Tag: مشہور شکاری

  • بہادر شاہ ظفر تیر انداز اور ماہر شکاری بھی تھے!

    بہادر شاہ ظفر تیر انداز اور ماہر شکاری بھی تھے!

    1862ء میں ہندوستان کے آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ ان کی پکار پر 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں‌ کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض سے لوگ جمع ہوگئے تھے، لیکن مغل شہنشاہ کی شکست مقدّر بن چکی تھی اور انگریزوں کا راستہ کوئی نہ روک سکا۔

    غدر کے بعد بہارد شاہ ظفر کو قید کر کے برما بھیج دیا گیا جہاں چشمِ فلک نے ان کا عبرت ناک انجام دیکھا اور ان کی قید سے متعلق سچّی جھوٹی باتیں، بادشاہ کے شب و روز کا ماجرا اور بعض حقیقی واقعات سن کر ان سے محبّت کرنے والے ہندوستانی سخت رنجیدہ اور ملول بھی رہے۔

    بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور قید کے دوران ان کی موت کے واقعات کے علاوہ ان کی شاعری بھی بہت مشہور ہے، لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ وہ بہترین تیر انداز اور ماہر شکاری بھی تھے؟

    "بہادر شاہ بادشاہ کو تیر لگانے میں بھی عجیب ملکہ حاصل تھاکہ استاد بھی حیران ہو کر دعائیں دینے لگتے تھے۔ تیر انداز خان، آپ کے تیر اندازی میں استاد تھے۔

    آپ (بہادر شاہ ظفر) کی تیر اندازی کی مشق آخیر زمانے تک رہی۔ دیوانِ عام کے سامنے ایک خاک تودہ بنوا رکھا تھا۔ آپ کا معمول تھاکہ روزانہ دیوانِ عام کے بالائی حصے سے خاک کے تودے پر تیر "لاگتے” تھے۔ کمال یہ تھا کہ تیر تِلیر کی اڑان کی طرح بجائے خاک تودے کے سرے پر لگنے کے بیچ میں جاکر پیوست ہوجاتا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھاکہ کسی نے اسی سطح پر کھڑے ہو کر تیر لگایا ہے جس پر خاک کا تودہ ہے۔”


    (معروف ادیب اور شاعر عرش تیموری کی کتاب "قلعہً معلّیٰ کی جھلکیاں” سے انتخاب)

  • دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    کئی سال تک جاوا کے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا، نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔

    سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بو دار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔

    میری عمل داری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ میں جس روز یہاں پہنچا ، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان سب کے چہرے سوجے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمحل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔

    مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے ، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالاں کہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

    سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بدنصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تاکہ مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔

    اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا اور گڑھوں میں سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالاں کہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔

    قصّہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟

    (انتخاب:‌ آنائی کے آدم خور وحشی​، مقبول جہانگیر)​