Tag: مشہور صوفی بزرگ

  • وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    اردو زبان کس طرح وجود میں‌ آئی، برصغیر میں اس نے کیسے فروغ اور عروج پایا؟ یہ موضوع ماہرینِ‌ لسانیات اور علمی و ادبی محققین میں‌ زیرِ بحث رہا ہے اور آج بھی اس پر صرف علمائے اردو میں‌ اختلاف رائے موجود ہے بلکہ اردو شاید وہ واحد زبان ہے جو اس حوالے سے متنازع رہی ہے۔

    یہ ایک طویل بحث ہے جسے ماہرینِ لسانیات اور محققین نے اپنے طویل مضامین اور مقالوں‌ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن علمی و ادبی حلقوں میں ہندوستان کے صوفیائے کرام کا نام بھی لیا جاتا ہے جن کا‌ اردو کی تشکیل اور فروغ میں‌ بڑا اہم کردار ہے۔

    یہ صوفیا اور درویشانِ ہند گیارہویں سے انیسویں صدی عیسوی تک اس زبان کے فروغ کے لیے کسی نہ کسی شکل میں‌ متحرک نظر آتے ہیں۔

    علمی و ادبی تذکروں‌ اور مختلف کتب میں زبان کے تشکیلی دور میں مسلم صوفیا اور دیگر مذہبی شخصیات کا کردار بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جن صوفیا کو اس حوالے سے نہایت معتبر تسلیم کیا جاتا ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، برہان الدین قطب عالم، سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم، شاہ میراں جی شمس العشاق، قاضی محمود دریائی، شیخ برہان الدین جانم، شیخ خوب محمد چشتی، عبدالرحیم خان خاناں، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث علی شاہ کے علاوہ کبیر داس اور گورو نانک کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔

    ان صوفیا نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان پروان چڑھانے اور ملک کے کونے کونے تک پھیلانے کا جو کارنامہ انجام دیا اس سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا اور یہی نہیں‌ بلکہ انہی کی وجہ سے عوام میں‌ اس زبان سے لگاؤ اور قربت پیدا ہوئی جس نے ایک بولی کو زبان کی شکل دی۔ بقول انور سدید:

    "یہ لوگ حبِ دنیا، حبِ جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق، صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصدِ حیات تھا۔ چنانچہ درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہانِ ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشوونما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔”

    صوفیا کا یہ لسانی کردار اردو کے لیے حقیقی معنیٰ میں مفید و کارآمد ثابت ہوا۔ تاریخ‌ بتاتی ہے کہ مشائخ نے ہندوستان میں اپنی تعلیمات اور سلوک سے امن اور پیار قائم کیا، بھائی چارے کو فروغ دیا اور جہاں ہندوستانیوں کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے کوششیں کیں، وہیں‌ اردو زبان کے لیے بھی ان کا کردار لائقِ‌ تحسین ہے۔

    (حیدر علی آرزو، دہلی کے مضمون سے اقتباس)

  • وادیِ اذیت اور دنیا دار

    وادیِ اذیت اور دنیا دار

    صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرا دیے جاتے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی توفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی “شکر“ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

    یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادیِ اذیت سے گزر جاتے ہیں۔

    دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے، کیوں کہ یہی مقام و وصالِ حق کا مقام ہے۔
    تمام واصلینِ حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم و رضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔

    یہی شانِ عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو، دل یادوں سے زخمی ہو اور درِ نیاز سجدہ میں ہو کہ “اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تُو ہے کہ تُو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا، تیری طرف سے آنے والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تُو ہے جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعثِ تسکین روح و دل بنایا۔“

    (واصف علی واصف کی کتاب “دل، دریا، سمندر سے اقتباس)

  • "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    ریڈیو پاکستان کے رائٹرز یونٹ میں چراغ حسن حسرت کی سربراہی میں احمد فراز بھی کام کرتے تھے۔

    حسرت صاحب نے احمد فراز سے کہا کہ مولانا، داتا گنج بخش پر فیچر تیار کیجیے۔

    احمد فراز نے فیچر لکھنے کی تیاری شروع کی۔ دوسرے دن حسرت صاحب نے پوچھا۔ مولانا، کچھ ہوا؟

    احمد فراز بولے کہ جی ہاں کچھ ہوا تو ہے۔

    یہ سن کر حسرت صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ سگریٹ کا لمبا کش لیا اور بولے۔

    ”مولانا جانے دیجیے۔ یہ تصوف کا معاملہ ہے اور آپ ٹھہرے ترقی پسند، آپ کا کیا اعتبار خدا کو خدا صاحب لکھ دیں گے۔

    احمد فراز نے اس فیچر میں تو خدا کو خدا صاحب نہیں لکھا تھا، مگر اپنی شاعری میں وہ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہوں گے کہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔

    مولانا چراغ حسن حسرت عالم آدمی تھے۔ فارسی و اردو کلاسیکی ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ لفظوں کے پارکھ ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ماضی میں اسم خدا اور اللہ کے ساتھ صاحب کا لفظ مستعمل رہا ہے۔ بس ان کا خیال ہوگا کہ اب اس لفظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

    (ممتاز ادیب انتظار حسین کی کتاب ”ملاقاتیں“ سے انتخاب)

  • یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے کو ترکی، وسطی ایشیا کے ممالک میں ایک صوفی شاعر اور درویش مانا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں روحانی شخصیت کے طور پر مشہور یونس ایمرے ترکی کے ایک گاؤں میں 1238 میں پیدا ہوئے۔

    کہتے ہیں وہ نہایت پُراثر لب و لہجے کے مالک اور شیریں گفتار تھے۔ 1320 عیسوی میں جب ایمرے دنیا سے رخصت ہوئے تو اناطولیہ اور اس سے باہر بھی ہر طرف ان کا چرچا تھا اور سات صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی وہ ترکوں کی محبوب شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ترکی باشندوں میں یونس ایمرے کا کلام آج بھی مقبول ہے اور ان کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    ان کی مقبولیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ان کا کلام، رباعیاں، گیت اور مختلف تخلیقات نہ صرف ترکی بلکہ وسط ایشیائی ممالک میں بھی زبان زدِ عام ہیں۔

    ان کی قابلیت، ذہانت، روشن فکر اور اجلے کردار کی وجہ سے انھیں اناطولیہ کے ایک شہر میں قاضی کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں عوام میں ان کی بہت عزت اور قدر تھی۔ اسی شہر کے ایک صوفی بزرگ سے ملاقاتوں کے بعد یونس ایمرے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ان بزرگ سے مذہب کی تعلیم اور روحانیت کے اسرار و رموز سیکھنے لگے۔

    اس عرصے میں یونس ایمرے نے فارسی اور عربی کے ساتھ مقامی زبان اور دیہی علاقوں کی بولی میں صوفیانہ کلام اور گیت لکھے جن کو عوام نے سندِ قبولیت بخشا، یونس ایمرے کو صوفی اور درویش کہا جانے لگا۔

    ترکی میں کرنسی پر تصاویر کے علاوہ کئی اہم مقامات اور عمارتوں میں ان کے مجسمے نصب ہیں۔

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔