Tag: مشہور فلسفی

  • اس میل کی تمہیں کیا ضرورت؟

    اس میل کی تمہیں کیا ضرورت؟

    یہ گفتگو تقریباً تین ہزار سال پہلے دو فلسفیوں (سقراط اور گلاکن) کے درمیان ہورہی تھی۔

    سقراط : میں عرض کرتا ہوں سنیے۔ اگر کوئی گڈریا ایسے کتّے پالے جو عدم تربیت، بھوک، یا کسی بری عادت کی وجہ سے بھیڑوں پر منہ ماریں اور انہیں تنگ کریں اور حفاظت کی بجائے خود بھیڑیے کا کام کریں تو یہ کیسی لغو اور بری حرکت ہوگی۔

    گلاکن : بیشک یہ بہت بری بات ہے۔

    سقراط : چنانچہ ہمیں بھی ہر ممکن اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے مددگار اور محافظ جو عام شہریوں سے زیادہ قوی ہوں کہیں ضرورت سے زیادہ قوی نہ ہوجائیں اور بجائے یار و مددگار کے ایک وحشی ظالم کا کام نہ کریں۔

    گلاکن : جی ہاں اس بارے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔

    سقراط : اور کیا؟ ایک حقیقی عمدہ تعلیم کیا بہترین احتیاط نہیں؟

    گلاکن : ان کی عمدہ تعلیم تو ہو ہی چکی ہے۔

    سقراط : نہیں مجھے تو اس درجہ اعتماد نہیں ہے۔ ہاں میرا عقیدہ یہ ہے کہ انہیں عمدہ تعلیم یافتہ ہونا ضرور چاہیے کہ صحیح تعلیم ہی خواہ اس کی نوعیت کچھ ہو انہیں مہذب اور متمدّن بنانے اور ان کے تعلقاتِ باہمی اور زیر دستوں سے ان کے برتاؤ کو انسانیت کا رویہ بنانے میں سب سے قوی مؤثر قوت ثابت ہوگی۔

    گلاکن : بجا ہے۔

    سقراط : اور صرف تعلیم ہی نہیں ان کی تو قیام گاہیں اور ان کی تمام املاک اسی قسم کی ہونی چاہییں کہ نہ بہ حیثیت محافظ ان کے محاسن کو کم کرے اور نہ انہیں دوسرے شہریوں پر دست درازی کرنے کی ترغیب دلا سکے۔ غالباً ہر سمجھدار شخص مجھ سے اتفاق کرے گا۔

    گلاکن : لازماً۔

    سقراط : اچھا تو اگر انہیں ہمارے خیال کے مطابق پورا اترنا ہے تو دیکھیں ان کا طرزِ معاشرت کیا ہونا چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوائے ضروری اشیا کے کسی کے پاس کوئی ذاتی ملک نہ ہوگی۔ نہ ان کے پاس اپنا کوئی نجی مکان ہوگا، نہ گودام جس میں کوئی دوسرا آنا چاہے اور نہ آسکے۔ ان کی غذا میں صرف ایسی چیزیں شامل ہوں گی جن کی ضرورت تربیت یافتہ اور صاحبِ جرأت و عفت جنگ آزماؤں کو ہوتی ہے۔ انہیں شہریوں سے ایک مقررہ شرح تنخواہ کے وصول کرنے کا معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے سالانہ اخراجات کی کفالت ہوسکے، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ سب کے سب ایک جگہ رہیں اور ایک جگہ کھانا کھائیں جس طرح لشکر میں سپاہی کرتے ہیں۔ ہم انہیں بتلائیں گے کہ سیم و زر تو تمہیں خدا کی طرف سے عطا ہوچکا ہے۔ جب وہ اعلٰی دھات خود تمہارے اندر موجود ہے تو پھر اس میل کی تمہیں کیا ضرورت جو انسانوں میں رائج ہے۔ تم ہرگز اس عطیۂ سماوی کو اس آمیزشِ ارضی سے آلودہ اور ناپاک نہ کرو کہ یہ رائج اور عام دھات بہت سے ناپاک اعمال کی وجہ ثابت ہوتی ہے اور خالص دھات اور اعلٰی دھات تمہارے قبضہ میں ہے وہ بالکل پاک ہے۔

    چنانچہ سارے شہر میں بس انہیں لوگوں کو سونا، چاندی نہ چھونا چاہیے۔ یہ لوگ نہ تو سونا چاندی پہنیں نہ ان کے برتنوں سے کچھ کھائیں پیئیں اور نہ ہی اس چھت کے تلے رہیں جہاں سونا چاندی موجود ہے۔ ان کی نجات اسی میں ہے اور اسی طرح یہ ریاست کی نجات کرا سکتے ہیں۔ اور اگر کہیں ان کے پاس اپنے ذاتی مکانات یا زمینیں یا اپنا ذاتی زر و مال ہوا تو یہ بیشک اچھے تاجر یا کسان تو بن جائیں گے لیکن محافظ نہ رہیں گے۔ بجائے معین و مددگار ہونے کے یہ دشمن اور ظالم ہو جائیں گے۔ یہ دوسروں سے نفرت کریں گے دوسرے ان سے، یہ اوروں کے خلاف سازشیں کریں گے اور دوسرے ان کے خلاف، خارجی دشمنوں سے زیادہ اندرونی مخالفتوں کے خوف میں ان کی زندگی گزرے گی اور خود ان کی اور ریاست کی تباہی کا وقت قریب آجائے گا۔ ان وجوہ کی بنا پر کیا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ ہماری ریاست کا ایسا ہی نظام ہونا چاہیے اور محافظین کے مکانات اور نیز دیگر امور کے متعلق بھی یہی ضوابط مقرر کرنے چاہییں۔

    گلاکن : بیشک۔

    (افلاطون کی کتاب سے اقتباس، جس کا ترجمہ ریپبلک کے نام سے کیا گیا اور مترجم ڈاکٹر ذاکر حسین تھے)

  • کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

    کارل مارکس جرمنی کا وہ دانش ور اور فلسفی تھا جس نے گزشتہ صدی میں اپنے افکار سے دنیا کو متوجہ کرلیا اور وہ اس کے نظریات سے متاثر ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا کی کئی حکومتوں کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہی سوشلسٹ نظریات کی حکومتوں نے مطلق العنانیت کو اپنا کر مارکس کے تصوّرات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔ البرٹ کامیو نے 1956ء میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آج کارل مارکس کا یومِ وفات ہے۔ 1883ء میں‌ اس نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ کارل مارکس نے 5 مئی 1818ء کو پرشیا (موجودہ جرمنی) میں ایک یہودی وکیل کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی دنیا نت نئے فلسفوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تحریکوں کے زیرِ اثر تھی۔ کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے والد نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سرکاری ملازمت اور وکالت پر پابندی عائد کیا جانا تھا۔

    کارل مارکس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بون اور پھر برلن کی درس گاہوں کا رخ کیا اور اسی زمانے میں وہ ہیگل جیسے فلسفی کو پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوا۔ برلن ہی میں کارل نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ علمِ قانون اس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن فلسفہ اور تاریخ میں بھی اس کی گہری دل چسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ کارل نے 1842ء میں وہ کولون شہر چلا گیا اور وہاں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ جلد ہی وہ ایک اخبار کا مدیر بھی بن گیا۔ اس نے مضمون نگاری کا آغاز پہلے ہی کردیا تھا اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی اخبار کی وجہ سے شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں آزادیٔ صحافت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو کارل نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور شاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ عوام کی آواز بننے لگا تھا جس میں اس نے روس کے زار کے خلاف ایک مضمون بھی شایع کردیا اور اس جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1843ء میں فرانس کا عظیم شہر پیرس جہاں بہت سے انقلابی پہلے سے موجود تھے، وہیں کارل بھی پہنچا اور ایک ماہ نامے کا آغاز کردیا۔ لیکن اس کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں کارل نے لکھا تھا کہ جرمن وفاق قائم نہیں رہ سکتا اور اس حوالے سے اپنے خیالات اور حقائق سامنے لایا تھا۔ فرانس میں‌ تو اسے اہمیت نہیں‌ دی گئی لیکن پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 1845ء میں کارل کو فرانس سے جلا وطن کردیا گیا۔

    فرانس کے بعد کارل نے اپنے ساتھیوں سمیت بیلجیئم کا رخ کیا اور برطانیہ کا بھی دورہ کیا جہاں اسے محنت کش طبقے کے حالات جاننے کا موقع ملا جس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدحالی عروج پر تھی، اور جس نظام میں لوگ پس رہے تھے، اس میں ان کی سماجی و معاشی حالت میں سدھار ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر لحاظ سے پستی اور بدترین طرزِ زندگی عوام کا مقدر بن چکا تھا۔ کارل مارکس نے بیلجیئم میں قیام کے دوران اپنے دوست اور مفکر اینگلز کے ساتھ مل کر اس سب پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے تنظیم قائم کی۔

    1848ء میں کارل کا وہ کتابچہ شایع ہوا جس میں اس نے محنت کشوں کو اکٹھے ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسے دنیا کمیونسٹ مینی فسٹو کے عنوان سے پہچانتی ہے۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا جہاں رہ کر اپنی جدوجہد اور نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ اس نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اپنے افکار کی بدولت انسانوں کی سوچ کو اپنے حق میں‌ نئے زاویے اور راستے سجھائے۔

    کارل مارکس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی تھی تاہم اپنے وطن میں‌ باغی اور غیرملک میں‌ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے روزگار اور معاش کے لیے مسائل کا شکار رہنے والا کارل مارکس مالی مشکلات جھیلتا رہا۔ اس کی خانگی زندگی بھی غم و اندوہ سے دوچار ہوئی کیوں کہ اس کے چار بچّے نوعمری میں ہی چل بسے تھے جب کہ تین بیٹیاں جو جوان ہوئیں، ان میں سے بھی دو نے خود کشی کرلی تھی۔

    کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے نظریات میں کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علَم بلند کیا تھا۔

    وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ناقد اور ایسا مفکر تھا جس نے اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے زندگی کا بیش تر حصہ جلاوطنی اور مالی تنگ دستی میں گزار دیا جب کہ زندگی میں اس کے فلسفے اور کتابوں کو بھی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ تاہم بعد میں دنیا اس کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو آج بھی دنیا بھر میں غور و فکر کے عادی اور کہیں‌ بھی ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے راہ نما کتاب کہا جاتا ہے۔

    دنیا بھر کے عظیم فلسفی اور علم و ادب سے وابستہ شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آج وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فلسفی، معیشت دان اور مزدور دوست انقلابی راہ نما کو اتنی ہی مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے جتنی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اس کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کتابیں لکھوائیں اور لاکھوں مضامین شائع کروائے، لیکن مارکس کا نظریہ توانا ہوتا چلا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی موت اور اس کی خرابیوں سے متعلق اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔

  • پہلی عالمی جنگ اور نطشے کی پیش گوئی

    پہلی عالمی جنگ اور نطشے کی پیش گوئی

    بہ قول فرانز کونا، نطشے نے واضح کیا کہ جدید دنیا جس پر علم اور سائنس کا غلبہ ہے، اپنی تہ میں وحشی، قدیمی اور بے رحم قوتیں چھپائے ہوئے ہے۔ کسی مناسب وقت پر آدمی خود اپنی تہذیب کو فتح کر لے گا اور وحشی قوتیں بے مہار ہو جائیں گی۔

    پرومیتھیس کی مانند کوئی یک رخے ذہن کا حامل آدمی اٹھے گا، مطلق مثالیت اور مطلق بربریت کا فرق مٹا دے گا۔ ایسے میں اگر کوئی امید باندھی جا سکتی ہے تو صرف جدید آرٹ سے۔

    جوزف کونراڈ کا قلب ظلمات، کافکا کے کایا کلپ، بھوکا فن کار، تعزیری آبادی، ٹامس مان کا جادوئی پہاڑ اور ای ایم فاسٹر کے سفرِ ہند میں نطشے کی جدلیاتی اسکیم دکھائی دیتی ہے۔
    پہلی عالمی جنگ (1914۔1918 ) نے نطشے کی پیش گوئی درست ثابت کی۔ آسٹریا کے شہزادے کے قتل سے شروع ہونے والی یہ جنگ کسی آسمانی عفریت کی نازل کردہ نہیں تھی، اس کے اسباب خود یورپ نے اپنی جدید، صنعتی، سرمایہ دارانہ، قومی نسل پرستانہ تہذیب کی تشکیل کے دوران میں پیدا کیے تھے۔

    اس سے پہلے جنگیں محدود سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے لڑی جاتی تھی۔ ایرک ہوبسبام کے بہ قول اس جنگ کے مقاصد لامحدود تھے۔ اسٹینڈرڈ آئل، ڈیوچے بینک، ڈی بیرز ڈائمنڈ کمپنی کی حدود کائنات کے آخری سرے تک پھیل رہی تھی، یہاں تک کہ ان کا مزید پھیلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ جرمنی اور برطانیہ، اس جنگ کے دو بڑے کھلاڑی تھے اور دونوں کے لیے آسمان آخری حد تھا۔ جرمنی عالمی سیاسی اور بحری طاقت چاہتا تھا جس کی راہ میں برطانیہ رکاوٹ تھا۔ فرانس بھی عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتا تھا۔

    یورپ کے قوم پرست، سرمایہ دار حکم رانوں نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے آسمان کو آخری حد سمجھا تھا اور یورپ کے عوام نے موت، بربادی اور دہشت کی آخری حدوں کو دیکھا اور بھگتا۔

    نطشے، مارکس اور کچھ دوسرے مغربی دانشور جدید، مہذب، سائنس و صنعت میں مسلسل ترقی کرتے یورپ کے تاریک اور بھیانک رخ کی نشان دہی کر رہے تھے۔ جنگ، جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کی راست پیداوار تھی جس جدید تہذیب پر یورپ فخر کرتا تھا، اس کے ضمن میں، بہ قول فرائیڈ، جنگ نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں تہذیب و جدیدیت و ترقی کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے یورپ سے متعلق ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔“

    یعنی اس جنگ نے جدید تہذیب سے متعلق ازالۂ التباس (disillusionment) کر دیا۔ فرائیڈ کی مایوسی کا ایک سبب، سفید یورپی نسل کی ذہنی، فکری، جمالیاتی اور سائنسی و فنّی ترقی میں یقین بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وحشی اور کم مہذب اقوام میں جنگیں جدید عہد میں بھی ممکن ہیں مگر:

    سفید نسل کی عظیم حکم ران قومیں جو بنی نوع انسان کی قیادت کر رہی ہیں، جن کے مفادات دنیا بھر میں پھیلے ہیں اور جنہوں نے فطرت کو قابو پا کر ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے، نیز فن کارانہ اور سائنسی ثقافت کے معیارات تخلیق کیے ہیں، وہ اپنے اختلافات کو کسی دوسری طرح سے طے کریں گی۔

    (ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب جدیدیت اور نوآبادیات سے اقتباس)