Tag: مشہور شاعر

  • یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھیں جداگانہ اسلوب کا حامل اور ایسا تخلیق کار مانا جاتا ہے جس کے موضوعات کی انفرادیت اور اظہار کا سلیقہ قابلِ توجہ ہے۔

    اردو کے معروف شاعر اور ادیب عزیز حامد مدنی کا انتقال 23 اپریل 1991 کو کراچی میں ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے چند بہترین براڈ کاسٹروں میں ہوتا ہے۔ ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نقاد کی حیثیت سے بھی پہچان بنائی۔

    عزیز حامد مدنی کا تعلق رائے پور (یوپی) سے تھا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے والے عزیز حامد مدنی نے قیام پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور ریٹائرمنٹ تک ان کی یہ وابستگی برقرار رہی۔

    ان کے شعری مجموعوں میں چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں شامل ہیں۔ عزیز حامد مدنی کا ایک شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

  • انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    اپنے خیالات و جذبات، اپنے دکھ سکھ، اپنے غم و مسرت کو اتنی اہمیت دینا کہ آدمی انہی کا ہو کر رہ جائے، ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

    غموں کو اتنی زیادہ اہمیت دینے سے آدمی میں دنیا بے زاری، کلبیّت، جھلاہٹ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور خوشیوں کو اتنا اہم سمجھنے سے خود غرضی، خود پرستی اور خود بینی جنم لیتی ہے۔ بس اتنا ہی تو ہے کہ ہمارے غم ہمیں تباہ کر دیتے ہیں، ہماری شخصیت کو مٹا دیتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہمیں جِلا دیتی ہیں، بنا سنوار دیتی ہیں، لیکن ہمارا بننا سنورنا، ہمارا مٹنا مٹانا دوسروں کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

    ہم رو رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں روئیں؟ ہم ہنس رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں ہنسیں؟ ہمارے پاؤں میں کانٹا گڑا ہے تو دوسروں کو تکلیف کیوں پہنچے؟ ہمیں پھولوں کی سیج میسر ہے تو دوسروں کو راحت کیوں ہو؟

    انسان، انسان کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار کھنچی ہوئی ہے۔ ادب اس دیوار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام نہیں کرتا، ادب شخصی اور ذاتی غموں اور مسرتوں کی ڈائری نہیں ہوتا۔ اس کا کام تو انسان کو انسان کے قریب لانا ہے۔

    انسان انسان کے درمیان کھنچی ہوئی شخصیت کی دیوار کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ساتھی بنانا ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کے دلوں میں جھانک کر ان کے دکھ سکھ کو سمجھنے کی ایک مقدس اور مبارک کوشش ہے۔

    ادب کی سب سے بڑی قدر اس کی انسانیت، اس کی مخلوق دوستی، اس کی انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی خواہش ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنی آواز کو، اپنے دل کی دھڑکنوں کو، عام انسانوں کی آواز، عام انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ملانے، عام انسانوں کے دکھ سکھ، امیدوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرنے، عالمِ خارجی کے گوناگوں پہلوؤں اور حیات و کائنات کے رنگا رنگ مظہروں سے دل چسپی رکھنے اور اپنی شخصیت اور عالمِ خارجی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی وجہ سے بڑا ہے۔

    زندگی کے انفرادی شعور سے ایک فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں، آرزوؤں اور حسرتوں، امیدوں اور مایوسیوں، ناکامیوں اور کامرانیوں غرض ایک فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثوں کی ڈائری تو لکھی جا سکتی ہے، لیکن زندگی کی تنقید، زندگی کے مستقبل کے امکانات کا اندازہ، زندگی کے ماضی و حال کے صالح عناصر کی پرکھ، ایک بہتر انسان اور بہتر معاشرے کا تصور انفرادی شعور کے بس کی بات نہیں۔

    یہ بصیرت تو صرف انسانی ذہن کے اجتماعی طرزِ فکر اور انسانی زندگی کے اجتماعی ذہنی و عملی رجحانات کے علم ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں۔

    (اردو زبان میں تنقید، نظم اور نثر میں اپنی تخلیقات اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر فکر کا اظہار کرنے والے سلیم احمد کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    سعید الرحمن کا تخلص سُرور تھا جو اپنے آبائی علاقے بارہ بنکی کی نسبت قلم نگری میں سُرور بارہ بنکوی مشہور ہوئے۔

    لازوال گیتوں کے اس خالق نے فلم کے لیے مکالمے بھی لکھے اور ہدایت کاری بھی کی۔ تاہم ان کی اصل وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کی عملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھنے سے ہوا، بعد میں فلم سازی کی طرف آئے۔

    3 اپریل 1980 کو بنگلا دیش سے ان کے انتقال کی خبر آئی۔ آج اردو زبان کے اسی خوب صورت اور لازوال نغموں کے خالق کی برسی ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا تھا جب کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بھی ان کی کاوشیں یاد رکھی جائیں گی۔ مشہور پاکستانی فلم “آخری اسٹیشن” انہی کی کاوش تھی۔

    "تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے”، "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے”، اور "کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں” جیسے رسیلے اور لافانی گیت سرور بارہ بنکوی کی تخلیق ہیں۔

    سُرور بارہ بنکوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

     

    نہ کسی  کو  فکرِ منزل، نہ  کہیں  سراغِ جادہ
    یہ عجیب  کارواں ہے، جو رواں ہے بے ارادہ

    یہی لوگ ہیں،ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
    کبھی  ڈال کر  نقابیں،  کبھی اوڑھ  کر لِبادہ

    مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آرہی ہیں
    تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ

    سرِ انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
    وہ نِگہ! جو درحقیقت، تھی نِگاہ سے زیادہ

    ہو برائے شامِ ہجراں، لبِ ناز سے فروزاں!
    کوئی ایک شمعِ پیماں، کوئی اِک چراغِ وعدہ

  • وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔


    (حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے انتخاب)

  • یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    مشہور شاعر بشیر بدر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

     

    غزل
    یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی  شام گھر بھی رہا کرو
    وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو

    کوئی  ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو  گلے ملو  گے تپاک  سے
    یہ  نئے  مزاج  کا  شہر  ہے، ذرا  فاصلے سے  ملا کرو

    ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا، کوئی جائے گا
    تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا، اُسے بھولنے کی دعا کرو

    مجھے  اشتہار  سی  لگتی  ہیں  یہ   محبتوں  کی   کہانیاں
    جو  کہا  نہیں وہ  سنا  کرو،  جو  سنا  نہیں  وہ  کہا  کرو

    نہیں بے  حجاب وہ  چاند سا کہ نظر کا  کوئی  اثر نہ ہو
    اسے  اتنی  گرمئی شوق سے  بڑی دیر  تک نہ تکا کرو

    یہ خزاں کی  زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
    یہ تمہارے  گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

  • وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    ایک زمانہ تھا جب سبزیوں، پھلوں اور دیگر غذائی اجناس سے مختلف بیماریوں اور امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ خالص غذائی اجناس اور تازہ سبزیوں اور پھلوں کی افادیت اور ان کی خاصیت و تاثیر سے حکیم اور معالجین خوب واقف ہوتے تھے۔

    آج جہاں نت نئے امراض اور بیماریاں سامنے آرہی ہیں، وہیں ان کے علاج کا بھی جدید اور سائنسی طریقہ اپنا لیا گیا ہے جو کہ ضروری بھی ہے۔ تاہم مہلک اور خطرناک امراض ایک طرف عام شکایات کی صورت میں بھی ہم قدرتی طریقہ علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

    یہ نظم جہاں آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی، وہیں عام جسمانی تکالیف کے حوالے سے ایک حکیم جو کہ شاعر بھی تھے، ان کے تجربات اور معلومات کا نچوڑ بھی ہے۔

    دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔

    جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے​
    وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

    ​اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ​
    تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

    جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا​
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس​
    مربّہ آملہ کھا یا انناس

    ​اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی​
    تو پی لے سونف یا ادرک کا پانی

    تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے​
    تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

    جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے​
    تو کر نمکین پانی کے غرارے

    ​اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل​
    تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

    شفا چاہے اگر کھانسی سے جلدی​
    تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
    ​​
    دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی​
    کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
    ​​
    جو بد ہضمی میں تُو چاہے افاقہ​
    تو دو اِک وقت کا کر لے تُو فاقہ