Tag: مشہور خاکے

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • تھینکس ٹو نیاز بابا…

    تھینکس ٹو نیاز بابا…

    بھارتی فلموں کے مکالمہ نویس اور کہانی کار جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرۂ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی سے بطور مکالمہ نویس کیا تھا۔ یہ بات ہے 1977 کی۔

    فلم ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ کو شاید ہم سرحد پار کی فلم انڈسٹری کی، پڑوسی وڑوسی ملک کی کہانی کہہ کر ہم آسانی سے آگے نہیں‌ بڑھ سکیں‌ گے۔ محبّت کے جنون اور جذبے پر یہ فلم جاوید صدیقی کے قلم ہی سے نکلی تھی۔ اس کے علاوہ امراؤ جان، بازی گر، ڈر، غدار، ہم دونوں، چاہت، بازو، دِل کیا کرے، تال، زبیدہ، ہم کسی سے کم نہیں، کوئی مِل گیا جیسی معروف فلمیں بھی جاوید صدیقی کے کریڈٹ پر آئیں۔

    جاوید صدیقی محض 17 سال کی عمر میں‌ ممبئی چلے گئے تھے جہاں فلم نگری میں اپنی قسمت آزمائی۔ جاوید صدیقی زندگی کی اسّی سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں۔ جاوید صدیقی فلمی دنیا سے قبل اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے اس سینئر قلم کار اور مصنّف نے کئی شخصیات کے خاکے بھی تحریر کیے جن پر مشتمل کتاب "روشن دان” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں انھوں نے اعتراف کیا کہ نوّے فلمیں لکھنے کے باوجود ان کے اندر کہیں نہ ادب کے تئیں تشنگی باقی تھی اور ایک تخلیقی کسک موجود تھی جس نے یہ کتاب لکھنے کے لیے انہیں مہمیز کیا۔

    جاوید صدیقی کی اس کتاب سے ہم ایک دل چسپ قصّہ یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ قصّہ جاوید صدیقی نے اک بنجارہ کے نام سے نیاز حیدر کا خاکہ قلم بند کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ انہی کی زبانی سنیے:

    بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔ جب تک وشوا متر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے، جس کا جو جی چاہتا کھا لیتا اور جو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب و غریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوتِ شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکرا گئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہو گئے۔

    دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سو کر اٹھے اور حسبِ معمول تیّار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہو گئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔

    ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہو چکے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

    اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جا دھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

    ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘ بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں؟‘‘

    ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کر کے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔‘‘

    نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں: جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں، بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دو چار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھا رہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپاؤنڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائیں گے۔ بابا کمپاؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس…‘‘

    کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔

    بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس… لارنس!…‘‘ اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔

    جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آؤ آؤ اندر بیٹھو… چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آؤ ساب! آجاؤ آ جاؤ اپنا ہی گھر ہے۔ ‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تُو لارنس؟… ماں کیسی ہے؟… بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘

    اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پیئیں گے بابا؟‘‘

    ’’وہسکی…‘‘ بابا نے کہا۔ لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لا کے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چینی کچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟… ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو… کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھاؤ گے؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بابا کی اتنی آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آ گئے ہوں۔

    تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آ گئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پاؤ بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیجیے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

    کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت Serious تھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کر کے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے واپس آ چکی ہے۔ تھینکس ٹو نیاز بابا….

    اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

    صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سَر جھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔‘‘

  • ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    میں نے سوچا کہ سیّد ضیا جالندھری کی شاعری پر لکھنے والے تو مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ میں شاید پورا انصاف نہ کر سکوں۔ البتہ میں ایک عرصہ سے ان کی شخصیت کے بارے میں ایک ایسا مضمون لکھنا چاہتاہوں جو خاکے سے بڑھ کر اور ان کے شایانِ شان ہو۔

    میں نے اس شخص کی طرح جسے راہ چلتے بائیسکل کا ایک پیڈل مل گیا تھا اور اس نے گھر جا کر بیوی سے کہا تھا کہ اسے سنبھال کر رکھ لو، پیسے جمع کر کے اس کے ساتھ بائیسکل لگوا لیں گے، خاکے کاعنوان بھی سوچ لیا تھا، ’’باتوں سے خوش بو آئے۔‘‘ اور کمپیوٹر میں محفوظ کر لیا تھا کہ خاکہ لکھ کر اس کا یہ عنوان رکھوں گا۔

    پھر ایک بار میں ان کے ہاں جا کر بیٹھ گیا۔ ان پر لکھے ہوئے خاکے، کوائف اور کچھ دیگر معلومات حاصل کیں۔ کچھ سوال و جواب بھی کیے۔ تھوڑی بہت گفتگو کی اورنوٹس لیے۔ یوں سمجھیے میں نے عمارت کی تعمیر کے لیے سارا ضروری میٹیریل جمع کر لیا۔ لیکن شاید کسی اپنے سے بڑے کی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت دشوار کام ہوتا ہے۔

    خصوصاً جب شخصیت بھی ضیا جالندھری جیسی پُر وقار، خوب صورت اور قابلِ احترام ہو تو یہ مشکل دو چند ہو جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں، عمارت محض اینٹ، پتھر، لکڑی اور سریے سے تو نہیں بنائی جاسکتی۔ ان چیزوں کو جوڑنے کے لیے چونے، گارے، ریت اور سیمنٹ وغیرہ کے مسالے کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن جب درمیان میں ادب، احترام اور احتیاط کی رکاوٹیں ہوں تو راج گیری کیسے ہو۔

    حالا ں کہ میں نے راج مستریوں کو مساجد کے گنبدوں اور مقدس مزاروں کی تعمیر کے دوران مچانوں پر حقّوں اور جوتیوں سمیت کام کرتے دیکھا ہے، لیکن میں ایسا نہیں کرسکا۔یہی ڈر رہا کہ کہیں کوئی اینٹ ٹیڑھی نہ لگ جائے۔ کوئی دیوار بد گنیا نہ رہ جائے۔ کہیں چونا زیادہ یا کم نہ لگ جائے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو آپ متعلقہ شخصیت سے عمر یا مرتبے میں سینئر یا کم از کم برابر ہوں۔ جیسے ان کے دو خاکہ نگار جنابِ ابوالفضل صدیقی اور ممتاز مفتی صاحب تھے۔

    اسی لیے ایک تیسرے کم عمر خاکہ نگار نذرالحسن صدیقی کے خاکے میں وہ بات نہیں جو دوسرے صاحبان کے لکھے خاکوں میں ہے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ایک اور شرط یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ شخصیت سے دیرینہ تعلق اور پوری واقفیت اور بے تکلفی ہو اور آپ کو اس کے بطون میں جھانکنے کی توفیق اور موقع ملا ہو۔ اگرچہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس شخص سے آپ کے دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں، آپ اس کے بارے میں صحیح معلومات بھی رکھتے ہوں (جیسے وقار بن الٰہی چالیس سال کے تعلق اور قربت کے باوجود میرے بارے میں یہ نہیں جان سکے کہ میں ٹائی باندھنے میں خود کفیل ہوں۔ کیوں کہ اس میں ٹیکنیک انوالو ہے اور میرا ذہن ٹیکنیکل کاموں میں خوب چلتا ہے) پھر بھی نہ جاننے سے تھوڑا جاننا بہتر ہے، لیکن میرے اسی دوست وقار بن الٰہی کا ہی کہنا ہے کہ جو شخص ایک ہفتہ کے لیے چین جائے وہ لوٹ کر مضمون ضرور لکھتا ہے۔ جو شخص پندرہ روز یا ایک ماہ وہاں گزار آئے وہ سفر نامہ لکھتا ہے اور جو شخص ایک سال یا اس سے زیادہ وہاں رہ کر لوٹے وہ کچھ نہیں لکھتا۔ اسی طرح بعض لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک آدھ سرسری ملاقات کے بعد بھی لمبا چوڑا خاکہ لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ بعض نے تو جیسے خاکہ پہلے سے لکھ رکھا ہوتا ہے اور کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اس میں فٹ ہوسکے۔

    یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاکے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ناپ کے نہیں۔ کوئی حصہ تنگ ہے تو کوئی کھلا۔ ممتاز مفتی صاحب کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ عمر میں ضیاء صاحب سے بڑے تھے اور بے تکلفی اور شوخی سے بخوبی کام لے سکتے تھے۔ انہوں نے بہت سے دوسرے اوکھے اولڑے لوگوں کی طرح 1989ء میں ضیا جالندھری کا خاکہ بھی لکھا اور اس کو ‘‘خوش گفتار‘‘ کا نام دیا۔ حالاں کہ اس سے پہلے وہ ضیا جالندھری صاحب کی خوش گفتاری سے بہت خائف رہتے تھے۔ 1985ء میں جب ہم نے رابطہ تنظیم بنائی تو میرے ان سے بعض ادیبوں کو رکن بنانے پر اختلافات رہے جن میں ضیا صاحب بھی شامل تھے۔

    میرا کہنا تھا کہ ضیا صاحب کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، لیکن مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنی باتوں سے اسی خوشبو کی وجہ سے اہلِ محفل کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور دوسرے نظر انداز ہوتے ہیں۔ بہرحال میں انہیں رضامند کرنے میں کام یاب ہوگیا اور ہم برسوں ضیا صاحب کی خیال انگیز نظموں، خوب صورت غزلوں اور خوشبو دار باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

    ممتاز مفتی صاحب نے اپنے خاکے میں لکھا، ’’ضیا باتوں سے یوں بھرا پڑا ہے جیسے شہد مٹھاس سے بھرا ہوتا ہے یا جیسے عوام سرکار کے خلاف شکایات سے بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک مزے کی بات یہ بھی لکھی کہ ’’جنابِ والا جالندھر نے بڑی بڑی شخصیات پیدا کی ہیں۔ مثلاً میرے دوستوں میں حفیظ تھا۔ کلیم ہے۔ فیضی ہے، ایچ یو بیگ ہے، مجید ہے، حافظ ہے، مسعود ہے۔ (افسوس اب ان میں سے زیادہ تر ہے کی بجائے تھے ہوگئے ہیں) ایک سے ایک نہیں ملتا، لیکن جالندھریت کی وجہ سے سب ملتے ہیں، ملتے رہتے ہیں۔ اتفاقاً نہیں التزاماً ملتے رہتے ہیں۔ جالندھریے کو میل جول کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ جالندھریا اجلا نہیں ہوتا۔ صابون سے منہ دھو کر آئے تو بھی میلا میلا لگتا ہے۔ کلف زدہ نہیں ہوتا۔دھوبی سے دھلے کپڑے پہنے تو بھی لگتا ہے، جیسے گھر کے دھلے ہوں۔جالندھریے میں ٹیں نہیں ہوتی۔ مونچھیں ہوں تو ہوں ان میں اکڑ نہیں ہوتی۔ لٹکی لٹکی رہتی ہیں۔ ضیا کو دیکھیے۔ اس میں لاہور ہے، کراچی ہے، اسلام آباد ہے، لیکن جالندھر نہیں ہے۔ خود کو جالندھری کہتا ہے، اس لیے ہم مانے لیتے ہیں۔ ورنہ جالندھر کا رنگ نہیں ہے۔‘‘

    جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ضیا جالندھری صاحب، جالندھر شہر میں پیدا ہوئے۔ پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد ہے۔ سیّد گھرانا تھا۔ نانی کے ہاں پیدائش ہوئی، انہوں نے ضیا نام رکھا، مگر والد نے کہا کہ میں تو نثار احمد نام رکھوں گا۔ اس طرح ننھیال اور ددھیال کے دیے ہوئے ناموں کو ملا کر ان کا پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد طے پایا۔ ان کے والد سید سردار احمد شاہ لاہور کے تھے۔ والدہ گورداس پور کی اور نانی کا تعلق جالندھر سے تھا۔

    ایک زمانے میں ہمارے شاعروں میں شہروں کی نسبت سے نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ بعض شہر بھی علمی اور ادبی حوالوں سے ایسے تھے کہ ان سے نسبت باعثِ فخر ہوتی تھی۔ بعض شہروں کے ناموں میں صوتی حسن اور ایک وقار سا ہوتا ہے جیسے لاہور، لکھنؤ، دہلی، ملیح آباد، اکبرآباد، انبالہ، ہوشیار پور اور جالندھر وغیرہ۔ ایسے نام شاعر ادیب کے نام کے ساتھ لگ جاتے تو بھرپوریت کا احساس ہوتا۔

    اب راولپنڈی، سرگودھا، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور اٹک وغیرہ کو کوئی اپنے نام کے ساتھ کیا لگائے۔ کیوں کہ راولپنڈی میں پنڈ، سرگودھا میں گودھا، شیخو پورہ میں شیخو، گوجراں والا میں گوجر یا گاجر اور اٹک پورے کا پورا اتنے غیر شاعرانہ ہیں کہ اس سے بہتر ہے آدمی والد کے نام کے ساتھ چھوٹی ’ی‘ کا اضافہ کر کے اکبری، شاہدی، حمیدی، رفیقی یا گھر کے مختلف حصّوں کے حوالے سے فرشی، سقفی اور دریچوی وغیرہ بن جائے۔

    اگر طالبِ علمی کے زمانے میں میرے قصبے کا نام فاروق آباد کی بجائے چوہڑکانہ نہ ہوتا تو شاید میں منشا فاروق آبادی ہوتا۔ کوئی بھی ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص چوہڑکانوی بننے سے تو رہا۔ بھلا چوہڑ کا نہ بھی کوئی نام تھا۔ ایک تو چوہڑا، اوپر سے کانا۔

    (معروف ادیب اور افسانہ نگار منشا یاد کی کتاب ‘حسبِ منشا’ سے اقتباس)

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘

  • ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہو رہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔

    شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تو وہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔ کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیے یہ ایک مصیبت ہو گئی تھی، اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چناں چہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے، مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘

    بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔

    چناں چہ اس نشست میں بلاتکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک اس بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا، مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

  • یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضع دار شرفا میں سے تھے جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔

    ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔

    جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں۔’’ گلے میں ٹپکا یا گلو بند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔

    گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کر لیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔

    آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسیّد سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘تہذیبُ الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سر سیّد سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلّے سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔

    صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیہ لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔

    غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کا مطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔

    نمک کے محکمے میں ادنٰی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔

    (صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی نے علم و ادب میں‌ ممتاز میر ناصر علی دہلوی کا یہ خاکہ کاغذ پر اتارا تھا جس سے ہم نے چند پارے یہاں‌ نقل کیے ہیں)