Tag: مشہور شاعرہ

  • یومِ وفات: نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے بغیر نامکمل ہے

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے ساتھ 1994ء تک پروین شاکر کی زندگی کا سفر بھی جاری رہا، لیکن جب ‘‘ماہِ تمام’’ مداحوں تک پہنچی تو پروین شاکر دنیا سے جا چکی تھیں۔ آج اردو کی اس نام ور شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں یہ نام شاید رومانوی موضوعات کی وجہ سے زیادہ مقبول ہے، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو ان کی شاعری میں‌ نسائی جذبات اور ان کے عصری شعور کی وجہ سے بہت سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملتی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • 24 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ز۔ خ۔ ش نے کئی بار نام تبدیل کیا!

    24 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ز۔ خ۔ ش نے کئی بار نام تبدیل کیا!

    ز۔ خ۔ ش (زاہدہ خاتون شیروانی) اردو شاعری کا بہت اہم نام ہیں۔ یہ پہلی شاعرہ ہیں جنہیں ان کی توانا فکر اور طرزِ کلام کی وجہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

    اگرچہ انہوں نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی، کئی بار نام تبدیل کیے، کچھ عرصے تک نہ چھپنے کا فیصلہ بھی کیا مگر ان کی نظموں نے قارئین کو متوجہ کیا ان کی ایک نظم جو محمڈن یونیورسٹی کے لیے چندے کی اپیل کے سلسلے میں رسالہ ’’عصمت‘‘ کے اکتوبر 1912ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی بہت مقبول ہوئی۔ اس نظم کا ایک شعر دیکھیے۔

    اے فخرِ قوم بہنو، عصمت شعار بہنو
    مردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو

    1922ء میں ان کی وفات پر علاّمہ راشدالخیری نے لکھا تھا، ’’وہ اس پائے کی عورت تھیں کہ آج مسلمانوں میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ علاوہ ذاتی قابلیت کے جو ان کے مضامینِ نظم و نثر سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کا دل قوم کے درد سے لبریز تھا۔‘‘

    ز۔ خ۔ ش۔ نے کم عمر پائی۔ وہ دسمبر 1898ء میں پیدا ہوئیں اور 24 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ ان کے کلام کے دو مجموعے ’’آئینۂ حرم‘‘ اور ’’فردوسِ تخیل‘‘ منظر عام پر آئے۔ فردوسِ تخیل کو انہوں نے اپنی زندگی میں مرتب کر دیا تھا۔ مگر یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔

    382 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 121 نظمیں شامل ہیں جو متنوع مضامین اور تخلیقی اظہار کی وجہ سے ان کی شعری ذہانت اور قادرُ الکلامی کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلیں اس مجموعہ میں شامل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے ایماء پر غزلوں کو جلا دیا گیا تھا۔

    ز۔ خ۔ ش۔ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ شاعرہ تھیں۔ وہ تمام عمر اس بات پر نالاں رہیں اور اس کا اظہار کرتی رہیں کہ عورت کی راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ خود انہیں اپنی سیاسی او ر سماجی نظریات کی مکمل آزادی نہیں تھی۔ سیاسی نظریات کے اظہار میں والد کی انگریز پرستی اور داخلی کیفیات کے بیان میں خاندانی روایات حائل رہیں۔ وہ لکھتی ہیں۔

    عورتوں کے حق میں ہر مذہب کا ہر ملّت کا فرد
    جانور تھا، دیوتا، عفریت تھا، شیطان تھا
    باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو کہ ہو فرزند وہ
    مرد کُل اشکال میں فرعونِ بے سامان تھا
    مرد کی نا آشنا نظروں میں عورت کا وجود
    اک مورت، ایک کھلونا، ایک تنِ بے جان تھا

    (ممتاز شاعرہ فاطمہ حسن کے مضمون اردو شاعری میں‌ عورت کا شعور سے اقتباس)