Tag: مشہور غزلیں

  • ”ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے!”

    ”ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے!”

    اردو شاعری بالخصوص غزل گوئی میں‌ انور مرزا پوری کا نام کلاسیکی اور روایتی موضوعات کے سبب معروف ہوا۔ وہ 1960 کی دہائی کے دوران مشاعروں کے مقبول شاعر رہے ہیں۔ انور مرزا پوری کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے جسے معروف گلوکاروں‌ نے گایا ہے۔

    غزل
    میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
    نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے

    مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
    مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

    ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
    ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

    مری زندگی کے مالک مرے دل پہ ہاتھ رکھنا
    ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے

    مجھے پھونکنے سے پہلے مرا دل نکال لینا
    یہ کسی کی ہے امانت مرے ساتھ جل نہ جائے

  • جاں نثار اختر: "آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو…”

    جاں نثار اختر: "آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو…”

    ترقّی پسند ادب کے نمایاں اور اہم شعرا میں‌ جاں نثار اختر کا نام بھی شامل ہے جنھیں ہندوستان کی فلم نگری میں ان کے خوب صورت اور سدا بہار نغمات نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا تعلق خیر آباد (یوپی) سے تھا۔ جاں نثار اختر نے شاعری کا ذوق وراثت میں پایا تھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اور تربیت و فکری نشوونما علی گڑھ میں ہوئی۔ فلم نگری میں اپنی شاعری کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے جاں نثار اختر نے ادب کے علاوہ متعدد فلمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    یہاں ہم ان کی مشہور غزل باذوق قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
    شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    صندل سے مہکتی ہوئی پُرکیف ہوا کا
    جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
    ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
    چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے!

    دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے!

    عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے اس نوجوان نے شاعری کا آغاز کیا تو غزل کو اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوتا رہتا ہے۔ یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    دستبردار نہیں ہوں میں رہا ہونے سے
    قید گھٹتی نہیں زندان بڑا ہونے سے

    اتنی مہلت نہ ملی خود کو سمیٹوں سارا
    رہ گیا اس میں، میں عجلت میں جدا ہونے سے

    ہیں بیک وقت کئی عشق سو معلوم نہیں
    دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے

    اتنا کافی ہے مری رہ گئی ہے بات یہاں
    سر تو جاتا ہے نا مٹی میں انا ہونے سے

    دل بھی مل جائیں تو ہمسائیگی رشتہ ہے میاں
    ورنہ کیا فرق پڑے گھر کے ملا ہونے سے

    مجھ سے پہلے تھے ابھی کتنے مناظر اوجھل
    کتنے الفاظ تھے محروم صدا ہونے سے

  • لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    محسن بھوپالی کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں ہم محسن بھوپالی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، جسے پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو نے گایا اور یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری

    میں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دنیا والوں کی
    میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

    روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
    کچّی مٹی تو مہکے گی ہے، مٹّی کی مجبوری

    ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
    جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

    جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
    وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

    مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
    ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری

  • مشاعروں کی بود و باش

    مشاعروں کی بود و باش

    ایک بزرگ شاعر ہر مشاعرے میں اس ٹھسّے سے آتے تھے کہ ہاتھ میں موٹی سی چھڑی ہوتی تھی اور ساتھ میں کیمرہ لیے ان کا بیٹا ہوتا تھا۔

    بیٹا یوں تو بیٹھا اونگھتا رہتا تھا، لیکن جوں ہی ابّا جان شعر پڑھنے کو کھڑے ہوتے، وہ حرکت میں آجاتا اور تصویروں پر تصویریں اتارتا رہتا۔ ابّا جان بھی ایسے تھے کہ اپنی نشست پر جم کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ مختلف بہانوں سے ادھر ادھر آتے جاتے رہتے تھے کہ کہیں انہیں شروع ہی میں نہ بلا لیا جائے۔

    ایک بار اپنے مخصوص ترنّم میں غزل کا پہلا شعر پڑھا اور اسی ترنّم میں لہک کر اس کی تقطیع بھی کر دی

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

    بس پھر غضب ہوگیا۔ جوں ہی وہ شعر مکمل کرتے، سارا مجمع اُسی ترنّم میں اور قوالی کے انداز میں اس کی تقطیع کرنے لگتا۔

    وہ پہلے تو محظوظ ہوئے، پھر خفا، پھر ناراض، پھر برہم اور آخر میں چھڑی اٹھائی، بیٹے کا ہاتھ تھاما اور محفل سے اس بڑھیا کی طرح نکل گئے جو اپنا مرغ بغل میں داب کر گاؤں سے چلی گئی تھی۔ لیکن مقطع سنائے بغیر نہیں گئے۔

    (رضا علی عابدی کی کتاب کے باب "مشاعروں کی بود و باش” سے اقتباس)

  • فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراق گورکھپوری ایک عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے۔ انھیں اپنے دور میں‌ جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کم ہی شعرا کو نصیب ہوئی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثّر کیا، اور نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ حسن و عشق کے شاعر تھے، لیکن نہ صرف جذبات و احساسات کی ترجمانی کی بلکہ شعور و ادراک اور جمالیاتی احساس کے حوالے سے بھی اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    غزل
    بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
    تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

    نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
    تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

    طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

    خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
    اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

    ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
    مری باتیں بہ عنوانِ دگر وہ مان لیتے ہیں

    تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
    ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

    زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے
    اسی سے تو سَر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
    کبھی ہم جان لیتے ہیں، کبھی پہچان لیتے ہیں

  • ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    لالہ مادھو رام جوہر مرزا غالب کے ہم عصر شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق فرخ آباد (ہندوستان) سے تھا۔

    اپنے زمانے میں‌ استاد شعرا میں‌ شمار ہوتے تھے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے جس کا ایک مصرع بہت مشہور ہے۔ شاید کبھی آپ نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنی بات کہنے کے لیے یہ مصرع پڑھا ہو۔ ہم جس ضرب المثل بن جانے والے مصرع کی بات کررہے ہیں، وہ پیشِ نظر غزل میں شامل ہے۔ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رات دن چین ہم اے رشکِ قمر رکھتے ہیں
    شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں

    بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    ڈھونڈھ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے
    کیا کہوں آپ دلِ غیر میں گھر رکھتے ہیں

    اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں کر
    دشمنی مجھ سے مرے دیدۂ تر رکھتے ہیں

    کون ہیں ہم سے سوا ناز اٹھانے والے
    سامنے آئیں جو دل اور جگر رکھتے ہیں

    حالِ دل یار کو محفل میں سناؤں کیوں کر
    مدعی کان اِدھر اور اُدھر رکھتے ہیں

    جلوۂ یار کسی کو نظر آتا کب ہے
    دیکھتے ہیں وہی اس کو جو نظر رکھتے ہیں

    عاشقوں پر ہے دکھانے کو عتاب اے جوہرؔ
    دل میں محبوب عنایت کی نظر رکھتے ہیں

    غزل آپ نے پڑھ لی ہے، اور یقیناَ جان گئے ہوں گے کہ ہم کس مصرع کی بات کررہے تھے۔

    یہ مصرع ہے: ‘تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں’

  • عظیم شاعر مرزا غالب کا یومِ پیدائش

    عظیم شاعر مرزا غالب کا یومِ پیدائش

    آج مرزا اسد اللہ خاں کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے جو جہانِ سخن میں غالب مشہور ہوئے۔ وہ 27 دسمبر 1797ء آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    اردو اور فارسی زبان کے اس شاعر نے نثر میں بھی اپنا کمال دکھایا اور ان کے دوستوں اور شاگردوں کے نام خطوط اور مراسلت بہت مشہور ہے۔ اسی طرح غالب کی بذلہ سنجی اور ان کی ظرافت سے متعلق کئی قصّے اور لطائف بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    غالب کے آباء و اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ وہ 13 برس کے تھے جب دہلی کے ایک خاندان میں شادی کے بعد اسی شہر کے ہو رہے۔ مے نوش اور یار باش غالب نے تنگ دستی دیکھی۔ اولاد سے محروم رہے۔ 1855ء میں استاد ذوق دنیا سے گئے تو مرزا غالب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں استاد مقرر ہوئے۔ دربار سے نجم الدولہ، دبیرُ الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔

    غالب نے سہل ممتنع اور سادہ و رواں بحروں میں مضامین کو اس خوبی اور عمدگی سے باندھا کہ آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔ غالب نے شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں نئے ڈھب اور اسلوب کو متعارف کروایا۔ ان کے خطوط ان کی نثر نگاری کا عمدہ نمونہ اور مثال ہیں۔

    15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

    نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
    بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

    ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
    وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

    محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
    اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

    کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
    پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

  • تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے (شاعری)

    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے (شاعری)

    پروفیسر ڈاکٹر شریف کنجاہی دنیائے ادب کا ممتاز اور نہایت معتبر نام ہے جنھیں اردو اور پنجابی زبان میں ان کی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ادیب، شاعر، ماہرِ لسانیات، محقق، مترجم اور معلم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے
    یہ اور بات سہی ہم نہ دیکھ پائیں گے

    یقیں تو ہے کہ کُھلے گا، نہ کُھل سکا بھی اگر
    درِ بہار پہ دستک دیے ہی جائیں گے

    غنودہ راہوں کو تَک تَک کے سوگوار نہ ہو
    ترے قدم ہی مسافر اِنہیں جگائیں گے

    لبوں کی موت سے بدتر ہے فکر و جذب کی موت
    کدھر ہیں وہ جو اِنہیں موت سے بچائیں گے

    طویل رات بھی آخر کو ختم ہوتی ہے
    شریفؔ ہم نہ اندھیروں سے مات کھائیں گے