Tag: مشہور شخصیات

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    سندھ کے مختلف شہروں کے اضلاع اور تعلقہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حد بندیاں ہوتی رہی ہیں اور ان علاقوں کی انتظامی لحاظ سے حیثیت بدلتی رہی ہے- کبھی کسی علاقے کو آبادی اور وسائل کی وجہ سے ضلع کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی قصبہ ضلعی ہیڈ کوارٹر اور کبھی سب ڈویژن اور تعلقہ بن جاتا ہے-

    الغرض سیاسی اور انتظامی امور چلانے کے لیے علاقوں کی حدود اور حیثیت تبدیل کی جاتی رہتی ہے، لیکن یہ تقسیم کبھی شہروں اور قدیم علاقوں کے نام اور ان کی شناخت پر اثر انداز نہیں ہوتی- اس تمہید کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ میر پور خاص سندھ کا وہ شہر ہے جو پھلوں کے بادشاہ آم کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور "ڈگری” اسی میر پور خاص کا ایک چھوٹا شہر ہے-

    کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے اس ہزاروں نفوس پر مشتمل شہر کا یہ نام کیسے پڑا؟

    ڈگری اس شہر کی رہائشی ایک غریب اور بہادر خاتون کے نام سے منسوب علاقہ ہے-

    سندھی زبان میں ڈگھو اور ڈگھی کسی طویل القامت انسان کے لیے بولا جاتا ہے-

    ڈگری کا علاقہ ایک ایسی خاتون کے نام سے مشہور ہوا جو طویل القامت تھیں- انھیں مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کے نام سے پکارتے اور جانتے تھے-

    مذکورہ خاتون اس زمانے میں سندھ کے حکم راں سرفراز کلہوڑو سے منسوب "سرفراز واہ” کے گھاٹ پر کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    دریا میں کشتی چلانے والے اور ماہی گیروں یا مسافروں کو آمدورفت کی سہولت دینے والوں کو میر بحر بھی کہا جاتا ہے- مائی ڈگھی بھی میر بحر برادری سے تعلق رکھتی تھیں-

    اس زمانے میں اس علاقے کے سارے ہی لوگ مائی ڈگھی کو جانتے تھے- آبادی بہت کم تھی اور اکثر کشتی میں سفر کے دوران مقامی لوگوں کا مائی ڈگھی سے واسطہ پڑ ہی جاتا تھا-

    مائی ڈگھی نے اس زمانے میں ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے گروہ کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا- ڈاکوؤں کے خلاف کوشش اور دلیری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں خوب شہرت ملی اور اس علاقے کی پہچان ہی بن گئیں- بعد میں یہ ڈگری کہلایا اور آج تک اس کی یہ شناخت قائم ہے-

  • راس مسعود بھی آرہے ہیں!

    راس مسعود بھی آرہے ہیں!

    سر راس مسعود کی شخصیت اور اُن کی زندگی کے کارنامے جو جریدہ عالم پر ثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔

    اکتوبر 1935 میں اپنے عزیز دوست پروفیسر محمد اختر انصاری علیگ کے ہاں علی گڑھ میں مہمان تھا۔ اسی مہینے کے آخری ہفتہ میں مولانا حالی مرحوم کا صد سالہ جشن (سال گرہ) پانی پت میں ہونے والا تھا۔

    وہ جذبہ تھا یا صوتِ حالی، اسی خیالی رو میں اختر کے ہمراہ بہہ کر پانی پت میں جا نکلا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ رضا کار جلسہ گاہ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں خیموں کی ایک عارضی بستی میں لے گئے۔ باقی رات ہم نے ایک خیمے میں گزاری۔

    صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نواب صاحب بھوپال کے استقبال کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔

    میں گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا کہ ناگاہ میرے کانوں میں ”یوسف“ کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرے قریب میرے عم بزرگوار شمس العلما سید احمد، امام جامع مسجد دہلی کھڑے تھے۔ فرمایا ”تم بھی جلسے میں آئے ہو؟“

    ”جی ہاں“ میں نے جواباً عرض کیا۔ فرمانے لگے۔

    ”سنو نواب حمید اللہ خاں کے ہمراہ راس مسعود بھی آرہے ہیں، میرے ساتھ رہنا، موقع پاکر تمہیں اُن سے بھی متعارف کرا دوں گا۔ یہ مسعود رشتے میں میرا بھتیجا ہے۔“

    یہ ہم رشتہ ہونے کی بات پہلے بھی میرے کانوں میں پڑچکی تھی۔ لیکن اُس کی کڑیاں آج تک پوری طرح نہیں ملیں۔ خیر میں تو اس لمحے کا پہلے ہی سے متمنی تھا۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا۔

    ”میں نواب سَر راس مسعود کو اپنی کتاب ’موتی‘ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے اُن کو اپنا رومال دکھایا جس میں وہ کتاب لپٹی ہوئی تھی۔

    ”اچھا! تو تم اس لیے یہاں آئے ہو۔“

    معاً گاڑی آگئی۔ والیِ بھوپال کے شان دار استقبال اور اُن کی روانگیِ جلسہ گاہ کے بعد امام صاحب نے راس مسعود سے میرا تعارف کرایا،

    ”مسعود! یہ میرے چھوٹے بھائی حامد کا بڑا لڑکا یُوسف ہے۔ یہ تمہیں اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہے۔“

    سَر راس مسعود نے یہ سُن کر میرا سلام لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا، ”ہاہا! میرے بھائی کا بچہ یوسف ثانی! آؤ جانی میرے گلے لگو۔“

    پھر کتاب لے کر فرمایا، ”میں اسے کلکتہ سے واپس آکر اطمینان سے پڑھوں گا۔ بھوپال پہنچ کر تمہیں اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔“

    اس کے بعد ہم دونوں جلسہ گاہ میں گئے۔ امام صاحب آگے آگے میں اُن کے پیچھے پیچھے، جب اسٹیج کے قریب آئے تو امام صاحب کو اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میں فرش پر پہلی قطار میں ایک خالی کرسی پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ سَر راس مسعود نے اپنی گردن کے اشارے سے مجھے اوپر بلایا۔ پھر اُنگلی سے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس کے مصداق یہ جگہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔

    اس ایک روزہ اجلاس کی تمام کارروائی مقررہ نظام کے مطابق انجام پذیر ہوئی۔ اس نشست میں ان آنکھوں کو ڈاکٹر اقبال کا پہلا اور آخری دیدار نصیب ہوا۔

    وہیں میرے کانوں میں وہ نوائے سروش بھی گونجی جس کی مجھے ایک مدّت سے تمنا تھی۔ وہ خطبہ حمیدیہ بھی سُنا جو والیِ بھوپال نے ارشاد فرمایا تھا اور وہ اعلان عطیہ بھی جو مرحوم راس مسعود نے والیِ بھوپال کے ایما پر کیا تھا۔

    جلسے کے اختتام سے قبل راس مسعود نے حاضرین اسٹیج میں سے بعض کو وہ رقعات بھی تقسیم کیے جو جلسے کے بعد ظہرانہ کے متعلق تھے۔ رقعات دیتے وقت جب وہ میرے قریب آئے تو بااندازِ سرگوشی فرمایا، ”یوسف! تم بھی جلسے کے بعد ہمارے ہی ساتھ کھانا کھانا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

    کاش اُس دعوت کا وہ فوٹو مجھے حاصل ہوتا جس میں، میں امام صاحب کے پہلو میں اور اُسی صف میں یکے بعد دیگرے نواب صاحب بھوپال، سر راس مسعود اور ڈاکٹر اقبال جیسے اکابرِ وقت شریک طعام تھے۔

    (سید یوسف بخاری دہلوی کی کتاب ”یارانِ رفتہ“ کا ایک ورق)

  • چِکلک سے چِک تک

    چِکلک سے چِک تک

    فخرالدین جی ابراہیم کا نام پاکستان میں ایک قانون داں کے طور پر ہی نہیں لیا جاتا بلکہ جمہوری قوتوں کے حامی اور ایک اصول پسند شخصیت کے طور پر بھی انھیں‌ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    مختلف اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے فخر الدین جی ابراہیم رواں سال کے آغاز پر ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے۔

    قریبی لوگ اور ان سے بے تکلف احباب انھیں ان کی عرفیت فخرو بھائی سے مخاطب کرتے تھے۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ زمانۂ طالبِ علمی میں وہ ہم جماعتوں میں "چکلک” کے نام سے مشہور تھے۔ یہ دل چسپ انکشاف مرحوم نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران کیا تھا۔

    فخرالدین جی ابراہیم نے بتایا کہ اسکول کے نصاب میں شامل ایک مضمون کا عنوان "چِکلک” تھا اور چوں کہ وہ بہت دبلے پتلے تھے تو ساتھیوں نے انھیں "چِکلک” پکارنا شروع کر دیا۔

    بعد میں یہی نام سکڑ کر "چِک” ہوگیا۔ یہ فخر الدین جی ابراہیم کے لندن میں قیام دوران ہوا۔ وہ بتاتے ہیں جب لندن گیا تو ممبئی کے ایک صاحب بھی وہاں آگئے (پرانے دوست) جو مجھے "چِکلک” کہتے رہے۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے میرے نام سے پکارو، مگر وہ نہ مانے۔ ان سے یہ نام سن کر لندن میں مجھے دیگر احباب نے "چِک” کہنا شروع کر دیا۔

    فخر الدین جی ابراہیم 1928 میں ہندوستان کی ریاست گجرات کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والے فخرو بھائی کا نام پاکستان میں جمہوریت پسند اور جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے والوں کے لیے ایک روشن حوالہ ہے۔

  • حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    عراق کے شہر سہرورد سے ہجرت کے بعد مغربی بنگال کو اپنا مستقر بنانے والے خاندان کی جن شخصیات نے علم و فنون سے لے کر سیاست کے میدان تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا ان میں ایک حسین شہید سہروردی بھی ہیں۔

    ان کا خاندان سلسلۂ تصوّف کے عظیم بزرگ شہاب الدّین سہروردی کے خاندان سے نسبت کی وجہ سے خود کو ‘‘سہروردی’’ کہلواتا تھا۔

    مختصر عرصے کے لیے حسین شہید سہروردی پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے. آج اس مدبّر اور فہیم سیاست داں کی برسی ہے۔ ان کی زندگی اور سیاسی سفر پر چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔

    حسین شہید سہروردی کا خاندان علم و فنون کا شیدا اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ حسین شہید سہروردی 1892 میں پیدا ہوئے۔

    ان کا گھرانا بنگال کے مدنا پور میں آباد تھا۔ ان کے والد کا نام زاہد سہروردی تھا جن کو بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ کولکتہ، ہائی کورٹ کے جج تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو پر عبور رکھتے تھے۔ والدہ کا نام خجستہ اختر بانو تھا جو ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے اوّلین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں اور اس زمانے میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ حسین شہید سہروردی کے بڑے بھائی کا نام حسن شاہد سہروردی تھا اور یہ بھی علم و فنون کے شائق اور قابل شخص تھے۔

    اس ماحول کے پروردہ حسین شہید سہروردی نے تقسیم سے قبل سماجی حالات میں بہتری لانے کی کوششیں کیں اور سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا تھا. پاکستان کی تحریکِ آزادی میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ 1956 سے 1957 تک پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے حسین شہید سہروردی کو سیاسی اختلافات اور دباؤ بڑھنے پر یہ منصب چھوڑنا پڑا۔ اس دور میں‌ آئین تشکیل دینے کے حوالے سے بھی حسین شہید سہروردی کو یاد رکھا جائے گا. ان کا انتقال 1963 میں لبنان میں قیام کے دوران ہوا۔

  • پاکستانی صارفین نےگوگل پرکِن شخصیات کو سرچ کیا

    پاکستانی صارفین نےگوگل پرکِن شخصیات کو سرچ کیا

    گوگل نے رواں سال کے اختتام سے کچھ روز قبل ایک سالانہ رپورٹ جاری کردی ہے، رپورٹ میں پاکستانی صارفین کے حوالے سے بھی دلچسپ اعداد و شمار بتائے گئے ہیں اس حوالے سے ایک فہرست ایسے ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی مرتب کی ہے جنہیں پاکستانی صارفین کی کثرت نے گوگل پر سرچ کیا اور ان سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کی۔

    گوگل کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے سب زیادہ لوگوں نے کھیل سے متعلق خبروں کو سرچ کیا گیا جب کہ مختلف شخصیات اور ایونٹس کو بھی سرچ کیا گیا۔

    پاکستانی صارفین کی جانب سے جن ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو گوگل پر سرچ کیا گیا ان کی فہرست دیکھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے شوبز، سیاست اور سماجی رہنماؤں کو سرچ کیا ان میں وہ شخصیات بھی شامل ہیں جو اب ہم میں نہیں رہے۔

    پاکستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات

    عبدالستارایدھی

    معروف سماجی کارکن اورایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی اپنے سماجی کاموں کے باعث عالمی شہرت رکھتے تھے،وہ پہلے پاکستانی شخصیت تھے جنہوں نے ملک میں پہلی نجی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا اور  لاوارث لاشوں کو اُٹھانے اور تجہیز و تدفین کی ذمہ داری بھی اُٹھی جب کہ لاوارث بچوں کی پرورش، اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے لیے اپنی نوعیت کے منفرد پروجیکٹس شروع کیئے ۔

    edhi

    عبدالستار ایدھی رواں سال  88 سال کی عمر میں خالقَ حقیقی سے جاملے وہ گردے کے عارضہ میں مبتلا تھے انہیں حکومت اور کئی مخیر افراد کی جانب سے بیرون ملک علاج کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے علاج معالجے کے لیے اپنے وطن کو ہی چنا ۔

    امجد صابری

     کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قوال امجد صابری کو رمضان ٹرانشمیشن میں شرکت سے واپسی پر لیاقت آباد کے علاقے میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا انہیں شدید زخمی حالت مین اسپتال منتقل کیا گیا تا ہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

    amjad-sabri

    امجد صابری روایتی قوالی میں جدید موسیقی کے امتزاج کے سرخیل تھے اس کے علاوہ وہ اپنے شہر کی معروف سماجی شخصیت بھی تھے انہوں نے کئی بین الاقوامی موسیقاروں کے ساتھ مل کے بھی کام کیا ان کی پڑھی گئی قوالیاں دنیا بھرمیں ذبان زد عام ہیں۔

    قندیل بلوچ

    سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والی ماڈل قندیل بلوچ کو اس سال کے آغاز میں مبینہ طورپرغیرت کے نام پران کے بھائی نے قتل کردیا گیا تھا۔

    qandeel-baloch

    قندیل بلوچ اپنے متنازعہ لباس ، قابل اعتراض ماڈلنگ اور سوشل میڈیا پر سیاسی شخصیات کو شادی کی پیشکش کرنے کے حوالے سے ہمیشہ خبروں کی زینت بنتی رہیں جب کہ ان کے قتل کی خبر بھی بڑی خبربن گئی ۔

    ممتاز قادری

    گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو 2011 میں فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے ممتاز قادری کو اس سال عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت پر پھانسی دی گئی ان کے نمازہ جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور بعد ازاں اسلام آباد سمیت ملک کے ہر بڑے شہر میں سخت احتجاج بھی کیا گیا تھا ۔

    mumtaz-qadri

    مومنہ مستحسن

    پاکستانی گلوکارہ مومنہ مستحسن کو شہرت کی بلندی کوک اسٹوڈیو میں آفرین آفرین گانے کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد ملی جس کے بعد وہ شوبز کی مشہور شخصیت بن گئی اور گوگل میں سرچ کی جانے والی پاکستانی اہم شخصیات میں جگہ بنا لی۔

    momina-mustehsan

    مومنہ مستحسن کی شادی کے حوالے سے متضاد خبروں نے بھی انہیں خبروں میں زندہ رکھا یہی وجہ ہے جیسے ہی ان کہ منگنی خبر اور تصاویرشائع ہوئیں جسے گوگل پر کافی لوگوں کی جانب سے سرچ کیا گیا۔

    غیر ملکی شخصیات

    ڈونلڈ ٹرمپ

    سال 2016 میں ہونے والے امریکی صدر کے لیے انتخابات کا جادو پاکستانیوں پربھی سرچڑھ کے بولتا رہا ، پاکستان اور مسلمان مخالف بیانات سے شہرت پانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانی صارفین کی کثیر تعداد نے سرچ کیا اوران سے متعلق خبروں، معلومات اور خیالات تک رسائی حاصل کی۔

    trump

    ہیلری کلنٹن

    امریکی صدارتی انتخاب اس سال گرم ترین خبر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل حریف ہیلری کلنٹن کو بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے گوگل صارفین نے بڑی تعداد میں سرچ کیا، پاکستانی صارفینن نے ہیلری کلنٹن سے متعلق خبروں اور معلومات سے آگاہی حاصل کی۔

    hillary-clinton

    میلا نیا ٹرمپ

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کو بھی پاکستانی صارفین نے گوگل پر سرچ کیا، میلانیا امریکی صدر کی اہلیہ بننے سے قبل معروف ماڈل کی حثیت سے بھی کافی شہرت رکھتی تھیں اور اب اپنے سماجی کاموں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔

    melania-trump

    ڈی جے براوو

    اپنے گانے چمپیئن سے بام شہرت کو چھونے والے ڈیوائن براوو کو بھی پاکستانی عوام نے گوگل پر سرچ کیا کئی صارفین نے ان کے نغمے ڈاون لوڈ کیئے اور ان کی موسیقی سے محظوظ ہوئے جب کہ لوگوں کی کثیر تعداد نے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

    dj-bravo

    پرتُیوشا بنرجی

    pratyusha-benergee

    بھارتی ٹیلی ویژن کے معروف پروگرام بگ باس سے شہرت حاصل کرنے والی پرتُیوشا بنرجی نے اپریل 2016 میں مبینہ طور پر اپنے گھر میں خود کشی کر لی تھی، اس خبر کے عام ہوتے ہیں گوگل پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے انہیں سرچ کیا اور ان سے متعلق خبروں کو پڑھا۔

  • جدید دور میں حنوط کی جانے والی مشہور شخصیات کی لاشیں

    جدید دور میں حنوط کی جانے والی مشہور شخصیات کی لاشیں

    لاشوں کوحنوط کر کے رکھنے کا رواج ہزاروں سال قدیم ہے۔ قدیم مصر میں بادشاہوں اور فراعین کی لاش کو حنوط کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ مصریوں کا ماننا تھا کہ مرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندگی ملے گی اور وہ دوبارہ جی اٹھیں گے۔ بڑے بڑے اہرام مصر جو دراصل فراعین کے مقبرے ہیں اسی عقیدے کی یادگار ہیں۔

    مصر میں فراعین کے مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو حنوط کر کے ان کے ساتھ ڈھیر سارا سونا چاندی اور دولت بھی ان کے مقبرے میں رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ جب یہ فراعین دوبارہ اٹھیں تو انہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو۔

    دنیا میں موجود ہر مذہب میں لاشوں کو محفوظ طریقہ سے ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔ کہیں مردوں کو دفن کیا جاتا ہے، کہیں جلا دیا جاتا ہے۔ پارسی مذہب میں مردوں کو تابوت میں رکھ کر ایک کھلے ہوئے ٹاور یا کنویں یا ایک کھودے گئے گڑھے میں رکھا دیا جاتا ہے، تاکہ یہ مردار خور پرندوں کی خوراک بن سکیں۔ جس مقام پر ان مردوں کو رکھا جاتا ہے اسے مقام سکوت یا ٹاور آف سائلنس کہا جاتا ہے۔

    تاہم جدید دور میں لاشوں کو محفوظ کرنے کا رواج بھی جاری ہے۔ یہ رواج کہیں ثقافتی بنیادوں پر، اور کہیں صرف عقیدت کی بنیاد پر اپنایا جاتا ہے۔ مختلف ممالک نے نے اپنے ملک کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والے یا لیڈران کی لاشوں کو حنوط کر کے عجائب گھروں میں رکھ لیا ہے جنہیں دیکھنے کے لیے روزانہ سینکڑوں افراد آتے ہیں۔

    :لینن

    body_lenin

    روس کا انقلابی رہنما ولادیمیر لینن اپنی موت کے بعد اپنی والدہ کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا تھا لیکن روسیوں نے اس کی لاش کو حنوط کر کے اسے ماسکو میوزیم میں رکھ چھوڑا جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ لینن کے مردہ جسم کو دیکھنے آتے ہیں۔

    کچھ روسی ایسے بھی ہیں جو اب لینن کو دفنانے پر زور دے رہے ہیں، دیکھیئے وہ کب کامیاب ہوتے ہیں۔

    :ایوا پیرون

    body_eva

    ارجنٹینا کے صدر جان پیرون کی دوسری بیوی اور ملک کی پہلی خاتون صدر ایوا پیرون ارجنٹینا میں پسے ہوئے طبقہ کی آواز بن کر ابھری۔ اس نے مزدور طبقہ کی بہبود کے لیے بے تحاشہ کام کیا۔ اس کی موت کے بعد اسے دفن کیا گیا لیکن ایک فوجی بغاوت کے دوران فوجیوں نے اس کی لاش کو قبر سے نکال کر چھپا دیا۔

    سنہ 1974 میں جان پیرون کی تیسری بیوی نے ایک معاہدے کے ذریعہ اس کا جسم واپس حاصل کیا ور اب یہ بیونس آئرس کے ایک میوزیم میں حنوط شدہ حالت میں موجود ہے۔

    :ہو تائی منگ

    body-3

    جدید ویتنام کا بانی ہو تائی منگ گو کہ چاہتا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے جسم کو جلا دیا جائے اور اس کی راکھ کو فضاؤں میں اڑا دیا جائے، لیکن اس کی خواہش کے برخلاف اسے بھی حنوط کرکے ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی کے میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

    :ماؤزے تنگ

    body_maozedong

    چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ کے جسم کو بھی چینیوں نے محفوظ کر رکھا ہے۔ بیجنگ کے تائینامن اسکوائر میں واقع ماؤزے تنگ میموریل ہال میں ان کا جسد خاکی محفوظ ہے جسے ہر روز کیمیائی محلول سے دھویا جاتا ہے۔

    :فرنینڈ مارکوس

    body-4

    فلپائن کے سابق صدر فرنینڈ مارکوس نے 20 سال فلپائن پر حکومت کی۔ اس کے بعد انہیں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ ان کے انتقال کے بعد جب فلپائن میں آمریت کا خاتمہ ہوا تو ان کا خاندان ان کے جسم سمیت واپس فلپائن آگیا۔

    ان کے جسم کو ان کے آبائی گاؤں کے ایک میوزیم میں رکھ دیا گیا۔

    :کم سنگ دوئم اور کم جونگ دوئم

    body-5

    کوریا کے مسند صدارت پر یکے بعد دیگرے فائز رہنے والے باپ بیٹے کم سنگ دوئم اور کم جونگ دوئم کے مردہ جسموں کو بھی محفوظ کرلیا گیا ہے۔

    یہاں آنے والے افراد کے لیے مخصوص لباس پہننا لازم ہے اور ان افراد کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان دونوں کی لاشوں کے سامنے پہنچ کر جھک کر انہیں تعظیم دیں۔