Tag: مشہور سول سرونٹ اور ادیب

  • ممتاز دانش ور، شاعر اور کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کی برسی

    ممتاز دانش ور، شاعر اور کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کی برسی

    سید ہاشم رضا پاکستان کے ممتاز دانش ور اور شاعر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں کراچی کا پہلا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا۔ آج سید ہاشم رضا کی برسی ہے۔ وہ 30 ستمبر 2003 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    سید ہاشم رضا 16 فروری 1910 کو متحدہ ہندوستان کے یو پی کے ایک ضلع میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد لکھنؤ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ 1932 میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد سید ہاشم رضا کو 1934 میں احمد نگر بمبئی پریذنڈنسی میں بطور سب ڈویژن افسر تعینات کیا گیا۔

    1939 سے 1946 تک وہ صوبہ سندھ میں تعینات رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں کراچی کا پہلا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ وہ چیف سیکریٹری سندھ، الیکشن کمشنر سندھ، جوائنٹ سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات، کمشنر بہاولپور، چیف سیکریٹری مشرقی پاکستان اور قائم مقام گورنر مشرقی پاکستان بھی رہے۔ سید ہاشم رضا کی خودنوشت ہماری منزل کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔

    حکومت پاکستان نے سید ہاشم رضا کو ستارۂ پاکستان اور ستارۂ قائدِاعظم کے اعزازات سے نوازا تھا۔

  • پاکستان کا فنانس سیکرٹری اور بھکاری ( دل چسپ واقعہ)

    پاکستان کا فنانس سیکرٹری اور بھکاری ( دل چسپ واقعہ)

    ممتاز حسن پاکستان کی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جو اپنی ذہانت، علم اور شائستگی و شرافت کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سول سرونٹ اور مالیاتی امور کے ماہر کے علاوہ انھیں محقق، شاعر، براڈ کاسٹر اور معتبر ناقد کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ان کی دل چسپی تاریخ اور قدیم آثار میں تھی۔ اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے کئی اہم ذمہ داریاں نبھانے والے ممتاز حسن نے اپنی تمام مصروفیات کے باوجود مطالعہ کی عادت ترک نہ کی، وہ علم و ادب کے شائق اور مطالعے کے رسیا تھے۔ نہایت سادہ مزاج اور عجز و انکسار کا پیکر ممتاز حسن سے متعلق ان کی پوتی شازیہ حسن نے ایک واقعہ بیان کیا جو نہ صرف یہ کہ مرحوم کی زندگی کے ایک خوب صورت رُخ یعنی ان کی سادگی اور شرافت کا عکاس ہے بلکہ نہایت دل چسپ بھی ہے۔

    وہ لکھتی ہیں، ”وزارتِ مالیات میں دادا شب و روز مصروف رہے، وہ رقم جیب میں رکھنا بھول جاتے تھے، ایک روز سرِ راہ کسی فقیر سے سامنا ہوگیا، فقیر کے سوال پر دادا نے معذرت کی اور کہا ان کے پاس اسے دینے کے لیے فی الحال کچھ بھی نہیں ہے۔ فقیر نے یہ سن کے جیب سے ایک سکہ نکالا اور دادا کی طرف بڑھا دیا۔ دادا اس کی شکل دیکھتے رہ گئے۔“