Tag: مشہور فرانسیسی ادیب

  • سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی جب اس کا خاندان امریکا سے پیرس منتقل ہوا۔ وہ زندگی کو اپنے انداز سے گزارنے اور کچھ کر دکھانے کی آرزو مند تھی۔

    1919ء میں سلویا نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس نے اسے پیرس کی ایک مشہور شخصیت بنا دیا اور بعد کے برسوں میں اس نے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔

    سلویا بیچ 1887ء میں پیدا ہوئی۔ پیرس میں قیام کے دوران 1919ء میں سلویا بیچ نے کتب فروش کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کون جانتا تھاکہ ایک دکان کی مالک دنیا بھر میں ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق کے طور پر اتنی مشہور ہوجائے گی اور دور دور سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور نام ور ادیب و شاعر اس کتاب گھر کا رخ کریں گے۔

    اس دکان کا نام شیکسپیئر اینڈ کمپنی تھا جس نے بعد میں سلویا بیچ کو ایک مستند اور مستحکم ناشر کے طور پر بھی شہرت دی۔ اس بک شاپ میں انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابیں رکھی گئی تھیں جو جلد ہی مطالعے کے شوقین افراد کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

    شہر اور مختلف قصبات سے کتابوں کے عام خریداروں کے ساتھ ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے تھے۔ سلویا بیچ خود بھی مطالعے کی شوقین اور علم دوست لڑکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ قلم کار اس سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اکثر ان سے کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو کرتی اور مختلف علمی و ادبی نوعیت کے مباحث اسے سیکھنے اور جاننے کا موقع فراہم کرتے تھے۔

    سال بھر میں اس نے اپنے اسی ذوق و شوق کے سبب پیرس کے اہلِ قلم کی توجہ حاصل کرلی اور اس کی دکان پر ایک قسم کی ادبی نشستوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دکان میں گنجائش کم تھی اور رش کی وجہ سے کام اور علمی اور ادبی گفتگو کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ تب اس نے قریب ہی ایک کشادہ دکان کرائے پر حاصل کرلی۔

    1921ء میں محنت اور لگن کی بدولت سلویا کا یہ نیا کتاب گھر علم و فنون کا مرکز اور اس وقت کے نابغوں کی بیٹھک بن گیا۔ وہاں نام وَر ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہونے لگے۔ اکثر ایسا ہونے لگا کہ ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، اور قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔

    سلویا بیچ کی دکان پر ارنسٹ ہیمنگوے، ایزرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات آتی اور محفل بپا کرتی تھیں۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس سے مالی فائدہ ہی نہیں اسے خوب شہرت بھی ملی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع بنا اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔

    اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی۔ تاہم 1941ء میں فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔

    کئی برس بعد ایک اور علم دوست جارج وہٹمین نے پیرس میں اِسی طرز کی ایک دکان کھولی اور اسے علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کے لیے دن رات محنت کی اور کام یاب رہا۔ وہ دراصل سلویا بیچ کا بڑا مداح تھا۔ جارج وہٹمین نے بھی اپنے اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کا نام دیا اور اس موقع پر اعلان کیا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کے اظہار کی ایک شکل ہے۔

    1962ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والی سلویا بیچ نے زندگی کی 75 بہاریں دیکھیں۔

  • ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایملی زولا کی موت ایک حادثہ تھی۔ یہ 1902 کی بات ہے جب‌ وہ گہری نیند میں اس جہانِ رنگ و بُو کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ اس کی موت بظاہر ایک مستری کی غلطی کے سبب واقع ہوئی تھی۔

    اس حادثے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    ایملی زولا فرانس کا معروف ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840 ہے۔

    ایملی زولا متعدد محکموں میں کلرک کے طور پر کام کرنے کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا اور شہرت کا سفر شروع کیا۔ وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ تھا۔ اس نیچرلسٹ ادیب نے موپساں جیسے نام ور اور دیگر ہم عصر ادیبوں کے ساتھ اپنی کہانیاں‌ چھپوائیں اور خوب شہرت سمیٹی۔ دنیا بھر کے نقاد مانتے ہیں کہ فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ ایملی زولا کو پڑھا گیا۔

    وہ کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری تھا۔ زولا نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ فرانس کے صدر کے نام 1898 میں لکھے گئے ایک خط کی صورت سامنے آیا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کی وجہ سے دنیا میں فرانس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ حکومت نے زولا پر مقدمہ کر دیا اور اسے عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لے لی۔

    اس خط کا پس منظر وہ سازش تھی جس میں‌ پھنسائے گئے ایک یہودی کیپٹن نے کسی طرح‌ اس کے خلاف زولا کی مدد حاصل کی اور درخواست کی کہ وہ اِس سازش کو بے نقاب کرے۔ اس پر فرانس میں‌‌ خوب بحث ہوئی اور کیپٹن کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہی نہیں بلکہ اسے پورے اعزازات سمیت بری کر دیا گیا اور یوں‌ یہ کیس ختم ہوا تو زولا بھی واپس پیرس آ گیا۔

    وہ وطن واپسی کے بعد اپنے تخلیقی کام میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے کیے کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، لیکن عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن ریاست اس کا وجود برداشت نہ کرسکی اور مشہور ہے کہ اسے "قتل” کروایا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن غلطی سے چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا اور زولا کے کمرے میں‌ کوئلوں کی گیس بھر گئی۔ وہ دَم گھٹنے سے مر گیا۔ سب نے اسے ایک حادثہ ہی مانا تھا، لیکن زولا کی موت کے دس سال بعد مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اسی نے ارادتآ زولا کے گھر کی چمنی کو بند کیا تھا اور یوں‌ گیس بھرنے سے اس کی موت ہوگئی۔