Tag: مشہور شعر

  • یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    اردو ادب میں سبط علی صبا کی شناخت اور پہچان غزل گوئی ہے۔ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے دیگر شعرا کے مقابلے میں‌ وہ ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کا‌ ایک ہی شعر ان کی شہرت کا سبب بن گیا۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    1935 میں پیدا ہونے والے سبطِ علی صبا نے فوج اور بعد میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں کام کیا۔ اس دوران مشقِ سخن جاری رکھی اور ادب کی دنیا میں‌ اپنی تخلیقات سے خوب نام پیدا کیا۔ ان کے لہجے میں تازگی اور خیال میں ندرت جھلکتی ہے۔

    زندگی نے سبطِ علی صبا کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیا اور وہ 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 14 مئی 1980 کو انتقال کرجانے والے سبطِ علی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شایع ہوا۔

    آج اس خوش فکر شاعر کی برسی ہے۔ سبطِ علی صبا کی یہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
    آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے

    وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
    جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے

    اتنی پُر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
    شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے

    رہ روِ منزلِ مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
    جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

  • میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔

    ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔

    وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں‌ کہ کس سوچ میں ہیں؟

    میر انیس نے اپنا یہ مصرع پڑھا اور کہا کہ شعر مکمل کرنا چاہتا ہوں‌، مگر کچھ موزوں‌ نہیں‌ ہو رہا۔

    بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“

    میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں‌ شامل کیا۔

    یا رب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    اگر میر انیس کے مرثیوں‌ کا مطالعہ کریں‌ تو ایک جگہ یہ شعر یوں‌ ملتا ہے اور اسے محافل میں‌ بھی اسی طرح‌ پڑھا جاتا ہے۔

    بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر زبان کی لطافت اور محاورے کی چاشنی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ آج بھی جب خاص طور پر کربلا کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں‌ تو میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

  • مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    دلی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔

    شاعرِ نازک طبیعت ہوں، مرا دل کٹ گیا
    ساقیا لینا کہ شاید بال پیمانے میں تھا

    یہ مشہور شعر آغا شاعر قزلباش کا ہے۔

    (تابش دہلوی کی کتاب دید و باز دید سے انتخاب)