Tag: مشہور سیاح

  • مارکو پولو: یورپ کو مشرق سے آشنا کرنے والا

    مارکو پولو: یورپ کو مشرق سے آشنا کرنے والا

    مارکو پولو دنیا کا سب سے عظیم سیاح‌ گزرا ہے۔

    وہ 1254ء میں‌ وینس (اٹلی) کے ایک اعلیٰ خاندان میں‌ پیدا ہوا۔ مارکو پولو کی پیدائش کے وقت اس کا باپ اور چچا قبلائی خان اعظم سے ملاقات کے لیے چین گئے ہوئے تھے۔ وہ 1269ء میں واپس اٹلی پہنچے۔ کچھ عرصہ بعد مارکو پولو کا چچا اسے لے کر پھر چین روانہ ہوا اور 1275ء میں‌ صحرائے گوبی عبور کر کے قبلائی خان کے دربار میں حاضر ہوگیا۔

    نوجوان سیاح نے بہت جلد شہنشاہ کے دل میں گھر کرلیا۔ چناںچہ قبلائی خان نے مارکو پولو کو اپنا سفیر بنا کر ملکوں ملکوں بھیجا۔ بعد میں خان اعظم نے اس کو اپنے ایک صوبے کا حاکم بھی مقرر کر دیا تھا۔ چین میں‌ مدت دراز تک رہنے کے بعد ان دونوں اطالویوں نے کسی طرح شہنشاہ سے اپنے وطن جانے کی اجازت لے لی اور ایک منگول شہزادی کو ساتھ لے کر سماٹرا اور جنوبی ہندوستان کے راستے ایران پہنچے۔ اور روانگی کے کوئی چوبیس سال بعد 1295ء میں وینس پہنچ گئے۔ پہلے پہل ان کو کسی نے نہ پہچانا۔

    1298ء میں‌ وینس کی جنوا والوں‌ سے لڑائی ہوئی جس میں‌ مارکو پولو نے اپنے خرچ پر ایک جہاز پیش کیا۔ 7 ستمبر کو جزیرہ کرزولا کی لڑائی میں‌ وہ دشمن کے ہاتھوں‌ گرفتار ہوگیا۔ سال بھر اسے جیل خانے میں‌ رہنا پڑا۔ انہی دنوں اس نے اپنے ایک ساتھی قیدی کو اپنا سفر نامہ لکھوایا جو بے انتہا دل چسپ ہے۔ 1299ء میں وہ رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد زندگی کے حالات معلوم نہیں۔ صرف اتنا ہے کہ اس نے 9 جنوری 1324ء کو ایک پادری کو اپنی وصیت لکھوائی اور اسی روز وفات پا گیا۔

    مارکو پولو نے اپنے سفر نامے میں‌ مختلف مشرقی ملکوں‌ کی تاریخ اور ان کی ر سوم کا حال لکھا ہے۔ اور چنگیز خان اور اس کے پوتے قبلائی خان کے متعلق معلومات دی ہیں۔ اس کی بعض کہانیاں‌ اس قدر دلفریب ہیں‌ کہ ان پر گپ کا شبہ ہوا لیکن آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہوگیا ہے کہ بنیادی طور پر وہ صحیح ہیں۔

    (انگریزی زبان سے اردو ترجمہ از مولانا عبدالمجید سالک)

  • نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

    اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

    مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

    ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

    یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

    اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔

  • واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن اَروِنگ نے باقاعدہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی اور کالج میں داخل ہونے سے بھی انکار کردیا، لیکن وہ سیروسیّاحت کا بڑا شوقین تھا۔ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا تھا۔

    آج دنیا اَروِنگ کو ایک عظیم سیّاح اور مقبول مصنّف کے طور پر جانتی ہے۔ اسے ایک مصنّف کے طور پر پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد وطن لوٹا اور اپنے سفر کی روداد کو کتابی شکل میں شایع کروایا۔ بعد میں اسے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی شہرت ملی۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے 1859ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اس نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا تھا، میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔

    ارونگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    واشنگٹن ارونگ نیویارک میں 1783ء میں‌ ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا۔اس کا باپ محبِّ وطن تھا اور یہی صفت اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس اور اس کے نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ملن سار تھا اور مجلس پسند بھی۔ اسے نت نئے اور تاریخی مقامات، نوادرات دیکھنے کے ساتھ مشہور شخصیات اور اُن لوگوں سے ملنا پسند تھا جو مہم جُو یا کسی اعتبار سے منفرد ہوں۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور یہ مقبول ترین کتاب ثابت ہوئی۔ ہر طرف ارونگ کی دھوم مچ گئی اور اس کی کتاب کا چرچا ہوا۔

    ارونگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کردی۔ 1849ء میں ارونگ نے حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور اس دور کے نمایاں واقعات بھی لکھے جو اس کا ایک بڑا کام ہے۔ اسی طرح حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف تھی۔

    ارونگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    واشنگٹن ارونگ کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام کا امریکی معاشرے اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکا کے مختلف شہروں میں اس کے مجسمے نصب ہیں اور متعدد لائبریریاں اس سے موسوم ہیں۔

    ہندوستان کے نام وَر ادیبوں اور مترجمین نے اس کے مضامین کا اردو ترجمہ کیا جنھیں بہت پسند کیا گیا۔