Tag: مشہور شاعر

  • سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سرزمینِ یونان کو گہوارۂ علم و حکمت کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیبوں، ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کے لیے مشہور یونان میں نہ صرف علم و ادب پروان چڑھا بلکہ اس سرزمین نے حُسن و عشق کی لازوال داستانوں کو بھی جنم دیا جنھیں آج بھی دہرایا جاتا ہے۔

    دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسی سَرزمین کا ایک تابندہ ستارہ سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے جسے یونان کی ممتاز شاعرہ مانا جاتا ہے۔ اس شاعرہ کی زندگی اور موت بھی افسانوں اور قصّے کہانیوں سے آراستہ ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سیفو 630 قبلِ مسیح میں شمالی یونان کے خوب صورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یونان کے اس شہر میں‌ آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو مقامی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو ایک شاعرہ کی حیثیت سے تو شناخت بنا ہی چکی تھی، لیکن لیسبوس میں‌ بدنام بھی بہت تھی۔ اسے ہم جنس پرست بھی کہا جاتا تھا، جب کہ اس کے کئی اسکینڈل بھی مشہور تھے۔ بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے۔

    اردو ادب کے نام وروں میں میرا جی اور سلیم الرّحمٰن نے سیفو پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے سیفو سے منسوب اکثر باتوں کو فرضی اور مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔ بعض‌ ناقدین اور تذکرہ نویسوں کا خیال ہے کہ سیفو کی شاعری اور شہرت نے اس کے حاسدین جن میں‌ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، کو اس کے بارے میں‌ غلط باتیں‌ پھیلانے پر اکسایا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

    یونان کی اس ممتاز مگر بدنام شاعرہ کی شادی ایک امیر کبیر تاجر سے ہوئی جو چند سال بعد ہی دنیا سے چل بسا تھا۔

    اس شاعرہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ مٹیلین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ فاڈن نے سیفو سے عشق لڑایا، لیکن پھر کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو اس کی بے وفائی پر زندگی سے دلبرداشتہ ہوگئی اور زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

    مشہور ہے کہ سیفو نے خود کُشی کے لیے دریائے ایپی کا انتخاب کیا۔ وہ ایک چٹان پر چڑھی اور دوڑتے ہوئے چھلانگ لگا دی جہاں دریا کی لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ خود کُشی کا یہ واقعہ 570 قبلِ‌ مسیح کا ہے۔ تاہم بعض مؤرّخین اس خودکشی کو افسانہ قرار دیتے ہیں۔

    سیفو کی شاعری میں وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین ملتے ہیں‌ جن میں سوز و گداز اور وارفتگی ہے۔ جدید نظم کے مشہور شاعر میرا جی نے سیفو کے متعلق لکھا ہے:

    ’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کم یاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو، تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہے۔‘‘

  • مشہور شاعر کو بجلی کا 36 لاکھ روپے سے زائد رقم کا بل موصول

    مشہور شاعر کو بجلی کا 36 لاکھ روپے سے زائد رقم کا بل موصول

    پاک و ہند میں‌ اپنی مزاحمتی شاعری اور ترنّم کے لیے مشہور منظر بھوپالی کو گزشتہ دنوں بجلی کے بھاری بل کی صورت میں ‘زبردست جھٹکا’ لگا ہے۔ بھارت کے اس معروف شاعر کو بجلی محکمے نے 36 لاکھ 86 ہزار 660 روپے کا بل بھیجا ہے۔

    بجلی کا ‘بھاری بھرکم’ بل موصول ہونے کے بعد منظر بھوپالی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں‌ شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت پر طنز کیا ہے، انھوں‌ نے ٹوئٹر پر لکھا، "وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کورونا کے دور میں ایسا مذاق شاعر کے لیے ٹھیک نہیں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے شاعر کے قلم کی سیاہی سوکھ گئی ہے۔ یہ بل رشوت خوری اور کرپشن کا کھلا دعوت نامہ ہے۔ منظر بھوپالی نے اس پوسٹ کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جس میں انھوں نے اپنے ہاتھوں میں‌ بجلی کا بل تھاما ہوا ہے۔

    بھوپال سے تعلق رکھنے والے اس شاعر کا اصل نام سید علی رضا اور تخلص منظر ہے۔ ان کا شعری سفر تین دہائیوں پر محیط ہے، وہ بھارت ہی نہیں‌ دنیا بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کرکے اپنے کلام اور ترنم کی داد وصول کرچکے ہیں۔

    منظر بھوپالی کراچی میں‌ منعقدہ عالمی مشاعرے میں بھی متعدد بار شرکت کرچکے ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا
    ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا

    در بدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں
    بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا

    موت سے جو ڈر جاؤ زندگی نہیں ملتی
    جنگ جیتنا چاہو کشتیاں جلا دینا

    پھر بہو جلانے کا حق تمھیں پہنچتا ہے
    پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا

  • جاں نثار اختر: "آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو…”

    جاں نثار اختر: "آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو…”

    ترقّی پسند ادب کے نمایاں اور اہم شعرا میں‌ جاں نثار اختر کا نام بھی شامل ہے جنھیں ہندوستان کی فلم نگری میں ان کے خوب صورت اور سدا بہار نغمات نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا تعلق خیر آباد (یوپی) سے تھا۔ جاں نثار اختر نے شاعری کا ذوق وراثت میں پایا تھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اور تربیت و فکری نشوونما علی گڑھ میں ہوئی۔ فلم نگری میں اپنی شاعری کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے جاں نثار اختر نے ادب کے علاوہ متعدد فلمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    یہاں ہم ان کی مشہور غزل باذوق قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
    شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    صندل سے مہکتی ہوئی پُرکیف ہوا کا
    جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
    ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
    چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

  • غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رُکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

    (اسلم فرخی کے مضمون سے اقتباس)

  • ’’آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو!‘‘

    ’’آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو!‘‘

    یہ آم بھی عجب پھل ہے۔ پھلوں کے حساب سے کوئی ایسا نام وَر پھل بھی نہیں ہے، مگر جب بازار میں اس کی نمود ہوتی ہے تو باقی سب پھل پھیکے پڑ جاتے ہیں۔

    ارے! آپ کو پتہ ہے کہ آموں کے عشاق میں ہمارے دو نامی گرامی شاعر بھی شامل ہیں۔ بھلا کون؟ غالب اور اقبال۔

    غالب نے تو شعر لکھ کر آم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آم کو بہشت کا پھل بتایا ہے۔ کہتے ہیں:

    باغبانوں نے باغِ جنّت سے
    انگبیں کے بہ حکمِ ربُّ النّاس
    بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مُہر گلاس

    اور اب اس ذیل میں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں چھلکوں کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہِ تفنّن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔

    مرزا مسکرائے۔ بولے ’’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔‘‘

    آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے، مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچّھا آپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علّامہ صاحب نے علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو، جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔

    اقبالیات کے محققین عجب بد ذوق ہیں۔ کسی نے اقبال اور آم کے مضمون میں تحقیق کے جوہر نہیں دکھائے۔ ہاں یاد آیا ایک برس ڈاکٹر جمیل جالبی یومِ اقبال کی تقریب سے پنجاب یونیورسٹی کے بلاوے پر کراچی سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے اقبال کے خطوط کو اپنے مقالہ میں چھانا پھٹکا تھا۔ کچھ خطوط انھوں نے آم و جامن کے حوالے سے بھی برآمد کیے تھے۔ ایک خط دربارۂ آم ملاحظہ فرمائیے۔

    ’’آموں کی کشش، کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا۔ میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی ؎

    اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
    الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا‘‘

    اس زمانے میں آموں کے نام سب سے بڑھ کر لنگڑے کی دھوم تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اس تقریب سے علامہ کو لنگڑے کا تحفہ بھیجا۔ اب لنگڑا، لنگڑاتا لنگڑاتا کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب کون اس کا نام لیوا ہے۔ اب تو چونسہ کا بول بالا ہے۔

    عجب بات ہے کہ یوں تو آم و جامن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر آموں کے رسیا آم کھاتے ہوئے اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ غریب جامن کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔

    خیر، ایسی بات بھی نہیں ہے کہ جامن کے قدر دان سرے سے مفقود ہوں۔ تو مت بھولو کہ برکھا کی یہ رُت خالی آموں کی رت نہیں ہوتی۔ آموں کے ساتھ جامنیں بھی ہیں۔ اور جامنوں کا اپنا ذائقہ ہے اور اپنا رنگ روپ ہے جسے ہم جامنی رنگ کہتے ہیں۔ چاہیں تو آپ انھیں اودی اودی جامنیں کہہ لیں۔

    آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، ناول اور افسانہ نگار اور نقّاد انتظار حسین کے ایک کالم سے اقتباسات)

  • اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر 25 مئی 1977ء کو انتقال کرگئے تھے۔ جعفر طاہر کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو روایتی دائرے سے نکال کر تازگی بخشی اور اس صنفِ سخن کو تخلیق کے نئے آہنگ کے ساتھ وسعت عطا کی۔

    29 مارچ 1917ء کو جھنگ میں پیدا ہونے والے جعفر طاہر نے وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کیے اور پھر برّی فوج سے منسلک ہوگئے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ ہوئے اور اپنی وفات تک یہ تعلق برقرار رکھا۔

    جعفر طاہر کے شعری مجموعے ہفت کشور، ہفت آسمان اور سلسبیل کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ہفت کشور وہ شعری مجموعہ ہے جس پر 1962ء میں طاہر جعفر نے آدم جی ادبی انعام حاصل کیا تھا۔

    جعفر طاہر کی غزلوں کے موضوعات اور ان کا اسلوب بھی اپنی انفرادیت کے سبب انھیں تخلیقی وفور سے مالا مال اور ثروت مند ظاہر کرتا ہے۔ جعفر طاہر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے
    اک غزل کہتے تو آباد کئی گھر ہوتے

    دوریاں اتنی دلوں میں تو نہ ہوتیں یا رب
    پھیل جاتے یہ جزیرے تو سمندر ہوتے

    اپنے ہاتھوں پہ مقدر کے نوشتے بھی پڑھ
    نہ سہی معنیٰ ذرا لفظ تو بہتر ہوتے

    ہم اگر دل نہ جلاتے تو نہ جلتے یہ چراغ
    ہم نہ روتے جو لہو آئنے میں پتھر ہوتے

    ہم اگر جام بکف رقص نہ کرتے رہتے
    تیری راہوں میں ستارے نہ گُلِ تر ہوتے

    صورتیں یوں تو نہ یاروں کی رلاتی رہتیں
    اے غمِ مرگ یہ صدمے تو نہ دل پر ہوتے

    ہم رہے گرچہ تہی دست ہی جعفر طاہرؔ
    بس میں یہ بات بھی کب تھی کہ ابو ذر ہوتے

    راولپنڈی میں وفات پانے والے اردو کے اس ممتاز شاعر کو جھنگ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی غیر مذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔

    حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سیّد سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سر سیّد کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔ ہماری اس تحریر میں چند پردہ نشین مردوں کے نام بھی آئیں گے جو ظاہراً دوستی کا دَم بھرتے تھے، لیکن ان کے دل حالی سے صاف نہ تھے۔ بقول میر انیس ”میں نے تو ایک دل بھی نہ دیکھا جو صاف ہو۔“

    حالی کی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اگرچہ سر سیّد، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور علّامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا، مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔

    مذہبی لوگ حالی کو سر سیّد کی بانسری اور نیچری کہتے تھے۔ حالی نے جو اُردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا کیوں کہ وہ حالی کو اہلِ دلّی اور لکھنؤ نہیں مانتے تھے، وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے۔

    ”دلّی دلّی کیسی دلّی، پانی پت کی بھیگی بلی“

    حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہو چکی تھی۔ مسدسِ حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہو رہی تھی جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنّن کے قائل تھے۔ حالی ایسی شاعری کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتا رہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انھوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا:

    یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے
    کہیں مِل کے خس کم جہاں پاک سارے

    مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی کی شاعری پر شدید رد عمل نے لکھنؤ اور دلّی کے رومانی شعرا کو حالی کے مقابل کر دیا۔ درجنوں حالی کو دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آرا ہو گئے جن میں حسرت موہانی کا اردوئے معلّیٰ اور سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنج پیش پیش تھے۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں۔ اودھ پنج کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہے:

    ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
    میدانِ پانی پت کی طرح پائمال ہے

    حالی کو خالی، جعلی، مالی، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یا د کیا جانے لگا۔ لکھنؤ اور دلّی کے اہلِ زبان کہتے تھے، یہ پانی پتی شخص کس جرأت سے اہلِ زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔ حالی ان تمام حملات کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستانِ شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے۔

    اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیر کا حملہ شیکسپیئر پر، سودا کا حملہ میر پر، شیفتہ کا حملہ نظیر پر رجب علی بیگ کا حملہ میر امن پر وغیرہ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سیّد صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلّیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔ حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے، مگر زینُ العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کر کے حسرت اور اُردوئے معلّیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے، کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے، حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔

    اتنے میں سیّد صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ”ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا، اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی۔

    سچ تویہ ہے کہ لعن و طعن، گالی و شنام، طنز و اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا۔

    کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چُپ
    سب کچھ کہا اُنھوں پر ہم نے دَم نہ مارا

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    23 اپریل 1616ء کو نام وَر شاعر اور ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا تھا۔ شیکسپیئر کو برطانیہ کا عظیم تخلیق کار مانا جاتا ہے جس نے عالمی سطح پذیرائی اور مقبولیت حاصل کی۔

    1564ء میں برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والا ولیم شیکسپیئر معمولی تعلیم یافتہ تھا۔ نوجوانی میں روزی کمانے کے لیے لندن چلا گیا اور وہاں ایک تھیٹر میں اسے معمولی کام مل گیا اور یہیں اس کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہوا۔

    وہ پہلے چھوٹے موٹے کردار نبھاتا رہا اور پھر تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھنے لگا۔ اس کے قلم کے زور اور تخیل کی پرواز نے اسے 1594ء تک زبردست شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار کردیا اور وہ لندن کے مشہور تھیٹر کا حصّہ بنا۔ اسی عرصے میں اس نے شاعری بھی شروع کردی اور آج اس کی تخلیقات انگریزی ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔

    انگلستان کے شعرا میں جو شہرت اور مقام و مرتبہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا وہ بہت کم ادیبوں اور شاعروں‌ کو نصیب ہوتا ہے۔ اس برطانوی شاعر اور ڈراما نگار کی ادبی تخلیقات کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ہملٹ اور میکبتھ جیسے ڈراموں کے اردو تراجم بہت مقبول ہوئے، اس کے علاوہ شیکسپیئر کی شاعری کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔

    اس مصنّف نے طربیہ، المیہ، تاریخی اور رومانوی ہر قسم کے ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر پر بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں نظمیں بھی شامل ہوتی تھیں اور یہ اس مصنف اور شاعر کے طرزِ تحریر میں جدتِ اور انفرادیت کی ایک مثال ہے جس نے اس وقت پڑھنے اور ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

  • کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    غزل
    دماغ پھیر رہا ہے یہ تاج تیرا بھی
    بگاڑ دے گی حکومت مزاج تیرا بھی

    عروجِ بام سے اترا تو جان جائے گا
    مِرا نہیں تو نہیں ہے سماج تیرا بھی

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا
    ہمیشہ رہنا نہیں ہے رواج تیرا بھی

    بس ایک نام محبّت کے گوشوارے میں
    بیاضِ دل میں ہوا اندراج تیرا بھی

    مجھے غرور سے معزول کرنے والے سن
    نہ رہنے دوں گا ترے دل پہ راج تیرا بھی

    تو کیوں یہ روح کی باتیں سنائے جاتا ہے
    جو مسئلہ ہے فقط احتیاج تیرا بھی

    وہ خوش گمان مجھے کہہ گیا دمِ رخصت
    مرض نہیں ہے بہت لاعلاج تیرا بھی

    اڑایا جیسے برس کر عتاب میں مرا رنگ
    ملمع ایسے ہی اترا ہے آج تیرا بھی


    (پیشِ نظر کلام منڈی بہاءُ الدین سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر اکرم جاذب کا ہے، وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور ملک کے مختلف ادبی رسائل اور قومی سطح کے روزناموں میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے، اکرم جاذب کے دو شعری مجموعے بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں جنھیں قارئین سے داد اور ناقدین سے حسنِ معیار کی سند مل چکی ہے)

  • فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے فارغ بخاری ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے