Tag: مشہور خطاط

  • عربی خط بعد از اسلام

    عربی خط بعد از اسلام

    ظہورِ اسلام کے وقت تک خط، خطۂ عرب یا دوسرے علاقوں میں، کچھ زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھا۔ علمُ الخط بالعموم اور عربی خط بالخصوص اسلام کے ظہور کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلے اور ارتقاء و ترقی کی نئی منازل طے کیں۔ عربی خط کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو اسلام کے دامن میں پناہ ملی۔

    ظہورِ اسلام کے وقت خط ایک غیر اہم حیثیت کا حامل تھا، مگر آغازِ اسلام کے بعد یہ اتنی جلدی اس مقام و مرتبے تک پہنچ گیا جہاں عام حالات میں پہنچنے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اسلام کے دامن میں خط میں نہ صرف حسن پیدا ہوا، بلکہ رسم الخط میں انقلابی تبدیلیاں بھی پیدا ہوئیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قرآنی آیات کو حکمِ ربی سمجھتے ہوئے فن کاروں نے اپنا سارا زورِ قلم انھیں لکھنے اور سنوارنے میں صرف کر دیا۔

    حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپ نے حفاظت حدیث کی خاطر حدیث کے جمع کرنے اور کتابت کرنے کا حکم دیا۔ اس دور میں خالد بن الہیاج نے خط کوفی میں انتہائی مہارت پیدا کر لی اور قرآنی آیات کو خوب صورت انداز میں مسجد نبوی کی دیواروں پر لکھا۔ اموی دور کے مشہور خطاطوں میں ابو یحیٰ، مالک بن دینار، سامہ بن لوی اور قطبہ المحرر کے نام مشہور ہیں۔ قطبہ نے خط کوفی میں چار نئے اقلام ایجاد کیے تھے۔ ان کے علاوہ مروان بن محمد کے کاتب عبداللہ بن مقفع اور ہشام بن عبدالملک کے کاتب ابوالعلاء سالم کے نام بھی ملتے ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق قطبہ المحرر اس دور میں روئے زمین پر سب سے بہتر عربی لکھنے والا شخص تھا۔

    عباسی دور میں ضحاک بن عجلان فن خطاطی میں قطبہ سے بھی بازی لے گیا۔ اس نے کوفی خط میں کئی اور اقلام ایجاد کیں۔ اس کے بعد خلیفہ منصور اور مہدی کے دور میں اسحاق بن حماد اور اس کے شاگرد یوسف اور ابراہیم بھی عمدہ خطاط تھے۔ اسحاق نے ضحاک بن عجلان کی قلموں میں مزید تحقیق کر کے بارہ نئی اقلام ایجاد کیں، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کے نام طومار، عہود، سجلات، امانات، مدیح، ریاش، موامرات، دیباج، مرصع، غبار، بیاض اور حسن ہیں۔

    عباسی خلفاء خطاطی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ انھی خلفاء کی سرپرستی کے باعث اس فن میں کمال پیدا ہوا۔ یہ لوگ فن کاروں کی خاص قدر کیا کرتے تھے۔ خلیفہ مامون نے ایک بار کہا:’’اگر عجمی بادشاہ اپنے کارناموں پر ہم سے باہم فخر کریں تو ہم اپنے پاس موجود خط کی انواع و اقسام پر فخر کریں گے، جو ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور ہر زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔‘‘

    اسحاق سے یوسف الشجری اور ابراہیم الشجری نے یہ فن سیکھا اور اس میں مزید تجربات کیے۔ ابراہیم نے قلم ثلث اور نصف ایجاد کیے۔ الثلث عام کوفی کی نسبت زیادہ تیز رو تھا اور حروف آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ابراہیم کے شاگردوں میں الاحول المحر ر بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے خطاطی کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ جس کے ذریعے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کا شاگرد ابن مقلہ تھا۔ ابن مقلہ نے خطاطی کو نئے انقلابات سے روشناس کرایا اور خط کوفی کی بالادستی ختم کر کے نئے خطوط کی بنیاد رکھی۔

    ابو علی محمد بن علی بن حسین بن مقلہ بیضاوی، نے خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں بھی کمال حاصل کیا اور بغداد کے علمی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس نے خط کوفی میں کمال حاصل کیا اور چھ بالکل نئے خط ایجاد کیے۔ ان کے نام ’’ثلث‘‘، ’’نسخ‘‘ ، ’’توقیع‘‘ ، ’’رقاع‘‘ ، ’’ محقق‘‘ اور’’ ریحان‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ اس نے کئی اقلام ایجاد کیں اور خطاطی کے قواعد بھی مرتب کیے۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن السمسانی اور محمد بن اسد مشہور ہوئے۔ ان سے یہ فن ابوالحسن علی بن ہلال المعروف ابن البواب نے حاصل کیا۔ ابن البواب ابن مقلہ سے متاثر تھا۔ اس نے خط نسخ میں مزید تحقیق کی اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اس کے قواعد و ضوابط تیار کیے۔ اس دور میں خط نسخ پورے عرب میں مقبول ہو گیا تھا۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن عبدالملک اور محدث خاتون کے نام قابل ذکر ہیں۔محدث خاتون سے یہ فن امین الدّین یاقوت الملکی نے سیکھا۔ امین الدّین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ مقبول اور مشہور خطاط یاقوت بن عبداللہ رومی المستعصمی تھا جو اپنی مہارت کی وجہ سے ’’قبلۃ الکتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ خطاطی میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے بعد اسی کا درجہ ہے۔

    یہ وہ دور تھا جب فن خطاطی عرب سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پھیل گیا تھا۔ ساری دنیا اس کی عظمت اور حسن سے متاثر ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے عربی خط کے حسن اور رعنائی سے متاثر ہو کر اپنی اپنی زبانوں کے لیے اس رسم الخط کو اختیار کر لیا۔چنانچہ فن خطاطی پر بھی عربوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ فن ایران، مصر، افغانستان، ترکی، افریقہ، ہندوستان اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا۔

    (اقتباس مقالہ از عبد الحئی عابد)

  • خطّاطِ‌ اعظم اور بٹیر

    خطّاطِ‌ اعظم اور بٹیر

    فنِ ‌خطاطی میں محمد یوسف دہلوی پاک و ہند میں استاذُ الاساتذہ تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے اپنے تخلیقی وفور اور اختراعی صلاحیتوں سے خوب کام لیا اور خطِ نستعلیق کی دل کش طرز ایجاد کی جو ” دہلوی طرزِ نستعلیق” مشہور ہے۔ انھیں‌ خطّاطِ‌ اعظم بھی کہا جاتا ہے۔

    محمد یوسف دہلوی کے والد بھی مشہور خوش نویس تھے اور یہ فن انھیں‌ گویا وراثت میں ملا تھا، جسے نکھارنے اور سنوارنے میں‌ یوسف دہلوی نے ساری عمر گزار دی۔

    یوسف صاحب اپنے فن میں‌ یکتا اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے اور اس حوالے سے متعدد واقعات بھی مشہور ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی واقعہ پیش کررہے ہیں جس کے راوی محمد یوسف دہلوی کے ایک شاگرد نسیمُ الحق عثمانی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "یوسف صاحب جب دہلی بلّی ماراں کے ایک کوٹھے پر بیٹھتے تو اس وقت کے ممتاز خطاط وہاں روزانہ حاضری دیتے۔ حضرت باقی امروہوی جو نہ صرف بہت اچھّے خوش نویس تھے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے، آپ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔

    ایک روز سب دوستوں کے مشورے سے باقی صاحب نے یوسف صاحب کے سامنے خطّاطی کے ایک مقابلے کی تجویز رکھی اور کہا کہ ناکام ہونے والے کو ہم سب کو بٹیر کھلانا ہوگا۔ یوسف صاحب نے یہ شرط منظور کر لی۔ طے یہ پایا تھا کہ سب دوست وقتِ معینہ پر دریائے جمنا کے کنارے پہنچیں‌ گے۔ ایسا ہی ہوا۔ وہاں‌ سب سے پہلے یوسف صاحب نے لکھنا شروع کیا اور مچھلی کے شکار کی چھڑی سے اردو حروف تہجّی (ا۔ ب۔ ج۔ د) لکھنے شروع کر دیے۔ ابھی س۔ ش تک ہی پہنچے تھے کہ کئی فرلانگ کا سفر طے ہو گیا۔ اس پر سب لوگوں نے کہا کہ خدا کے لیے بس کرو، تم جیتے اور ہم ہارے۔ لیکن یوسف صاحب کا تقاضا تھا کہ نہیں پورے حروف لکھے بغیر نہیں مانوں گا، خواہ آگرے تک جانا پڑے اور پھر بڑی منت سماجت کے بعد منشی جی اپنی ضد سے باز آئے اور بعد میں فرمایا کہ اس ریت پر جو حروف میں نے لکھے ہیں اس کی تصویر جہاز کے ذریعے لے لی جائے اور تصویر میں اگر کوئی حرف فنِ خطاطی کے اصولوں کے خلاف ہو تو میں خطا وار۔”

    قیام پاکستان کے بعد یوسف دہلوی نے وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطّاطی کی اور بعدازاں سکّوں پر حکومتِ پاکستان کا خوب صورت طغریٰ اور خطّاطی کا کام سَرانجام دیا۔

  • یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    حافظ محمد یوسف سدیدی پاکستان کے مایہ ناز خطّاط تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ ماہر خوش نویس اور یگانہ صفت خطّاط 1986ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ عبد المجید زرّیں رقم، حامد الآمدی اور ہاشم بغدادی جیسے استاد اور باکمال خطّاط کے سے متاثر تھے۔ انھوں نے تاج الدین زرّیں رقم اور منشی محمد شریف لدھیانوی جیسے خوش نویسوں کی شاگردی اختیار کی اور فنِ خطّاطی میں نام و مقام اور عزّت و مرتبہ پایا۔ کئی مشہور عمارتیں ان کے خطّاطی کے نمونوں سے مزیّن ہیں۔

    حافظ یوسف سدیدی نے 1927ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق چکوال، ضلع جہلم کے ایک گاؤں بھون سے تھا۔ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اسی عرصے میں خطّاطی سے رغبت پیدا ہوئی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں خطِ نستعلیق کے علاوہ ثلث، نسخ، دیوانی اور کوفی میں بھی اختصاص حاصل تھا۔ تاہم جدّت طبع نے انھیں‌ ہر خط میں انفرادیت لانے پر آمادہ کیا اور وہ اپنے الگ انداز کے لیے پہچانے گئے۔

    حافظ محمد یوسف سدیدی نے مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان، مسجدِ شہدا اور قطب الدین ایبک کے مزار پر اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے کئی کتابوں کے سرورق اور سرکاری دستاویزات کے لیے بھی اپنی فنی مہارت کا اظہار کیا۔

    وہ اپنے فن ہی نہیں سادگی، خوش مزاجی اور فقیرانہ طرز کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھیں ساندہ کلاں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    پاکستان کے نام ور خطّاط حافظ محمد صدیق الماس رقم 30 مارچ 1972ء کو وفات پاگئے تھے۔ اپنے وقت کے نام ور شعرا اور ادیبوں نے اپنی کتب کے لیے بطور خطّاط ان کی خدمات حاصل کی تھیں جن میں‌ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی شامل ہیں۔

    15 اگست 1907ء کو متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے محمد صدیق کو پہلوانی کا بھی شوق تھا اور وہ لاہور کے اکھاڑوں میں‌ کشتی بھی لڑتے رہے۔ خوش نویسی اور کتابت سیکھی اور بعد میں فنِ خطّاطی کو اپنایا۔ خوش نویسی اور خطّاطی کی تعلیم اور تربیت حکیم محمد عالم گھڑیالوی کے زیرِ سایہ مکمل کی اور مشق کے باعث بہت جلد خود بھی نام ور خطّاط شمار ہونے لگے۔

    1934ء میں انھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی مشہور کتاب زبورِعجم کے لیے خوش نویسی کا موقع ملا اور انھوں نے نہایت خوبی سے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد نام ور شاعر و ادیب اور صحافی مولانا ظفر علی خان نے ان سے اپنی کئی کتابوں کی خطّاطی اور کتابت کروائی اور انھیں خطّاط العصر کا خطاب عطا کیا۔

    حافظ محمد صدیق الماس رقم نے زبورِ عجم کے علاوہ جن نام ور قلم کاروں اور مشہور کتب کے مصنفین کے لیے خوش نویس کے طور پر خدمات انجام دیں ان میں علّامہ عنایت اللہ مشرقی کا تذکرہ اور حفیظ جالندھری کی شاہ نامہ اسلام شامل ہیں۔

    فنِ خطّاطی میں ممتاز اور استاد کا درجہ رکھنے والے محمد صدیق الماس رقم لاہور میں حضرت طاہر بندگی کے مزار کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    خطّاطی اور خوش نویسی ایک قدیم فن ہے جس کی مختلف شکلیں‌ ہیں اور اسلامی خطّاطی کی بات کی جائے تو اس میں طغریٰ اور عام تحریری نمونے شامل ہیں۔ آج اسی فن کے حوالے سے معروف محمد یوسف دہلوی کی برسی ہے جو ایک ماہر خوش نویس اور استاد خطّاط تھے۔ یوسف دہلوی 11 مارچ 1977ء کو کراچی میں‌ ٹریفک حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    یوسف دہلوی کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خوش نویس اور خطّاط تھے جنھوں نے 1932ء میں غلافِ کعبہ پر خطّاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے اپنے والد سے ہی ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ انھیں شروع ہی سے خوش خطی کا شوق ہوگیا تھا۔ یوسف دہلوی عہدِ شاہ جہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی سے بہت متاثر تھے اور اسی کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اس فن میں ماہر ہوئے، انھوں نے اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے یوسف دہلوی نے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطّاطی کی۔ بعدازاں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکّوں پر حکومتِ پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطّاطی کا کام سرانجام دیا۔

    ریڈیو پاکستان کا مونوگرام جس پر قرآنی آیت دیکھی جاسکتی ہے، وہ بھی یوسف دہلوی کے موقلم کا نتیجہ ہے۔

  • وہ خواب جو خطِ ‌نستعلیق کی ایجاد کا سبب بنا

    وہ خواب جو خطِ ‌نستعلیق کی ایجاد کا سبب بنا

    خوش نویسی اور خطّاطی باصرہ نواز، دیدہ زیب اور دل نشیں طرزِ تحریر کا نام ہے جو املا انشا کی صورت گری کی خاص اور مرصّع شکل ہے۔ ہم اپنی عام تحاریر کو کسی بھی قلم سے کاغذ پر لکھ لیتے ہیں، لیکن خوش نویسی اور خطّاطی باقاعدہ فن ہے جو مخصوص قلم اور روشنائی، برش اور رنگوں کے ساتھ خاص مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ یہ مرقّعِ کمالِ فن کسی بھی خطّاط کی مشق و مہارت کا نمونہ ہوتے ہیں اور خوب صورت و دل کش معلوم ہوتے ہیں۔

    خوش نویسی اور خطّاطی نفاست، سلیقہ قرینہ، توازن اور جمالیات کا متقاضی فن ہے۔ اگر اسلامی دنیا کی بات کی جائے تو اس فن میں مختلف ادوار میں‌ کئی نام سامنے آئے جنھوں نے نہ صرف شہرت اور نام و مقام پیدا کیا بلکہ اس فن کے باعث عزّت اور تکریم بھی پائی۔

    میر علی تبریزی ایسے ہی ایک خطّاط تھے، جنھیں خطِ نستعلیق کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ چودھویں صدی میں ہرات، افغانستان میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 1452ء میں ہوئی۔ میر علی تبریزی کو قدوةُ الکتاب کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔

    خطِ نستعلیق جو اردو، فارسی، پشتو تحریر میں‌ عام استعمال ہوتا ہے، انہی کا ایجاد کردہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میر علی تبریزی نے دو رسم ہائے خط کی خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے بعد انھیں‌ بہم کر کے نیا خط یعنی نستعلیق ایجاد کیا، لیکن اس حوالے سے ان کا ایک خواب بھی مشہور ہے۔

    میر علی ماہرِ فن اور استاد خطّاط ہونے کے علاوہ شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ میر علی تبریزی نے ایک رات خواب میں ہنسوں (پرندہ) کو پرواز کرتے دیکھا اور دورانِ پرواز ان کے جسم کی لچک اور پَروں کو خوب صورت انداز سے حرکت کرتا دیکھ کر انھیں‌ بہت اچھا لگا۔ بیدار ہونے پر میر علی تبریزی کو اپنا خواب یاد آیا، ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ تعلیق کی خم داری اور نسخ کی ہندساتی خصوصیات کے امتزاج کا تجربہ کیا جائے۔ انھوں نے ایسا کیا اور یوں خطِ ‌نستعلیق نے وجود پایا۔

  • گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    رنگ اداس، مُو قلم نڈھال اور کینوس افسردہ ہے۔ آج گُل جی کی برسی ہے۔

    چاہنے والوں نے خانۂ دل میں اس باکمال مصور کی بہت سی تصویریں سجالی ہیں جو اپنی پینٹگز سے آرٹ گیلریاں سجایا کرتا تھا اور آرٹ کے قدر دانوں، مصوری کے شائقین سے اپنے فن کی داد پاتا تھا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی 16 دسمبر 2017 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے۔

    پشاور کے امین اسماعیل کا سنِ پیدائش 1926 ہے، جسے دنیا بھر میں گُل جی کے نام سے شہرت ملی۔ لارنس کالج، مری کے بعد سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی بھیجے گئے اور بعد میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے مکمل کی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ میں زیرِ تعلیم رہے۔

    گل جی نے پیشہ ورانہ سفر میں تجریدی آرٹ اور اسلامی خطاطی کے حوالے سے دنیا بھر میں شناخت بنائی اور شہرت حاصل کی۔ امریکا میں حصولِ تعلیم کے دوران مصوری کا آغاز کیا۔ گل جی کی تصاویر کی نمائش پہلی بار 1950 میں ہوئی۔ اگلے دس برسوں میں انھوں نے تجریدی مصور کی حیثیت سے پہچان بنانا شروع کی اور خاص طور پر اسلامی خطاطی کے میدان میں تخلیقات سامنے لائے۔

    اسلامی خطاطی کے نمونوں نے انھیں اپنے ہم عصر آرٹسٹوں میں ممتاز کیا۔ تاہم تجریدی اور تصویری فن پاروں کے ساتھ ان کا کام مختلف رجحانات کے زیرِ اثر رہا اور یہی وجہ ہے کہ آئل پینٹ کے ساتھ انھوں نے اپنے فن پاروں میں غیر روایتی اشیا سے بھی مدد لی ہے۔ گل جی کے فن پاروں میں شیشہ، سونے اور چاندی کے ورق بھی استعمال ہوئے ہیں جو ان کے کمال اور اسلوب کا نمونہ ہیں۔

    گل جی نے پورٹریٹ بھی بنائے جن میں کئی اہم اور نام ور شخصیات کے پورٹریٹ شامل ہیں۔ تجریدی مصورری اور امپریشن کے ساتھ انھوں نے مجسمہ سازی میں بھی منفرد کام کیا۔ فائن آرٹ کی دنیا میں انھیں ہمہ جہت آرٹسٹ کہا جاتا ہے جس نے اپنے فن کو روایت اور ندرت کے امتزاج سے آراستہ کیا۔

    گل جی جیسے سیماب صفت آرٹسٹ کو طبعی موت نصیب نہ ہوئی۔ انھیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا۔