Tag: مشہور سفرنامہ

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

  • دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ سیر و سیّاحت کے دلدادہ ابنِ بطوطہ ایک مؤرخ اور وقائع نگار تھے جنھوں نے نوجوانی میں حج کی ادائیگی کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کی ٹھانی اور گھر سے نکل پڑے۔

    اپنے اس سفر میں‌ انھوں‌ نے مختلف ملکوں میں قیام کے دوران سیر و سیّاحت کا شوق پورا کیا۔ انھیں‌ حکم رانوں، امرا اور اپنے وقت کی عالم فاضل شخصیات اور قابل لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا اور انھوں‌ نے سارا آنکھوں‌ دیکھا حال اور ماجرا کتاب میں محفوظ کرلیا۔ ان کا سفر نامہ آج بھی مقبول ہے۔

    ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کے مختلف اردو تراجم آج بھی ذوق و شوق اور دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہی میں‌ سے ایک ترجمے سے یہاں وہ سطور نقل کی جارہی ہیں‌ جس میں ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرِ شام کے دوران پھوٹ پڑنے والی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔

    ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں:
    "میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749 ھجری (1348عیسوی) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ وہاں‌ دیکھا کہ لوگ مسجد میں‌ حیران کُن حد تک تعظیم میں مشغول ہیں۔ بادشاہ کے نائب کے حکم سے منادی کی گئی کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگا تار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امرا، شرفا، جج، فقہا اور مختلف طبقاتِ عصر جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔

    انھوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور امرا بھی ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد عورتیں، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔

    وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وبا کو ہلکا کیا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی تھی۔”

    اپنے اس قیام اور قریبی شہروں‌ کے سفر کی روداد لکھتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے بتایا ہے کہ وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور انھیں‌ جن لوگوں‌ سے ملنا تھا ان میں سے بھی اکثر موت کے منہ میں‌ جاچکے تھے۔