Tag: مشہور شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی

  • یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    اردو زبان کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر 18 جولائی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں‌ وہ پاکستان میں بھی اپنی شاعری اور خوب صورت شخصیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔

    ان کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی اور تخلّص سحر تھا۔ 1909ء میں منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں کالج سے تعلیم پائی۔ تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا جس کے بعد سول انتظامیہ کے تحت امتحانات پاس کیے اور 1935ء کے آواخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، روہتک ہوگیا۔ یہ گوڑ گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ وہ ڈائریکٹر محکمہ پنچایت کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

    سکھ شعرا میں انھیں معتبر اور پُروقار شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سحرؔ ایک ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور ظرافت و خوش مزاجی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے اور ہر مجلس میں لوگوں کو متاثر کرلیتے تھے۔ ادیب و شاعر ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ نام ور شخصیات ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کرنے کو اپنے لیے باعث لطف و کرم تصور کرتتی تھیں۔

    کنور مہندرسنگھ بیدی نے کم عمری میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا، انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں‌ لی۔ انھوں نے اپنے کلیات کے علاوہ ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے خود نوشت بھی یادگار چھوڑی ہے۔

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    تیرِ نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
    آمادہ قتل پر ہے تو بجلی گرا بھی دے

    رخ سے نقاب اٹھا کے کرشمہ دکھا بھی دے
    سورج کو چاند چاند کو سورج بنا بھی دے

    منزل ہے تیری حدِ تعیّن سے ماورا
    دیر و حرم کے نقش کو دل سے مٹا بھی دے

    سجدے ہیں لاکھ نقشِ کف پا کے منتظر
    یہ سر نہیں ہے عرش سحر آ جھکا بھی دے

  • پچیس منزلہ عمارت، تیرہویں‌ منزل اور 74 برس کا شاعر

    پچیس منزلہ عمارت، تیرہویں‌ منزل اور 74 برس کا شاعر

    بزرگوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جنھیں دیکھ کر آدمی عبرت پکڑتا ہے، لیکن بعض خوش نصیب بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر آدمی عبرت کے سوائے ہر چیز کو پکڑ لیتا ہے، جیسے تین سال پہلے ایک دن میں نے کنور صاحب (کنور مہندر سنگھ بیدی سحر) کو دیکھ کر اپنا کلیجہ پکڑ لیا تھا۔

    یہ اُس دن کی بات ہے جب دہلی میں ہر دن کی طرح بجلی فیل ہوگئی تھی۔ مجھے اور کنور صاحب کو دہلی کی ایک پچیس منزلہ عمارت کی ساتویں منزل پر پہنچنا تھا اور لفٹ بند تھی۔ کام چوں کہ میرا تھا اسی لیے میں نے کنور صاحب سے کہا، ’’میرا کام اتنا ضروری نہیں ہے کہ آپ ساتویں منزل تک چڑھ کر جائیں اور پھر آپ کی عمر بھی تو 74 برس کی ہوچکی ہے۔‘‘

    میرے اس جملے کو سنتے ہی اُن کے بڑھاپے پر شباب آگیا اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ میں انہیں منع کرتا رہا، سمجھاتا رہا کہ میں نے یہ جملہ اس لیے نہیں کہا کہ وہ 74 برس کے ہوگئے ہیں بلکہ اس لیے کہا ہے کہ میں 48 برس کا ہوچکا ہوں۔ مسئلہ میرے ضعف کا ہے، اُن کے ضعف کا نہیں، مگر وہ نہ مانے اور سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے بلکہ اکثر موقعوں پر تو دو دو سیڑھیاں ایک ہی قدم میں پھلانگ ڈالیں۔

    میں اُن کے پیچھے ہانپتا کانپتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میرے روکنے کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا۔ بالآخر اس سفر میں ایک نوبت وہ بھی آئی جب وہ مجھ سے دو منزل آگے ہوگئے۔ ان کے قدموں کی چاپ تو سنائی دے رہی تھی، مگر وہ خود دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میں گرتا پڑتا ساتویں منزل پر پہنچا جہاں ہمیں ایک شخص سے ملنا تھا۔ میں نے اپنی اُکھڑی اُکھڑی سانسوں کو بڑی مشکل سے یکجا کر کے ان صاحب سے پوچھا کہ کہیں کنور صاحب اِدھرآ تو نہیں گئے۔

    وہ بولے ’’کنور صاحب تو نہیں آئے البتہ میں نے ابھی کچھ دیر پہلے سیڑھیوں پر ایک سردار جی کی جھلک دیکھی ہے جو بڑی تیزی سے اوپر جارہے تھے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’وہی تو کنور صاحب تھے جو آپ سے ملنے کے لیے اس عمارت میں آئے ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر وہ اُوپر کیوں چلے گئے؟‘‘ اُن صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

    میں نے کہا ’’کچھ نہیں ذرا جوشِ جوانی میں اوپر تک چلے گئے ہیں، ابھی آجائیں گے۔‘‘ کچھ دیر بعد کنور صاحب نیچے آگئے۔ پتہ چلا کہ میرے جملے نے انہیں اتنا مشتعل کیا کہ تیرہ منزلوں تک چڑھتے چلے گئے۔ تیرہویں منزل پر اشتعال کچھ کم ہوا تو انھیں احساس ہوا کہ ساتویں منزل پر ہی رُکنا تھا۔

    مجھ سے کہا، ’’تم کیسے جوان ہو۔ سات منزلیں تک نہیں چڑھ سکتے۔ کیا ابھی سے تم پر بڑھاپا آگیا ہے۔ مجھے دیکھو کہ 74 برس کا ہوچکا ہوں مگر آج بھی یہ حال ہے کہ ساتویں منزل پر کوئی کام ہو تو تیرہ منزل تک چڑھ جاتا ہوں۔‘‘

    میں نے اپنی ہار مانتے ہوئے معذرت کی اور اپنی صفائی میں ایک دانا کا قول سنایا کہ ’’بیس برس کی عمر کا گدھا، ساٹھ برس کے آدمی سے کہیں زیادہ بوڑھا ہوتا ہے، کیوں کہ بڑھاپے کا تعلق کسی مخلوق کی عمر سے نہیں، اس کے قویٰ سے ہوتا ہے۔‘‘ کنور صاحب اس قول سے ایسے ہی محظوظ ہوئے جیسے کہ ایک سچے سکھ کو ہونا چاہیے۔

    (ہندوستان کے مشہور شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے متعلق معروف مزاح نگار مجبتیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)