Tag: مشہور شہر

  • شیراز: حافظ و سعدی کا وہ شہر جس پر لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں

    شیراز: حافظ و سعدی کا وہ شہر جس پر لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں

    ترقی یافتہ قوموں کے بڑے بڑے ادیبوں اور فلاسفروں کے سفرنامے اور سوانح عمریاں ہی ایسی بیش بہا چیزیں سمجھی جاتی ہیں کہ جن کی روشنی گذشتہ اور آئندہ منزلوں پر پر چومک کا کام دیتی ہے اور جو آنے والی نسلوں کے سدھارنے کے لیے بہت کچھ مدد دیتی ہے۔

    اپنے بزرگوں کے وطن کی سیر کا کانٹا جس ذوق و شوق سے مولانا کے پہلو میں کھٹکتا تھا اکثر تحریروں میں لہو ہو ہو کر ٹپکا ہے مگر وقت کی مجبوری اور واقعات کی مصلحت ہندوستان کا دامن نہ چھوڑنے دیتی تھی۔ اگرچہ علمی و ادبی تحقیقات کے غنچے چٹکیاں لیے جاتے تھے۔ آخر وہ مبارک گھڑی آہی گئی اور مولانا نے بصد اشتیاق و آرزو ایران کے سفر کے لیے کمر کَسی۔ علمِِ تاریخ کے متوالے جانتے ہیں کہ جس طرح آج ہر ایک علم و فن ایجاد و اختراع کا منبع ولایتِ انگلینڈ ہے، اِسی طرح ایک زمانہ میں ایران سمجھا جاتا تھا۔ خاص کر ہمارے مشرقی علوم تو اِسی رستے بہہ کر ہم تک پہونچے تھے۔ ایسی حالت میں ہر علم دوست طبیعت کی یہی آرزو ہوتی تھی کہ ایک دفعہ ضرور ان آنکھوں کو ولایتِ ایران کی زیارت سے روشن کرے۔ سیاحتِ ایران کے بعد مولانا نے ہندوستان واپس آ کر سخندانِ فارس کو ترتیب دیا۔

    ہمارے بعد کے اردو بولنے والے کیا جانیں گے کہ آزاد نے کس طرح کا سفر کیا تھا اور اس میں ہمارے لیے کیا کچھ کیا تھا۔ میں نے ہر چند تلاش کیا مگر ان کے سفر کا کوئی روزنامچہ یا سفر نامہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہ ملا۔ فقط ایک پھٹا پرانا رفیق ہند اخبار کا پرچہ ہاتھ آیا ہے جس میں ایک لیکچر سفر ایران کے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹے چھوٹے کاغذوں کا ایک گٹھا سا ملا جس میں نوٹ لکھے ہیں جن کا پڑھنا دشوار اور ترتیب دینا ناممکن تھا پھر بھی جس قدر ممکن ہوسکا موزوں کر کے روزنامچہ کے نام سے چھپوا دیا ہے۔

    اس طول و طویل سفر سے مولانا جولائی ١٨٨٦ء میں واپس تشریف لائے تھے۔

    یہ سطور طاہرؔ نبیرہ آزاد نے اس کتابچہ کے ابتدائیہ کے لیے لکھی تھیں جو انشا پرداز، ادیب شاعر اور صحافی مولانا محمد حسین آزاد کے ایران کی سیر کا کچھ کچھ احوال سناتا ہے۔ آگے سیرِ ایران کے دوران شیراز جیسے نامی گرامی اور مشہور شہر میں آزاد کے قیام اور ملاقاتوں کا حال آزاد کے قلم سے کچھ یوں ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔ اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیونکہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔ اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اُن میں نوجوان لڑکے صرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول کی کتابیں سامنے رکھے بے مدد کتاب کے مسائلِ کتابی پر بحث کرتے ہیں۔ علما کتب علمیہ کی تدریس سے پرانی ہڈیوں پر آبِ حیات چھڑکتے ہیں۔ یہ بات جاننے کے قابل ہے کہ وہاں ہندوستان کی طرح طلباء فقرہ بہ فقرہ نہیں پڑھتے۔ استاد کتاب سامنے رکھے بیٹھا ہے، طلبا اپنی کتاب کھولے خاموش بیٹھے ہیں۔ استاد کتاب کو دیکھتا ہے اور اُس کے مطالب کو نہایت توضیح اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتا جاتا ہے۔ طلبا سنتے جاتے ہیں۔ ‍‍جتنی جس کے دامن میں وسعت ہو پھل پھول بھر لے۔

    غرض شہر شیراز کا اب یہ حال ہے کہ وہ عالی شان اور سیدھا بازار اور بلند اور فراخ مسجد جو کریم خان ژند نے سو برس پہلے بنائی ہے۔ اگر وہاں سے اٹھا لیں تو اصل شیراز ایک معمولی قصبہ رہ جاتا ہے۔ چند سال ہوئے مشیر الملک نے بھی رفیع الشان مسجد اور کارواں سرائے سے پرانے شہر کو نیا کیا ہے۔

    نواب مرزا علی خان صدر ایک امیر خاندانی کی زندگانی شیراز کے لیے سرمایۂ آبا دانی ہے اور اُن کی مہمان نوازی اُس پاک مٹی کے لیے قدیمی قبالہ ہے۔ مجھے بھی دو دن مہمان رکھا۔ باوجود دستگاہِ امارت اور پیرانہ سالی کے، جب دیکھو گرد کتابیں چُنی ہیں۔ ایک دو مُلّا پاس بیٹھے ہیں۔ بیچ میں آپ مطالعہ میں مصروف ہیں۔ تصحیح کرتے ہیں۔ حواشی لکھتے ہیں۔ ایک خوشنویس کاتب ناقص کتابوں کی تکمیل کررہا ہے۔ مُصور نقَّاشی کررہا ہے۔ کھانے کا وقت ہوا، وہیں پہلو میں دسترخوان بچھا۔ اٹھے پہلے سجدہ شکرانہ بجا لائے۔ ایک روٹی کو اٹھا کر آنکوں سے لگایا۔ پھر سب کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ بھی گویا ایک فرض تھا کہ ادا کیا۔ پھر کتابوں کے حلقے میں جا بیٹھے۔

    اِن کے والد مرحوم کی تصنیفات سے بڑی بڑی ضخیم کتابیں ہیں۔ بعض ان میں سے میں نے بازار سے خریدیں۔ ان میں سے اِس رسالہ کا پیش کرنا واجب ہے جو کہ انہوں نے حرکتِ زمین کے اثبات میں لکھا تھا۔ نواب ممدوح نے خود اس کی نقل مجھے عنایت فرمائی ہے۔ آج سے چالیس برس پہلے ایشیائی تعلیم میں ایسے خیالات کا پیدا کرنا خاکِ پارس کی پاکیزگی کی دلیل ہے۔

    اسی سلسلے میں حکیمِ حاذق حاجی مرزا حسن کا ذکر بھی واجب ہے۔ انہوں نے ایک مفصل تاریخ شیراز کی لکھ کر پارس نامہ نام رکھا ہے اور ان کا علو خاندان مجھے کتابوں سے حد ثبوت کو پہنچا معلوم ہوا۔ ساتویں پشت میں خواجہ شاہ منصور اور چوتھی پشت میں سید علی خان بلاغت کی اولاد ہیں۔ سید علی خان کی تصنیفات شہرۂ آفاق ہیں۔ ان کی تفصیل اپنے سفرنامے کے لیے امانت رکھتا ہوں۔

    حکیم صاحب خبر سن کر نواب صدر کے ہاں آئے۔ باوجودیکہ میری روانگی میں ایک شب باقی تھی۔ شام ہو گئی تھی۔ بوندیں پڑ رہی تھیں۔ بااصرار اجازت لے کر اپنے گھر لے گئے۔ رات بھر اپنی کتاب سناتے رہے۔ مطالب پر مشورہ کرتے رہے۔ میری کتاب یاداشت نے بھی اُس کے اکثر مطالب سے سرمایہ حاصل کیا۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشراف سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔ اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی ترک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاع جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے ۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوشبو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔ ع

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیال شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسم کوہ برف لیے سر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔ شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا۔ مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد موجود تھیں۔ جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلٰی اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبز اور آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہل علم ہوتا اس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحب اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔ جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو۔ تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے۔ دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہانِ سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزر ی گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے۔ انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاقِ رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکر الہیٰ بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقاتوں کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرض مذہبی ہے۔

    غرض بارہ دن کے بعد اصفہان میں جا اترا۔

  • بحیرۂ اسود اور پانچ تاریخی شہر

    بحیرۂ اسود اور پانچ تاریخی شہر

    مشہور سیاحوں اور اہلِ قلم کے سفر ناموں کے رسیا، سیر و سیاحت اور دنیا کے بارے میں معلومات کا شوق رکھنے والوں نے اِن پانچ شہروں کا نام ضرور سنا ہوگا جو بحیرۂ اسود (Black Sea) کے کنارے آباد ہیں۔

    بحیرۂ اسود کے ساتھ ساحل پر یوں تو کئی ممالک کے اہم تجارتی اور ثقافتی شہر آباد ہیں لیکن ان میں بعض کئی سو سال قدیم اور تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے بعض جدید دور میں بھی بسائے گئے ہیں اور آج کسی نہ کسی اعتبار سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہ ایسے ہی پانچ اہم اور قدیم شہروں کا تذکرہ ہے۔

    باتومی
    یہ جارجیا کا دوسرا بڑا شہر اور تجارت کے لیے اہم بندرگاہ ہے۔ یہ شہر سیاحت کے لیے مشہور ہے جب کہ اس کی ایک وجہِ شہرت یہاں کے جواری ہیں۔ یہ شہر قدیم یونان کی نوآبادی ’’کولکِس‘‘ کا حصہ تھا۔ رومی بادشاہ ہاڈریان (117ء تا 138ء) کے دور میں شہر کے گرد فصیل قائم کی گئی جب کہ جسٹینین اوّل کے دور میں جب ایک اور شہر پیٹرا کو قلعہ نما شکل دی گئی تو شہر بے آباد سا ہو گیا۔ بعد میں اسے مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ اس وقت یہ بازنطینی افواج کے قبضے میں تھا۔ گیارہویں صدی میں اس شہر کو جارجیائی سلطنت میں شامل کرلیا گیا۔ پندرہویں صدی میں عثمانی ترک کچھ عرصہ قابض رہنے کے بعد واپس ہوئے اور ایک صدی بعد دوبارہ آئے۔ یہاں جارجیائی افواج سے معرکہ میں عثمانی ترکوں نے انھیں شکست دی۔ تاہم بعد میں جارجیائی متعدد بار حملہ آور ہوئے اور قبضہ کرنے میں کام یاب بھی ہوئے۔ آخر کار 1723ء میں یہ شہر باقاعدہ طور پر سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ بن گیا۔ 1877-78ء میں روس ترک جنگ کے بعد یہ ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور سلطنتِ روس کا حصہ بن گیا۔ 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں اس شہر دوبارہ عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ بعد میں کمال اتاترک نے اس شرط پر یہ شہر سوویت یونین کے بالشوویکوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے خودمختاری دیں گے تاکہ یہاں کی مسلم آبادی محفوظ رہے۔ 1989ء میں جب جب جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی حاصل کی تو یہ جارجیا کا حصّہ بن گیا۔

    بورگاس
    بورگاس بلغاریہ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ یہ علاقہ قدیم ترین آبادی رہا ہے اور ماہرین کے مطابق یہاں انسانی آبادیوں کے تقریباََ 3 ہزار سال پرانے آثار ملتے ہیں۔ آج بھی یہ ایک اہم صنعتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز ہے۔ اس شہر میں خطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری ہے۔ قدیم دور میں اس کی اہمیت کی بڑی وجہ اس کے زرخیز میدان رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بازنطینی دور میں یہ شہر بحیرۂ اسود کی اہم بندرگاہ تھا۔ بلغاریہ کے دوسرے علاقوں کی طرح چودہویں صدی کے اواخر میں عثمانیوں نے اسے بھی فتح کر لیا لیکن سلطنت عثمانیہ میں خانہ جنگی کے دوران یہ بازنطینیوں کے پاس چلا گیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یہاں ڈاکوؤں نے اتنی بار حملہ کیا کہ یہاں کے باسی جان و مال کے عدم تحفظ کا شکار ہوکر نقل مکانی کرنے لگے تھے۔ تاہم کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ رک گیا اور شہر دوبارہ معاشی اہمیت اختیار کر گیا۔ 1890ء میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی اور 1903ء میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ قائم کی گئی۔ آج یہ بلغاریہ کے اہم معاشی مراکز میں سے ایک ہے۔

    اوڈیسا
    روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔ یوکرین میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ اوڈیسا اسی ملک کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ بحیرۂ اسود کے شمال مغربی ساحل پر واقع ہے۔ یہ ایک بندرگاہ ہونے کے علاوہ سیاحتی مقام بھی ہے۔ اس شہر کو بحیرۂ اسود کا موتی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر قدیم یونانی دور میں آبادیاں قائم تھیں۔ اس کے نزدیک پندرہویں صدی کی تاتاری آبادی کے آثار بھی دریافت ہوچکے ہیں۔ باقاعدہ شہر کی بنیاد روس کی ملکہ کیتھرین اعظم کے حکم پر 1794ء میں رکھی گئی تھی۔ انیسویں صدی میں اوڈیسا روسی سلطنت کا چوتھا بڑا شہر رہا ہے۔ یہاں سوویت یونین کے دور میں بحریہ کا اڈہ بھی قائم تھا۔ اس شہر کی اکثریت یوکرینی ہے جب کہ روسی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔

    استنبول
    استنبول ترکی کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ یہ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کی بنیاد 660 قبل مسیح میں رکھی گئی اور جلد ہی یہ ایک اہم شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ 330 قبل مسیح میں قسطنطنیہ کے نام سے اس شہر نے اپنی پہچان بنائی اور پھر 16 صدیوں تک مختلف سلطنتوں کا دارالحکومت رہا۔ رومی اور بازنطینی دور میں مسیحیت کے پھیلاؤ میں اس شہر کا اہم کردار رہا۔ مخصوص جغرافیائی نوعیت کے باعث اس پر قبضہ کرنا آسان نہ تھا۔ 1453ء میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ عثمانیوں نے شہر کو اپنی سلطنت کا مضبوط گڑھ بنایا۔ آج بھی یہ دنیا کے مشہور ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

    کونسٹانٹا
    یہ رومانیہ کا سب سے قدیم شہر ہے جو آباد ہوا۔ محققین کے مطابق اس کی بنیاد ملکہ ٹومیریس نے رکھی تھی۔ پانچویں صدی کے بعد یہ شہر مشرقی رومی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہ سیکڑوں برس تک سلطنت بلغاریہ کا حصہ رہا اور پھر عثمانیوں نے 1419ء کے لگ بھگ اسے فتح کر لیا۔ 1817ء میں رومانیہ کی جنگ آزادی کے بعد یہ سلطنت عثمانیہ سے رومانیہ کے پاس چلا گیا اور ملک کی اہم ترین بندرگاہ اور برآمدی مرکز بن گیا۔

  • پاکستان کے مشہور شہروں کے ناموں کی تاریخ

    پاکستان کے مشہور شہروں کے ناموں کی تاریخ

    اپنے وطن سے محبت ایک قدرتی امر ہے یہ ہر انسان کی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں جہاں بھی ہو اپنے وطن سے بے پناہ محبت رکھتا ہے۔ جب ہم اپنے وطن اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو اس کے شہروں سے بھی محبت کرتے ہیں، پاکستان کے تمام شہر بہت خوبصورت ہیں اور ہمیں ان سے پیار ہے۔

    کسی بھی شہر کا نام اس شہر کو نہ صرف ایک منفرد شناخت دیتا ہے بلکہ اپنے اندر ایک تاریخی پسِ منظر بھی رکھتا ہے۔ یہ پوری تحریر پڑھنے کےبعد آپ کو پتا چلے گا کہ پاکستان اور اس کے مشہور شہروں کے نام کیسے پڑے ، ان سے جڑا تاریخی پسِ منظر کیا ہے۔

    پاکستان

    pak-flag

    لفظ پاکستان ’’پاک‘‘ اور ’’ستان‘‘ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ پاک کا مطلب ’’روحانی طور پر صاف‘‘ ہے اور ستان سنسکرت کے لفظ ’’استھان‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ملک، علاقہ یا رہنے کی جگہ۔ تو پاکستان کا مطلب ایسی پاک جگہ جہاں پاک لوگ رہتے ہیں۔

    پاکستان کا ’’پ‘‘ پنجاب سے، ’’ا‘‘ افغانیہ (خیبر پختونخوا) سے، ’’ک‘‘ کشمیر سے، ’’س‘‘ سندھ سے اور ’’تان‘‘ بلوچستان سے لیا گیا ہے۔

    اپنے وطن سے محبت ہو تو اس کے شہروں سے محبت ہونا فطری بات ہے۔ پاکستان کے سارے شہر ہمارے لیے اتنے ہی پیارے اور محترم ہیں جتنا کہ ہمیں اپنا شہر۔ ان شہروں کے نام کیسے رکھے گئے۔

    اسلام آباد

    1468131101_a4fc1f1349_b

     

    ۱۹۵۹ء میں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔ اس کا نام مسلمانانِ پاکستان کے مذہب اسلام کے نام پر اسلام آباد رکھا گیا۔

    راولپنڈی

    rawalpindi_railway_station_4

    یہ شہر راول قوم کا گھر تھا۔ چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی۔

    کراچی

    karachi_from_above

    تقریباً ۲۲۰ سال قبل یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اِس کا نام کلاچی پڑ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا۔ ۱۹۲۵ء میں اسے شہر کی حیثیت دی گئی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۹ء تک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا۔

    حیدرآباد

    maxresdefault

    اس کا پرانا نام نیرون کوٹ تھا۔ کلہوڑوں نے اسے حضرت علیؓ کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام حیدرآباد رکھ دیا۔ اس کی بنیاد غلام کلہوڑا نے ۱۷۶۸ء میں رکھی۔ ۱۸۴۳ء میں انگریزوں نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ اسے ۱۹۳۵ء میں ضلع کا درجہ ملا۔

    پشاور

    peshawar_

    پیشہ ور لوگوں کی نسبت سے اس کا نام پشاور پڑ گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی نے اسے یہ نام دیا۔

    کوئٹہ

    quetta_railway_station_-_40311

    لفظ کوئٹہ، کواٹا سے بنا ہے جس کے معنی قلعے کے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے یہ کواٹا سے کوئٹہ بن گیا۔

    سرگودھا

    sargoda-university-2012

    یہ سر اور گودھا سے مل کر بنا ہے۔ ہندی میں سر، تالاب کو کہتے ہیں، گودھا ایک فقیر کا نام تھا جو تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ اسی لیے اس کا نام گودھے والا سر بن گیا۔ بعد میں سرگودھا کہلایا۔ ۱۹۰۳ء میں باقاعدہ آباد ہوا۔

    بہاولپور

    noormahal1

    نواب بہاول خان کا آباد کردہ شہر جو انہی کے نام پر بہاولپور کہلایا۔ مدت تک یہ ریاست بہاولپور کا صدر مقام رہا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ پہلی رہاست تھی۔ ون یونٹ کے قیام تک یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔

    ملتان

    ????????????????????????????????????

    کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ ۴ ہزار سال قدیم ہے۔ البیرونی کے مطابق اسے ہزاروں سال پہلے آخری کرت سگیا کے زمانے میں آباد کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’’کیساپور‘‘ بتایا جاتا ہے۔

    فیصل آباد

    faisal

    اسے ایک انگریز سر جیمزلائل (گورنرپنجاب) نے آباد کیا۔ اُس کے نام پر اس شہر کا نام لائل پور تھا۔ بعدازاں عظیم سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

    ٹوبہ ٹیک سنگھ

    toba_tek_singh_train_station

    اس شہر کا نام ایک سکھ "ٹیکو سنگھ” کے نام پہ ہے "ٹوبہ” تالاب کو کہتے ہیں یہ درویش صفت سکھ ٹیکو سنگھ شہر کے ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تھا اور ٹوبہ یعنی تالاب سے پانی بھر کر اپنے پاس رکھتا تھا اور اسٹیشن آنے والے مسافروں کو پانی پلایا کرتا تھا سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ” بھی اسی شہر سے منسوب ہے

    رحیم یار خان

    43570904
    بہاولپور کے عباسیہ خاندان کے ایک فرد نواب رحیم یار خاں عباسی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا۔

    ساہیوال

    yadgar

    یہ شہر ساہی قوم کا مسکن تھا۔ اسی لیے ساہی وال کہلایا۔ انگریز دور میں پنجاب کے انگریز گورنر منٹگمری کے نام پر ”منٹگمری“ کہلایا۔ نومبر 1966ء صدر ایوب خاں نے عوام کے مطالبے پر اس شہر کا پرانا نام یعنی ساہیوال بحال کردیا۔

    سیالکوٹ

    recently-built-baab-i-sialkot-on-daska-road-was-formally-opened
    2 ہزار قبل مسیح میں راجہ سلکوٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ برطانوی عہد میں اس کا نام سیالکوٹ رکھا گیا۔

    گوجرانوالہ

    urdu-hotline-gujranwala

    ایک جاٹ سانہی خاں نے اسے 1365ء میں آباد کیا اور اس کا نام ”خان پور“ رکھا۔ بعدازاں امرتسر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے گوجروں نے اس کا نام بدل کر گوجرانوالہ رکھ دیا۔

    شیخوپورہ

    pavilion2
    مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر کے حوالے سے آباد کیا جانے والا شہر۔ اکبر اپنے چہیتے بیٹے کو پیار سے ”شیخو“ کہہ کر پکارتا تھا اور اسی کے نام سے شیخوپورہ کہلایا۔

    ہڑپہ

    img_8474
    یہ دنیا کے قدیم ترین شہر کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہڑپہ، ساہیوال سے 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موہنجوداڑو کا ہم عصر شہر ہے۔ جو 5 ہزار سال قبل اچانک ختم ہوگیا۔رگِ وید کے قدیم منتروں میں اس کا نام ”ہری روپا“ لکھا گیا ہے۔ زمانے کے چال نے ”ہری روپا“ کو ہڑپہ بنا دیا۔

    ٹیکسلا

    4389359_orig

    گندھارا تہذیب کا مرکز۔ اس کا شمار بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 326 قبل مسیح میں یہاں سکندرِاعظم کا قبضہ ہوا تھا۔

     مظفر گڑھ

    urdu-hotline-muzaffargarh

    والی ملتان نواب مظفرخاں کا آباد کردہ شہر۔ 1880ءتک اس کا نام ”خان گڑھ“ رہا۔ انگریز حکومت نے اسے مظفرگڑھ کا نام دیا۔

    میانوالی

    urdu-hotline-mianwali-1024x768

    ایک صوفی بزرگ میاں علی کے نام سے موسوم شہر ”میانوالی“ سولہویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔

     جھنگ

    urdu-hotline-jhang

    یہ شہر کبھی چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس شہر کی ابتدا صدیوں پہلے راجا سرجا سیال نے رکھی تھی اور یوں یہ علاقہ ”جھگی سیال“ کہلایا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھنگ سیال بن گیا اور پھر صرف جھنگ رہ گیا:۔