا لگنا تھا کہ درخت سے درد بھرا ایک شور اٹھا اور چیرے سے خون ابل پڑا۔

    ”اوہ، میرا بھائی یا تو مر چکا ہے یا پھر اس کی جان خطرے میں ہے۔“ سیموئل غمگین ہوا اور چلّایا۔” اور کیا میں اس کی جان بر وقت بچا لوں گا؟“ اس نے چھلانگ لگائی، گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ خطِ استوا پار کرکے دنیا کے اس حصے میں داخل ہوا جہاں ایک ملک میں ڈیوڈ رہتا تھا۔ مزید کئی دن کے سفر کے بعد بالآخر وہ اس ملک کے دارلخلافہ میں پہنچ ہی گیا۔ وہ اس عالی شان گھر کے پاس سے گزرا جس میں ڈیوڈ اور اس کی بیوی رہتی تھی۔ وہ بالکونی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کی نظر سیموئیل پر پڑی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈیوڈ ہو۔ اسے ایسا لگنا ہی تھا کیونکہ ڈیوڈ اور سیموئیل میں اتنی مشابہت تھی کہ اگر وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ ان میں سے ڈیوڈ کون ہے اور سیموئیل کون۔ شہزادی کا دل خوشی سے دھڑکنے لگا۔ وہ نیچے اتری اور بولی: ” میری جان، تم بالآخر لوٹ ہی آئے۔ میں مدتوں سے تمہاری یاد میں آنسو بہا رہی ہوں!“

    جب سیموئیل نے یہ سنا تو اس نے خود سے کہا، ” تو یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بھائی رہتا تھا اور یہ عورت میری بھابی ہے۔“ لیکن وہ خاموش رہا اور شہزادی کو یہ ہی سمجھنے دیا کہ وہ اس کا خاوند تھا۔ شہزادی اسے بوڑھے بادشاہ کے پاس لے گئی جس نے اس کی واپسی کے جشن اہتمام کیا۔

    شہزادی جب بھی سیموئیل کے پاس جاتی اور اسے بانہوں میں لے کر اس سے پیار کرنا چاہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے خود سے الگ کر دیتا۔ وہ اس کے اس رویے پر پریشان ہوتی اور اسے سمجھ نہ آتی کہ سیموئیل جسے وہ اپنا خاوند سمجھتی تھی، اسے قریب کیوں نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ اور پھر ایک روز جب وہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے پہاڑ پر وہی چمکتی ہوئی روشنی دیکھی جس کے پیچھے ڈیوڈ گیا تھا۔

    ”یہ روشنی کیسی ہے ؟“، اس نے شہزادی سے پوچھا۔
    ”اوہ، اسے مت دیکھو۔“ وہ چلائی ” کیا تم اس کے ہاتھوں پہلے ہی ایذا نہیں بھگت چکے؟ کیا تم اس بوڑھی چڑیل سے ایک بار اور لڑنا چاہتے ہو؟“ سیموئیل نے اپنی بھابی کے الفاظ پر غور کیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا بھائی کہاں تھا اور وہ کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔ اگلی صبح وہ پَو پھٹنے سے پہلے ہی، جب شہزادی ابھی سو رہی تھی، اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اورپہاڑ کی طرف چل دیا۔ پہاڑ اس کے اندازے کے برعکس خاصا دور تھا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بونا ملا جس نے سیموئیل سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔

    اس نے بونے کو اپنی کہانی بتائی اور یہ بھی کہا؛ ”مجھے کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچانا ہے۔ وہ یقیناً اس چالاک بوڑھی جادوگرنی کی کسی چال میں پھنسا ہوا ہے۔“

    ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔“ ، بوڑھے بونے نے کہا۔ ” اس جادوگرنی کی ساری طاقت اس کے بالوں میں ہے جیسے سیمسن کے بالوں میں تھی۔ سیمسن تو خیر نیک تھا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرتا تھا لیکن یہ چڑیل نہایت خبیث اور ظالم ہے اور یہ لوگوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اسے اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جب تم اس تک پہنچو تو فوراً جھپٹ کر اس کے بال قابو کر لینا اور پھر انہیں کسی طور بھی مت چھوڑنا بلکہ اسے مجبور کرنا کہ وہ تمہیں، تمہارے بھائی کے پاس لے جائے اور اسے اس کی زندگی لوٹائے۔“

    ”لیکن۔۔۔!“ سیموئیل نے کچھ پوچھنا چاہا۔ ”میری بات مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ اس نے یقیناً تمہارے بھائی کو پتھر کر دیا ہو گا۔ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا توڑ بھی ہے۔ اس کے پاس آبِ حیات کی ایک صراحی ہے۔ یہ ہر طرح کے زخم، گھاﺅ ختم کر دیتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ حق سچ کی خاطر مردوں کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔ اور ہاں جب تمہارا بھائی بھلا چنگا ہو جائے تو جادوگرنی کا سَر قلم کرنا نہ بھولنا تاکہ دنیا اس کی بدی سے نجات پا سکے۔“ بونے نے اپنی بات مکمل کی۔

    سیموئیل نے بونے کو اس کے کہے پر عمل کرنے کا یقین دلایا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وہ پھر سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھا اور قلعہ نما مکان کے دروازے پر پہنچا اور نیلی روشنی کے حصار کو اپنی تلوار سے چیرتا، سیڑھیاں پھلانگتا وسیع کمرے میں داخل ہوا۔ خوف ناک بوڑھی جادوگرنی اپنی سیاہ آبنوسی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چالاک مسکراہٹ آئی اور اپنی طرف بڑھتے سموئیل سے مخاطب ہوئی۔

    ”میں تمہیں اپنے ایک بال کے ذریعے ہی قابو کر کے پتھر کر سکتی ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنا ایک بال توڑا اور اس کی طرف اچھالا، وہ نیلی آگ کے تیر میں بدلا اور سیموئیل کی طرف بڑھا۔ وہ جھکا اور اس تیزی سے جادو گرنی کی طرف لپکا کہ تیر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اتنے میں سیموئیل نے جادوگرنی کو جا لیا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا؛ ”مجھے بتاﺅ تم نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔“

    اب جب وہ جادوگرنی اپنی طاقت کھو بیٹھی تھی تو چالاکی سے مسکرائی اور بولی؛
    ”میں تمہیں تمہارے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں لیکن پہلے تم مجھے چھوڑو تو سہی۔ تم نے مجھے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔“

    ”تمہیں یوں ہی آگے بڑھنا ہو گا۔“ سیموئیل نے اسے آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔
    وہ سیموئیل کو لیے اس بڑے کمرے میں گئی جہاں بہت سارے پتھر کے مجسمے موجود تھے جو پہلے کبھی انسان رہے ہوں گے۔ جادوگرنی نے ایک کی طرف اشارہ کیا۔

    ” وہ رہا تمہارا بھائی۔“ سیموئیل نے مجسموں پر نگاہ دوڑائی اور بولا ”ان میں کوئی بھی میرا بھائی نہیں ہے۔“ جادوگرنی اسے اور مجسموں تک لے گئی اور اسے پھر ورغلانے کی کوشش کی۔ جادوگرنی کی یہ چالاکی اس کے کام نہ آئی اور بالآخر وہ اسے لیے وہاں پہنچی جہاں ڈیوڈ پتھر بنا فرش پر لیٹا تھا۔

    ”ہاں یہ میرا بھائی ہے۔ اب تم مجھے آبِ حیات کی صراحی دو، جس سے یہ پھر سے زندہ ہو سکے۔“ سیموئیل نے اس کے گلے پر تلوار کی نوک چبوتے ہوئے کہا۔
    جادوگرنی نے پاس پڑی ایک الماری کھولی جو بوتلوں اور صراحیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک نکالی اور سیموئیل کو تھما دی۔ وہ اب بھی اس سے مکر کر رہی تھی اور اس نے ایسا کئی بار کیا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سیموئیل کسی طور بھی اس کے فریب میں نہیں آ رہا تو اس نے تنگ آ کر اسے آبِ حیات والی صراحی تھما دی۔ اس نے احتیاط سے ایک ہاتھ استعمال کرتے ہوئے صراحی سے چند قطرے اپنے بھائی کے منہ پر چھڑکے اور دوسرے سے جادوگرنی کے بال مضبوطی سے تھامے رکھے۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے چہرے پر آبِ حیات کے قطرے گرے وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ سیموئیل نے تلوار کے ایک ہی جھٹکے سے جادوگرنی کا سَر اڑا دیا۔

    ڈیوڈ اٹھا اور اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ”اوہ، میں کتنا عرصہ سویا رہا۔ میں کہاں ہوں؟“

    ”اس بوڑھی جادوگرنی نے تم پر سحر کر دیا تھا لیکن اب وہ مر چکی ہے، اب تم آزاد ہو۔ ہم اب اُن سب کو جگائیں گے جو اس جادوگرنی کے سحر میں گرفتار ہیں اور یہاں پڑے ہیں۔ پھر ہم یہاں سے چل دیں گے۔“ سیموئیل نے کہا۔

    دونوں بھائیوں نے مل کر باقی مجسموں پر آب ِ حیات چھڑکا۔ یوں وہ سارے سورما جو جادوگرنی کو مارنے آئے تھے پھر سے زندہ ہو گئے۔ وہ ڈیوڈ اور سیموئیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیے۔ ڈیوڈ نے صراحی جس میں ابھی آبِ حیات موجود تھا، اپنی صدری میں سنبھال لی۔ انہوں نے قلعے میں موجود ہیرے جواہرات سمیٹے اور واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔

    راستے میں وہ ایک دوسرے کو اپنا حال سناتے رہے اور جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اچانک سیموئیل نے کہا؛ ”بھائی تم بھی عجیب ہو۔ اپنی پیاری سی بیوی اور شان و شوکت والی زندگی کو چھوڑ کر جادوگرنی سے لڑنے گھر سے نکل پڑے۔ اس بیچاری نے تو مجھے اپنا خاوند سمجھ لیا تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہ بتایا۔“

    اتنا سن کر ہی ڈیوڈ کو طیش آیا اور اس نے مزید کچھ سنے بِنا تلوار نکالی اور سیموئیل کے سینے میں گھونپ دی۔ سیموئیل گھوڑے سے گِرا اور اس کا جسم گرد میں لپٹ کر دور لڑھک گیا۔

    ڈیوڈ جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور اس کی بانہوں میں سما گئی۔ بادشاہ کو جب اس کی آمد کا پتہ چلا تو اس نے واپسی کی خوشی میں دوپہر کو دعوت کا اہتمام کیا۔ شام میں جب وہ اور اس کی بیوی اپنے کمرے میں تنہا تھے تو شہزادی نے اس سے پوچھا؛

    ”جب تم اپنی پہلی مہم سے واپس آئے تھے تو تم نے کبھی بھی مجھے اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا۔ میں جب بھی تم سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھتی تو تم کسی نہ کسی بہانے مجھ سے الگ ہو جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا تم اب بھی مجھ سے بے اعتنائی برتو گے؟“ یہ سن کر ڈیوڈ کو دل میں شرمندگی کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پوری بات نہ سنی تھی اور اسے تلوار مار دی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔ پھر اچانک اسے آبِ حیات والی صراحی کا خیال آیا۔ وہ جلدی سے اٹھا، اپنی صدری کی طرف بڑھا، اسے پہنا اور بیوی کو کچھ بتائے بغیر گھوڑے پر سوار اس جگہ جا پہنچا جہاں اس کے بھائی کا لاشا پڑا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سیدھا کیا اور تلوار کے گھاﺅ کو دیکھا، صراحی نکالی اور زخم پر آبِ حیات چھڑکا۔ ساتھ ہی اسے ایک آواز سنائی دی۔

    ” میں سیموئیل کا گھاﺅ اس لیے بھر رہا ہوں اور اس لیے اسے زندہ کر رہا ہوں کہ وہ معصوم ہے۔ اور اس سے کوئی خطا نہیں ہوئی تھی۔ تم سے خطا ہوئی۔ تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور اس کی پوری بات سنے بغیر تم نے اسے مار ڈالا۔ اب تم اس کی سزا تب تک بھگتو گے جب تک زندہ رہو گے۔ تم اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅ گے۔ تم خط استوا کے اِس پار سرد علاقے میں رہو گے جب کہ وہ اس خط کے اُس پار گرم علاقے میں اپنی باقی کی زندگی جیے گا کیونکہ اس کا دل سچائی، بھلائی اور معصومیت کی حرارت سے لبریز ہے۔“ یہ آواز صراحی میں آبِ حیات سے ابھر رہی تھی۔

    سیموئیل کا گھاﺅ بھر گیا، اس نے آنکھیں کھولیں، ڈیوڈ کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جو پاس ہی گھاس چر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے آواز دی لیکن اس نے مڑ کر نہ دیکھا، ڈیوڈ کی آواز کو کسی غیبی طاقت نے اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیا تھا، یہ سیموئیل تک پہنچ ہی نہ پائی۔

    سیموئیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کا رخ اُس راستے کی طرف موڑ دیا جو خطِ استوا کے دوسری طرف دُنیا کے گرم خطوں تک جاتا تھا۔

    (اطالوی لوک ادب سے ماخوذ کہانی)

  • سوکھے میوے کا پکھراج

    سوکھے میوے کا پکھراج

    دلّی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔

    ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہندو گھرانے میں گنڈوڑے( ایک قسم کی میٹھی ٹکیاں) بانٹنے کا چلن تھا۔ یہ چلن آج بھی ہے۔ ان دنوں جب بیٹے کی شادی ہوتی تھی تو گنڈوڑے چاندی کے کٹوروں میں بانٹے جاتے تھے، گنڈوڑوں کے اوپر کچھ لگایا جاتا تھا۔ رئیسوں میں ایک دوسرے سے بازی مار لینے کی ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔

    لالہ سیتا رام جی اس سوچ میں بیٹھے تھے کہ گنڈوڑوں پر کیا لگایا جائے۔ اپنی ساکھ دیکھ کر وہ طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہے۔ پھر دل میں فیصلہ کر کے وہ اپنی ماں کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خاندان کے خزانے میں اضافہ کیا تھا۔ ہلکا سا فخر کا احساس بھی ان کے جسم میں سننی پیدا کر رہا تھا۔

    وہ بہت سنبھل کر بولے۔ ’’اماں سوچ رہا ہوں کہ گنڈوڑوں کے سروں پر اشرفی لگا دی جائے۔‘‘ لالہ سیتا رام کے چہرے پر فخر کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں یہ سن کر حیران رہ جائے گی کہ اس کے بیٹے کی آج اتنی شان و شوکت ہے کہ وہ گنڈوڑوں پر اشرفیاں چپکا کر برادری میں تقسیم کرائے گا۔

    لالہ سیتا رام پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن بوڑھی ماں اندر چلی گئی۔ لالہ بے قراری کے عالم میں بیٹھے یہی سوچتے رہے۔ ’’ماں اندر کیوں چلی گئی؟ کیا اسے میری بات اچھی نہیں لگی! کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہی کہ گھر کی نجانے کتنی اشرفیاں گنڈوڑوں کے ساتھ بٹ جائیں گی۔ وہ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں بیٹھے رہے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد ان کی ماں باہر آئی۔ ہاتھ میں سونے کا ایک بڑا تھال تھا۔ جس میں پانچ چھ گنڈوڑے رکھے تھے۔ گنڈوڑے بہت پرانے تھے۔ بالکل پتھر کی طرح سخت!

    ماں نے گنڈوڑے لالہ سیتا رام کے سامنے رکھ دیے اور کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ اتنی طرح کے گنڈوڑے پہلے ہی تقسیم کرا چکے ہیں۔ اب کوئی نئی بات سوچی جائے تو ہم دونوں بیٹھ کر صلاح کرتے ہیں۔ لالہ سیتا رام نے پرانے گنڈوڑوں کو اٹھا کر دیکھا۔ کسی میں موتی جڑے تھے تو کسی میں دیگر جواہرات۔ چند ایک میں سونے کی پرانی اشرفیاں اور مہریں لگی تھیں۔

    ماں ٹکٹکی لگائے لالہ سیتا رام کی طرف دیکھتی رہی۔ لالہ سیتا رام کی انا کی دیوار ایک جھٹکے سے گر پڑی۔ انہیں پتہ لگا کہ خاندان میں‌ ان سے بھی بڑھ کر امیر و کبیر تھے۔ وہ سٹپٹاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی ماں اچانک مسکرا اٹھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! تمہیں تو کوئی ایسی چیز گنڈوڑوں پر لگانی چاہیے کہ دلّی والے ہمیشہ تمہیں یاد رکھیں۔‘‘ لالہ سیتا رام نے سوکھے گلے سے کہا۔ ’’تمہیں بتلاؤ، ماں اب کیا کیا جائے۔‘‘

    بوڑھی ماں نے قریب آکر سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! امیروں کی اس دوڑ میں درمیانے لوگ ناحق پس جاتے ہیں۔ ہمیں جھوٹی عزت اور کھوکھلے اہنکار کا ڈھونگ بھی کھائے جاتا ہے اور اپنی حیثیت سے باہر بھی کام کر جاتے ہیں۔ میری صلاح یہ ہے کہ تم اس بار گنڈوڑوں پر کشمش لگاؤ۔ سوکھے میوے کا پکھراج ہی تو ہے۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے بیٹھے ہیں کہ دیکھو اب کی بار لالہ سیتا رام گنڈوڑوں پر کیا ٹانکتے ہیں اور تمہاری آج کی کرنی ہی کل کے رواج کی لکشمن ریکھا بن جائے گی۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ماں نے کہا۔ ’’اس میں تمہارا بڑا پن ہوگا بیٹا! آج سے یہ دوڑ بھی ختم ہوجائے گی۔ دلّی کے امیر اور غریب سب سکھ کا سانس لیں گے اور تمہاری ہمیشہ واہ واہ ہوگی۔

    لالہ سیتا رام نے گنڈوڑوں پر کشمش ہی لگوائی۔ جب گنڈوڑے بانٹے گئے تو لالہ سیتا رام نے یہ آواز بلند کہا۔ ’’میں نے گنڈوڑوں پر قدرت کا بیش قیمت جواہر لگوایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قدرت کی گود میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے رواج کا آج بھی دلّی میں چلن ہے۔ امیر غریب سب گنڈوڑوں پر کشمش ہی ٹانک کر بانٹتے ہیں۔

    (سماجی اصلاح کی غرض سے لکھی گئی ایک خوب صورت کہانی)

  • وصیت (عربی حکایت)

    وصیت (عربی حکایت)

    ایک رات مشہور عباسی خلیفہ مامون کا ایک مصاحب اسے قصّے کہانیاں اور اشعار سنا رہا تھا۔

    اس نے خلیفہ کو یہ حکایت بھی سنائی کہ میرے پڑوس میں ایک بہت دین دار، نیک اور کفایت شعار آدمی رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا اس وقت نو عمر اور ناتجربے کار تھا۔ موت کو قریب دیکھ کر اس نے بیٹے کو وصیّت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اسے سنبھال کر رکھو اور اعتدال سے خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کافی ہوگا، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ کمانے میں کتنی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے جو تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مشقت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔

    وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آپڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے تو اچھا مر جانا ہو گا۔

    چند دن بعد یہ وصیت چھوڑ کر باپ تو اللہ کو پیارا ہوگیا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی مال و دولت اڑانا شروع کردی۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ اور عیش و عشرت کی محفلیں ہونے لگیں۔ اسی اسراف اور فضول خرچی کے باعث دیکھتے دیکھتے ساری دولت ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کوڑیوں کے مول فروخت ہونے لگے۔

    ایک دن اس عاقبت نااندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی۔ جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا۔ آخر! دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا۔ مفلسی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے۔

    جب فاقوں کے مارے نوجوان کے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خود کشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ اس کی ہدایت کے مطابق کرسی پر چڑھ کر چھت سے بندھی ہوئی پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔ جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔

    یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکعت شکرانے کی نمازپڑھی۔ عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ بالآخر اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔

    (بحوالہ جوامع الحکایات و لوامع الروایات)

  • خوش بخت کسان

    خوش بخت کسان

    ایک بادشاہ شکار کی غرض سے جنگل کو گیا۔ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں‌ ہوا اور شکار کی تلاش میں‌ اسے جنگل میں رات ہو گئی۔ وہ سردی کا موسم تھا۔

    بادشاہ فکر مند تو بہت ہوا، لیکن رات ہو چکی تھی اور اس نے کڑھنے اور خود کو کوسنے کے بجائے جستجو شروع کردی کہ رات گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ مل جائے۔ اتفاق سے ایک مقام پر اسے کسی کسان کا مکان نظر آگیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ شب گزارنے کے لیے یہ مکاں ناموزوں نہیں۔ لیکن جب یہ بات اپنے وزیر کو کہی تو اس نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ عالی جاہ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ بادشاہ ایک کسان کا مہمان بنے اور اس سے رات بسر کرنے کی اجازت لے۔ ہمارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ کھلے میدان میں خیمہ زن ہوجائیں، آگ روشن کریں اور مشکل کی یہ گھڑی گزار دیں۔

    بادشاہ نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی طرح کسان کو بھی ان کی اس بات چیت سے آگاہی ہو گئی۔ اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت ادب سے بولا، حضور والا کی شان اس بات سے ہرگز کم نہ ہوتی کہ ایک دہقان کے گھر کو اپنے قدموں سے عزت بخشتے لیکن یہ ناچیز اس عنایت سے ضرور سرفراز ہو جاتا۔

    بادشاہ نے اس کے خلوص اور ادب کی قدر کی۔ رات اس کے مکان میں بسر کی اور صبح کے وقت جب اپنے محل کی طرف روانہ ہوا تو دیہاتی کو خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا۔ دیہاتی کی خوشی اور عقیدت قابلِ دید تھی۔ وہ بادشاہ کے گھوڑے کے ساتھ چل رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔

    شان کچھ بادشاہ کی نہ گھٹے
    وہ اگر مہماں ہو دہقاں کا
    ہاں مگر وہ ہو آفتاب نصیب
    سایہ اس پر پڑے جو سلطاں کا

    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کے مقابلے میں کم حیثیت لوگوں کے ساتھ معمولی سلوک بھی بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے اپنی خوش نصیبی خیال کر کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ بات ذی حیثیت لوگوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جان کر ان سے بے اعتنائی نہ برتیں بلکہ یہ بات تسلیم کریں کہ انسان ہونے کے ناتے وہ بھی کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور باعزت ہوتے ہیں۔

  • قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    حضرت شیخ سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاضی کی عدالت میں ایک علمی نکتہ پر گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک مفلوک الحال شخص عدالت میں داخل ہوا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔

    حاضرینِ مجلس نے اس کی ظاہری وضع قطع اور پھٹے حال کو دیکھ کر خیال کیا کہ وہ کوئی معمولی انسان ہے۔ انھوں نے اسے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویّے سے دلبرداشتہ ہوا، مگر خاموش رہا اور جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، وہ جاری رہی۔ درویش نے دیکھا کہ جب اہلِ مجلس اس مسئلے کا مناسب اور منطقی حل بتانے میں ناکام ہوگئے تو ان میں اشتعال پیدا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو لاجواب کرنے لگے۔ وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا یہ سب دیکھتا اور ان کے دلائل اور گفتگو سنتا رہا اور پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔ اس نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کا حل بتایا تو اہلِ مجلس حیران رہ گئے۔ وہ اس کی دلیل اور منطق سے قائل ہو چکے تھے۔

    اچانک حاضرین کو درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال شخص بہت بڑا عالم ہے اور ہم نے اس کو سمجھنے میں‌ غلطی کی ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔ درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ اس کے علم سے معلوم ہوتا ہے اور صرف دستار سَر پر رکھنے سے کوئی عالم اور منصف نہیں بن جاتا۔

    حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کی ہے اور یہ واقعہ انہی کا ہے۔ اس مفلوک الحال کے روپ میں‌ دراصل آپ ہی اس عدالت میں‌ موجود تھے۔ ان کی یہ حکایت انہی کی مشہور تصنیف ”بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل ہے۔

  • نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔

    بازار کی پُر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟

    دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے۔ لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اور باقی کا قصّہ سن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔

    ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ فروخت کرنے والے نے رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکّے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔

    جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہلِ قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ سارے لوگ مل کر اداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے۔ اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چارہ کھایا مگر ایک سکّہ تک نہ گرا۔

    آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً اس دھوکے باز کو پکڑو۔ وہ تاجر اور اہلِ قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتّا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لے کر آئے گا۔ لوگ دل چسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتّا اپنے مالک کو گھر لائے۔

    دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتّے والی پٹی پڑھائی۔ گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتّے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا۔ دور جاکر اس نے کتّے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔

    تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتّے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں، کتّے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔

    اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتّا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کر دیا۔ اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتّا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔

    تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتّا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔ غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتّا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا۔ جب غلام اور کتّا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔

    وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آج ہم اس کا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے۔

    کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا اور بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟

    وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے۔ اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا۔ یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ فوراً لہو بہہ نکلا اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی۔

    وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے۔ میں اسے غصے میں آکر قتل کر دیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کر دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی۔ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے۔

    دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا۔ کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

    جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا تھا۔ لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا۔ اور ایک پرانا بیکار سینگ لے کر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا۔ اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔

    جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسبِ معمول لڑائی شروع کر دی۔ اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہتا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسر باز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔

    سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہو کر اس دھوکے باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیے۔
    سمندر وہاں سے کافی دور تھا۔ بوری میں بند دھوکے باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے۔ سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رکے تو انہیں نیند نے آ لیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔ بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہو کر چیخنا چلانا شروع کر دیا، مگر وہ تمام لوگ تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جمِ غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔

    اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے۔ چرواہے نے پوچھا کہ ایک شخص تُو کون ہے، یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟

    دھوکے باز نے کہا سنو! یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اس کی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا، بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔

    وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

    اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟

    وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیرِ سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔

    جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دے کر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کر کے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا۔ یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔

    اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کر لیں گے۔ دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لے کر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔

    اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔

    (ماخذ: عربی قصص و عبر مِن قدیم زمان، اردو ترجمہ: توقير بُھملہ)