Tag: مشہور شاعر

  • رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    سلام مچھلی شہری اپنے زمانے کے ایک مقبول شاعر تھے۔ رومانوی شاعری میں منفرد راہ نکالنے والے اس شاعر نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔

    اس دور میں‌ سلام نے ایک بالکل نئے طرز کی رومانی شاعری کی اور خاص طور پر نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئے۔ سلام مچھلی شہری نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا بھی لکھے۔ وہ نثر نگار بھی تھے اور ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے نام سے ان کا ایک ناول بھی شایع ہوا۔

    یکم جولائی 1921ء کو انھوں نے مچھلی شہر جونپور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تعلیم کا سلسلہ صرف ہائی اسکول تک محدود رہا اور کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ انھوں نے علم و مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ انھیں‌ لائبریری کی ملازمت کے دوران کئی موضوعات پر کتب اور مختلف زبانوں کے ادب کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے انھیں ادبی فکر و تخلیق میں مدد دی۔ 1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویسی پر مامور ہوئے۔ اور بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر تبادلہ ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی میں ریڈیو اسٹیشن پر پروڈیوسر کے طور پر ان کا تقرر ہوگیا۔ اس عرصے میں ان کا شعری سفر جاری رہا اور وہ ایک رومانی شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ انھیں‌ بھارتی حکومت نے ’پدم شری‘ سے بھی نوازا۔

    سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ شایع ہوئے۔ انھوں نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ سلام مچھلی شہری کی یہ مشہور نظم ملاحظہ کیجیے۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    آج اردو اور فارسی کے معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کی برسی ہے۔ وہ 1959ء میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اسد ملتانی سول سرونٹ تھے۔

    وہ 1902ء میں متحدہ ہندوستان کے اُس وقت کے ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ محمد اسد خان نے 1924ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔ وہ علم و ادب کے رسیا اور شائق تھے اور اسی زمانے میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ملتان ہی سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء بھی کیا اور مطبعُ الشّمس قائم کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ”ندائے افغان” نکالا تھا۔

    1926ء میں اسد ملتانی نے انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں تقرری حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں دہلی اور شملہ میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد دارُالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بن کر آفس سنبھالا اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے۔

    1955 میں ریٹائرمنٹ لے کر ملتان آبسے اور یہاں علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ اسد ملتانی راولپنڈی میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    اردو کے اس قادرُ الکلام شاعر کے شعری مجموعوں میں مشارق، مرثیہ اقبال اور تحفہ حرم شامل ہیں جب کہ اقبالیات کے موضوع پر اقبالیاتِ اسد ملتانی شائع ہوچکی ہے۔

  • استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
    اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

    یہ استاد ذوق کا ایک مشہور شعر ہے۔ بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد اور مؤرخ و تذکرہ نویس محمد حسین آزاد نے اپنی مشہور تصنیف آبِ حیات میں اُن کا وہ شعر درج کیا ہے جو ذوق نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں‌ آج ذوق جہاں سے گزر گیا
    کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

    آج شیخ محمد ابراہیم ذوق کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1854ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کیا اور دلّی ہی میں‌ پیوندِ خاک ہوئے۔ ابراہیم ذوق کی ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول کے مکتب میں ہوئی جو شاعر تھے، ان کا تخلّص شوق تھا۔ انہی کی صحبت نے ذوق کے شوقِ شاعری کو نکھارا اور وہ خوب شعر موزوں کرنے لگے۔

    ابراہیم ذوق 1789ء میں دلّی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شاہ نصیر کا چرچا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہوگئے، لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ نہ رہا اور ذوق خود مشقِ سخن میں مصروف رہے۔ کم عمری میں ذوق نے شاعری شروع کی تھی اور نوجوانی ہی میں ایسا نام و مقام پایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    ذوق کو علوم و فنون سے گہرا شغف تھا۔ شاعری اور موسیقی کے علاوہ علمِ نجوم بھی جانتے تھے۔ دربار سے نوجوانی ہی میں‌ کئی خطاب اور اعزازات پائے۔ ان میں ملکُ الشعرا کا اعزاز بھی شامل ہے۔ ذوق کے شاگردوں میں داغ دہلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

    ذوق کو عوام و خواص نے بڑی عزّت اور پذیرائی دی اور انھیں‌ عظمت و شہرت نصیب ہوئی جسے بعض حاسدین اور نکتہ چینوں نے دربار سے ان کی وابستگی کے سبب قرا دیا۔

    ذوق نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ دیوانِ ذوق میں غزل، قصیدہ، رباعی اور ایک نامکمل مثنوی بھی شامل ہے۔ تاہم وہ قصیدے کے امام ثانی اور خاقانیِ ہند کہلائے۔

    ذوق قادرُ الکلام شاعر تھے جن کے بارے میں سرسیّد نے ’تذکرہ اہلِ دہلی‘ میں لکھا ہے:

    ’’مشقِ سخن وری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحبِ سخن کی غالب ہے کہ پیرایۂ وزن سے معرا نہ ہوگی۔ پُر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی۔ مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔‘‘

    ذوق کی زبان و بیان پر قلعہ معلّٰی کے اثرات اور زبانِ دہلوی کے محاوروں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اشعار سن کر لوگ بے ساختہ مچل جاتے تھے۔ جب قلعے میں مشاعرہ ہوتا تو ذوق مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ چناں چہ ذوق کو اپنی زندگی میں جتنی شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔

    ذوق کو عربی اور فارسی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدّت و ندرت تھی۔ ان کی تمام عمر شعر گوئی میں بسر ہوئی۔

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر اثنائے گفتگو، تقریر اور تحریر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے سنایا اور لکھا جاتا ہے۔ اس شعر کے خالق محشر بدایونی ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی نے 9 نومبر 1994ء دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔

    4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں محشرؔ تخلّص کیا اور بدایوں کی نسبت کو اپنے اس تخلّص سے جوڑ کر محشر بدایونی کہلائے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے فن و شوق کو جاری رکھنے اور معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنائے گئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کیا تو جلد ہی شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے کلام کے سبب پہچان بنالی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    انھوں نے کراچی میں‌ وفات پائی اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • حكیم مومن دہلوی، شاعر یا زبردست منجم؟

    حكیم مومن دہلوی، شاعر یا زبردست منجم؟

    اعتراضات کا پہلا رُخ صاحبِ آبِ حیات کے حق میں جاتا ہے کہ جنھوں نے آپ کا ذکر لائقِ تذکرہ ہی نہ جانا۔

    پھر طباعتِ ثانی میں شامل روایات و لطائف کا کوئی حوالہ دینا تو دور مکتوب نگار کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ پھر ایک اور فاش غلطی یہ کی کہ آپ کو دو دو شخصیات کا مرید ٹھہرایا، پہلے اپنے سسر خواجہ محمد نصیر رنج کا، پھر سید احمد شہید کا۔ مومن کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ آپ نے سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی تھی، لہٰذا آپ کو خواجہ نصیر کی بیعت سے منسوب کرنا لاعلمی سے زیادہ کئی امور کی غمازی کرتا ہے جس کا محققین بادلائل کئی جگہ ذکر کر چکے ہیں۔

    واضح ہے کہ مومن کے مزاج میں رمل، نجوم اور شطرنج جیسی چند ایسی چیزیں شامل تھیں کہ جو ادبا کے ہاں مذموم نہیں مانی جاتیں، مگر سبھی تذکرہ نگاروں نے جتنی طوالت آپ کے ہنر کو دی ہے، اتنے ہی مباحثے آپ کے مزاج میں موجود ان خامیوں کو اجاگر کرنے میں رقم کر ڈالے۔ مومن پر لکھے گئے تمام تذکرے اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ سبھی آپ کے ہاں ادب سے زیادہ مذہب پر مباحث پیش کرنے اور آپ کی شخصیت کو مسخ کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً مومن جیسی عظیم شخصیت اپنے حق سے محروم ہو کر رہ گئی۔

    مومن کے بارے میں یہ تو طے ہے کہ آپ کا جنّات یا مؤکلات سے کچھ واسطہ نہ تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ نجوم شناس تھے۔ ایسے میں آپ کے اس فن کا یوں بیان کرنا کہ جیسے کوئی طبیب کسی مریض کی نبض پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہو اور اس کو اُسی کی علاماتِ مرض مسلسل بتاتا چلا جائے؛ یعنی ایک آنے والا آیا، آپ نے اس کے ماتھے پر پریشانی دیکھی، پہلے پریشانی بتائی، پھر اس کی پریشانی سے جڑے ہوئے ہر ہر فرد کا حال ذکر کیا، پھر اس پریشانی کا حل بھی بتا دیا۔

    ایسے طرزِ بیان سے صرف یہی متبادر ہوتا ہے کہ مومن نہ صرف علمِ غیب رکھتے تھے، بلکہ آپ کو ماورائی طاقتوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ستارہ شناسی ایک علم ضرور ہے مگر اس پر دعوائے علمِ غیب چہ معنی دارد؟

    اس بارے میں ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
    ”اگرچہ مومن زبردست منجم تھے مگر وہ خیّام کی طرح علمِ نجوم پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔”

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھت سے گرنے کے بعد آپ نے اپنی موت کا حکم لگایا تھا کہ پانچ دن، پانچ ماہ یا پانچ سال میں مر جاؤں گا۔ اس سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے علم کی رو سے اپنی موت کا وقت جان لیا تھا۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایک طرف مرحوم کے زہد و تقویٰ کا پرچم بلند کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انھیں تقدیر کے مقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے۔

    مومن نے ساری زندگی اپنی تاریخ پیدایش پر کوئی صراحت تو پیش نہیں کی جو نہایت آسان کام تھا، پھر اپنی موت پر پیش گوئی کیونکر کر سکتے تھے؟!

    اس تاویل کا جواب یہ ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر اپنے مریض کے مرض کی نہ صرف نوعیت سمجھتا ہے بلکہ اس کے صحت یاب ہونے یا نہ ہونے پر جزوی رائے بھی رکھتا ہے۔ ایسے ہی مومن بھی ایک ماہر اور موروثی طبیب تھے، انھیں اپنے زخموں کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا، جس کی بنا پر انھوں نے یہ ”دست و بازو بشکست” (1268 ہجری) کہا تھا۔

    نیز آزاد کا یہ اعتراف بھی قابلِ گرفت ہے کہ مومن اتنے پہنچے ہوئے تھے کہ انھیں شطرنج کھیلنے کے دوران میں بھی کشف ہوتا رہتا تھا۔ دلیل میں ایک قصہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ایک دفعہ اپنے شاگرد سکھانند رقم کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے، مومن بولے کہ ابھی پورب سے ایک چھپکلی آئے گی اور دیوار پر بیٹھی اِس چھپکلی کو ساتھ لے جائے گی، تب آپ کو مات ہوگی۔ کچھ دیر بعد ایک بزاز آیا، اس نے اپنی گٹھری کھولی اور اس سے ایک چھپکلی نکل کر دیوار پر چڑھ گئی، اس دوران سکھانند کو مات ہو گئی۔

    اوّل تو اس عبارت کا نہ صرف مفہوم بلکہ اندازِ بیان بھی ہر کسی کے ہاں مختلف ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے یہی واقعہ کسی اور سے منسوب کیا ہے، لکھتے ہیں کہ یہ قصہ حضرت شاہ عضد الدین چشتی صابری کی کرامت کے ذیل میں نثار علی بخاری بریلوی نے مفتاح الخزائن (شاہ عبدالہادی چشتی امروہوی کے ملفوظات) میں بھی لکھا ہے۔

    ستم بالائے ستم کہ اکثر مؤرخین نے آپ کی مثنویوں کو خود نوشت مان کر بے تکے اور طویل مباحثے لکھے ہیں، یعنی آپ نے جتنے معاشقے فرمائے، اتنی ہی مثنویاں بھی لکھیں۔ طرفہ یہ کہ آپ نے پہلا عشق نو سال کی عمر میں کیا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا تمام شعرا کے افکار جو بصورت اشعار ہم تک پہنچے ہیں، سبھی مبنی بر حقائق ہیں؟ حاشا و کلا۔

    ان تاویلات کا جواب صرف یہ ہے کہ اگر ان واقعات میں کوئی صداقت ہوتی تو اس کا کوئی نہ کوئی سرا آپ کے مکاتیب (انشائے مومن) سے ضرور ملتا، یا آپ کے اوّلین تذکرہ نویس، جن کی اکثریت آپ کے تلامذہ و ہم عصر تھے، اس موضوع پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے۔

    (تحریر: عبید الرّحمٰن)

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    شعر و ادب اور تہذیب و تمدن کے مرکز شہر گلبرگہ کے سلیمان خطیب کو منفرد لب و لہجے میں ان کی مزاحیہ شاعری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دکن کے میدانِ مزاح نگاری میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی اور پاک و ہند میں مشہور ہوئے۔

    سلیمان خطیب نے متوسط طبقہ کے معاشرتی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 26 دسمبر 1922ء کو چٹگوپہ، کرناٹک کے ایک مہذب خطیب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بعد میں شہر گلبرگہ کو اپنا وطنِ ثانی بنایا۔ 1941ء سے 1977ء تک سرکاری ملازمت کی اور اس کے ساتھ قدیم دکنی لہجے میں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ 22 اکتوبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ‫1974ء میں حکومتِ کرناٹک نے انھیں اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا تھا اور اس کے علاوہ متعدد ادبی انعامات سلیمان خطیب نے اپنے نام کیے۔

    پہلی تاریخ، چھورا چھوری، ساس بہو، سانپ، ہراج کا پلنگ جیسی نظمیں سلیمان خطیب کی لازوال پہچان بنیں جن سے طنز و مزاح کے ساتھ حقیقت پسندی جھلکتی ہے اور مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’اٹھائیس تاریخ‘ ایک مفلوک الحال بیوہ کی درد بھری کہانی ہے جو اچھوتے انداز میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہرے طنز کا مظہر ہے۔

    کیوڑے کا بن، سلیمان خطیب کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ سلیمان خطیب عوامی شاعرتھے، ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذبات نظر آتے ہیں اور کیوڑے کا بن میں شامل کلام اس کی عمدہ مثال ہے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

    امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

  • ممتاز شاعر اور ادیب سرشار صدیقی کا تذکرہ

    ممتاز شاعر اور ادیب سرشار صدیقی کا تذکرہ

    اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار سرشار صدیقی 7 ستمبر 2014ء کو جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ترقّی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار حسین محمد تھا۔ 25 دسمبر1925 ء کو کان پور میں پیدا ہوئے۔ والد ممتاز طبیب تھے اور طبیہ کالج دہلی میں استاد تھے۔ سرشار صدیقی نے میٹرک کلکتہ سے جب کہ انٹر کان پور سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    یہاں بھی شعر و ادب سے جڑے رہے اور ساتھ ہی صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، انھوں نے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھے اور 1955ء میں نیشنل بینک میں ملازم ہوگئے۔ اسی ملازمت سے ریٹائر ہوئے جب کہ علاّمہ نیاز فتح پوری کے مشہور مجلّے ’’نگار‘‘ کی مجلسِ ادارت سے آخری وقت تک وابستگی برقرار رکھی۔

    سرشار صدیقی کے شعری مجموعوں میں پتّھر کی لکیر، زخمِ گل، ابجد، بے نام، خزاں کی آخری شام، اساس، میثاق، آموختہ اور اعتبار شامل ہیں جب کہ ان کی نثری تخلیقات کے مجموعے ارتقا، حرفِ مکرّر، اجمال، نا تراشیدہ اور رفتگاں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں
    دنیا کا خیال کر رہا ہوں

    اک کارِ محال کر رہا ہوں
    زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں

    وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں
    میں ان کا ملال کر رہا ہوں

    اشعار بھی دعوتِ عمل ہیں
    تقلیدِ بلال کر رہا ہوں

    تصویر کو آئینہ بنا کر
    تشریحِ جمال کر رہا ہوں

    چہرے پہ جواب چاہتا ہوں
    آنکھوں سے سوال کر رہا ہوں

    کچھ بھی نہیں دسترس میں سرشارؔ
    کیوں فکرِ مآل کر رہا ہوں