Tag: مشہور صحافی

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔