Tag: مشہور شاعر

  • خوش گمانی…..

    خوش گمانی…..

    ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔

    کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے، ہجر سے پہلے۔‘‘ انھوں نے ایک شعر جس میں ’سفر‘ کا قافیہ باندھا تھا، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ ’’کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون تھوکنے لگے۔‘‘

    استاد داغ دہلوی یہ سن کر مسکرائے اور بولے:

    ’’ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں۔‘‘ اس جملے پر حاضرین میں ہنسی دوڑ گئی اور کنتوری صاحب کو خفت محسوس ہوئی۔

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔

    ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔

    وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں‌ کہ کس سوچ میں ہیں؟

    میر انیس نے اپنا یہ مصرع پڑھا اور کہا کہ شعر مکمل کرنا چاہتا ہوں‌، مگر کچھ موزوں‌ نہیں‌ ہو رہا۔

    بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“

    میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں‌ شامل کیا۔

    یا رب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    اگر میر انیس کے مرثیوں‌ کا مطالعہ کریں‌ تو ایک جگہ یہ شعر یوں‌ ملتا ہے اور اسے محافل میں‌ بھی اسی طرح‌ پڑھا جاتا ہے۔

    بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر زبان کی لطافت اور محاورے کی چاشنی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ آج بھی جب خاص طور پر کربلا کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں‌ تو میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

  • فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

    (احمد ندیم قاسمی کی کتاب ”میرے ہم سفر“ سے خوشہ چینی)

  • مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    حضرت مرزا داغ دہلوی کو بھی مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ جو نئی کتاب بھی شایع ہوتی، وہ فوراً اسے خرید لیتے اور اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے۔

    مطالعہ وقفے وقفے سے کرتے، لیکن کتاب کو پوری پڑھ کر چھوڑتے۔ انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمرا کتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا جس میں چار پانچ الماریاں کتابوں سے پُر تھیں اور ہر الماری میں دو دو ڈھائی ڈھائی سو کتابیں ہوتی تھیں۔

    وہ کتابوں کی جلدیں قیمتی بندھواتے اور ہر کتاب پر مالکِ کتاب کی حیثیت سے اپنا نام بھی ڈلواتے۔ اساتذۂ اردو اور فارسی کے پورے کلیّات اور دواوین ان کے کتب خانے میں موجود تھے۔

    کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔

    اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

    (علم و ادب کے شائق، مختلف ادبی واقعات، یادوں اور تذکروں کو کتابی شکل میں‌ محفوظ کرنے والے عبدالمجید قریشی کی ایک خوب صورت کاوش "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” بھی ہے، جس میں‌ استاد شاعر داغ دہلوی کے کتب خانے کا ذکر بھی ہے اور یہ سطور اسی کتاب سے لی گئی ہیں)

  • مشہور شعرا کے لوحِ مزار پر درج انہی کے اشعار

    مشہور شعرا کے لوحِ مزار پر درج انہی کے اشعار

    قبرستان میں‌ ہمیں کتبوں‌ پر دنیا کی بے ثباتی اور یہاں‌ سے ہمیشہ کے لیے کُوچ کر جانے والوں‌ کے لیے جذبات میں‌ گندھے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جو اکثر اردو کے مشہور و معروف شعرا کا کلام ہوتا ہے۔

    اس دنیا سے سبھی کو ایک دن چلے جانا ہے۔ جن شعرا کا کلام ان کی زندگی میں ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجانے والوں کے کتبوں پر سجا، خود ان شعرا کی موت کے بعد وہی شعر ان کے لوحِ مزار پر بھی لکھ دیا گیا۔ یہاں‌ ہم اُن شاعروں کا ذکر کررہے ہیں‌ جو کراچی میں‌ مدفون ہیں‌ اور ان کے لوحِ مزار پر انہی کا شعر لکھا ہوا ہے۔

    اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں محوِ خواب ہیں۔

    ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:

    سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہوگئے
    بارِ امانتِ غمِ ہستی اُتار کے

    نام وَر نقاد اور شاعر سلیم احمد کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، ان کی قبر کے کتبے پر ان کا یہ شعر کندہ ہے:

    اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
    روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے

    اردو کے معروف اور صاحبِ طرز شاعر سراج الدین ظفر کراچی میں گورا قبرستان کے عقب میں مسلح افواج کے قبرستان میں دفن ہیں.

    ان کے لوحِ مزار پر ان کا یہ شعر رقم کیا گیا ہے:

    ظفر سے دُور نہیں ہے کہ یہ گدائے الست
    زمیں پہ سوئے تو اورنگِ کہکشاں سے اٹھے

    استاد قمر جلالوی کا شمار اردو غزل کے چند نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ کلاسیکی رنگ میں شعر کہنے کے فن کے استاد تھے، ان کا ایسا ہی ایک شعر ان کی قبر کے کتبے پر بھی کندہ ہے جو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں واقع ہے۔

    وہ شعر یہ ہے:

    ابھی باقی ہیں پتّوں پر جَلے تنکوں کی تحریریں
    یہ وہ تاریخ ہے، بجلی گری تھی جب گلستاں پر

    اطہر نفیس جدید اردو غزل کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں دفن ہیں۔

    ان کی لوح مزار پر انہی کا شعر تحریر ہے:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    (پروفیسر محمد اسلم کی کتاب ”خفتگانِ کراچی“ سے انتخاب)

  • غیر متعصب  اور  کشادہ دل لالہ ٹیکا رام تسلیؔ

    غیر متعصب اور کشادہ دل لالہ ٹیکا رام تسلیؔ

    لالہ ٹیکا رام تسلیؔ، بخشی گوپال رائے کے لائق فرزند، نواب شجاع الدولہ کے دیوان، رائے بھولا ناتھ کے بھتیجے تھے۔

    اصل وطن موضع ” کریل“ اٹاوہ تھا، لیکن خاندان، نواب شجاع الدولہ کی سرکار سے وابستگی کے سبب لکھنؤ منتقل ہو گیا تھا۔ پہلے اپنے بزرگوں اور بعد میں لکھنؤ کے اہلِ علم اور مستند ہستیوں سے کسبِ علم و فن کیا۔ بَلا کے ذہین و فہیم تھے۔ صاحبانِ علم و فن کے گرویدہ تھے اور ہر طرح ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔

    علم سے رغبت کا یہ عالم تھا کہ نادر و نایاب کتب کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اور زرِ کثیر خرچ کر کے اپنے کتب خانے کے ذخیرہ میں اضافہ کرتے، شعر و ادب کے دل دادہ تھے اور ابتدائے عمر ہی سے شعر گوئی سے دل چسپی رکھتے تھے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں بے تکان شعر کہتے تھے۔

    جب مشق سخن بڑھی تو مصحفی کی شاگردی اختیار کی۔ صاحبِ حیثیت تھے اور مالی خوش حالی ہمیشہ نصیب رہی۔ نہ صرف اپنے استاد مصحفی کو بلکہ اس دور کے بہت سے اہلِ علم کو معاشی الجھنوں سے نجات دلائی۔

    لالہ سری رام نے اپنے مشہور تذکرہ میں ان کا ناتمام اور تشنہ ذکر کیا ہے اور 1848 تک ان کو بقیدِ حیات بتایا ہے۔ ہر ماہ اپنے گھر پر محفل شعر و سخن آراستہ کرتے تھے اور مہمانوں کے طعام و تواضع کا نہایت اعلیٰ انتظام فرماتے تھے۔ غیر متعصب اور کشادہ مشرب انسان تھے۔

    امیر ہونے کے باوجود طبیعت میں حلم و عجز کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کسی کم علم اور نااہل کو شاگرد بنانے سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ تمام عمر ان کی سیرت و کردار پر کوئی شخص انگلی نہ اٹھا سکا۔ ہر طبقہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

    عید اور دوسرے تمام تہواروں پر مسلمانوں کو ان کے گھر جاکر مبارک باد دیتے اور تمام مسلمان شرفا اور اہلِ علم و فن کی اپنے گھر پر نہایت پُرتکلف دعوت کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اخلاق، سیرت و کردار اور وسیع المشربی، علم و فن اور صاحبانِ علم و فن کی گرویدگی کے اعتبار سے اپنے دور کے مثالی انسان تھے۔

    مشکل سے مشکل زمینوں میں شعر کہنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ زبان نہایت شستہ و پاکیزہ اور طرزِ اظہار انتہائی دل نشین ہوتا تھا۔

    کلام ملاحظہ کیجیے:

    باقی اس نیم جان میں کیا ہے
    فائدہ امتحان میں کیا ہے

    دھوپ جیسی تپش جو ہو محسوس
    حاصل اس سائبان میں کیا ہے

    جس میں سب کچھ ہو اور خلوص نہ ہو
    رکھا ہی اس مکان میں کیا ہے
    ٭٭٭

    کیا منہ جو کوئی آئے ترے تِیر کے منہ پر
    اِک ہم ہیں کہ منہ رکھ دیا شمشیر کے منہ پر

    جانے دے تسلی تُو نہ کر فکر سخن کا
    پھبتا ہے سخن مصحفی و میر کے منہ پر
    ٭٭٭

    یہ غم دو چار دن کا ہے، خوشی دو چار دن کی ہے
    مجھے معلوم ہے کُل زندگی دو چار دن کی ہے

    پھر اس کے بعد خاک اُڑتی نظر آئے گی ہر جانب
    چمن میں غنچہ و گل کی ہنسی دو چار دن کی ہے

    (طالب صدیقی کی کتاب سے ایک ورق)

  • "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔

    کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
    اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا

    کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
    کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا

    بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
    کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا

    ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
    لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا

    کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
    یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا

    پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
    وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا

    نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
    اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا

  • دماغ ماﺅف ہیں…….

    دماغ ماﺅف ہیں…….

    یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

    یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

    یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

    یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

    جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

    ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

    کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

    دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

    یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

    جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب

  • ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید بدرِ عالم بھی بابائے اردو کے ایک رتن تھے، ان کے خادمِ خاص۔ بابائے اردو کی طرح انھوں نے بھی گھر بار کا جنجال نہیں پالا تھا۔

    خواجہ صاحب کے بہ قول ان کے دو شوق تھے۔ اخباروں سے فلم ایکٹریسوں کی تصویریں کاٹ کر ایک رجسٹر میں چپکانا اور اگر کوئی شخص گفتگو میں کوئی نیا لفظ استعمال کرے تو اسے یاد کر لینا اور اپنی گفتگو میں استعمال کرنا۔

    ایک دن ان کی موجودگی میں کسی صاحب نے ہیچ و پوچ، کے الفاظ استعمال کیے۔

    سید صاحب کو یہ الفاظ بڑے بھلے معلوم ہوئے اور انھوں نے یاد کرلیے، استعمال کے منتظر رہے۔

    اتفاق یہ کہ دو تین دن کے بعد جگر صاحب انجمن آئے۔ کراچی آئے ہوئے تھے تو مولوی صاحب سے ملنے آگئے۔

    مولوی صاحب نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جگر صاحب اطمینان سے بیٹھے تو شعر خوانی کا آغاز ہوا۔ جگر صاحب کا لحن اور کلام کی رعنائی، سید صاحب مسحور ہوگئے۔ بے اختیار ہو کر بولے:

    ”ایسا ہیچ و پوچ کلام تو آج تک نہیں سنا۔“

    جگر صاحب سناٹے میں آگئے۔ مولوی صاحب نے ڈانٹا، ”کیا بکتا ہے۔“

    مگر سید صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی تھے، کہنے لگے، ”چاہے مار ڈالو، مگر کلام بڑا ہیچ و پوچ ہے۔“

    مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی، مگر کچھ سوچ کر ٹھیرے۔ پوچھا، ”کچھ سمجھتا بھی ہے، کیا بک رہا ہے؟“

    سید صاحب نے کہا۔ ”سمجھتا کیوں نہیں۔ بڑا اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔“

    مولوی صاحب ہنس پڑے، پوچھا، ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید صاحب نے بتایا فلاں صاحب اس دن آئے تھے، انھوں نے یہ الفاظ کہے تھے، مجھے اچھے لگے، میں نے یاد کرلیے۔

    جگر صاحب یہ سُن کر مسکرائے اور سید صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کی تحریر سے اقتباس)