Tag: مشہور حکایات

  • بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    ایک شخص اپنی بھیڑ کو کہیں لے کر جارہا تھا۔ اس نے ایک لمبی رسّی سے اس بھیڑ کو باندھ رکھا تھا۔

    راستے میں ایک چور نے موقع دیکھ کر رسّی کاٹی اور بھیڑ کو لے کر چل دیا۔ مالک کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ دائیں‌ بائیں دوڑنے لگا۔

    اتنے میں‌ چور اس بھیڑ کو چھپا کر ایک کنویں پر آ بیٹھا اور زار قطار رونے اور واویلا کرنے لگا۔ بھیڑ کے مالک کو شبہ تو ہوا، لیکن یہ حالت دیکھ کر اس نے پوچھا، اے بھائی کیوں روتا ہے؟

    اس (چور) نے جواب دیا کہ میری روپوں کی تھیلی کنویں‌ میں گرگئی ہے، اگر کسی کو کنویں میں اترنا آتا ہے تو اترے اور تھیلی نکال لائے، اس کا پانچواں‌ حصّہ میں‌ خوشی خوشی اسے دے دوں گا، میری تھیلی میں پانچ سو درہم ہیں۔

    بھیڑ والے نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ دس بھیڑوں‌ کی قیمت ہے۔ اگر ایک دروازہ بند ہُوا تو کیا ہے، دس دروازے کھل گئے۔ میری ایک بھیڑ گئی تھی، خدا نے بدلے میں‌ اونٹ دلوا دیا۔

    وہ فوراً کپڑے اتار کنویں میں‌ اترا۔ ادھر چور اس کے کپڑے بھی سمیٹ کر بھاگ گیا۔

    سبق: ہوشیار آدمی کو چاہیے سیدھے راستے سے گھر جائے، جہاں احتیاط نہیں ہوتی اور سوچ سمجھ کر کام نہیں‌ کیا جاتا، وہاں لالچ طاعون لے آتا ہے۔

    (کتاب حکایاتِ رومی سے انتخاب جس کے مترجم مرزا شاہ صاحب لبیب ہیں)

  • بھوکا پڑوسی اور احمد بن اسکافؒ

    بھوکا پڑوسی اور احمد بن اسکافؒ

    اولیا اللہ، بزرگانِ‌ دین اور صوفیائے کرام کی زندگی کے حالات و واقعات، معتقدین اور پیرو کاروں کے لیے نصیحتیں اور سبق آموز باتیں سینہ بہ سینہ اور مختلف ادوار میں تحریر کی گئی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور ہماری ہدایت اور راہ نمائی کرتی ہیں۔

    یہاں ہم ایسا ہی ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو حقوقُ العباد اور پڑوسیوں کا خیال رکھنے کے حوالے سے دینی اور اخلاقی تعلیم کا متاثر کُن پہلو ہمارے سامنے اجاگر کرتا ہے۔ یہ واقعہ حکایاتِ صوفیہ نامی کتاب میں موجود ہے جو مختلف ادوار میں ترتیب و تدوین کے عمل سے گزرتی رہی ہے۔

    حضرت احمد بن اسکاف دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے حجِ بیتُ اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔ حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔

    ابنِ اسکافؒ نے پوچھا، بیٹے خیر تو ہے، تم روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا، ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے، میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ ابنِ اسکافؒ رنجیدہ ہو کر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ، ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔ میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے، اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔

    یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا، ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا، لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی، جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا، ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی، اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو ابال کر ہم کھا رہے تھے، یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچّے کو کچھ نہ دیا، ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچّہ منہ تکتا رہے۔

    یہ سن کر احمد بن اسکافؒ پر رقّت طاری ہوگئی۔ بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم و دینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔ قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟ پھر وہ گھر گئے اور سب درہم و دینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے، چپکے سے لا کر با اصرار ہمسائے کو دے دیے اور خود اپنے گھر میں بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔

    حج کا زمانہ آیا تو حجاج میں مشہور صوفی بزرگ حضرت ذوالنّون مصریؒ بھی شامل تھے۔انہوں نے جبلِ عرفات پر ایک غیبی آواز سنی کہ اس سال احمد بن اسکاف دمشقیؒ نے حج کی نیت کی، لیکن وہ نہ آسکا، ہم نے اسے حجِ اکبر کا ثواب عطا کیا ہے اور دوسرے بہت سے حجاج کا حج بھی اس کے سبب قبول فرمایا ہے۔ حضرت ذوالنّون مصریؒ بہت حیران ہوئے کہ نامعلوم احمد بن اسکافؒ کی کون سی ادا اللہ تعالیٰ کو بھا گئی ہے جو اس پر اس قدر فضل و کرم کیا گیا ہے۔

    حج سے فارغ ہو کر وہ سیدھے دمشق گئے اور احمد بن اسکافؒ سے ملاقات کر کے ان سے حج پر نہ جانے کا سبب دریافت کیا۔

    انہوں نے واقعہ بیان کیا تو ذوالنّونؒ نے فرمایا کہ مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے تمہارا حج قبول فرما لیا، بلکہ حجِ اکبر کا ثواب عطا فرمایا۔ احمد بن اسکافؒ یہ سن کر رونے لگے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ اگلے سال اللہ نے انہیں اس قدر مال دیا کہ خود فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے۔

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنالیا۔ وہ ایک مدّت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ ایک روز چند تند، سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آپہنچیں اور اُنھوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتّا بنالیا۔ چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور امن چین سے زندگی گزار رہی تھیں۔

    چیونٹیاں تعداد میں بہت تھیں۔ یوں اُس ڈھنڈار میں باپ، مائیں، ان کے بچے بچیّاں، نواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں اور پَر نواسے، ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کررہے تھے اور جیسا کہ ان کا ہے، وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں، صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں، اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔

    ایک دن بزرگ بِھڑ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کررہی تھی۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک تُوت کو دانتوں میں تھامے، اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے، مگر چونکہ کم زور ہے، نیچے آرہی ہے۔ اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک تُوت اس کے منہ سے پھر گر گیا۔

    چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔ آخرِ کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کام یاب ہوگئی۔ اب اس نے دانہ لبِ بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔ تھکن سے چُور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی: ہائے افسوس، میرے مولا، میں تو تھکن سے نڈھال ہوگئی!

    بزرگ بِھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی، اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آبیٹھی اور کہنے لگی: معاف کرنا، یہ تو تمھیں یقیناً معلوم ہوگا کہ ہم، ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں۔

    چیونٹی بولی، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، آپ کا شکریہ۔ اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جُتا ہوا ہے۔ بھڑ بولی: بے شک زندگی ہے تو یہ سب کُچھ ہے، مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟

    ”کون سا کام“؟ چیونٹی بولی: آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمھیں عجیب لگا“ بِھڑ بولی: بالکل بیکار، تمھارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لیے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقّت سے انھیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کرلیتی ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لیے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!

    چیونٹی بولی: مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ کیا اس کام کے سوا، جو ہم کرتی ہیں، کوئی اور کام بھی ہے؟ ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جُتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلّے کو کام میں لاتی ہیں۔ ایسے میں تمھارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟

    بِھڑ نے کہا: ہم کبھی دانے کھینچنے اور انھیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسمِ سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں، حتّٰی کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!

    چیونٹی بولی: بہت خوب، تمھارا اپنا رنگ ہے، ہمارا اپنا ڈھنگ۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔

    تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے، لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمھارے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ہر کوئی تمھیں برا بھلا کہتا ہے، لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے، گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھُچی خوراک۔ ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:

    دانہ کش چیونٹی کو مَت سَتا مرے بھائی
    وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری

    اس کے برعکس تمھیں لوگ برے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

    کوئی یہ بھِڑ سے کہے جاکے اے ہمہ آزار!
    جو شہد دے نہیں سکتی تو ڈنک بھی مت مار

    بِھڑ کہنے لگی: ایسی باتیں کم زور لوگ کیا کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنا دل یہ سوچ کر خوش کرتے ہو کہ چیونٹیاں ہو اور بے آزار ہو اور شاعر نے تمھاری تعریف کی ہے، لیکن تم نے اِس زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔

    تم نے قصّاب کی دکان کا گوشت کبھی نہیں کھایا اور انگور کی بیلوں سے لٹکے انگوروں کے رس کا مزہ کبھی نہیں چکھا۔ ایک دن تمھاری زندگی اختتام کو پہنچ جائے گی اور تم مرجاؤ گی، زندگی کا لطف اٹھائے بغیر! لیکن جب ہم مریں گے تو دھوکا کھائے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔

    ہم نے دنیا کے عیش بھی کیے ہیں اور اپنے ڈنک سے لوگوں سے انتقام بھی لیا ہے۔ ہمارے ایک دن کی قدر و قیمت تمھاری عمر کے ایک برس سے بڑھ کر ہے۔ میں تو چاہتی ہوں کہ کوئی ستّر سالہ بدبخت شاعر ہماری تعریف نہ کرے۔

    چیونٹی نے تعجب سے کہا: اچھا تو تم لوگ قصّاب کی دکان کا گوشت بھی کھاتے ہو؟

    بھڑ نے کہا: ارے واہ! اگر تمھیں نہیں معلوم تو میرے ساتھ آؤ تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ ہم کیا کیا کارنامے کرتے ہیں۔

    چیونٹی نے کہا: تمھیں معلوم ہے میں تمھارے ساتھ پرواز نہیں کرسکتی۔ اگر سچ کہتی ہو تو مجھے اپنے ساتھ اڑا لے چلو تاکہ میں دیکھوں اور یاد رکھوں۔

    مغرور بِھڑ، چیونٹی کو اپنے کارناموں سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے چیونٹی کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور قصاب کی دکان پر لاکر زمین پر بٹھا دیا اور کہا: یہیں رہ اور دیکھ۔ پھر وہ اڑی اور بھیڑ کی دُم پر آ بیٹھی جسے قصّاب نے ذبح کرکے لوہے کے حلقے کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔

    جونہی قصّاب گوشت لینے کے لیے اٹھا، بِھڑ خوف زدہ ہوکر اوپر کو اُڑی۔ قصّاب بھڑوں کی روز روز کی مصیبت سے تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنا بُغدہ اٹھایا اور بھیڑ کے جسم پر کچھ اس طرح مارا کہ کئی بِھڑیں ضرب کھا کر مر گئیں اور کئی نیم جان ہوکر زمین پر گرگئیں۔ چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ بھی انہی میں تھی۔

    چیونٹی جو اُس وقت ایک طرف دیکھ رہی تھی، آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنی ہمسایہ بھِڑ کا کھوج لگالیا۔ پھر اس سے کہنے لگی: مجھے بڑا دکھ ہے۔ ہم چیونٹیاں اس طرح کی زندگی جس میں ہر لمحہ خطرہ جان ہو، پسند نہیں کرتیں جب تک کہ کوئی بڑا مقصد ہمارے سامنے نہ ہو۔ تب تک ہمسایہ بھڑ مرچکی تھی اور جواب دینے سے قاصر!

    چیونٹی مردہ بِھڑ کا پاؤں منہ میں تھام اسے کھینچ کھانچ اپنے گھر میں لے آئی اور اسی دیوار پر چڑھ کر اوپر لے گئی۔ پھر اُسے خشک توت کے ساتھ رکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کی اور کہا: آؤ اس بِھڑ کے بدن کو تکّہ تکّہ کریں۔ اس کے اندر موجود زہر کہیں دور پھینک دیں اور اس کا گوشت ذخیرہ کرلیں، موسمِ سرما میں کام آئے گا۔

    (صدیوں پرانی سبق آموز کہانی جسے ڈاکٹر تحسین فراقی نے فارسی زبان سے اردو میں ڈھالا ہے)

  • خواہشات کا کشکول

    خواہشات کا کشکول

    جب انسان میّسر و موجود سے بڑھ کر خواہش کرتا ہے اور صبر و شکر، اعتدال اور قناعت کا راستہ ترک کردیتا ہے تو پھر یہ نفسانی خواہشات بہ آسانی اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور اس کے لیے نیک و بد میں‌ تمیز کرنا ممکن نہیں‌ رہتا۔ یوں‌ وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگتا ہے، ظلم، انصافی، حق تلفی غرض ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔

    پیشِ نظر حکایت ایک عظیم سچ اور آفاقی حقیقت کو ہمارے سامنے لاتی ہے، جس کے دو کردار بادشاہ اور فقیر ہیں جن میں‌ سے ایک کو ہم دولت مند اور بااختیار فرض کرسکتے ہیں اور دوسرے کو خدا کا فرماں‌ بردار اور قانع و شکر گزار کہہ سکتے ہیں۔ اس حکایت کے مختلف حوالے ملتے ہیں جن میں‌ اسے کبھی شیخ سعدی سے منسوب کیا گیا ہے تو کہیں‌ رومی سے۔ اسی طرح‌ یہ قصّہ مختلف صوفیائے کرام اور بزرگوں کے نام بھی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔

    یہ حکایت کچھ اس طرح‌ ہے:

    مشہور ہے کہ کسی عظیم سلطنت کے فرماں‌ روا کا سامنا ایک درویش سے ہوا۔ ”بادشاہ نے بصد عجز و نیاز اس سے کہا، مانگو کیا مانگتے ہو؟” اس درویش نے اپنا کشکول آگے کر دیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔

    ”حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔” بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے، انگوٹھیاں اتاریں، جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں، لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانچی کو ہیرے جواہرات کی بوری سمیت طلب کرلیا۔

    خزانچی اپنے ملازموں کے ساتھ ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی اور حکم دیا کہ جواہرات اس فقیر کے کشکول میں بھر دیے جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی لیکن دیکھا کہ کشکول پھیلتا جارہا ہے اور اس کا پیٹ بھر کے ہی نہیں‌ دے رہا۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات اس درویش کے کشکول میں‌ چلے گئے۔

    سبھی حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ادھر بادشاہ کو ایک فقیر کے آگے نہ صرف اپنی بے بسی کا احساس ستانے لگا بلکہ اس نے اسے اپنی توہین اور بے عزّتی تصور کیا۔ بادشاہ کے حکم پر جواہرات کی مزید بوریاں لائی گئیں‌ اور کشکول بھرنے کی کوشش کی گئی، لیکن نتیجہ وہی نکلا۔

    شاہی خزانہ حتّٰی کہ وزرا کی تجوریاں‌ تک الٹ دی گئیں، لیکن کشکول نہیں‌ بھرا۔ تب بادشاہ نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے درویش سے اس کی حقیقت دریافت کی۔

    درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹ دیا اور کچھ کہے بغیر وہاں‌ سے جانے لگا۔ بادشاہ نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اپنی اور اس کشکول کی حقیقت اس پر منکشف کی جائے۔

    ”بادشاہ نے کہا، اے خدا کے مقرّب بندے، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟” درویش مسکرایا اور کہا۔

    ”اے نادان! یہ خواہشات کا بنا ہوا کشکول ہے، جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔

  • دو درویش اور دنیا داری

    دو درویش اور دنیا داری

    یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

    کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

    اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

    بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

    درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

    بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

    بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

    اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

    بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

    جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

    اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

    بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

    اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔

  • حکایت: درویش کی بے خوفی

    حکایت: درویش کی بے خوفی

    ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں اور خدمت گاروں‌ کے ساتھ جنگل میں‌ شکار کی غرض‌ سے گیا، جہاں اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی۔

    وہ فقیر گرد و پیش سے بے نیاز اور ہر قسم کے خوف سے آزاد نظر آیا۔ گھنے جنگل میں‌ موذی جانور، حشرات اور درندوں‌ سے تو ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے، مگر بادشاہ نے اس کے چہرے پر خاص اطمینان دیکھا اور اسے اس شخص کی ڈھٹائی اور بے وقوفی تصور کیا۔

    بادشاہ اور اس کے مصاحب جب اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے وزیر سے کہا کہ ایسے فقیر بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

    یاد رہے! بادشاہی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے فوری نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو، تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔

    اس پر بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت ہی کر دیجیے کہ دنیا اور آخرت دونوں‌ سنور جائیں۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ ابھی جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا اور جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    شیخ سعدیؒ سے منسوب یہ حکایت ہمیں‌ بتاتی ہے کہ حرص اور لالچ ترک کرکے ہی انسان کو قلبی سکون اور دائمی راحت حاصل ہوتی ہے۔

    مال دار اور خوش حال بھی جان لے کہ غریب کی طرح‌ وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے کفن کے سوا کچھ نہ لے جاسکے گا۔

  • حکایت: انوکھے کھانے کی حیرت انگیز قیمت!

    حکایت: انوکھے کھانے کی حیرت انگیز قیمت!

    حضرت بہلول اپنی غیر معمولی ذہانت اور دانائی کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اپنی فکر و تدبر کی عادت اور بہترین حسِ مزاح کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات اور معاشرت پر گہری نظر رکھتے تھے۔

    بہلول دانا سے کئی حکایات منسوب ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں محفوظ اس حکایت میں‌ بھی ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔

    یہ حکایت کچھ یوں‌ بیان کی جاتی ہے. بغداد کے بڑے بازار میں ایک فقیر نان بائی کی دکان کے سامنے سے گزرا جہاں انواع و اقسام کے کھانے بھی چولھے پر چڑھے ہوئے تھے جن سے بھاپ نکل رہی تھی۔ ان کھانوں کی خوش بُو ان کی لذت اور ذائقے کا پتا دی رہی تھی۔ فقیر کا دل للچایا تو اس نے اپنے تھیلے میں سے ایک سوکھی روٹی نکالی اور ایک دیگ کی بھاپ سے اسے نرم کر کے کھانے لگا۔ نان بائی چپ چاپ یہ تماشا دیکھتا رہا۔ جب فقیر کی روٹی ختم ہو گئی اور وہ جانے لگا۔ تو اس کا راستہ روک لیا اور پیسے مانگے۔

    کون سے پیسے؟ فقیر نے بے بسی اور حیرت سے پوچھا۔ نان بائی نے کہا کہ تُو نے میرے کھانے کی بھاپ کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس کی قیمت مانگ رہا ہوں۔ وہاں بہلول دانا بھی موجود تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے مداخلت کی اور نان بائی سے کہا کہ کیا اس غریب آدمی نے تمھارا کھانا کھایا ہے جو پیسے ادا کرے۔ نان بائی نے کہا کھانا تو نہیں کھایا مگر میرے کھانے کی بھاپ سے فائدہ تو اٹھایا ہے، اسی کی قیمت مانگ رہا ہوں۔

    اس کی بات سن کر بہلول دانا نے سر ہلایا اور اپنی جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے۔ وہ ایک ایک کر کے ان سکوں کو زمین پر گراتے جاتے اور نان بائی کی طرف دیکھ کر کہتے یہ لے پیسوں کی کھنک سمیٹ لے، یہ لے اپنے کھانے کی بھاپ کی قیمت ان سکوں کی کھنک۔ اسے وصول کر لے یہ آواز ہی تیرے کھانے کی خوش بُو کی قیمت ہے۔

    وہاں کئی لوگ جمع ہو چکے تھے جو نان بائی کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ تب حضرت بہلول نے کہا اگر تُو اپنے کھانے کی بھاپ اور خوش بُو بیچے گا تو اس کی یہی قیمت ادا کی جاسکتی ہے، اسے بھی قبول کرنا پڑے گا۔