Tag: مشہور حکیم

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    حیدرآباد(دکن) کا قدیم یونانی دوا خانہ، عثمانیہ دوا خانہ اور ان کی خدمات کا دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ دور دراز سے مریض یہاں آتے تھے۔

    معالجین ان دنوں جس تحمل اور دل جمعی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ مریض کے حق میں دوا سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔

    ایک حکیم آشفتہ ہوا کرتے تھے، ان کا مطب چادر گھاٹ کے آس پاس تھا۔ حکیم نابینا ہمارے بچپن میں نامی گرامی حکیم تھے، انہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرتے تھے۔ شاید حسینی علم میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ انہیں اپنے وقت کا حاذق سمجھا جاتا تھا۔

    پرانے شہر کے ایک اور ڈاکٹر سکسینہ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے جو علی الصبح سے رات دیر گئے تک خدمات کے لیے دست یاب رہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جب شہر میں ڈاکٹروں کا فقدان تھا اور مذکورہ ڈاکٹروں اور حکما نے مفت خدمات انجام دیں۔

    ( اپنے وقت کے نہایت قابل اور ماہر حکما اور طبیبوں سے متعلق یہ سطور ’حیدر آباد(دکن) جو کل تھا‘ کے عنوان سے پروفیسر یوسف سرمست کے مضمون سے لی گئی ہیں)

  • بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    حکیم کفایت اللہ خاں بے حد غیور طبیعت کے حامل تھے۔ نوابین اور راجے مہاراجے خطیر معاوضے کی پیش کش کرتے تھے، مگر حکیم صاحب کو یہ سب گوارا نہ تھا۔

    نواب رام پور کی سفارش پر ایک مرتبہ نواب صاحب ٹونک کی مدقوق ہم شیر کے علاج کے لیے آمادہ ہوئے۔

    وہ کسی بھی علاج سے تن درست نہ ہوسکی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کا علاج کیا اور کچھ عرصے بعد مریضہ کی صحت رفتہ رفتہ عود کر آئی۔

    نواب ٹونک نے بہ اظہارِ مسرت نوابی انعامات سے نوازا، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ مصاحبین بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔

    پھر کیا تھا، لاکھوں کے انعامات جمع ہوگئے، لیکن حکیم صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔

    اپنے ملازمین اور مصاحبین کو واپسی کے لیے رختِ سفر کی تیاری کا حکم دیا۔

    نواب ٹونک کے ذاتی انعامات قبول کرلیے۔ دیگر عطیات و انعامات یہ کہہ کر یوں ہی چھوڑدیے کہ میں چندے کے لیے نہیں آیا تھا۔

    اس کے بعد اصرار کے باوجود کبھی ٹونک نہیں گئے۔

    ( حکیم عبد الناصر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ”اطبا کے حیرت انگیز کارنامے“ سے انتخاب)