Tag: مشہور سفر نامے

  • پرتگالی ’’سیام‘‘ سے کچھ حاصل نہ کرسکے!

    پرتگالی ’’سیام‘‘ سے کچھ حاصل نہ کرسکے!

    تاریخ کے مطابق تھائی، چائنا کے جنوب مغرب میں رہنے والی قوم ہے۔ اقوامِ عالم میں طویل عرصہ تک ’’سیام‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ سیام سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’شوخ‘‘ یا ’’بھورا۔‘‘

    مشرقِ بعید میں رہنے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں ان کی رنگت قدرے شوخ اور بھوری ہوتی ہے۔ چینی سیام کو ’’سیان‘‘ بولتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقوامِ عالم میں سب سے پہلے پرتگالیوں نے اس لفظ کا استعمال کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پرتگالیوں نے بھی سترھویں صدی کے اوائل میں سفارتی مشن بھیجا، مگر انگریز کے لیے جیسی سونے کی چڑیا ہندوستان ثابت ہوا، سیام سے پرتگالیوں کو کچھ نہ ملا۔

    زمانۂ قدیم سے یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم رہا۔ چنگ سین ایوٹایا، چنگ مائی، لانا اور سوکھ تائی، یہ ریاستیں قدیم زمانے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں اور قریبی ریاستوں ویت نام اور برما کے لیے دردِ سر بنی رہیں۔ 1767ء میں برمیوں نے ایوٹایا کی چار سو سال سے قائم ریاست پر حملہ کر دیا۔ دارالحکومت کو گویا آگ لگا دی۔ ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اپنی عمل داری قائم کی۔

    1769ء میں جنرل تاکسن نے بچی کھچی ریاست کو دوبارہ منظّم کیا۔ تون بری کو نیا دارالخلافہ بنایا اور خود جنرل تاکسن سے کنگ تاکسن دی گریٹ بنا، تیرہ سالہ حکم رانی میں جنرل کو اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور مسلسل جنگی حالات نے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا۔ پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور آخر کار راہب کا لبادہ اوڑھ کر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور اس کے بعد کہیں نظر نہ آیا۔

    1782ء میں جنرل چکری نے اُن کی جگہ لی۔ خود کو راما کا خطاب دیا اور یوں چکری خاندان کی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی سال چاؤ پریا نامی دریا کے دونوں کناروں کو پختہ کرکے نئی بستی بسائی اور پھر اس کو دارالحکومت کا درجہ دے کر بنکاک کے نام سے موسوم کیا۔ 1790ء میں برمیوں کو شکست دی اور اپنی بادشاہت قائم کر لی۔

    سترھویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغربی اقوام نے باقی دنیا پر اپنی حکم رانی کے شکنجے کسے اور جگہ جگہ اپنی کالونیاں قائم کیں تو مشرقِ بعید بھی ان کے طوقِ غلامی سے محفوظ نہ رہا۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج نے جب یہاں کا رُخ کیا تو تھائی لینڈ پر قبضے سے دونوں نے اجتناب برتا اور اس کو بفرزون بنایا تاکہ دونوں افواج کی آپس میں مڈبھیڑ نہ ہو۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے تیس سال بعد 1973ء میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔

    (الطاف یوسف زئی کے سفر نامے کا ایک ورق)

  • "پیرس چمک رہا تھا!”

    "پیرس چمک رہا تھا!”

    ثریا حسین کے سفر ناموں میں ان کی خوب صورت اور رواں نثر، پُرلطف منظر نگاری اور دل چسپ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ علی گڑھ کی، شعبۂ اردو سے وابستہ ثریا حسین نے 1984 تک اہم درس گاہ میں‌ صدرِ شعبہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

    ثریا حسین کا ایک سفر نامہ ’پیرس و پارس‘ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے نام میں جو حسن ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    ’پیرس و پارس‘ گویا مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وصال ہے۔ یہ جدید و قدیم دو متضاد لہروں اور سمتوں کا حسین امتزاج بھی ہے۔ گویا مصنفہ نے ’پیرس و پارس‘ کے ذریعے دو مختلف اور متضاد تہذیب و تمدن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ان دونوں کے تضادات اور مماثلات کو بھی روشن کیا ہے۔

    یہ سفر نامہ بنیادی طور پر ان کے پیرس کے قیام پر محیط ہے۔ انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، جیسے جیسے مقامات مشاہدے میں آئے، جیسے جیسے افکار و خیالات کے جزیروں سے آشنائی ہوئی، ان سب کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں ڈھال کر اسے سفرنامے کی شکل عطا کر دی۔

    اس میں جہاں پیرس کی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی صورت حال سے آشنائی ہوتی ہے وہیں وہاں کے رنگ و بو سے بھی ذہن کو نئی روشنی ملتی ہے۔

    وہاں کے دریا، محلات، مصوری اور گیت، غرض یہ کہ ہر چیز کا ذکر تمام تر تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کتاب محض جغرافیائی اور تاریخی معلومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے، بلکہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کا سفر کر رہے ہیں اور ایک ایک ذرے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ چوں کہ پیرس مصوری کا مرکز رہا ہے، تو وہاں کے مصوروں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

    شہر دل ربا پیرس کے بارے میں اس سفر نامے سے ایک پارہ آپ کے ادبی ذوق اور سیاحت کے شوق کی تسکین کے لیے پیش ہے:

    ”رات کے دو بجے پیرس سے پندرہ میل دور ’اورلی‘ ایئرپورٹ، طیارہ کی کھڑکی سے دیکھا، دور دور تک پیرس چمک رہا تھا۔ دل کی شکل یہ سحر آفریں، روشنیوں کا شہر! پیرسیائی نام کے کیلٹک قبیلہ نے پہلی صدی قبل مسیح دریائے سین کے کنارے ایک گاؤں آباد کیا جو لوٹیشیا کہلاتا تھا، بعد میں اس جگہ رومن سپاہیوں نے اپنی چھاؤنی چھائی۔

    تیسری صدی عیسوی میں جرمن قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے لوٹیشیا کے باشندے دریائے سین کے جزیروں پر چلے گئے۔ ان کی یہ بستی بہت جلد پیرسیوں کا شہر کہلانے لگی اور اس قبیلہ نے Sle De La Cite جزیرے کے شہر کو قلعہ بند کیا۔ (اسی جزیرہ پر آج نو تردام کا کلیسا اور پولیس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے)

    ثریا حسین مزید لکھتی ہیں:

    پیرس بہت جلد ایک اہم مسیحی مرکز بن گیا اور یہاں بہت سی خانقاہیں قائم ہوئیں۔ کئی بادشاہوں نے اس شہر کو اپنی راج دھانی بنایا۔

    نویں صدی میں نارویجین حملہ آور اپنے جہاز لے کر سین پر اترے لیکن جزیرہ کے قلعے کو فتح نہ کر پائے۔“

    ثریا حسین نے اس سفر نامے میں بہت سے ادیبوں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں موپاساں، برگ ساں، موزاٹ اور فرائڈ شامل ہیں۔