Tag: مشہور غزلیں

  • جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگر میر مہدی مجروح تھے۔

    غالب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور اپنا فرزند کہتے تھے۔

    ایک روز میر مہدی مجروحؔ اپنے استاد اور محسن مرزا غالب کے کمرے میں‌ داخل ہوئے تو دیکھا کہ استاد صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ مجروح‌ ان کے پاؤں دابنے بیٹھ گئے۔

    مرزا صاحب نے کہا، بھئی تُو سید زادہ ہے، اس طرح‌ مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے؟

    میر مہدی مجروح کے دل میں‌ جانے کیا آئی کہ بولے، آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیے گا۔

    اس پر استاد نے کہا، ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔

    مجروح‌ پیر داب کر اٹھے تو ازراہِ تفنن مرزا صاحب سے اجرت طلب کی۔

    سچ ہے استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے شاگرد کی بات سنی اور ان کی طرف دیکھ کر بولے۔

    بھیا کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمہارے پیسے دابے۔ یوں‌ حساب برابر ہوا۔

  • نوحہ لکھتی ہوا، ماتمی فضا میں‌ محسن نقوی سے  ملیے!

    نوحہ لکھتی ہوا، ماتمی فضا میں‌ محسن نقوی سے ملیے!

    سید غلام عباس نقوی نے محسن تخلص کیا اور دنیائے سخن میں‌ محسن نقوی کے نام سے پہچانے گئے۔

    اردو زبان کے اس شاعر نے خوب صورت الفاظ، استعاروں اور تشبیہات سے اپنی غزلوں اور نظموں کو کچھ اس طرح‌ سجایاکہ سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اپنے کلام میں دل کی ہر واردات، ہر جذبے کو نہایت خوبی سے سمونے والے محسن نقوی کو قادر الکلام شاعر مانا جاتا ہے۔

    آج محسن نقوی کی برسی ہے۔ ان کے چند اشعار اور ایک مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    شاید یہ تین اشعار آپ نے بھی اپنی بیاض میں‌ کبھی لکھے ہوں‌۔

    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
    میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

    محسن نے اپنی ایک خواہش کا اظہار یوں‌ کیا ہے۔

    عمر اتنی تو میرے فن کو عطا کر خالق
    میرا دشمن مرے مرنے کی خبر کو ترسے

    غلام علی کی آواز میں‌ یہ غزل تو آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    یہ دل، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
    اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

    کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
    میں نے کہا تُو کون ہے؟ اُس نے کہا آوارگی

    یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
    ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا! آوارگی

    کل رات تنہا چاند کو، دیکھا تھا میں نے خواب میں
    محسن مجھے راس آئے گی، شاید سدا آوارگی