Tag: مشہور طبیب

  • مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    طب، علم الادویہ، علاج اور صحّت کے قدیم ترین مراکز میں جندی شاپور(ایران) اور اسکندریہ(مصر) کا نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں ان مراکز کے علما، ماہر اور قابل طبیبوں اور ان کی کتب سے بھرپور استفادہ کیا اور مختلف ادوار میں خزینہ علم کا عربی زبان میں‌ ترجمہ ہوا۔

    قدیم دور میں ساسانیوں نے جندی شاپور کو طب و سائنس کا مرکز بنادیا۔ انھوں نے کیمیا و فلسفہ سمیت طب کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا۔ یہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کی بات ہے جب کہ ایک دوسرا علمی مرکز مصر کا شہر اسکندریہ تھا۔ علمُ الادویہ میں اہلِ اسکندریہ ماہر اور قابل مانے جاتے تھے۔

    عباسی عہد شروع ہوا تو اس میں‌ علمی اور سائنسی کتب کے تراجم کی طرف توجہ دی گئی اور کہتے ہیں‌ کہ ابو جعفر المنصور کے دور میں اس وقت کے مختلف زبانوں‌ پر عبور رکھنے والی ماہر اور قابل شخصیات نے تراجم کیے جن میں ایک حنین ابن اسحاق تھے جنھوں نے بقراط اور جالینوس کی طب سے متعلق کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ وہ خود حکیم اور طبیب تھے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب ان کا عیسائیت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے حکیم جالینوس اور بقراط جیسے ماہر اور مشہور یونانی حکما کی کتب کو عربی میں‌ ڈھالا جو ایک بڑا اور اہم کام تھا۔

    فارسی، یونانی، سریانی اور عربی زبانوں کے ماہر اور اس زمانے کی قابل شخصیات نے منصور کے بعد ہارون الرشید اور مامون کے دور میں بھی عربی زبان میں کتب کے تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور کے اہم لکھاری اور مترجمین میں حنین ابن اسحاق، قسطا بن لوقا، عیسی بن یحییٰ، عبدالرحمن بن علی اور ثابت بن قرہ و دیگر کے نام لیے جاتے ہیں جنھیں خلیفہ کی جانب سے مشاہرہ اور انعام دیے جاتے تھے اور ان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی۔ بغداد میں‌ دارالترجمہ اور کتب خانے کا قیام عمل میں‌ لایا گیا اور اس کے تحت خوب علمی اور ادبی کام ہوا۔

    تراجم کا یہ کام مامون کے بعد بھی جاری رہا اور علاج معالجے اور صحت سے متعلق کئی اہم کتب کا ترجمہ عربی میں کیا گیا اور ڈیڑھ سوسال تک یہ سلسلہ جاری رہا جس نے اسلامی دنیا کو طب و صحت سے متعلق علم سے مالا مال کیا اور مسلمان اطبا نے ان سے راہ نمائی اور استفادہ کرنے کے ساتھ اپنے طبی تجربات، مشاہدات میں‌ غور و فکر کرتے ہوئے اس شعبے میں اپنی مہارت اور استعداد میں‌ اضافہ کیا۔

    (دنیائے طب، یونانی تعلیمی مراکز اور تاریخ کے صفحات سے استفادہ)

  • چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    حیدرآباد(دکن) کا قدیم یونانی دوا خانہ، عثمانیہ دوا خانہ اور ان کی خدمات کا دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ دور دراز سے مریض یہاں آتے تھے۔

    معالجین ان دنوں جس تحمل اور دل جمعی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ مریض کے حق میں دوا سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔

    ایک حکیم آشفتہ ہوا کرتے تھے، ان کا مطب چادر گھاٹ کے آس پاس تھا۔ حکیم نابینا ہمارے بچپن میں نامی گرامی حکیم تھے، انہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرتے تھے۔ شاید حسینی علم میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ انہیں اپنے وقت کا حاذق سمجھا جاتا تھا۔

    پرانے شہر کے ایک اور ڈاکٹر سکسینہ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے جو علی الصبح سے رات دیر گئے تک خدمات کے لیے دست یاب رہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جب شہر میں ڈاکٹروں کا فقدان تھا اور مذکورہ ڈاکٹروں اور حکما نے مفت خدمات انجام دیں۔

    ( اپنے وقت کے نہایت قابل اور ماہر حکما اور طبیبوں سے متعلق یہ سطور ’حیدر آباد(دکن) جو کل تھا‘ کے عنوان سے پروفیسر یوسف سرمست کے مضمون سے لی گئی ہیں)

  • بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    حکیم کفایت اللہ خاں بے حد غیور طبیعت کے حامل تھے۔ نوابین اور راجے مہاراجے خطیر معاوضے کی پیش کش کرتے تھے، مگر حکیم صاحب کو یہ سب گوارا نہ تھا۔

    نواب رام پور کی سفارش پر ایک مرتبہ نواب صاحب ٹونک کی مدقوق ہم شیر کے علاج کے لیے آمادہ ہوئے۔

    وہ کسی بھی علاج سے تن درست نہ ہوسکی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کا علاج کیا اور کچھ عرصے بعد مریضہ کی صحت رفتہ رفتہ عود کر آئی۔

    نواب ٹونک نے بہ اظہارِ مسرت نوابی انعامات سے نوازا، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ مصاحبین بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔

    پھر کیا تھا، لاکھوں کے انعامات جمع ہوگئے، لیکن حکیم صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔

    اپنے ملازمین اور مصاحبین کو واپسی کے لیے رختِ سفر کی تیاری کا حکم دیا۔

    نواب ٹونک کے ذاتی انعامات قبول کرلیے۔ دیگر عطیات و انعامات یہ کہہ کر یوں ہی چھوڑدیے کہ میں چندے کے لیے نہیں آیا تھا۔

    اس کے بعد اصرار کے باوجود کبھی ٹونک نہیں گئے۔

    ( حکیم عبد الناصر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ”اطبا کے حیرت انگیز کارنامے“ سے انتخاب)