Tag: مشہور شاعر

  • اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    عبید اللہ علیم کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ 1998 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج عبید اللہ علیم کا یومِ وفات ہے۔

    1939 کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبید اللہ علیم کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد عبید اللہ علیم نے پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کر لی، مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اختلافات کے بعد انھو‌ں نے استعفیٰ دے دیا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا، نگارِ صبح کی امید میں شامل ہیں۔

    عبید اللہ علیم کی یہ مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

    کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
    پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

    جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
    تم باد صبا کہلاؤ تو کیا

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا
    اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

    تم آس بندھانے والے تھے
    اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

    دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
    پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

    میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
    تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

    جب دیکھنے والا کوئی نہیں
    بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

    اب وہم ہے یہ دنیا اس میں
    کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

    ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

  • ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    آج اردو زبان کے نام ور ادیب، محقق، نقاد سید ابوالخیر کشفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 15 مئی 2008 کو انتقال کرجانے والے ابوالخیر کشفی اپنی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932 کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے ان کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

    وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی شروع کرنے کے لیے انھوں نے تدریس کا سہارا لیا اور کالج سے لے کر جامعہ کراچی تک اپنے علم و کمال سے نسلِ نو کو سنوارا۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    اردو ادب میں سبط علی صبا کی شناخت اور پہچان غزل گوئی ہے۔ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے دیگر شعرا کے مقابلے میں‌ وہ ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کا‌ ایک ہی شعر ان کی شہرت کا سبب بن گیا۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    1935 میں پیدا ہونے والے سبطِ علی صبا نے فوج اور بعد میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں کام کیا۔ اس دوران مشقِ سخن جاری رکھی اور ادب کی دنیا میں‌ اپنی تخلیقات سے خوب نام پیدا کیا۔ ان کے لہجے میں تازگی اور خیال میں ندرت جھلکتی ہے۔

    زندگی نے سبطِ علی صبا کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیا اور وہ 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 14 مئی 1980 کو انتقال کرجانے والے سبطِ علی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شایع ہوا۔

    آج اس خوش فکر شاعر کی برسی ہے۔ سبطِ علی صبا کی یہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
    آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے

    وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
    جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے

    اتنی پُر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
    شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے

    رہ روِ منزلِ مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
    جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

  • امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہوگئے تھے اور عوام سخت پریشان تھے۔

    والیٔ رام پور نواب یوسف علی خان نے مشہور شاعر حضرت امیرؔ مینائی سے کہا کہ بارش کے لیے بارگاہِ الٰہی میں التجا کریں۔ امیر مینائی کا خاندان زہد و تقویٰ، خدمتِ خلق کے لیے مشہور تھا اور آپ بھی نیک طینت اور پرہیز گار شمار ہوتے تھے۔

    کہتے ہیں امیر مینائی ان دنوں کسی کام کی غرض سے رام پور آئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب کی پریشانی اور اپنے لوگوں کے لیے ان کا درد سنا تو سبھی کو دُعا کا کہتے ہوئے خود بھی اپنے رب کی بارگاہ میں‌ ہاتھ اٹھائے۔ کہتے ہیں ان کی دُعا کے بعد وہاں خوب بارش ہوئی۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ انھوں نے بارش کے لیے اپنا ایک دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    (حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا کے فن اور ان کی زندگی سے متعلق ادبی تحقیق پر مبنی مضمون میں رقم کیا ہے)

  • بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    اردو زبان کے مزاح گو شعرا میں‌ سید ضمیر جعفری اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ بامقصد شاعری کے قائل ہونے کی وجہ سے ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1999 میں آج ہی کے دن فرشتہ اجل نے انھیں ابدی نیند کا پیام دیا تھا۔ آج ہم نام ور شاعر، ادیب اور مترجم سید ضمیر جعفری کی برسی منا رہے ہیں۔

    یکم جنوری 1914 کو ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے سید ضمیر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں کار زار، لہو ترنگ، مافی الضمیر، مسدس بے حالی، کھلیان، ضمیریات، قریۂ جان، ضمیرِ ظرافت شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف مضامین تحریر کرنے کے ساتھ کالم نویسی بھی کی جن میں ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ سماجی مسائل اور تلخ حقیقتوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

    سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ وہ راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سراج الدین ظفر حسن و جمال، کیف و مستی کا شاعر

    سراج الدین ظفر حسن و جمال، کیف و مستی کا شاعر

    اردو کے مشہور شاعر سراج الدین ظفر کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ انھوں نے‌ شاعری میں حسن و جمال اور رندی و سرمستی سے متعلق موضوعات کو برتا اور نام کمایا۔

    ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
    شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

    اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
    پیچ، اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں

    اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
    کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

    ٹھہر اے بادِ سحر، اس گلِ نورستہ کے نام
    اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

    اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
    چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

    سراج الدین ظفر کی والدہ بھی اردو کی مشہور لکھاری تھیں، جن کا نام بیگم زینب عبدالقادر تھا جب کہ ان کے نانا فقیر محمد جہلمی سراجُ الاخبار کے مدیر اور حدائق الحنیفہ جیسی بلند پایہ کتاب کے مصنف تھے۔ علمی ماحول میں‌ پروان چڑھنے والے ظفر نے افسانے بھی لکھے۔ تاہم شاعری میں ان کا اسلوب اور موضوعات ان کی پہچان بنے۔ 6 مئی 1972 کو انھوں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ کراچی میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    ایک نواب کے دربار میں وزرا، امرائے سلطنت کے علاوہ علما اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔

    دربار میں‌ موجود لوگوں میں ایک نابینا کے علاوہ فقیر، عاشق اور ایک عالم بھی شامل تھا۔

    نواب صاحب نے ایک مصرع دے کر ان چاروں سے کہا کہ شعر مکمل کریں۔

    وہ مصرع تھا:

    "اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں”

    نابینا نے شعر یوں مکمل کیا:

    اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    فقیر نے کہا:

    مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    عاشق نے تو گرہ لگائی:

    ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    نواب نے سلطنت کے نیک نام اور پرہیز گار عالم کی طرف دیکھا تو انھوں‌ نے یوں شعر مکمل کیا:

    بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    کہتے ہیں ہر شخص کی سوچ اور فکر کا زاویہ مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنے علم، مطالعے کے ساتھ اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں‌ کسی مسئلے اور نکتے کو بیان کرتا ہے اور یہی اس دربار میں ہوا۔

    سبھی اس شعر پر جھوم اٹھے اور نواب نے عالم صاحب کو خوب داد دی۔

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یہ اصل زندگی ہے….

    یہ اصل زندگی ہے….

    اصغر گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ ان کا شمار کلاسیکی دور کے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ 1884 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورکھ پور میں‌ پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ علم و ادب اور مطالعے کے شوق نے شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ منشی جلیل اللہ وجد اور منشی امیر اللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کو سادہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے مضامین کے علاوہ فلسفہ اور تصوف کے موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ وہ 1936 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اصغر گونڈوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    جانِ نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
    جنت ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے

    اس جلوہِ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
    ایسا حجاب، چشمِ تماشا کہیں جسے

    یہ اصل زندگی ہے، یہ جانِ حیات ہے
    حسنِ مذاق شورشِ سودا کہیں جسے

    اکثر رہا ہے حسنِ حقیقت بھی سامنے
    اک مستقل سراب، تمنا کہیں جسے

    اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
    شکلِ صفات معنیِ اشیا کہیں جسے

    زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
    جانِ بہارِ نکہتِ رسوا کہیں جسے

    سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
    اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے

    شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
    وہ ربطِ خاص، رنجشِ بے جا کہیں جسے

    میری نگاہِ شوق پہ اب تک ہے منعکس
    حسنِ خیال، شاہدِ زیبا کہیں جسے

    دل جلوہ گاہِ حسن بنا فیض عشق سے
    وہ داغ ہے کہ شاہدِ رعنا کہیں جسے

    اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
    رازِ حیات، ساغر و مینا کہیں جسے