Tag: مشہور سیاہ فام شخصیات

  • ہالی وڈ کی سیاہ فام حسینہ ڈوروتھی ڈینڈرج کی کہانی

    ہالی وڈ کی سیاہ فام حسینہ ڈوروتھی ڈینڈرج کی کہانی

    یہ بات آپ کے لیے تعجب خیز ہوسکتی ہے کہ ایک سیاہ فام ہالی وڈ میں اپنے روپ سروپ اور دل کشی کے لیے مشہور رہی ہیں۔ یہ ڈوروتھی ڈینڈرج ہیں اور ان کی دل کشی اور صلاحیتوں کا چرچا اس زمانے میں ہوا جب فلمی صنعت میں نسلی امتیاز، تعصّب اور صنفی تفریق کا بھی زور تھا۔

    آئیے ڈوروتھی ڈینڈرج کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔

    وہ 1922ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کا وطن امریکا تھا۔ ڈوروتھی کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والدین میں‌ علیحدگی ہوچکی تھی۔ ڈینڈرج کی ماں بھی اداکارہ تھیں اور ریڈیو ان کی پہچان تھا۔ ان کی دونوں بیٹیاں تھیں‌ جو لڑکپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لینے لگیں۔ انھوں نے اداکاری، رقص اور گائیکی کو اپنا شوق اور پیشہ بنایا۔

    ڈوروتھی ڈینڈرج نے اداکاری ہی نہیں کی، گلوکاری اور رقص میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    یہ وہ زمانہ جب امریکا میں سیاہ فام بدترین نسلی امتیاز اور تعصب جھیل رہے تھے۔ انھیں حقارت اور نفرت ہی نہیں‌ تشدد کا سامنا بھی تھا۔ وہ کئی سہولیات اور مراعات سے صرف اس لیے محروم تھے کہ وہ سیاہ فام غلاموں کی اولاد ہیں۔

    اس زمانے میں ہالی وڈ میں بھی سیاہ فاموں کو چھوٹے اور غیر اہم کرداروں کے قابل سمجھا جاتا تھا، انھیں معمولی نوکری ملتی اور کم تر درجے کا ملازم تصوّر کیا جاتا۔ ان حالات میں ڈینڈرج کا نام ہالی وڈ کے افق پر ایسا چمکا کہ دنیا بھر میں ان کی خوب صورتی اور فن کا چرچا ہونے لگا۔

    کہا جاتا ہے کہ اپنے دور کی خوب صورت ترین اور دل کش اداکارہ مارلن منرو سے پہلے ڈوروتھی ڈینڈرج ہی تھیں جنھیں پُرکشش مانا جاتا تھا۔ انھیں مشہور ترین ‘لائف’ میگزین کے سرورق پر جگہ دی گئی۔ وہ پہلی سیاہ فام اداکارہ تھیں جنھیں میگزین نے ٹائٹل پر سجایا۔

    ڈینڈرج نے 40 اور 50 کی دہائی میں ہالی وڈ کی فلموں میں معمولی کردار نبھائے اور شائقین کو متوجہ کرنے میں‌ کام یاب رہیں۔ 1950ء کے آغاز پر ڈینڈرج نے نائٹ کلبز میں گلوکاری کا شوق پورا کیا اور خوب نام کمایا۔ اسی عرصے میں فلم ‘کارمین جونز’ میں انھیں گلوکارہ کا مرکزی رول آفر ہوا اور یہ فلم کام یاب رہی۔ اس فلم نے آسکر کی ریس میں قدم رکھا تو یہ سیاہ فام بہترین اداکارہ کے زمرے میں نام زد ہوئیں۔ یوں ان کا خوب چرچا ہوا۔

    ‘آئی لینڈ ان دی سن’ اور ‘پورگی اینڈ بیس’ وہ فلمیں‌ تھیں‌ جنھیں‌ سنیما بینوں نے بہت پسند کیا اور ڈینڈرج کی اداکاری سے متاثر ہوئے۔

    ہالی وڈ کی اس سیاہ فام حسینہ نے 1965ء میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ موت کے وقت ان کی عمر محض 42 سال تھی۔ ڈوروتھی ڈینڈرج کی موت پر ہالی وڈ میں باقاعدہ سوگ کا سماں تھا۔

  • 2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    امریکا کے اُس شہری کی جلد کا رنگ کالا تھا اور وہ غیرمسلح تھا۔ دنیا اُسے مظلوم کہتی ہے، کیوں کہ جس وقت اس کی موت واقع ہوئی، وہ ایک پولیس افسر کی گرفت میں‌ تھا۔ مکمل طور پر بے بس اور وہ وہاں‌ سے بھاگ بھی نہیں‌ سکتا تھا۔ اس کے گرد دوسرے پولیس اہل کار بھی موجود تھے۔

    25 مئی 2020ء کو، اس سیاہ فام، غیر مسلح شخص کو ایک سفید فام پولیس افسر نے ‘موت کے گھاٹ’ اتار دیا۔ اس کا نام جارج فلوئیڈ تھا جسے ایک سڑک پر پولیس افسر نے ‘قابو’ کیا اور پھر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ 46 سالہ جارج یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اس نے دَم توڑ دیا۔

    پولیس کی اس بربریت اور سفاکی کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ سڑک پر تکلیف دہ حالت میں پڑا ہوا سیاہ فام شخص اور وہاں موجود افراد اُس پولیس افسر کو گردن پر دباؤ کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

    جارج کہہ رہا تھا، ’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔‘ لیکن اس کی یہ آواز پولیس افسر کو اپنے ارادے سے باز نہیں‌ رکھ سکی اور جارج فلوئیڈ مر گیا۔

    اس سیاہ فام کے آخری جملے نے امریکیوں کو غم و غصّے اور احتجاج کی طرف دھکیل دیا۔ اس دردناک منظر کو دیکھنے والے امریکیوں اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں نے ‘بلیک لائیوز میٹر’ کا نعرہ بلند کیا اور عظیم ریاست اور سپر پاور ہونے کے دعوے دار امریکا کو اس غیر انسانی سلوک اور ناانصافی پر مطعون کرتے ہوئے جارج کے لیے انصاف کا مطالبہ کردیا۔

    امریکا کی تاریخ میں‌ 2020ء کا یہ واقعہ سیاہ فام افراد سے نفرت، تعصب اور ظلم و ناانصافی کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    گو کہ امریکا میں‌ کسی سیاہ فام کی ہجوم یا پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، لیکن اس واقعے نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران لوگوں‌ کو اس کے خلاف اجتماع اور سڑکوں پر مظاہروں پر مجبور کردیا تھا۔ ان میں‌ سفید فام امریکی بھی شامل تھے۔

    سیاہ فام امریکا کی کُل آبادی کا 13 فی صد بتائے جاتے ہیں۔ ان کے اجداد افریقی تھے جنھوں نے غلام کی حیثیت سے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ آج بھی امریکا میں غلاموں‌ کی یہ اولادیں‌ رہائش، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بدترین مسائل سے دوچار ہیں۔ انھیں‌ تعصب اور نسل پرستی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے خلاف کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں، لیکن تارکینِ وطن سیاہ فام افراد پر پولیس تشدد اور ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    2020ء میں‌ نسل پرستی کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹر’ وہ بڑی تحریک تھی جس نے کرونا وائرس سے خوف زدہ انسانوں دنیا بھر میں اکٹھا ہوکر اس کے خلاف احتجاج پر اکسایا۔

    امریکا میں نسل پرستی، سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک اور پولیس کے ہاتھوں قتل کے ایسے واقعات کے خلاف سڑکوں پر آنے والوں کا کہنا تھاکہ صدیوں پرانی عصبیت اور مخصوص ذہنیت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی سوچ نے ایک اور نہتّے اور بے بس انسان سے اس کی زندگی چھین لی۔

    اس واقعے کے خلاف آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں بھی احتجاجی اجتماعات ہوئے، اور‌ شرکا نے نسلی مساوات اور سیاہ فام امریکیوں‌ کے حق میں‌ آواز بلند کی اور بلیک لائیوز میٹر کی تحریک نے زور پکڑا۔ امریکا میں‌ مظاہرین جائے وقوع پر جمع ہوئے اور جارج کے آخری الفاظ دہراتے رہے۔

    اس برس انتخابات نے ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکی عوام کو محبوب نہیں‌ رہے اور انھیں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا، لیکن اس سے پہلے انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو بھی اپنے سخت اور متنازع بیان کی وجہ سے مایوس اور ناراض کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات ادا کرنے سے خود کو نہیں روک سکے تھے جس نے اس بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا وہ نسل پرست ہیں؟

    گو سیاہ فاموں کے حق میں مظاہرے امریکا میں‌ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس گزرتے ہوئے سال میں‌ جارج فلوئیڈ کی موت نے ایک بار پھر امریکی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور نسلی امتیاز کے خلاف اس کے آخری الفاظ اور اس کی فریاد ایک نعرہ بن گئی۔