Tag: مشہور شاعر

  • معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    30 مارچ 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ مشہور ماہ نامہ افکار کے مدیر تھے۔

    لکھنؤ ان کا آبائی وطن تھا۔ تاہم صہبا لکھنوی نے بھوپال میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ بعد میں لکھنؤ اور بمبئی کے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہونے والے صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔

    انھوں نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا بھوپال سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں 1951ء میں دوبارہ ماہ نامہ افکار جاری کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی وفات تک جاری رہی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع کیا۔

    صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔

    صہبا لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
    عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

    کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
    منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

    موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
    کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

    اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
    غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

  • عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    ن م۔ راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں طرزِ نو کی بنیاد رکھی، آزاد نظم کو عام کیا، اسے مقبول بنایا۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو فکر و نظر کے نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر نئے رویّوں کو متعین کیا۔

    ن م راشد مزاجاً سخت گیر اور جلد باز مشہور تھے اور اسی عادت سے متعلق ان کے ایک رفیق اور ممتاز افسانہ نگار غلام عبّاس نے نہایت دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    "راشد کو اپنی اس بے صبری اور جلد بازی کی عادت کی ایک دفعہ اور بھی سخت سزا بھگتنی پڑی تھی۔ راشد کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں، مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ۔ تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کر لیجیے۔ شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں، گھٹنے زخمی تھے اور منہ سوجا ہوا۔ سارا جسم اکڑ گیا تھا، چلنا پھرنا دوبھر تھا۔

    ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ کہنے لگے بھائی یہ امتحان تو پل صراط سے گزرنے سے کم نہ تھا۔ مجھے خار دار تاروں پر سے گزرنا پڑا، خاصے اونچے اونچے درختوں پر چڑھا اور وہاں سے زمین پر چھلانگیں لگائیں۔ کبھی دوڑتا تھا، کبھی رینگتا تھا، قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا تھا۔

    بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اس جسمانی معائنہ کی صعوبتیں ناحق ہی اٹھائیں۔ کیوں کہ انھیں تو اس معائنہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا، لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔

  • مشاعروں کی بود و باش

    مشاعروں کی بود و باش

    ایک بزرگ شاعر ہر مشاعرے میں اس ٹھسّے سے آتے تھے کہ ہاتھ میں موٹی سی چھڑی ہوتی تھی اور ساتھ میں کیمرہ لیے ان کا بیٹا ہوتا تھا۔

    بیٹا یوں تو بیٹھا اونگھتا رہتا تھا، لیکن جوں ہی ابّا جان شعر پڑھنے کو کھڑے ہوتے، وہ حرکت میں آجاتا اور تصویروں پر تصویریں اتارتا رہتا۔ ابّا جان بھی ایسے تھے کہ اپنی نشست پر جم کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ مختلف بہانوں سے ادھر ادھر آتے جاتے رہتے تھے کہ کہیں انہیں شروع ہی میں نہ بلا لیا جائے۔

    ایک بار اپنے مخصوص ترنّم میں غزل کا پہلا شعر پڑھا اور اسی ترنّم میں لہک کر اس کی تقطیع بھی کر دی

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

    بس پھر غضب ہوگیا۔ جوں ہی وہ شعر مکمل کرتے، سارا مجمع اُسی ترنّم میں اور قوالی کے انداز میں اس کی تقطیع کرنے لگتا۔

    وہ پہلے تو محظوظ ہوئے، پھر خفا، پھر ناراض، پھر برہم اور آخر میں چھڑی اٹھائی، بیٹے کا ہاتھ تھاما اور محفل سے اس بڑھیا کی طرح نکل گئے جو اپنا مرغ بغل میں داب کر گاؤں سے چلی گئی تھی۔ لیکن مقطع سنائے بغیر نہیں گئے۔

    (رضا علی عابدی کی کتاب کے باب "مشاعروں کی بود و باش” سے اقتباس)

  • ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    آل احمد سرور بدایوں کے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعات کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ سرور نے ادب کے مطالعے کے ساتھ قلم تھاما اور شاعری اور تنقید نگاری میں نام و مقام بنایا۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ تازہ کاری ملتی ہے۔ اردو ادب کے اس نام وَر کی ایک غزل آپ کے حسنِ‌ مطالعہ کی نذر ہے۔

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
    چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے

    بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند
    ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے

    امید جن سے تھی وضعِ جنوں نبھانے کی
    وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا
    خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے

    خزاں سے جن کو بچا لائے تھے جتن کر کے
    وہ نخل اب کے بہاروں میں جل گئے کیسے

    نہ جانے کیوں جنہیں سمجھے تھے ہم فرشتے ہیں
    قریب آئے تو چہرے بدل گئے کیسے

    ہر ایک سایۂ دیوار کی لپیٹ میں ہے
    سرورؔ آپ ہی بچ کر نکل گئے کیسے

  • معروف شاعر فرید جاوید کی برسی

    معروف شاعر فرید جاوید کی برسی

    گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
    ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا

    اس شعر کے خالق فرید جاوید ہیں جن کی آج برسی ہے۔ 27 دسمبر 1977ء کو کراچی میں وفات پانے والے اس شاعر کا تعلق سہارن پور سے تھا۔ وہ 18 اپریل 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام فرید الدین اور تخلص جاوید تھا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فرید جاوید کے خاندان نے ہجرت کی اور کراچی میں آ بسے۔ یہاں‌ فرید الدین جاوید نے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ مالی مسائل کا شکار رہے۔ صحّت اچھی نہ تھی اور اسی دوڑ دھوپ اور تفکر کے ساتھ ایک روز تہِ خاک ابدی نیند سوگئے۔

    فرید جاوید زمانہ طالب علمی سے شعروسخن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کا مندرجہ بالا شعر زباں زدِ عام ہوا۔ فرید جاوید کے انتقال کے بعد ان کا شعری مجموعہ’’سلسلہ تکلم کا‘‘ شایع ہوا۔ فرید جاوید کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    تلخ گزرے کہ شادماں گزرے
    زندگی ہو تو کیوں گراں گزرے

    تھا جہاں مدتوں سے سناٹا
    ہم وہاں سے بھی نغمہ خواں گزرے

    مرحلے سخت تھے مگر ہم لوگ
    صورتِ موجۂ رواں گزرے

    میرے ہی دل کی دھڑکنیں ہوں گی
    تم مرے پاس سے کہاں گزرے

    کیوں نہ ڈھل جائے میرے نغموں میں
    کیوں ترا حسن رائیگاں گزرے

    چند لمحے خیال و خواب سہی
    چند لمحے انیس جاں گزرے

    کتنے خاموش حادثے جاویدؔ
    دل ہی دل میں نہاں نہاں گزرے

  • کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    اردو ادب، ریختہ اور کلاسیکی دور کے مختلف ادبی تذکروں میں سیادت حسن سیّد جلال الدین حیدر خاں کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے جن کی عرفیت آغا حجو تھی اور شرف ان کا تخلص۔ شاعری ان کا میدان تھا جس میں‌ انھیں آتش جیسا استاد نصیب ہوا۔

    آغا حجو کا درست سنِ پیدائش تو معلوم نہیں‌، لیکن ادبی محققین کا خیال ہے کہ وہ 1812ء میں پیدا ہوئے۔ وطن ان کا لکھنؤ تھا۔ اپنے دور کے نام ور شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگردوں میں‌ سے ایک تھے۔

    آغا حجو غدر سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ آغا حجو شرف کی تین تصانیف ’’شکوۂ فرنگ‘‘، ’’افسانۂ لکھنؤ‘‘ اور ’’دیوانِ اشرف‘‘ دست یاب ہوئیں۔ آج رفتگاں کے باب سے اسی شاعر کا کلام آپ کی خدمت پیش ہے۔

    غزل
    جب سے ہوا ہے عشق ترے اسمِ ذات کا
    آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا

    الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
    اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا

    سرخی کی خطِ شوق میں حاجت جہاں ہوئی
    خونِ جگر میں نوک ڈبویا دوات کا

    اے شمعِ بزمِ یار وہ پروانہ کون تھا
    لَو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا

    اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
    دَم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا

    قدسی ہوے مطیع، وہ طاعت بشر نے کی
    کُل اختیار حق نے دیا کائنات کا

    ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
    قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا

    رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو؟
    مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا

    دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
    خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا

    شاعر: آغا حجو شرف

  • ہینلے کی بیماری اور نیلسن منڈیلا کی پسندیدہ نظم

    ہینلے کی بیماری اور نیلسن منڈیلا کی پسندیدہ نظم

    جب اس کی عمر 14 برس ہوئی تو معالجوں نے بتایا کہ اسے ہڈیوں کی ٹی بی ہے اور زندگی بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹنا ضروری ہے۔ سترہ برس کی عمر میں اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کرب و ملال کی اس کیفیت میں اس نے ایک نظم کہی جو آج برسوں بعد بھی زندہ ہے۔

    یہ تذکرہ ہے، انگریز شاعر ولیم ارنسٹ ہینلے (William Ernest Henley) اور ان کی مشہورِ زمانہ نظم Invictus کا! لیکن اس نظم کا ایک اور حوالہ بھی ہے۔

    اپنی کرب ناک بیماری سے لڑتے ہوئے مایوسی میں گھرے ہینلے نے خود کو حوصلہ دینے کے لیے یہ اشعار کہے تھے اور افریقا کے ایک سپوت نے، جو انسانیت کے جسم میں زہر کی طرح سرائیت کرنے والے "نسلی تعصب” کے خلاف لڑرہا تھا، اسی نظم کو اپنی جدوجہد کا ترانہ بنا لیا۔

    یہ باہمت نیلسن منڈیلا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے دورِ اسیری میں وہ یہ نظم اپنے جیل کے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں لندن کے ایک اوپیرا گروپ نے ان کی آواز میں یہ نظم ریکارڈ کرکے اس کی باقاعدہ دُھن تیار کی اور منڈیلا کی زندگی پر بننے والی ہالی ووڈ کی ایک فلم کا نام بھی اسی نظم کے عنوان پر رکھا گیا۔

    اس عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس نظم کا آزاد اور تاثراتی ترجمہ پیش خدمت ہے۔ منڈیلا کی یہ پسندیدہ نظم ان کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کی تصویر کشی کرتی ہے اور ساتھ ہی ان کی یادوں سے جڑی ایک یاد ہے، ملاحظہ فرمائیں!

    ناقابلِ شکست
    اس رات سے پرے، جو مجھے گھیرے ہوئے ہے
    اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، کسی کھائی کے مانند سیاہ ہے
    میں خداوندانِ دہر کا شکر گزار ہوں، ان سب عطاؤں کے لیے
    جو میری ناقابلِ تسخیر روح پر کی گئیں
    جب بھی مجھے حالات نے اپنی گرفت میں جکڑا
    نہ تو میں گھبرایا اور نہ بَین کیا
    مقدر کی پیہم ضربوں تلے
    میرا سَر خون آلود ہے مگر جُھکا نہیں
    اس جائے قہر و ملال سے بھی سِوا
    خوف کے دھندلے سائے
    اور زِیاں کاری کی نذر ہوتے برسوں نے مجھے
    بے خوف پایا اور آئندہ بھی ایسا ہی پائیں گے
    اب اس کی کیا پروا کہ راستے کتنے دشوار ہیں
    یا راہیں کتنی پُر پیچ ہیں
    میں اپنی قسمت کا خود مختار ہوں
    میں اپنی کشتیِ روح کا آپ ملاح ہوں

    (تحریر و ترجمہ رانا محمد آصف)

  • صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    ممتاز شاعر، نقاد اور ڈراما نویس سلیم احمد اپنے بے لاگ اور کھرے انداز میں لکھے گئے تنقیدی مضامین کی وجہ سے دنیائے ادب میں‌ متنازع تو رہے، لیکن‌ اسی تنقید اور کھرے پن نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز بھی کیا۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983 کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور 1950 میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقید کی زد پر رہے۔

    سلیم احمد کو ایک اچھا ڈراما نویس بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، جب کہ اخبارات میں ان کے کالم بھی شایع ہوتے رہے جنھیں‌ بہت پسند کیا جاتا تھا۔

    ان کے شعری مجموعوں‌ میں‌ بیاض، اکائی، چراغ نیم شب جب کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب میں‌ نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت اور اقبال ایک شاعر شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا یہ شعر تحریر سے تقریر تک خوب برتا گیا

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد سرحدی پٹی کے دونوں اطراف شہروں میں بس جانے والے عالم و فاضل، نہایت قابل اور باصلاحیت لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں‌ کام جاری رکھا اور بٹوارے سے قبل بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب علمی و ادبی میدان میں اپنے ہم عصروں کے کردار اور ان کے کارناموں کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا۔

    حیدر آباد دکن میں جہاں علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور نسلِ نو کے لیے بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے، وہیں کئی غیر مسلم شخصیات بھی تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ رشید الدین نے ایسی ہی چند نابغہ روزگار ہستیوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے ایک رائے جانکی پرشاد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    اردو میں اعلٰی قابلیت کی وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ قیامِ جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لیے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعرا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح آبادی، علامہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں۔

    رائے جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی اصطلاحات کی تدوین فرمائی۔

    رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔ ان کا لباس ٹوپی، شیروانی اور پاجامہ ہوا کرتا تھا۔ وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر علیحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ ہوئے اور ان کی راہ نمائی کی۔

    وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے۔ حامد نواز جنگ نے جو لا ولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کو وظائف جاری کیے جاتے تھے۔ رائے جانکی پرشاد اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی
    تھے۔

    نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے، انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے پر ہی کینسر اسپتال قائم کیا۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل ہے۔

    ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

  • حیدر بخش جتوئی کو’’بابائے سندھ‘‘ کیوں‌ کہتے ہیں؟

    حیدر بخش جتوئی کو’’بابائے سندھ‘‘ کیوں‌ کہتے ہیں؟

    حیدر بخش جتوئی عوام میں ’’بابائے سندھ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

    یہ وہ لقب ہے جس سے ان کے ہر دل عزیز ہونے اور عوام میں ان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، لیکن حکومتِ پاکستان کو ان کی وفات کے بعد ہلالِ امتیاز عطا کرنے میں 30 سال لگے۔ آج حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

    ان کی شہرت ہاری راہ نما اور شاعر کے طور پر تھی۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ 1900 میں پیدا ہوئے۔ بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کے بعد سرکاری ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔

    حیدر بخش جتوئی نے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہاری تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی اور 1950 میں ہاری کونسل نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کیا جس کے بعد ان کی جدوجہد کے نتیجے میں قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور انھیں اپنا حقیقی مسیحا اور راہ نما مانتے تھے۔

    ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی پر ان کی ایک نظم کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ 21 مئی 1970 کو حیدر بخش جتوئی وفات پاگئے تھے۔