Tag: مشہور سائنسدان

  • مشہور ریاضی داں جو اپنے بیٹے اور بھائی کی شہرت سے خائف تھا

    علم و فنون کی دنیا میں اپنی قابلیت اور کسی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نام و مقام پانے والوں میں جون برنولی وہ ریاضی دان ہے جس کا پورا گھرانہ ہی علمی کارناموں کے سبب پہچانا گیا۔ برنولی خاندان میں کئی فن کار اور سائنس داں گزرے ہیں جنھیں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    برنولی خاندان بیلجیئم سے سوئٹزر لینڈ کے شہر بازیل آکر آباد ہوا تھا۔ جون برنولی اسی شہر میں‌ پیدا ہوا اور سوئس ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اس نے 27 جولائی 1667ء کو بازیل میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ اپنے وقت کے مشہور ریاضی داں لیونہارڈ اویلر کا استاد بھی رہا۔ جون برنولی نے یکم جنوری 1748ء کو وفات پائی۔

    جون کے والد نکولس برنولی تھے جن کی خواہش تھی کہ بیٹا کاروبار سے متعلق تعلیم حاصل کرے اور مسالوں کی تجارت کا وہ کام سنبھال سکے جسے انھوں نے بڑی محنت سے ترقی دی تھی۔ لیکن جون برنولی اس میں دل چسپی نہیں لے رہا تھا اور اس نے اپنے باپ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ طب کی تعلیم حاصل کرے گا۔ تاہم اسے یہ مضمون بھی پسند نہیں آیا اور اس نے ریاضی میں دل چسپی لینی شروع کر دی۔ جون برنولی نے بازیل شہر کی ایک جامعہ میں‌ داخلہ لیا اور تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن وہ اپنے بڑے بھائی جیکب برنولی سے خاص طور پر ریاضی کے مسائل پر بحث کرتا اور اس کے ساتھ مل کر ریاضی کے مضمون کی گتھیاں سلجھاتا رہتا۔ اسی زمانے میں جون نے اپنے سب بھائیوں کے ساتھ مل کر کیلکولس پڑھنا شروع کیا اور اس پر کافی وقت لگایا۔ وہ پہلا ریاضی داں تھا جس نے کیلکولس کو بہت سمجھا اور اس کی مدد سے کئی مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جون نے باقاعدہ کیلکولس پڑھانا شروع کر دی۔ 1694ء میں اس کی شادی ہوگئی اور وہ ہالینڈ میں یونیورسٹی میں ریاضی کا پروفیسر بن گیا۔ 1705ء میں وہ بازیل واپس آیا جہاں اپنے بھائی اور استاد جیکب برنولی کی وفات کے بعد جامعہ بازیل میں اس کی جگہ تدریس شروع کی۔

    یہ جان کر آپ کو حیرت بھی ہوگی اور برنولی خاندان کی شخصیات میں‌ دل چسپی بھی محسوس ہوگی کہ بالخصوص ریاضی کے مضمون میں‌ وہ جیسے جیسے ترقی کررہے تھے اور ان کا شہرہ ہورہا تھا، اسی طرح ان میں‌ حسد جیسا جذبہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے جون اور اس کا بھائی جیکب ایک ساتھ کام کرتے تھے مگر بعد میں وہ آپس میں‌ مقابلے بازی کرنے لگے۔ ایک دوسرے پر برتری جتانے اور اپنے کام کو زیادہ اہم بتاتے ہوئے دوسرے کے علمی کام کو کم درجہ کا یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جیکب برنولی کا تو انتقال ہو گیا، لیکن اس کی وفات کے بعد جون برنولی اپنے ہی بیٹے اور مشہور ریاضی داں ڈینیل برنولی دوم سے حسد محسوس کرنے لگا۔ یہ 1738ء کی بات ہے جب ان دونوں نے الگ الگ سيالی حرکيات (fluid dynamics) پر مقالہ لکھا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جون برنولی نے اپنے ہی بیٹے پر برتری حاصل کرنے کی غرض سے اور دنیا کے سامنے اپنی کاوش کی اہمیت منوانے کے لیے اپنے مقالے کو دو سال پرانا بتایا تھا۔ اس کے لیے جون برنولی نے اپنے مقالے پر دو سال پہلے کی ایک تاریخ ڈال دی تھی۔

  • بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

    "میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

    اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

    بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

    بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

    اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

    اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

    17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    ماسٹر رام چندر برطانوی ہند کی ایک عالم فاضل شخصیت اور ریاضی کے مشہور معلّم تھے جنھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں اور اپنے علمی و تحقیقی مضامین کے سبب قارئین میں مقبول ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا انگلستان میں بھی چرچا ہوا اور اس وقت کی سرکار نے انھیں گراں قدر علمی کاوش پر انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان رہا ہے۔

    انھوں نے اس سلسلے میں ایک رسالے کے توسط سے اپنی تحریر میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں خود ہی اپنے مشاہدہ و تحقیق سے اسے واضح کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون ہم آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ ماسٹر رام چندر کا سنِ‌ وفات 1880ء ہے۔ پیشِ نظر تحریر مصنّف کے مخصوص اور منفرد طرزِ بیان کی حامل ہے جو پُرلطف اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کرکے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    آج ہم مختلف شعبہ ہائے حیات اور علم و فنون میں جس تیز رفتاری سے ترقّی کررہے ہیں اور ایجادات و مصنوع کا جو حیرت انگیز اور محیّرالعقول سفر جاری ہے، اس میں بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کا بنیادی اور اہم کردار ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات انقلاب آفریں ثابت ہوئے اور ایجادات کی ابتدائی شکلیں ہی آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے کارآمد بنی ہوئی ہیں۔ یہ تمہید دراصل عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کے تذکرے کے لیے باندھی گئی ہے جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے کا وطن انگلستان تھا جہاں وہ 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ اس عظیم سائنس دان نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ وہ 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان میں کئی انقلاب آفریں دریافتوں اور ایجادات کا خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔

    مائیکل فیراڈے نے کیمیا کے میدان میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ ان کی اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔ کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ جب وہ عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان میں دل چسپی لینا شروع کی اور یہ شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔

    ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوگئی جنھوں نے اس کا شوق اور لگن دیکھتے ہوئے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی اور یوں‌ فیراڈے ایک سائنس دان بن گیا۔

    فیراڈے 1823ء میں مایع کلورین گیس تیّار کرنے والا اوّلین سائنس دان بنا اور کام یابی کے اگلے ہی سال ایک کیمیائی مادّہ بینزین بھی دریافت کرلیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کرلی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    آج ہم اسی سائنس دان کے طفیل اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں اور اس کے سائنسی کارناموں کی بدولت جو مختلف شعبوں میں‌ جو انقلاب برپا ہوا اسے تاریخ میں سب سے روشن اور شان دار باب بن کر محفوظ ہے۔

  • موٹر کار: نکولس جوزف کی انجنیئرنگ سے رابرٹ اینڈرسن کی ذہانت تک

    موٹر کار: نکولس جوزف کی انجنیئرنگ سے رابرٹ اینڈرسن کی ذہانت تک

    دنیا کی پہلی موٹر کار کے موجد کا نام‌ ‘نکولس جوزف کگنوٹ’ تھا جو فرانس کا باشندہ تھا۔ اس کی ایجاد کا چرچا 1799ء میں ہوا۔ وہ فوج میں انجنیئر تھا۔ اس نے بھاپ سے چلنے والی جو گاڑی تیّار کی تھی وہ بھاری اور سست رفتار تھی۔ اس گاڑی کے تین پہیے تھے۔ یہ گاڑی آج بھی ایک عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

    1885ء میں کارل بینز نے دنیا کو حیران کردیا اور ایک ہارس پاور کے انجن سے توانائی حاصل کرنے والی گاڑی تیّار کرلی۔ جرمنی کے کارل بینز کی ایجاد کردہ گاڑی میں تین آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور اس کے تین پہیے تھے۔

    یہ پہلی آٹو موبائل کار کہلاتی ہے۔ کارل بینز ہی نے چار پہیوں والی پہلی کار 1889ء میں بنائی۔ مشہورِ زمانہ لگژری کار مرسڈیز بھی کارل بینز نے بنائی تھی جس کے بعد مختلف کمپنیاں قائم ہوئیں‌ اور کاریں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم بھاپ کے انجن کی تیّاری، ریل گاڑی اور موٹر کاروں کے حوالے سے اٹھارہویں‌ صدی عیسوی میں متعدد انجینئروں نے ایسے کئی تجربات کیے کہ موٹر کاروں کے لیے کسی ایک کی ایجاد کو اوّلین کہنا کچھ مشکل ہوگیا۔ الغرض دنیا کی کسی بھی دوسری ایجاد کی طرح موٹر کار نے بھی رفتہ رفتہ ترقی کی۔

    پچھلی دو صدیوں‌ کے مقابلے میں‌ جب انسان نے زیادہ وسائل، قسم قسم کی ٹیکنالوجی اور سہولیات حاصل کرلی ہیں، تو اس کا شوق اور معیارِ زندگی بھی تبدیل ہوا اور آج جدید و خود کار اور سفر کے اعتبار سے نہایت آرام دہ کاریں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ یہ نت نئے ڈیزائن کی حامل، آرام دہ اور تیز رفتار کاروں کا زمانہ ہے۔ ہر گاڑی کا اب ایک کے بعد دوسرا نمونہ یا ماڈل آتا ہے اور زیادہ تر خریدار نئے ماڈل کی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں۔

    کئی برس قبل بھاپ سے چلنے والی موٹر کار کے بعد دنیا کو پیٹرول سے چلنے والی کار ملی تھی اور آج کے دور میں الیکٹرک کار بھی ایجاد ہوچکی ہے۔ بجلی سے چلنے والی دنیا کی پہلی کار کے موجد کا نام رابرٹ اینڈرسن ہے اور ناروے وہ ملک ہے جس کے دارالحکومت اوسلو میں سب سے زیادہ الیکٹرک کاریں موجود ہیں۔

  • ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    جہاں بہت سے لوگ میز پر رکھے ہوئے کسی پھلی کے بیج کو محض بیچ اور ایک دانہ سمجھتے تھے، وہاں پرسی جولین (Percy Lavon Julian) کو وہ میز اپنے لیے ایک تجربہ گاہ نظر آتی تھی۔ پھلی کا وہ دانہ بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتا تھا۔

    جولین آگے چل کر ایک کیمیا دان بنے۔ وہ نباتات کے ماہر تھے۔ پودوں کے قدرتی اجزا اور ان کی خصوصیات پر تحقیق اور تجربات کرتے ہوئے انھوں نے انسانوں کے بعض امراض کا علاج دریافت کیا۔

    انھوں نے کالا بار پھلی سے معمر افراد میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ بننے والی بیماری، موتیے کا علاج دریافت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق اور تجربات سے جوڑوں کے درد کی بیماری، گٹھیا کے لیے ٹیکوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں طیارہ بردار جہازوں پر لگنے والی آگ کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں انہی کی دریافت ہیں۔

    کالا بار ایک زہریلی پھلی ہے جس کے بارے میں اس کیمیا دان نے کہا تھا، “جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو جامنی رنگ کی یہ پھلی خوب صورت دکھائی دی، مگر یہ نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت ہے بلکہ اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ بھی کارآمد ہے۔”

    جولین کا شمار بیسویں صدی کے عظیم امریکی سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ افریقی نژاد امریکی تھے جنھیں‌ اس زمانے میں‌ نسل پرستی اور سیاہ فاموں سے ناروا سلوک اور ہر میدان میں تفریق و امتیاز کا سامنا بھی رہا، لیکن انھوں‌ نے اپنی تمام توانائی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کی بھلائی پر صرف کی اور اپنے کام میں‌ مگن رہے۔

    1975ء میں جولین اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جولین 1899ء میں منٹگمری، الاباما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ امریکا میں‌ غلام بنا کر لائے گئے افریقیوں کی اولاد تھے۔ اس دور میں‌ سیاہ فاموں‌ کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں‌ تعلیم کے یکساں‌ اور معیاری مواقع میسر نہیں‌ تھے، جولین نے بھی نسلی بنیادوں پر قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں سیاہ فام طلبا آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتے تھے۔

    جولین کے والدین استاد تھے اور انھوں نے اپنے چھے بچّوں کے لیے گھر میں‌ ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس نے جولین کو لکھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دی۔ بعد میں‌ جولین نے انڈیانا کی ڈی پاؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

    کالج کے زمانے میں‌ جولین نے ویٹر کے طور پر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ طلبا کی ایک رہائشی عمارت کے آتش دانوں میں لکڑیاں جھونکنے کا کام بھی کیا جس کے بدلے انھیں کیمپس میں رہائش کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ 1920ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ملازمت حاصل کرنا چاہی تو بعض نجی کمپنیوں نے انکار کردیا۔ جولین مایوس نہیں ہوئے اور کوشش جاری رکھی، بالآخر گلڈن کمپنی نے انھیں موقع دیا اور جولین نے بھی خود کو اہل ثابت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق نے لیٹکس رنگوں کی تیاری میں اس کمپنی کو بہت مدد دی۔

    1935ء میں جولین نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور کالا بار پر تحقیق اور تجربات سے فائیسو سٹیگمین کی وہ مقدار حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے جس سے موتیے کے مریضوں کے علاج میں‌ مدد ملی۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی موتیے کے علاج کے لیے کافی مقدار میں فائیسو سٹیگمین بننا شروع ہوئی۔

    امریکا اور دنیا بھر میں‌ اس سیاہ فام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور انھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    اردو زبان میں شعرا نے ابرو (بھوں) اور مژہ (پلک) کو طرح طرح سے اپنے اشعار میں باندھا ہے۔ اپنے محبوب کو حُسن و جمال میں یکتا، ادا میں منفرد اور یگانہ ثابت کرنے کے لیے جانے کتنے ہی قصیدے لکھے ہیں‌، لیکن یہ اشعار اور قصائد سائنس کی نظر میں‌ کوئی اہمیت نہیں‌ رکھتے۔ سائنسی تحقیق یکسر مختلف اور عقلی دلائل کے ساتھ تجربہ گاہ کے نتائج کی روشنی میں ابرو اور پلکوں‌ کو بیان کرتی ہے۔

    آئیے جانتے ہیں‌ کہ سائنس دانوں‌ کی نظر میں‌ یہ کیسے اہم ہیں اور ہمارے چہرے پر ان کی موجودگی کا کیا مقصد ہے۔

    سائنس دانوں‌ کا خیال ہے کہ ہمارے چہرے پر موجود ابرو یا جسے ہم بھوں بھی کہتے ہیں، اس لیے ہیں کہ ہم سورج کی تیز روشنی میں‌ ہر شے کو ٹھیک اور تاحدِّ نگاہ دیکھ سکیں۔

    ہماری آنکھوں کے اوپر محراب کی صورت یہ اَبرو بارش کے وقت سَر سے ٹپکنے والے پانی یا غضب کی گرمی اور سورج کی تمازت کے سبب بہنے والے پسینے کو بھی روکتی ہیں۔

    اس سے پہلے کہ ہم مزید تفصیل میں‌ جائیں، آپ ایک چھوٹا سا، مگر دل چسپ تجربہ کرکے دیکھیے۔ اس تجربے کا نتیجہ آپ کو ابرو کی اہمیت اور اس کے کام کو سمجھنے میں‌ مدد دے گا۔

    کسی ٹیوب لائٹ یا روشن بلب وغیرہ پر نگاہ ٹکاتے ہوئے اپنی آنکھیں‌ بند کر لیں۔ آپ بند آنکھوں‌ کے ساتھ بھی مسلسل روشنی محسوس کرسکتے ہیں، لیکن جیسے ہی اپنے دونوں‌ ابرو کو نیچے کی طرف حرکت دیں گے یا پیشانی کو سکیڑیں گے تو اچانک تاریکی یا سیاہ دھبّا نظر آنے لگے گا۔ یہ ہے وہ کام جو یہ ابرو انجام دیتے ہیں۔

    اب غور کیجیے کہ جب آپ کسی ایسے مقام پر ہوں جہاں‌ دھول مٹّی اڑ رہی ہو تو اس سے بچنے کے لیے آپ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں‌، لیکن‌ اسی مقام پر اپنا راستہ یا اشیا کو دیکھنے کے لیے نیم وا آنکھوں‌ کے ساتھ اپنے ابرو کو اُسی تجربے کے مطابق مخصوص طریقے سے حرکت دیتے ہیں تو آگے بڑھ پاتے ہیں۔ یعنی یہ ابرو اس موقع پر ڈھال اور کسی محافظ کا کام انجام دیتے ہیں۔

    اب چلتے ہیں‌ پلکوں کی طرف جو کچھ اسی قسم کا کام انجام دیتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کے پپوٹوں سے جڑی ہوئی پلکیں‌ بھی ہماری محافظ ہیں۔

    پلکیں‌ ایسے ہی ہیں جیسے بلّی یا چوہے کہ منہ پر بال (مونچھیں) ہوتی ہیں۔ یہ انتہائی حسّاس ہوتی ہیں اور مہین و معمولی شے کے چُھو جانے پر دماغ کو فوراً سگنلز بھیجتی ہیں اور اس کے نتیجے میں انسان ضروری ردّعمل ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی تنکا، دھول مٹّی آنکھوں میں پڑنے لگے تو پلکوں‌ اور دماغ کے مابین سگنل کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہم آنکھیں‌ بند کرلیتے ہیں۔

    آپ نے کبھی فوٹو گرافر کو دیکھا ہے جو‌ بار بار مخصوص کپڑے سے کیمرے کا لینس صاف کرتا رہتا ہے؟ وہ معمولی گردوغبار اور دھول مٹّی کے ذرّات کو صاف کرتا جاتا ہے، ورنہ تصویر اچّھی نہیں‌ آئے گی۔

    ہماری پلکوں‌ کے جھپکنے کی بھی وجہ یہی ہے۔ ہم مسلسل گرد و غبار کا سامنا کرتے ہیں جس کی صفائی کا قدرت نے انتظام کر رکھا ہے۔ پلکیں‌ جھپکانے پر ہماری آنکھوں کے غدود، معمولی نمی (آنسو) چھوڑتے ہیں جو گرد و غبار کو پردہ چشم سے ہٹا دیتا ہے اور یوں اس اہم عضو میں نصب قدرتی لینس کی بدولت ہم دنیا کو دیکھتے رہتے ہیں۔

  • ایک مکینک کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہوا‌

    ایک مکینک کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہوا‌

    جیمز واٹ کو لوگ ایک موٹر مکینک، چند مخصوص مشینوں کو مختلف اوزاروں سے کھولنے، بند کرنے اور ان کی خرابی دور کرنے میں مشّاق سمجھتے تھے اور بس۔ خود جیمز بھی نہیں‌ جانتا تھا کہ مستقبل میں‌ اسے ایک مکینکل انجینیئر اور موجد کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔

    1736 کو اسکاٹ لینڈ میں‌ آنکھ کھولنے والے جیمز واٹ نے لندن میں‌ مشینوں‌ اور اوزاروں‌ کی سائنس سمجھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس زمانے کی مختلف موٹروں اور مشینوں‌ کی خرابی اور انھیں‌ کھولنے بند کرنے کے دوران اپنے ذہن کو حاضر رکھتے ہوئے ان کی انجینیئرنگ کو سمجھا۔ اس وقت بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی بلکہ ایسی مشینیں بن چکی تھیں جن کی مدد سے کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ مشینیں‌ بھاپ سے چلتی تھیں۔

    ایک مرتبہ ایسی مشین میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی اور اسے درست کرنے کے لیے جیمز واٹ سے رابطہ کیا گیا۔ واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن اس دوران اُس کے دماغ میں بھاپ کا انجن تیار کرنے کا وہ خیال تازہ ہو گیا جو تین سال سے ستا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسی مشینوں‌ کو حرکت دینے کے لیے بہت زیادہ بھاپ خرچ ہوتی ہے، اور یہ خاصا منہگا پڑتا ہے۔ اس کا ذہن اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا تاکہ ایسے کسی انجن کو چلانے پر کم خرچ آئے۔

    ایک روز اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک مشکل ترین کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے جان لیا تھاکہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے۔ البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے، جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرض غور و فکر کے بعد اس کے ذہن نے ایک نئی چیز تیار کی، جسے آلہ تکثیف (کنڈنسر) کہا جاتا ہے۔ بعد میں عملی تجربہ کرتے ہوئے اس نے جو انجن بنایا وہ اس کی ذہنی اختراع کے مطابق کام انجام دینے لگا۔ اس کا سادہ اصول یہ تھاکہ پانی کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا جائے جس میں پہلے کے انجن کے مقابلے میں ایک چوتھائی یا اس بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔

    اس ابتدائی ایجاد کے بعد حوصلہ ہوا تو جیمز واٹ نے اپنے انجن میں‌ مزید تبدیلیاں کیں اور اس دور کے بھاپ کے انجنوں اور دوسری مشینوں کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور توانائی خرچ کرنے کے اعتبار سے ایک مختلف ایجاد سامنے لانے میں‌ کام یاب رہا۔ اسی کے بیان کردہ اصول اور تیار کردہ انجن کے ڈیزائن کو سامنے رکھ کر آگلے برسوں میں نقل و حمل اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے مشینوں‌ میں‌ جدّت اور صنعتی میدان میں‌ ترقی میں‌ مدد ملی۔

    دنیا کی مختلف سائنسی درس گاہوں اور میوزیم میں‌ جیمز واٹ کے مجسمے رکھے گئے ہیں‌ جو اس کی ایجاد اور اس کے سائنسی کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہیں اور طلبا کو سیکھنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے پر آمادہ کرتے ہیں‌۔

  • سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سیب کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے نیوٹن کے سَر پر پھل گرنا ایک اتفاق تھا جس نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بھی وزنی شے تیزی سے زمین کی طرف ہی کیوں آتی ہے اور یوں‌ کششِ ثقل کا نظریہ اور ایک اہم ترین دریافت سامنے آئی۔

    اسی طرح‌ سائنس کی دنیا میں‌ کئی ایجادات اور دریافتیں ایسی جن کی بنیاد کوئی حادثہ تھا۔ انیسویں صدی میں‌ مختلف سائنسی تجربات کے دوران ایسے اتفاقی اور حادثاتی واقعات پیش آئے جنھوں‌ نے دریافتوں‌ اور انکشافات کا راستہ ہموار کیا۔

    انیسویں صدی تک نائٹرو گلیسرین کا استعمال عام تھا۔ یہ 1833 کی بات ہے جب الفریڈ نوبل اُن ممکنہ طریقوں‌ پر غور کررہا تھا جن کی مدد سے نائٹرو گلیسرین کو حادثاتی طور پر پھٹنے سے روکا جاسکے۔

    مشہور ہے کہ اس سے متعلق سوچ بچار اور تجربات کے دوران ہی ایک روز نائٹرو گلیسرین کا ایک کنستر لیک ہو گیا اور اس سے خارج ہونے والا مادّہ بغیر جلے لکڑی کے برادے میں جذب ہونے لگا۔ جب برادہ خشک ہو گیا تو الفریڈ نوبیل نے اسے آگ دکھائی اور وہ اپنی خاصیت کے مطابق پھٹ گیا۔

    یہ معمولی حادثہ نائٹرو گلیسرین کی جگہ مقامی اداروں‌ اور فوجی ضرورت کے لیے محفوظ اور کنٹرولڈ ڈائنا مائیٹ ایجاد کرنے کا سبب بنا۔

    1839 کی بات ہے جب کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے تجربہ گاہ میں ربڑ، سلفر اور سیسے کا آمیزہ تیار کیا اور وہ اچانک ان کے ہاتھ سے پھسل کر فائر اسٹوو پر جا گرا۔ اس معمولی حادثے نے دریافت اور ایجاد کا نیا راستہ کھول دیا۔

    کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے مشاہدہ کیا کہ آمیزہ پگھلنے کے بجائے ٹھوس شکل اختیار کر گیا ہے جس کی بیرونی سطح سخت اور اندرونی سطح نرم تھی۔ یوں حادثاتی طور پر دنیا کا پہلا ویلنکنائزنگ ٹائر بنا اور یہ آٹو موبائل کی صنعت کے لیے نہایت کارآمد اور مفید ثابت ہوا۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں انفلوئنزا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے کام شروع کیا اور اس دوران اسے دو ہفتے کی رخصت پر جانا پڑا۔ وہ چھٹیوں‌ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ لیبارٹری کی جس ٹرے میں اس نے بیکٹیریا کلچر کیے تھے، اس پر پھپوند جم گئی ہے اور اس کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پھپوند نے بیکٹیریا کی افزائش روک دی تھی۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے اس مشاہدے اور تجربے کے بعد پھپوند کی ماہیت پر مزید کام کیا اور پنسلین جیسی دریافت ہوئی اور اینٹی بائیوٹک کا دور شروع ہوا۔