Tag: مشہور شخصیات

  • ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    کرشن چندر اور فیض احمد فیض نمایاں شخصیات تھیں، اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مجھ ناچیز کو ان دونوں سے ملنے کا موقع نصیب ہوا تھا جو میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ لیکن میں ہرگز اپنے بارے میں یا ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتانے والی نہیں ہوں۔

    میں ان دونوں کی آپس میں ملاقات کے بارے میں بتانا چاہوں گی جو میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔

    ایسا مئی سن 1967 میں ماسکو میں ہوا تھا۔ اس وقت ماسکو میں سوویت ادیبوں کی کانگریس ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لیے ہمارے ملک کے کونے کونے سے ادیب اور شاعر تشریف لائے تھے۔

    مختلف ممالک سے مشہور و معروف مصنّفین اور شعرا کو مہمانوں کی حیثیت سے بلایا گيا تھا۔ ہندوستان سے کرشن چندر جی کو مدعو کیا گیا تھا جو اپنی بیگم سلمیٰ صدیقی صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ مجھے ان کی مترجم کے فرائض سونپے گئے تھے۔

    تمام شرکا اور مہمانوں کو ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جو دارُالحکومت کے عین مرکز میں لال چوک کے بالکل قریب واقع ہے۔ آج یہ ہوٹل "فور سیزنز” کے نام سے مشہور ہے۔ ہوٹل کے ریستوراں میں لا محالہ سب کے لیے کھانا کھانے کا انتظام تھا۔ کانگریس کی رسمِ افتتاح سے ایک دن قبل کرشن چندر جی، سلمیٰ صدیقی اور میں اس ہوٹل کے ریستوران میں داخل ہوئے تھے تو اس میں چندر جی اچانک ان کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے تھے اور اس شخص نے بھی وہی کیا تھا۔ ان دونوں نے نہ صرف آپس میں ہاتھ ملائے بلکہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگے اور کچھ لمحوں تک ہم آغوش رہے تھے۔

    مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دوسرا شخص کون تھا لیکن سلمیٰ صدیقی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فیض ہیں۔ میں نے ان کا نام سنا تو تھا، مجھے یہ معلوم تھا کہ فیض اردو زبان کے بڑے شاعر ہیں جنہیں لینن امن انعام عطا کیا گیا تھا۔ پھر معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں بیس سالوں بعد ملے تھے یعنی تقسیمِ ہند کے بعد پہلی بار۔

    یاد رہے کہ سوویت ادیبوں کی کانگریس میں حصہ لینے والے ہر وفد کی ایک الگ میز تھی جس پر ان کے ملک کا چھوٹا سا پرچم رکھا گیا تھا۔ فیض صاحب نے کرشن جی سے کہا تھا کہ ہم لوگ ایک ہی میز کے گرد بیٹھیں گے۔ میں نے شاید حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: "بچّی پریشان مت ہو، میں اپنے ملک کا پرچم اٹھا کر آپ کی میز پر رکھ دوں گا۔ ” انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا، "آج دنیا میں ماسکو شاید واحد جگہ ہے جہاں ہمارے دونوں ملکوں کے جھنڈے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔”

    پھر کرشن چندر اور فیض احمد فیض رات گئے تک باتیں کرتے رہے تھے۔ آپ جان چکے ہیں کہ وہ دونوں بہت سال بعد ماسکو میں ملے تھے جو حسنِ اتفاق تھا۔
    اس کے بعد کانگریس کے دوران کرشن چندر اور فیض احمد فیض ہمیشہ ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ یہ وہ چھوٹا سا واقعہ تھا جس بارے میں، مَیں بتانا چاہتی تھی۔ یہ واقعہ مجھے آج بھی اسی طرح یاد آ رہا ہے جیسے وہ نصف صدی قبل نہیں بلکہ ابھی ابھی ہوا ہے۔

    نوٹ: Irina Maximenko (ارینا ماکسی مینکو) روسی اردو داں، مترجم اور صحافی ہیں جنھوں نے اپنی یادوں کو قلم بند کیا اور یہ واقعہ انہی کے قلم سے نکلا ہے۔ وہ برسوں تک روس میں نشریاتی اور اشاعتی اداروں سے منسلک رہیں اور وہاں شعبۂ اردو کے لیے پروگرامز اور برصغیر کی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں)

  • وہ چند نام جو محنت، لگن اور مستقل مزاجی کی بدولت نام وَر ہوئے

    وہ چند نام جو محنت، لگن اور مستقل مزاجی کی بدولت نام وَر ہوئے

    کام یابی وہ لفظ ہے جو ہماری زبان سے بھی آئے روز ادا ہوتا ہے اور پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران دوسروں کی زبانی بھی سنتے رہتے ہیں۔ آپ کوئی بھی کام کرتے ہوں، کسی بھی شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہوں اور کسی بھی ادارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں، دنیا کے چند کام یاب لوگوں بارے میں آپ نے ضرور کچھ باتیں پڑھی یا سنی ہوں گی۔

    You Can Win وہ کتاب ہے جو 1998ء میں منظرِ عام پر آئی اور بہت مقبول ہوئی۔ اس کے مصنّف شِو کھیرا ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’کام یاب لوگ مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے کام کو مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘ یہ متأثر کُن جملہ ہمارے ذہن میں کام یابی کا ایک خوش رنگ اور مختلف تصوّر اجاگر کرتا ہے۔

    آج اگر ہم اپنے وقت کے کام یاب ترین لوگوں کی فہرست میں شامل اکثریت کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے ابتدائی عمر میں مشکلات دیکھیں اور کٹھن حالات کا سامنا کیا، لیکن وہ وقت بھی آیا جب انھوں نے اپنی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ آج دنیا ان کی محنت، ان کے عزم و استقلال کی گواہ اور صلاحیتوں کی معترف ہے۔ آئیے چند ایسی شخصیات کے بارے میں‌ جانتے ہیں جنھوں نے ناکامیوں کو شکست دے اپنا مقدّر سنوارا۔

    البرٹ آئن اسٹائن
    دنیا کے کام یاب ترین افراد کی فہرست میں یہ نام اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسے غربت، مفلسی یا سماجی ناہمواری اور طبقاتی نظام سے نہیں بلکہ ایک طبّی مسئلے کی وجہ سے 9 سال تک مشکل اور اذیت کا سامنا رہا۔ اسے بولنے میں‌ دشواری پیش آتی تھی۔ ذہین اور باصلاحیت آئن اسٹائن کی ابتدائی زندگی ناکامیوں سے عبارت تھی۔ اس کے مزاج میں شدّت اور باغیانہ سوچ بھی اس کے راستے میں رکاوٹیں‌ پیدا کرتی تھی۔ اسی سبب وہ اسکول سے نکالا گیا۔ لیکن وہ دنیا کا عظیم سائنس داں بنا۔ 1921ء میں آئن اسٹائن نے طبیعیات کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔

    والٹ ڈزنی
    بچّوں اور بڑوں سبھی میں یکساں مقبول کارٹون کردار مِکی ماؤس کے خالق والٹ ڈزنی بھی اپنے وقت کے کام یاب لوگوں میں‌ نمایاں ہیں۔ ان کا نام ابتدا میں ملٹری اسکول سے خارج کردیا گیا تھا۔ وہ بڑے ہوئے تو اپنا اسٹوڈیو قائم کیا اور اس شعبے میں ناکامیوں کا منھ دیکھا۔ اسٹوڈیو دیوالیہ ہوگیا تھا۔ انھیں کوئی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی اور کسی اخبار میں‌ اپنے فن کی بدولت کام بھی حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ کاروبار کرنے کے لیے جو قابلیت اور سوجھ بوجھ درکار ہوتی ہے، وہ اس سے محروم ہیں۔ صحافت کے شعبے میں انھیں تخلیقی شعور سے محروم تصوّر کیا جاتا رہا لیکن مِکی ماؤس نے والٹ ڈزنی کی قسمت چمکا دی انھیں لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل ہوا۔

    اسٹیو جابز
    نئی نسل بالخصوص کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں آنکھ کھولنے والے مشہورِ زمانہ کمپنی ایپل اور اس کے بانی سے بھی واقف ہیں۔ اسٹیو جابز نے اس کمپنی کا آغاز ایک گیراج سے کیا۔ 1985ء میں انھیں اپنی ہی قائم کردہ کمپنی سے باہر کر دیا گیا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے مزید کمپنیوں کی بنیاد رکھی اور کام یاب رہے۔ یہاں تک کہ ان کی محنت اور لگن نے انھیں ایک بار پھر ایپل کمپنی تک پہنچا دیا جہاں وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کام یاب رہے۔

    میڈونا
    عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ میڈونا کا بچپن والدہ کے بغیر گزرا۔ میڈونا نے پانچ برس کی عمر تک تو ماں کی گود دیکھی اور ان کے مہربان لمس کی حدّت پائی، لیکن ایک روز وہ اپنی ننھّی بیٹی سے ہمیشہ کے لیے دور چلی گئیں۔ ڈانسر اور گلوکارہ بننے کا خواب میڈونا کو نیویارک لے گیا تھا، لیکن جیب خرچ اور اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے معمولی نوکری کرنا پڑی۔ وہ ایک ڈونٹ شاپ میں کام کرنے لگی، لیکن مالک نے جلد ہی اسے فارغ کر دیا۔ یہ اس زمانے کی میڈونا کا مشکل وقت تھا، لیکن شوق اور لگن نے اسے آگے بڑھنے کی طاقت دی۔ وہ حالات سے لڑتی رہی اور اس نے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے مختلف علاقائی میوزک گروپوں سے ناتا جوڑا۔ وہ ان کے ساتھ مختلف مواقع پر گلوکاری کا شوق پورا کرتی اور اسی فن میں ترقی کی خواہش لیے آگے بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب میڈونا نے اپنے گانوں کے البمز مارکیٹ کیے اور آج دنیا اسے ایک عظیم گلوکارہ کے طور پر جانتی ہے۔

    بل گیٹس
    اسٹیو جابز کی طرح مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے نام اور ان کی جدوجہد سے سبھی واقف ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروبار کی طرف آئے تھے اور شدید خسارہ اٹھایا۔ لیکن بِل گیٹس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دن رات کام کرکے کام یابی سمیٹی۔ انھوں نے مائیکرو سافٹ کمپنی کی بنیاد رکھی اور دنیا کے لیے مثالی بزنس مین بنے۔

    اوپرا وِنفری
    ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان کی حیثیت سے انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔ اوپرا ونفری کو اکثر ٹاک شوز کی بے تاج ملکہ کہا جاتا ہے۔ اوپرا ونفری ایک انتہائی غریب گھرانے کی فرد تھیں۔ ان کی زندگی میں تلخیاں اور مشکلات ہر طرح سے ان کے لیے رکاوٹ بنے، لیکن ونفری نے محنت سے جی نہیں چرایا۔ وہ امریکا کی مقبول ٹی وی میزبان ہی نہیں کام یاب فلم ساز اور بعد میں اداکارہ بھی بنیں۔ اوپرا ونفری کا ٹی وی شو دنیا بھر میں مشہور ہوا۔

  • مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا (ابوالکلام آزاد) سے میری رسمی ملاقاتیں تو 1934ء سے پہلے بھی ہوئیں لیکن پہلی ملاقات جسے ہم باضابطہ تعارف کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت ہوئی جب کہ میں آل انڈیا اردو لٹریری کانفرنس کلکتہ کی مجلسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا کو کانفرنس کی شرکت کے لیے دعوت دینے گیا اور رخصت ہوتے ہوئے مولانا سے پھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔

    مولانا نے بڑی شفقت کے ساتھ اجازت دی اور کہا کہ بھئی سنیچر کی شام کو آؤ، روزہ رکھتے ہو یا نہیں رکھتے ہو لیکن میرے ساتھ افطار کرو۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ تم اتنے بد ذوق تو ہو نہیں کہ اگر روزہ نہ رکھتے ہو تو افطار سے بھی پرہیز کرو۔ میں نے تسلیم کیا اور آئندہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔

    تیسرے دن حاضر ہوا۔ مولانا کو اطلاع کرائی۔ مولانا نیچے اترے اس حال میں کہ افطار کا خوان ان کے پیچھے پیچھے ایک ملازم کے ہاتھوں میں تھا۔ افطار کے بعد چائے آئی اور مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی بنا کر میری طرف سرکائی۔ مجھے اس دن زکام کی شکایت تھی۔ میں نے عذر کیا۔

    میرے اس عذر پر مولانا کچھ گھبرا سے گئے اور کہنے لگے آپ چائے بالکل نہیں پیتے ہیں یا اس وقت کسی خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، پیتا تو ہوں۔ اور شوق سے پیتا ہوں لیکن اس وقت زکام میں مبتلا ہوں۔ یہ سن کر اک ذرا بلند آواز سے فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ مولانا خدا کا شکر تو بہرحال کرنا چاہیے مگر اس وقت الحمدُللہ کہنے کا کوئی خاص سبب؟ کہنے لگے بھئی معاملہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو چائے پینے سے پرہیز کرنے والے تھے جب جب میری زندگی میں آئے تو میرے لیے خطرناک ثابت ہوئے اور میں ایسے لوگوں سے ڈرنے لگا جو چائے جیسی نعمت سے پرہیز کرتے ہوں۔ یہ معلوم کر کے کہ تم چائے ایک خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہو اطمینان سا ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔

    اس کے بعد کچھ علمی بحثیں چھڑ گئیں جن کو اگر یہاں چھیڑا جائے تو اس مضمون کا سلسلہ اتنا دراز ہو کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی اس کے لیے کافی نہ ہوسکے ۔ یہ تو معلوم ہے کہ مولانا علم و فضل کے اتھاہ سمندر تھے اور اس کی ہر موج طوفانی ہوا کرتی تھی، ہم نے چار پانچ سال مولانا کی خدمت میں بیٹھ کر مختلف علوم و فنون پر ان کی بصیرت افروز گفتگو سنی اور اپنی معلومات کی خالی جھولیاں بھرتے رہے لیکن میں اس مقالے میں مولانا کی علمی شخصیت سے گفتگو نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اس پر مجھ سے بہتر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ میں صرف اس مضمون میں مولانا کی نجی صحبت کی ایک ہلکی سی تصویر کشی کروں گا اور ان کے سنجیدہ مزاح کے بعض نمونے سنا کر مولانا کی یاد تازہ کروں گا؛

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

    مولانا سے اس پہلی باضابطہ ملاقات کے بعد میں نے اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہنے کی اجازت چاہی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر خاطرِ اقدس کو ناگوار نہ ہو تو بعض اور خوش ذوق احباب کو بھی ساتھ لاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ بھئی ناگوارِ خاطر ہونے کی کیا بات ہے میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے باتیں کرنے کا موقع ملے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں کیسی تیار ہورہی ہیں۔ تم آؤ اور ضرور آؤ، اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ سنیچر کی شام میری ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ دستور ہوگیا کہ ہم چند احباب ہر سنیچر کی سہ پہر کو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آٹھ بجے رات تک برابر ان کے قدموں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دامنِ تہی پھیلاتے اور جب اٹھتے تو اس دامن تہی کو مختلف علمی جواہر ریزوں سے لبریز پاتے۔ اس اثنا میں مولانا کے دل چسپ فقرے بھی ہوتے رہتے جن کا زیادہ تر نشانہ میرے مرحوم دوست پروفیسر طاہر رضوی ہوتے۔ مولانا نے ان کی بھولی اور معصوم شخصیت سے دل چسپی لینی شروع کردی اور اس کا سبب یہ ہے کہ طاہر مرحوم نے ان ہی دنوں میں پارسی مذہب کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا تھا کہ پارسی، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اہلِ کتاب ہیں۔

    مولانا نے وہ کتاب ملاحظہ کی اور پروفیسر طاہر رضوی کی محنتوں کی بھرپور داد دی ۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ بھئی طاہر اس کتاب کے لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کس راستے سے آیا۔ میں مولانا کی خدمت میں ذرا گستاخ ہوچلا تھا۔ طاہر رضوی کو سنانے کے خیال سے بولا کہ مولانا ممکن ہے محبت کے راستے آیا ہو۔ مولانا مسکرا کر طاہر صاحب سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو بھئی تمہارے یہ احباب بڑے ناقدر شناس ہیں۔ تمہارے علمی شغف کو ایک جذباتی انہماک کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ یہ صریحی ظلم ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب جب مجلس کچھ سونی سی ہونے لگتی تو مولانا طاہر صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے اور پوچھتے کہ ہاں بھئی آپ کے احباب کا وہ شبہ اب تک قائم ہے یا رفع دفع ہوا۔ طاہر صاحب کا جھینپنا، مولانا کا مسکرانا اور جملہ احباب کا کھلکھلانا ابھی تک یاد آتا ہے۔

    (مولانا آزاد: کچھ نجی یادیں از قلم جمیل مظہری)

  • ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    بعض لوگ زندگی میں بہت دشواریاں اور سختیاں جھیلتے ہیں۔ وہ کئی کٹھن اور صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ایک روز خاموشی سے مٹی میں مل جاتے ہیں۔

    ان میں وہ بھی شامل ہیں جنھیں غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی جو مالی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں اور جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی بھی حالات کی سختیوں اور مسائل کے انبار کے باوجود آگے بڑھنے کی ٹھان لے اور اپنی منزل کا تعین کرکے سفر شروع کردے تو اس کے اندر توانائی، حوصلہ اور وہ لگن اور جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے جو اسے حالات سے پنجہ آزمائی اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے غیر معمولی اور حیرت انگیز کارناموں سے دنیا کو متوجہ کر لیتا ہے۔

    ویلما روڈولف (Wilma Glodean Rudolph) ایک ایسی ہی لڑکی تھی جس نے معمولی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور ان کی 22 اولادوں میں ویلما کا نمبر بیسواں تھا۔ والد ریلوے میں دوسروں کا بوجھ ڈھوتے تھے۔ گزر بسر مشکل تھی، وقت ملتا تو اضافی آمدن کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیّار ہو جاتے۔

    ویلما کا سنِ پیدائش 1940ء اور وطن امریکا ہے۔ وہ پانچ سال کی تھی جب پولیو وائرس نے اسے اپنا نشانہ بنایا۔ پولیو کے سبب اس بچّی کی بائیں ٹانگ متاثر ہوئی اور اس کا پیر مفلوج ہوگیا۔ وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی نہیں چل پائے گی۔ اس کے ناتواں پیر کو مصنوعی سہارے سے چلنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ وہ نو برس کی تھی تو اسے مخصوص جوتوں کے استعمال کا مشورہ دیا گیا۔

    ویلما دوسرے بچّوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو رنجیدہ ہوجاتی اور اس کا دل بھر آتا۔ وہ دوڑنا چاہتی تھی۔ تیز، بہت تیز اور زندگی کی ہر دوڑ میں اوّل آنا چاہتی تھی۔ یہ اس کا خواب تھا یا اس معذوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساسِ محرومی، لیکن اس نے اپنی اس کم زوری کو اپنی طاقت بنایا اور واقعی دنیا کی سب سے تیز رفتار لڑکی بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ایک روز اس لڑکی نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے پیروں پر چلے گی اور کچھ کر کے دکھائے گی۔ اس کے سامنے ایک مقصد تھا جس نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی، وہ تکلیف اور درد کے باوجود گھر میں چلنے کی مشق کرنے لگی۔ اس کا حوصلہ سلامت رہا اور جنون بڑھتا چلا گیا جس نے ایک روز اسے بغیر سہارے کے چلنے پھرنے کے قابل بنا دیا۔

    1952ء جب وہ بارہ سال کی ہوئی تو اس نے دوڑنا شروع کردیا۔ ویلما کے مطابق وہ اپنے محلّے میں ہم عمروں کے ساتھ اچھل کود اور ان سے ریس لگانے لگی تھی۔ یہ اس کی ایک بڑی کام یابی تھی اور ویلما اس پر نہایت مسرور تھی۔

    ویلما نے اسکول میں منعقد ہونے والے کھیل کود کے مقابلوں میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ ایک دن جب وہ اسکول میں باسکٹ بال کھیل رہی تھی تو اسے کوچ نے بلایا، اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ بحیثیت تجربہ کار کوچ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ تم عام بچّوں کی بہ نسبت تیز رفتار ہو اور میرا مشورہ ہے کہ تم باسکٹ بال کے بجائے مختصر فاصلے کی دوڑ (Sprints) میں حصّہ لو۔ ویلما کو اس کا مشورہ پسند آیا اور اس نے دوڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی۔ وہ اپنی قوّتِ ارادی اور حوصلے کے سبب بہت جلد قومی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لینے کے قابل ہوگئی۔ اساتذہ اور کوچ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اس کی کام یابی پر سبھی مسرور تھے۔

    انہی دنوں آسٹریلیا کے مشہور میلبورن اولمپک مقابلے کا چرچا ہونے لگا۔ ویلما نے مقابلے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی اور اس کی مراد بر آئی۔ یہ 1956ء کا اولمپک مقابلہ تھا جس میں 16 سالہ ویلما نے کانسی کا تمغا اپنے نام کیا۔

    1960ء کے اولمپک مقابلوں سے پہلے ہی ویلما نے دو سو میٹر دوڑ کا مقابلہ جیت کر عالمی ریکارڈ بنا ڈالا تھا اور جب اولمپک مقابلے کا انعقاد ہوا تو وہ پھر میدان میں تھی۔ اس بار ویلما نے دوڑ کے مقابلے میں تین گولڈ میڈل حاصل کیے۔

    اس مقابلے میں ویلما کو امریکا کی ایسی پہلی خاتون کھلاڑی بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جو ایک ہی اولمپک میں تین ریسوں کی لگاتار فاتح رہی اور جس نے تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے۔

    پولیو کے سبب معذوری اور اپاہج ہوجانے والی اس لڑکی نے ثابت کیا کہ پختہ ارادہ اور ہمارا عزم ہمیں زندگی کی ہر دوڑ کا فاتح بنا سکتا ہے۔ ویلما کو جہاں کھیل کی دنیا کے کئی انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، وہیں امریکی حکومت نے اس کے نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا بھی کیا جو خاتون کھلاڑیوں کو شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔

    12 نومبر 1994ء کو ویلما کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ امریکا میں کھیلوں کے میدانوں میں یادگار کے طور پر ویلما کے مجسمے نصب ہیں اور زیرِ تربیت کھلاڑیوں کو اس لڑکی کی زندگی اور فتوحات کی کہانی سنائی جاتی ہے اور ان کے لیے عزم و ہمّت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

  • معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان کے معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات ہے۔ ان کا خاندانی نام بال مکند تھا اور عرش تخلص جنھیں‌ دنیائے ادب میں عرش ملسیانی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ملسیان ان کا آبائی علاقہ ہے اور یہ ان کے نام سے جڑا رہا

    ستمبر 1908ء میں‌ جالندھر کے ایک قصبے ملسیان میں آنکھ کھولنے والے بال مکند کے والد بھی شعروسخن کی دنیا میں ممتاز تھے۔ ان کے والد جوش ملسیانی اپنے وقت کے نام ور اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ یوں‌ شاعری اور لکھنے پڑھنے کا شوق عرش ملسیانی کو گویا ورثے میں ملا۔

    عرش پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور محکمۂ نہر سے وابستہ رہے۔ بعد میں لدھیانہ کے ایک اسکول میں ملازم ہوئے۔ عرش کو افتادِ طبع دہلی لے آئی جہاں وہ ادبی رسالے ’’آج کل‘‘ کے نائب مدیر بنے۔

    اس ادبی پرچے کو جوش جیسے شاعر اور بڑے لکھاری نے سنبھال رکھا تھا اور یوں کوئی سات سال وہ جوش ملیح آبادی کے رفیقِ کار کی حیثیت سے جمع و تدوین اور ادارت کا کام دیکھتے رہے۔ جوش نے تقسیم کے بعد پاکستان کا رخ کیا تو عرش ملسیانی آج کل کے مدیر بنائے گئے۔

    عرش ملسیانی تخلیقات میں شاعری کے علاوہ تراجم اور مزاحیہ مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے عمر خیّام کی رباعیوں کا ترجمہ کیا اور یہ ہست و بود کے نام سے شایع ہوا۔

    ’ہفت رنگ‘ اور ’رنگ و آہنگ‘ کے نام سے عرش کے شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے جب کہ ان کے مزاحیہ مضامین ’پوسٹ مارٹم‘ کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

    عرش کی ایک غزل دیکھیے۔

    دل میں ہر وقت یاس رہتی ہے
    اب طبیعت اداس رہتی ہے

    ان سے ملنے کی گو نہیں صورت
    ان سے ملنے کی آس رہتی ہے

    موت سے کچھ نہیں خطر مجھ کو
    وہ تو ہر وقت پاس رہتی ہے

    دل تو جلووں سے بد حواس ہی تھا
    آنکھ بھی بد حواس رہتی ہے

    دل کہاں عرشؔ اب تو پہلو میں
    ایک تصویرِ یاس رہتی ہے

    عرش ملسیانی 1979ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)

  • دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو بیش قیمت تخلیقی سرمائے سے مالا مال کرنے اور نثر یا نظم کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد موضوعات کی وجہ سے پہچان بنانے والوں میں اشرف صبوحی بھی شامل ہیں۔

    انھیں ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ آج ان کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہونے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

    اشرف صبوحی کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا۔ ان کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ دلّی سے متعلق اشرف صبوحی کی تحریر سے ایک پارہ باذوق قارئین کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید، رات شبِ برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔

    ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔

  • "مجھ غریب کی نیلی کار نہ جلانا”

    "مجھ غریب کی نیلی کار نہ جلانا”

    جارج برنارڈ شا کا شمار بیسویں صدی کے مشہور ادیبوں اور اہم تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔

    علم و ادب کے رسیا، فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کا شوق رکھنے والے جارج برنارڈ شا کی سنجیدہ تحاریر اور سماجی مسائل پر طنز و مزاح سے ہی نہیں بلکہ لوگ ان کی فکر اور نظریات سے بھی متاثر تھے۔ اسی مشہور ادیب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    لندن کے ایک ہال میں جارج برنارڈ شا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تقریر کررہے تھے۔

    جوشِ خطابت میں انھوں نے سرمایہ داروں کو خوب للکارا، اور اس نظام سے عام آدمی، غریب اور مزدور طبقے کی حق تلفی اور اس کے نقصانات پر مجمع کو خوب بھر دیا۔

    تقریر ختم ہونے کو تھی، جارج برناڈ شا خود بھی نہایت جذباتی ہوچکے تھے اور اس موقع پر انھوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو مزید مشتعل کردیا کہ باہر جو کاریں کھڑی ہیں وہ تمھارے خون پسینے کی کمائی سے لی گئی ہیں، جاؤ انھیں جلا ڈالو۔

    مجمع کا عالم یہ تھا کہ وہ ہر امیر کبیر اور سرمایہ دار کو اپنی ناآسودہ خواہشات، ادھورے خوابوں اور محرومیوں کا ذمہ دار مان چکا تھا اور جارج برناڈ شا کی تقریر کے باعث ماحول گرم تھا، وہ گاڑیوں کو جلانے کی بات سنتے ہی بپھر گیا اور لوگ غصے سے کاروں کی طرف بڑھے۔

    یہ دیکھا تو برنارڈ شا چلّا کر بولے:

    دیکھو، ٹھیرو ذرا، باہر ایک نیلے رنگ کی کار کھڑی ہے، اسے مت جلانا، یہ تمھارے غریب برنارڈ شا کی کی ہے۔

  • یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے کو ترکی، وسطی ایشیا کے ممالک میں ایک صوفی شاعر اور درویش مانا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں روحانی شخصیت کے طور پر مشہور یونس ایمرے ترکی کے ایک گاؤں میں 1238 میں پیدا ہوئے۔

    کہتے ہیں وہ نہایت پُراثر لب و لہجے کے مالک اور شیریں گفتار تھے۔ 1320 عیسوی میں جب ایمرے دنیا سے رخصت ہوئے تو اناطولیہ اور اس سے باہر بھی ہر طرف ان کا چرچا تھا اور سات صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی وہ ترکوں کی محبوب شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ترکی باشندوں میں یونس ایمرے کا کلام آج بھی مقبول ہے اور ان کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    ان کی مقبولیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ان کا کلام، رباعیاں، گیت اور مختلف تخلیقات نہ صرف ترکی بلکہ وسط ایشیائی ممالک میں بھی زبان زدِ عام ہیں۔

    ان کی قابلیت، ذہانت، روشن فکر اور اجلے کردار کی وجہ سے انھیں اناطولیہ کے ایک شہر میں قاضی کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں عوام میں ان کی بہت عزت اور قدر تھی۔ اسی شہر کے ایک صوفی بزرگ سے ملاقاتوں کے بعد یونس ایمرے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ان بزرگ سے مذہب کی تعلیم اور روحانیت کے اسرار و رموز سیکھنے لگے۔

    اس عرصے میں یونس ایمرے نے فارسی اور عربی کے ساتھ مقامی زبان اور دیہی علاقوں کی بولی میں صوفیانہ کلام اور گیت لکھے جن کو عوام نے سندِ قبولیت بخشا، یونس ایمرے کو صوفی اور درویش کہا جانے لگا۔

    ترکی میں کرنسی پر تصاویر کے علاوہ کئی اہم مقامات اور عمارتوں میں ان کے مجسمے نصب ہیں۔

  • "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔

    چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔

    بھینس دودھ دیتی ہے، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا یعنی دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    تعاون اچھی چیز ہے، لیکن دودھ کو چھان لینا چاہیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔

    بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہیے۔