Tag: مشہور سوانح عمریاں

  • کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام وَر ادیب اور مشہور بیورو کریٹ تھے۔ ’’شہاب نامہ‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے جو بہت مقبول ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ادب کے میدان میں اور بیوروکریسی میں رہتے ہوئے اپنی خدمات اور کاموں‌ کے وہ نقوش چھوڑے جو دوسروں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہوئے۔

    قدرت اللہ شہاب کو پاکستان بننے سے قبل کٹک (انڈیا) میں جو سرکاری رہائش گاہ ملی وہ کوٹھی آسیب زدہ مشہور تھی۔ اس کا ایڈریس 81 سول لائنز تھا۔ اس رہائش گاہ میں پیش آنے والے بعض دہشت انگیز اور سنسنی خیز واقعات کا بھی قدرت اللہ شہاب نے اپنی اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے جو ہر نہایت دل چسپ بھی ہے۔ یہاں ہم بملا کماری کا آسیب نامی واقعے کی تفصیل قارئین کی توجہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت کے اس پراسرار اور آسیبی واقعات کے باب میں بتایا ہے کہ ہلکے زرد رنگ کی خوش نما کوٹھی کے اطراف ڈیڑھ دو ایکڑ پر وسیع لان پھیلا ہوا تھا، جس میں گھٹنوں گھٹنوں تک گھاس اگی تھی، ہر طرف سوکھے کالے اور پیلے پتوں کے انبار، ایک طرف آم اور جامن کے کچھ درخت جن کے نیچے کتّے اور بلیاں روتے رہتے تھے۔ دوسری طرف برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا جس سے سیکڑوں چمگادڑیں الٹی لٹکی رہتی تھیں۔

    کوٹھی کے عقب میں ایک کچا تالاب تھا جس پر سرسبز کائی کی دبیز تہ جمی ہوئی تھی۔ کوٹھی سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر باورچی خانہ اور سرونٹ کوارٹرز تھے جہاں میرا خانساماں اور ڈرائیور رہائش پذیر تھے۔

    یہ ایک طویل باب ہے جس میں کئی محیّرالعقل اور خوف زدہ کردینے والے واقعات لکھے ہوئے ہیں کہ شہاب صاحب کے بیڈ روم کی روشنی خود بخود جلتی بجھتی رہتی اور سوئچ کے اوپر نیچے ہونے کی آواز آتی۔ عطر حنا اور انگریزی پرفیوم کی خوشبو پھیل جاتی۔ ایک لڑکی کا ہیولا بھی نظر آتا۔ اس کے بعد اچانک غیظ وغضب کا طوفان آجاتا۔ پتھروں کی بارش ہونے لگتی۔ کمرے کا فرنیچر فضا میں معلق ہو جاتا۔ شہاب صاحب صبح سویرے یہ پتھر ٹوکروں کے حساب سے اٹھا کر تالاب میں ڈال آتے تاکہ خانساماں اور ڈرائیور یہ سب دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں۔

    اس عمارت میں رہائش کے دوران مصنّف کو مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعات تواتر سے رات دس ساڑھے دس بجے شروع ہوتے اور صبح تین بجے تک جاری رہتے۔ اس کے بعد مکمل امن ہوجاتا تھا۔ ایک رات پتھروں کے بجائے انسانی ہڈیوں کی برسات شروع ہوگئی جن میں چند انسانی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں۔ یہ منظر ایسا کریہہ اور گھناؤنا تھا کہ شہاب صاحب نے صبح کا انتظار کیے بغیر ان ہڈیوں کو ایک چادر میں لپیٹا اور تالاب میں ڈالنے کی غرض سے پچھلے حصّے کی طرف نکلے تو تالاب سے سبز کائی میں لپٹا ایک ہیولا ان کی جانب بڑھا۔ یہ جناب ہڈیوں کو وہیں پھینک کر گرتے پڑتے اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ یہ شہاب نامہ کے کئی صفحات پر پھیلے ہوئے واقعات ہیں جن کے پیش آنے کا سبب قدرت اللہ شہاب نے یوں بیان کیا ہے:

    "کئی ماہ کی لگاتار ہیبت، وحشت اور آسیب کی تہ میں انجامِ کار یہ راز کھلا کہ اٹھارہ بیس برس پہلے اس گھر میں آئی سی ایس کا ایک اوباش افسر رہا کرتا تھا۔شادی کا جھانسہ دے کر اس نے الٰہ آباد میں کالج کی ایک طالبہ بملا کماری کو ورغلایا اور خفیہ طور پر اسے اپنے ساتھ کٹک لے آیا۔ شادی اس نے کرنی تھی نہ کی۔ سات آٹھ ماہ بعد جب بملا ماں بننے کے قریب ہوئی تو ظالم نے اس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور لاش کو ڈرائنگ روم کے جنوب مشرقی کونے میں دفن کر دیا۔”

    "اس وقت سے بملا کی نخیف و نزارماں الٰہ آباد میں بیٹھی بڑی شدّت سے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اُسی وقت سے بملا کماری بھی اسی کوشش میں سرگرداں تھی کہ کسی طرح وہ اپنی ماں تک صحیح صورت حال کی خبر پہنچا دے تاکہ انتظار کے اس کرب ناک عذاب سے اسے نجات حاصل ہو۔ اس کے علاوہ اس کی اپنی خواہش بھی تھی کہ اس کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھود کر باہر نکالا جائے اور اس کے دھرم کے مطابق اس کا کِریا کرم کیا جائے۔ اس عرصہ میں قاتل خود بھی مر چکا تھا اور اب بملا کی طرف سے پیغام رسانی کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل تھا۔”

    "جس روز بملا کی ماں کو اصل صورتِ حال کی خبر ملی اور بملا کی بوسیدہ لاش کو چِتا میں رکھ کر جلا دیا گیا اسی روز 81 سول لائنز کے در و دیوار، سقف و فرش سے آسیب کا سایہ اس طرح اٹھ گیا جیسے آسمان پر چھائے ہوئے بادل یکایک چھٹ جاتے ہیں۔ اس رات نہ مینڈکوں کا ٹرّانا بند ہوا نہ جھینگروں کی آواز خاموش ہوئی، نہ پیپل کے درخت سے لٹکی ہوئی چمگادڑوں کا شور کم ہوا۔”

    "صبح تین بجے کے قریب اچانک فضا میں لا الٰہ الا اللہ کی بے حد خوش الحان صدا بلند ہوئی، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ آواز مشرق کے افق سے اُبھرتی ہے، 81 سول لائنز کے اوپر قوس بناتی ہوئی گزرتی ہے اور مغرب کے افق کو جا کر چھوتی ہے۔ تین بار ایسے ہی ہوا اور اس کے بعد اس مکان پر امن اور سکون کا طبعی دور دورہ از سرِ نو بحال ہو گیا۔ اس عجیب وغریب واقعہ نے ایک طرف تو خوف و ہیبت کے تھپیڑوں سے میرا اچھا خاصا کچومر نکال دیا اور دوسری طرف اس کی بدولت مجھے حقیقتِ روح کا قلیل سا ادراک حاصل ہوا۔”

  • بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

    "میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

    اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

    بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

    بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

    اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

    اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

    17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    پروفیسر سید محمد عقیل نے اپنی زندگی کے تقریباً 70 سال اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزارے اور دو درجن سے زائد تصنیفات یادگار چھوڑیں‌۔

    وہ 2019ء میں‌ بھارت میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار ممتاز ترقّی پسند ادیبوں اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے۔ پروفیسر سیّد محمد عقیل نے علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ تدریس کا پیشہ اپنایا اور نسلِ‌ نو کی تعلیم و تربیت کرتے رہے۔

    ان کی قابلِ ذکر کتابوں میں "اردو مثنوی کا ارتقا، اصول تنقید، ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ، تنقید اور عصری آگہی، سماجی تنقید اور تنقیدی عمل، غزل کے نئے جہات، مرثیہ کی سماجیات” وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کی خودنوشت سوانح حیات گئو دھول کے نام سے 1995ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہاں ہم عقیل صاحب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو بھارت کے معروف ادیب اور نقّاد ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے خاکوں کی کتاب ‘‘فن اور فن کار‘‘ سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ممتاز بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ کسی سلسلے میں الہ آباد آئے تو میں نے اپنے گھر پر ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ رتن سنگھ نے افسانہ پڑھا۔ ہم سبھی نے اس کے موضوع پر اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کیا۔

    عقیل صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ انھوں نے موضوع پر گفتگو کرنے کے بجائے دو تین جگہ پر املا اور جملے پر اعتراض کر دیے۔

    رتن سنگھ تھوڑا سا خفیف ہوئے، اس وقت کچھ نہ بولے، لیکن جب عقیل صاحب چلے گئے اور چند احباب رہ گئے تو رتن سنگھ نے بڑی دل چسپ بات کہی۔

    فاطمی! تمھارے استاد کا معاملہ ایک مدرسے کے اس مولوی کی طرح ہے جو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو پڑھاتا تھا، ان میں سے ایک لڑکی مولوی صاحب پر عاشق ہو گئی اور محبّت نامہ لکھ کر بھیج دیا، مولوی صاحب نے محبّت نامہ پڑھا اور املا کی دو تین غلطیاں نکال کر بڑی شفقت سے کہا۔ ”بی بی پہلے اپنا املا درست کیجیے، اس کے بعد عشق کیجیے گا۔”

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔