Tag: مشہور حکایت

  • میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔

    عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں‌ عافیت جانی۔

    ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

    اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔

    تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“

  • بھیڑیے کی آنکھ

    بھیڑیے کی آنکھ

    یہ ایک بھوکے بھیڑیے کی کہانی ہے جو شکار کی تلاش میں گھومتے گھومتے ایک ایسے غار کے دہانے پر آپہنچا جس کے اندر سے تازہ گوشت کی بُو آرہی تھی۔

    اسے سخت بھوک لگی تھی اور تازہ گوشت کی بُو بھیڑیے کو بے حال کیے دے رہی تھی۔ وہ غار کے اندر چلا گیا۔

    بھیڑیا اندر داخل ہوا تو وہاں اس کی ملاقات پرانے دوست چیتے سے ہوگئی جو ایک بکری اڑا رہا تھا۔ بھیڑیے نے اسے دیکھا تو حیرانی سے بولا: ارے تم! کہاں غائب تھے اتنے عرصے سے؟ بڑے مزے آرہے ہیں اکیلے ہی پوری بکری ہڑپ کرو گے کیا۔

    چیتا بولا، ہاں بھائی! شکار کے لئے محنت کی اور اب اس محنت کا پھل کھا رہا ہوں، میرا پیٹ بھر چکا ہے، جو بچا ہے وہ تم کھا سکتے ہو۔ اس دعوت کو بھیڑیے نے غنیمت جانا اور جانور کا بچا کھچا گوشت نوچنے لگا۔ چیتے نے اسے غور سے دیکھا اور بولا، سب خیریت تو ہے؟ بڑے کمزور دکھائی دے رہے ہو حالانکہ پہلے تو اچھے بھلے صحت مند تھے۔

    بھیڑیا اس کی بات سن کر کہنے لگا، بس کیا بتاؤں! تم تو آسانی سے شکار کر کے کھا لیتے ہو مگر مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے۔ قریب کے گاؤں سے روزانہ جنگل میں بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چَرنے آتا تو ہے مگر ریوڑ کے ساتھ محافظ کتّے ہوتے ہیں اس لئے میں ان کا شکار نہیں کر پاتا۔

    چیتے بھائی! تم مجھے کوئی آئیڈیا دو کہ میں کس طرح ان بکریوں کا شکار کروں اور واپس پہلے جیسی صحت بنا سکوں؟

    چیتے نے اپنے دوست کی پریشانی سنی تو فوراً دماغ لڑایا اور کہا، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے، تم اس بکری کی کھال تم لے لو اور کل صبح اسے پہن کر بیٹھ جانا پھر جیسے ہی ریوڑ آئے تم بکری کا بھیس بدل کر اس میں چپکے سے شامل ہو جانا اور آگے کیا کرنا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو۔

    سمجھ گیا چیتے بھائی! کیا آئیڈیا دیا ہے آپ نے واہ! چیتے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیڑیے نے وہاں سے کھال سمیٹی اور رخصت ہوگیا۔

    پھر روزانہ کی طرح جب اگلے دن بکریوں کا ریوڑ آیا تو بھیڑیا وہ کھال پہن کر چپکے سے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہوگیا اور ان کے باڑے میں پہنچ گیا۔ اس نے یہ راستہ دیکھ لیا تھا اور سب سے آنکھ بچا کر قریب ہی رہنے لگا۔ اس کے ساتھ روزانہ رات کو ایک بکری کو اپنی خوراک بنانا بھی شروع کر دیا۔ بھیڑیا بڑا خوش تھا کیوں کہ وہ بغیر محنت کے کئی روز سے ایک بکری کو اپنی خوراک بنا رہا تھا، کچھ دن گزرے تو مالک کو بکریوں کے کم ہونے پر تشویش ہوئی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سیکیورٹی ہونے کے باوجود بکریاں کیسے کم ہورہی ہیں؟

    مالک نے ایک چالاک لومڑی کو اس کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

    چالاک لومڑی ایک رات بکریوں کے باڑے میں گئی۔ اس وقت سب بکریاں آرام کررہی تھیں۔ وہ دور بیٹھ کر ایک ایک بکری کو بغور دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی نظر ایک ایسی بکری پر پڑی جو ایک آنکھ سے سو رہی تھی اس طرح کہ ایک آنکھ کھولے دوسری بند کر لے اور دوسری کھولے تو پہلی آنکھ بند کر لے۔ اسے یہ بہت عجیب لگا۔ وہاں سے نکل کر لومڑی نے ساری بات مالک کو بتا دی۔ مالک جانوروں کی عادات سے خوب واقف تھا، اس نے جان لیا کہ اس طرح تو بھیڑیا سوتا ہے۔ اس نے اگلی رات اس دھوکے باز بھیڑیے کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے انجام تک پہنچا دیا۔

    سچ کہتے ہیں دھوکے بازی اور فریب سے چند روز کا فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے، مگر دائمی اور مستقل کام یابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ عارضی فائدے کے لیے ایسی کوئی کوشش نہ کریں جس کے بعد پچھتانا پڑے۔

    (جانوروں کی حکایات سے انتخاب)

  • شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہوگیا تھا۔

    وہ بہت کم شکار کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکل پاتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہو گیا۔ اس حالت میں بھوک سے جب برا حال ہوا تو اس نے اپنے غار کے آگے سے گزرنے والی ایک لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔” فکر نہ کرو، میں پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کردوں گی۔”

    یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لومڑی تو ایک چالاک جانور مشہور ہی ہے۔ وہ جنگل کے کسی بھی جانور سے خوش کہا‌ں تھی۔ اسے سبھی برے لگتے تھے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا تھا۔

    یہ خبر سن کر جنگل کے جانور اس بوڑھے اور معذور کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا تھا، لیکن لومڑی کے کہنے پر روزانہ ایک ایک کرکے عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کو کسی طرح شکار کرکے اپنی بھوک مٹانے لگا تھا۔

    ایک دن لومڑی نے خود بھی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسے آواز دی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔” باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”

    لومڑی جو بہت چالاک تھی، اس سے نے جواب دیا۔” نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔”

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں تک پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذّت محسوس کرنے لگا۔

    یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے۔

    اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا محض دکھاوا ہے۔ یہ باتیں اس شخص تک پہنچیں تو اسے بہت صدمہ پہنچا۔ وہ واقعی اپنی بری عادات ترک کرچکا تھا اور ایک اچھا اور عبادت گزار شخص بن گیا تھا۔

    اس کا دل ان باتوں سے تھوڑا ہوا تو وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔

    سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کی رائے کو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے اور اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور برُوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ دوسری عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کرکے اچھا مشہور ہونے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا جان کر اس سے دور رہنا چاہیں‌۔ اس سے عافیت یہ ہے کہ وہ لوگوں‌ کے ہجوم اور بلاوجہ جھگڑوں اور وقت کے ضیاع سے بچا رہتا ہے اور نیکی اور عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

  • حکایت: بطخ کا عذر

    حکایت: بطخ کا عذر

    ایک بطخ بڑی پاک وصاف ہو کر اور نہا دھو کر پانی سے باہر آئی اور سفید کپڑے پہن کر مجلس میں چلی آئی۔

    اس نے کہا کیا کوئی ایسی شخصیت بتا سکتے ہو جو میری طرح پاکیزہ طبیعت والی اور پاک و صاف دھج والی ہو؟ میں ہر لمحہ ٹھیک ٹھاک اچھی طرح غسل کرتی ہوں اور با رہا پانی پر مصلّیٰ بچھاتی ہوں، میری طرح اور کون پانی پر کھڑا ہو سکتا ہے؟ میری کرامات میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ میں تمام پرندوں میں بڑی زاہدہ ہوں، میرا فکر و تخیل بھی پاک ہے، میرے کپڑے بھی ہمیشہ پاک و صاف ہوتے ہیں اور میری جائے نماز بھی پاک ہوتی ہے، مجھے پانی کے بغیر کہیں آرام نہیں ملتا۔ کیونکہ میری جائے پیدائش ہی پانی میں ہے۔ اگرچہ میرے دل میں غم والم کا ایک جہان پوشیدہ ہے مگر میں نے اس غم کو دھو ڈالا ہے کیونکہ پانی ہمیشہ میرا ساتھی ہوتا ہے، اس لیے میں خشکی میں گزارہ نہیں کر سکتی اور چونکہ میرا تمام کاروبار پانی ہی سے وابستہ ہے، اس لیے میں پانی سے کنارہ نہیں کر سکتی۔ جو چیز بھی دنیا میں ہے وہ سب پانی ہی سے زندہ ہے اس لیے میں پانی سے قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ اندریں حالات میں وادیٔ معرفت کیسے طے کر سکتی ہوں؟ اور سیمرغ کے ساتھ کس طرح پرواز کر سکتی ہوں؟ جو ہمیشہ پانی کے ایک چشمے یا حوض میں رہنے کا محتاج ہو، وہ سیمرغ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اور اس سے کیسے اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے؟ اور جس کی جان آگ کی ایک چنگاری سے جل جاتی ہو وہ آگ کے سمندر میں کیسے گزر سکتا ہے؟

    اس مجلس میں ہد ہد بھی موجود تھا، اس نے بطخ کو جواب ​دیا۔

    اے پانی میں خوش رہنے والی! یہ پانی تو تیری جان کے ارد گرد آگ کے مانند بنا ہوا ہے۔ خوش گوار پانی کے اندر تُو خوابِ غفلت کا شکار ہو چکی ہے۔ پانی کے قطرے کے بغیر ساری آب و تاب ختم ہو جاتی ہے۔ پانی تو میلے اور ناشستہ چہرے کے لیے ہوتا ہے، اگر تیرا چہرہ گندا ہو تو پھر پانی کی جستجو کر، آخر کب تک یہ صاف پانی تیری ضرورت رہے گا اور کب تک تیرا میلا چہرہ دیکھنے کے قابل ہو گا؟

    (منطق الطّیر سے ماخوذ و ترجمہ)

  • ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    یہ بہت پرانا قصّہ اُن دو آدمیوں کا ہے جو کسی زمانے میں پیدل سفر کو نکلے تھے۔ ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب۔

    دونوں کی مڈ بھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس انتظار میں تھے کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دستر خوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جائے۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ دونوں میں سے کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے توشہ کھولنے میں پہل نہ کی۔ دراصل وہ دونوں نہایت ہی کنجوس تھے۔

    بڑی دیر کے بعد بادلِ ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی، اس نے روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی سے پانی میں ڈبویا اور پھر فوراً توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ جس پانی میں روٹی کو ڈبویا تھا، اسے غٹا غٹ پی گیا۔ پھر آرام سے ایک طرف لیٹ گیا۔

    اب دوسرے سے بھی شاید رہا نہیں‌ جارہا تھا۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، لیکن پھر ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے روٹی تو نکالی، لیکن نہ تو اسے توڑا اور نہ ہی پانی میں‌ ڈالا بلکہ اس انداز سے روٹی کو برتن کے اوپر پکڑا کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی پر پڑے۔ اس نے گویا پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر وہ پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔

    وہ آدمی جس نے روٹی کا ٹکڑا پانی میں‌ ڈبویا تھا، اس نے بھی یہ دیکھا اور سوچنے لگا کہ دوسرا آدمی بھی اس جیسا ہی ہے۔ تھے تو دونوں ہی حد درجہ بخیل اور کنجوس، مگر پہلا آدمی جس نے روٹی کو پانی میں بھگویا تھا، دوسرے والے کی حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔

    اب وہ ایک دوسرے کو گویا پہچان چکے تھے اور سخت ضرورت اور بھوک میں بھی کھانا بچا کر رکھنے والی حرکت کرتا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے خیالات اور طبیعت میں یکسانیت موجود ہے اور تب انہوں نے آپس میں تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے اپنے اپنے سفر کا مقصد ایک دوسرے کو بتایا تو دونوں ہی کو بہت خوشی ہوئی، کیوں‌ وہ ایک ہی مقصد لے کر گھروں سے روانہ ہوئے تھے۔

    ان کا مقصد تھا رشتہ تلاش کرنا۔ ایک کو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہیے تھا اور دوسرا اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ان کے خاندانوں کے درمیان مثالی رشتہ قائم ہو سکے گا۔

    یوں‌ ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک بخیل کی بیٹی سے ہوگئی۔

    (ماخوذ از قصّۂ قدیم)

  • تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    کہتے ہیں مشہور بادشاہ نوشیروان نے ایک عالی شان محل تعمیر کروانے کی غرض سے جس مقام اور جگہ کا انتخاب کیا، وہاں ایک بڑھیا کی جھونپڑی بھی تھی۔

    معماروں نے بادشاہ کے حکم پر کام شروع کردیا، لیکن جیسے جیسے محل کی عمارت تعمیر کرتے گئے اور جب اس کی وسیع چار دیواری بنانے کا موقع آیا تو جھونپڑی ان کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

    نوشیروان کو اس کا علم ہوا تو اس نے بڑھیا کو طلب کرکے اس سے کہا، ’’جو تیری مرضی ہو تو یہ جھونپڑی مجھے دے دے، اس کے بدلے جہاں کہیں تیری خوشی ہو، محل بنوا دوں گا۔‘‘

    بڑھیا نے نہایت ادب اور عاجزی سے کہا، ’’مجھے اس سے زیادہ اور کس بات کی خوشی ہوگی ہے کہ اسی جگہ رہوں تو ہر روز آپ کا دیدار کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

    بادشاہ نے کہا۔ ’’جیسے تیری خوشی بڑھیا، میں تجھ پر اس حوالے سے کوئی جبر نہیں کرتا۔‘‘ نوشیروان کے حکم پر جھونپڑی ویسی کی ویسی ہی رہی اور محل تعمیر کرلیا گیا۔ وہ جھونپڑی اب اس عالی شان قصر کے ایک طرف وسیع باغ کے احاطے میں آچکی تھی۔

    اس بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی، وہ آتے جاتے قصر شاہی میں گندگی کرتی، لیکن نوشیروان کچھ نہ کہتا۔ اس نے پہلے بھی بڑھیا پر جبر نہیں‌ کیا تھا اور بعد میں بھی اس کی ناگوار حرکت یا نالائقی پر اسے کچھ نہ کہتا۔ وزرا اور درباری نوشیروان کے ضبط و برداشت کے قائل ہو چکے تھے۔ اس کا عدل تو مشہور ہی تھا، اب اس کی برداشت اور تحمل مزاجی بھی ان کے سامنے تھی۔

    جب نوشیروان نے اس منزلِ فانی سے کوچ کیا اور اس کی وفات کے لگ بھگ تین سو سال کے بعد ایک بادشاہ کسی سبب اپنے مصاحبوں سمیت اس کی قبر پر آیا اور اس کے مرقد کو کھودا تو دیکھا کہ اس کا مردہ جسم گویا گہری نیند میں ہے، اور اس کی انگلی میں بڑی جواہر جڑی انگوٹھیاں موجود ہیں جن پر تین نصیحتیں لکھی ہوئی ہیں۔

    ایک انگوٹھی پر لکھا تھا، ’’دوست دشمن سب سے دار مدار رکھو۔‘‘

    دوسری پر ’’سب کام مشاورت سے کرو۔‘‘ اور تیسری پر نقش عبارت تھی ’’ قناعت پکڑو۔‘‘

    تب اس بادشاہ نے اپنے وزیروں اور مصاحبوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ نوشیروان نے ان نصیحتوں پر خوب عمل کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تین سو برس بعد بھی ان کا عدل و انصاف اور رحم دلی مشہور ہے۔

  • منہ سے نکلی بات پرائی ہوئی…!

    منہ سے نکلی بات پرائی ہوئی…!

    آپ نے سنا ہو گا کہ منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بات جو منہ سے نکلی پرائی ہوئی۔ دنیا بھر کی تہذیب و ثقافت اور لوک ادب میں‌ ایسی کہاوتیں، محاورات اور امثال عام ہیں جن سے انسان کو شعور اور آگاہی ملتی ہے۔ ایک ایسا ہی سبق آموز قصہ ہم یہاں آپ کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    یہ ایک چھوٹی سی ریاست کے بادشاہ اور اس کے وزیرِ خاص کا قصہ ہے۔اس بادشاہ کو کسی نے برہنہ سَر نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت اپنا سَر ڈھانپ کے رکھتا تھا۔ عوام اور خواص سبھی اس کی وجہ جاننا چاہتے تھے، لیکن بادشاہ سے اول تو ہر کوئی اس کی وجہ پوچھ نہیں سکتا تھا اور اگر کسی نے یہ جرات کی بھی تو بادشاہ نے کمال مہارت سے اسے ٹال دیا۔

    ایک روز وزیرِ خاص نے بڑی ہمت کر کے بادشاہ سے سَر کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنے کی وجہ پوچھ لی۔ حسبِ سابق بادشاہ نے وزیر کا دھیان بٹانے کی کوشش کی اور چاہا کہ کسی طرح وہ اپنے سوال سے پیچھے ہٹ جائے، لیکن وزیر نے بھی بادشاہ کو یہ راز بتانے پر مجبور ہی کر دیا۔ تاہم بادشاہ نے اسے کہا کہ وہ یہ راز اپنی حد تک رکھے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اس شرط کو توڑا تو اسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔

    بادشاہ نے بتایا کہ اُس کے سَر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنا سر ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔

    بادشاہ اور وزیر کے درمیان ہونے والی اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ پورے شہر کو یہ بات پتا چل گئی۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور اسے سخت سزا دینے کا حکم جاری کردیا۔

    وزیر بہت سمجھ دار تھا۔ وہ جھٹ سے بولا، "بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کے راز کی حفاظت کرے گا۔ لہٰذا جتنی سزا کا حق دار میں ہوں اُتنی آپ کو بھی ملنی چاہیے۔”

    بادشاہ نے یہ سنا تو اس کا غصہ جاتا رہا اور اس نے وزیر کو معاف کردیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے انعام سے بھی نوازا۔ اس نے وزیر سے سیکھ لیا کہ انسان خود اپنے راز کی حفاظت کرتا ہے اور اگر وہ خود ایسا نہ کرے تو کسی دوسرے سے کیسے اس کی توقع کرسکتا ہے۔