Tag: مشہور سنگر

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ 2 جون کو فلم نگری میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور اس فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج مجیب عالم کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ہندوستان کے شہر کان پور سے تعلق رکھنے والے مجیب عالم 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بے حد سریلی آواز کے مالک تھے۔ پہلی بار موسیقار حسن لطیف نے انھیں اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ تاہم فلمی دنیا میں‌ ان کا سفر شروع ہوگیا تھا اور فلم مجبور کے گانے ان کی آواز میں‌ شائقین تک پہنچے۔ 1966ء میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967ء میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بول تھے، وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں….

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں میں مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور یہ نغمات بہت مقبول ہوئے۔ ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔ مجیب عالم نے یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے خوب صورت اور سدا بہار نغمات کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ “میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ نغمہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر گلوکار کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • معروف پاکستانی گلوکار ایم کلیم کی برسی

    معروف پاکستانی گلوکار ایم کلیم کی برسی

    18 نومبر 1994ء کو کینیڈا میں مقیم معروف گلوکار ایم کلیم زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ آج متعدد فلمی گیتوں‌ کو اپنی آواز دے کر یادگار بنا دینے والے اس فن کار کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس معروف گلوکار کا اصل نام حفیظ اللہ تھا، وہ آل انڈیا ریڈیو سے بطور ٹیکنیشن وابستہ تھے اور قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان میں‌ ملازمت اختیار کر لی تھی۔

    1924ء میں پیدا ہونے والے ایم کلیم نے کراچی میں‌ ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران دوست احباب کی فرمائش پر ان کے سامنے غزل اور گیت تو‌ سنائے، لیکن اسے شوق سے زیادہ اہمیت کبھی نہیں‌ دی تھی۔

    کہتے ہیں‌ ایم کلیم کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی، ریڈیو پاکستان میں جب ان کے ساتھیوں نے انھیں‌ سنا تو گلوکاری پر سنجیدگی سے توجہ دینے پر اصرار کیا۔ ریڈیو پر نام ور موسیقاروں اور گائیکوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور وہ بھی انھیں‌ سنتے تو تعریف کرتے اور اس میدان میں‌ قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے۔ اس ہمّت افزائی اور مسلسل اصرار پر ایم کلیم نے 1957ء میں پہلا نغمہ "ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور اسی پہلے گیت سے ان کی شہرت کا سفر بھی شروع ہو گیا۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: "گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    ان کی آواز میں‌ ایک غزل بھی بہت مقبول تھی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کو وفات کے بعد کینیڈا ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔‌

  • منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    کتنے ہی شیریں اور میٹھے بول منیر حسین کی مدھر آواز میں‌ جاوداں ہوگئے۔ اس گلوکار نے پاکستانی فلمی صنعت کے زمانۂ عروج میں کئی لازوال گیت ریکارڈ کروائے جو آج بھی سماعتوں میں‌ رَس گھول رہے ہیں۔

    27 ستمبر 1995 کو پاکستان کے اس نام ور گلوکار نے لاہور میں زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ آج منیر حسین کی برسی ہے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل آنکھ کھولنے والے منیر حسین نے تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ گلوکار کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ فن موسیقی کے دلدادہ اور ماہر گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے اور یوں‌ سر اور ساز سے ان کی محبت فطری تھی فلم نگری میں‌ موسیقار صفدر حسین نے ان کی آواز میں‌ ’’حاتم‘‘ کا ایک ریکارڈ کروایا جس کے بعد نام ور موسیقار اور فلم ساز منیر حسین کی طرف متوجہ ہوئے۔

    مشہور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے منیر حسین کو فلمی دنیا میں‌ گلوکاری کا موقع دیا اور ان کی شہرت کا سبب بنے۔ فلم سات لاکھ کے لیے رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین نے ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے جیسا مقبول گیت گایا جب کہ فلم شہید کا مشہور نغمہ نثار میں تری گلیوں پہ، دکھڑا کے لیے دلا ٹھیر جا یار دا نظارا لین دے جیسے مقبولِ‌عام گیت کو بھی منیر حسین نے اپنی آواز دے کر گویا امر کردیا۔

    منیر حسین نے پاکستانی فلموں‌ کے لیے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں‌ جو گیت ریکارڈ کروائے وہ سبھی یادگار ثابت ہوئے اور فلم انڈسٹری میں‌ انھیں‌ بہت سراہا گیا۔ پاکستان کے اس معروف گلوکار کو لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    استاد نزاکت علی خان کا نام فن و ثقافت کی دنیا میں کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آج پاکستان کے اس نام ور کلاسیکی موسیقار اور گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نزاکت علی خان 14 جولائی 1983 کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور کے چوراسی نامی قصبے سے تھا جو سُروں اور راگنیوں کے ماہر اور موسیقی کے شیدائیوں کے لیے مشہور ہے۔

    1932 کو پیدا ہونے والے نزاکت علی خان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دور اکبری کے نام ور گلوکار اور تان سین کے ہم عصروں میں شامل تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھوں‌ نے والد ہی سے گائیکی سیکھی اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد استاد نزاکت علی خان ملتان آگئے اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر ٹھہرا لیا۔

    جلد ہی ان کا شمار پاکستان کے نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں میں ہونے لگا۔ استاد نزاکت علی خان کو اس فن کی خدمت کے اعتراف میں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز دیا گیا۔

  • آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    بدلتے ہوئے طرزِ زندگی نے رسم و رواج، فنون و ثقافت اور ہمارے ذوقِ طبع، شوق اور تفریح کے رنگ ڈھنگ اور رجحانات کو بھی بدل دیا۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیاں سمجھنا تو دور کی بات، اسے سننے اور محظوظ ہونے والے بھی کہاں رہے۔ اسی طرح ساز ہیں تو سازندے نہیں رہے اور کتنے ہی آلاتِ موسیقی تو معدوم ہوچکے ہیں۔

    آپ نے راگ درباری کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ ہندوستان بھر میں مشہور اور عوام و خواص میں مقبول راگ ہے۔ سیکڑوں شعرا کا کلام اس راگ سے آراستہ ہوا اور ہزاروں غزلیں اور گیت راگ درباری میں بنے۔ کہتے ہیں یہ راگ گانے میں آسان ہے اور اس کی پہچان بھی، مگر نزاکتیں سمجھنا اور اسے مخصوص رچاؤ سے اساتذہٴ فن ہی نبھا سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ یہ راگ مشہور موسیقار، سُر اور آواز کے ماہر تان سین کی اختراع تھا، جو دربارِ اکبری میں نمایاں مقام رکھتا تھا اور اسے دربار میں گانے کے لیے خاص طور پر اختراع کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس راگ میں خاص گمبھیرتا ہے جس نے اسے بارعب، با وقار ہی نہیں نہایت متین اور پُر اثر راگ بنا دیا۔ اس راگ کو صرف درباری بھی کہا جاتا ہے۔

    اس راگ میں بندشوں کے علاوہ غزلیں اور گیت بھی آپ نے سنے ہوں گے۔

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بُو کی طرح میری پزیرائی کی

    ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
    ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے۔۔۔

    اور گیت کا یہ بول دیکھیے

    آ میرے پیار کی خوش بُو، منزل پہ تجھے پہنچاؤں