Tag: مشہور فلمیں

  • امیتابھ بچن، راجیش کھنہ اور شتروگھن سنہا نے سُپرہٹ فلمیں کیوں ٹھکرائیں؟

    امیتابھ بچن، راجیش کھنہ اور شتروگھن سنہا نے سُپرہٹ فلمیں کیوں ٹھکرائیں؟

    ممبئی : بالی وڈ فلم انڈسٹری کے معروف اور لیجنڈ اداکاروں امیتابھ بچن، راجیش کھنہ اور شتروگھن سنہا نے ماضی کی مایہ ناز اور سُپرہٹ فلمیں کرنے سے کیوں انکار کیا تھا؟

    یہ بھارتی فلموں کے وہ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے نامور فلم ساز منوج کمار کی کئی سُپرہٹ فلمیں ٹھکرا دی تھیں، جن فلموں نے باکس آفس پر کئی ریکارڈ توڑے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق منوج کمار عرف بھارت کمار اپنے دور کے نہ صرف ایک مشہور اداکار تھے بلکہ ایک باکمال فلم ساز بھی تھے۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی بڑے فلمی ستاروں نے ان کی سُپرہٹ فلموں میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

     فلم اُپکار : راجیش کھنہ

    راجیش کھنہ

    رپورٹ کے مطابق پُورَن کمار کا کردار دراصل پرَیم چوپڑا کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کیلئے منوج کمار کی پہلی پسند راجیش کھنہ تھے، لیکن تاریخوں کی مصروفیات کے باعث راجیش کھنہ نے بھارت کمار کی بلاک بسٹر فلم میں کام کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

    فلم شور : شتروگھن سنہا

    شتروگھن سنہا

    اطلاعات کے مطابق، مشہور اداکار شتروگھن سنہا کو فلم میں ایک معاون مرکزی کردار کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن وہ منوج کمار کو ایک ساتھ زیادہ تاریخیں نہیں دے سکے، لہٰذا انہوں نے فلم چھوڑ دی اور ان کی جگہ پریم ناتھ کو کاسٹ کیا گیا۔

    فلم شور : پران 

    پران

    کہا جاتا ہے کہ منوج کمار اپنے پسندیدہ اداکار کو ایک پٹھان کے کردار میں لینا چاہتے تھے، لیکن پران اُس وقت فلم "زنجیر” میں پہلے ہی پٹھان کا کردار نبھا رہے تھے اور وہ ایک ہی جیسے کردار دو فلموں میں کرنا نہیں چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے یہ کردار ٹھکرا دیا تھا۔

    فلم روٹی کپڑا اور مکان : شرمیلا ٹیگور 

    شرمیلا ٹیگور

    بھارتی میڈیا کے مطابق شرمیلا ٹیگور کو فلم میں زینت امان کا کردار آفر ہوا تھا، لیکن وہ موسمی چٹرجی والا کردار ادا کرنا چاہتی تھیں۔ منوج کمار نے اپنی تخلیقی سوچ پر قائم رہتے ہوئے فلم کی کاسٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، جس کی وجہ سے شرمیلا نے فلم چھوڑ دی تھی۔

     فلم روٹی کپڑا اور مکان : سمیتا پاٹیل

    سمیتا پاٹیل

    رپورٹس کے مطابق، منوج کمار نے اپنی فلم کے ذریعے اداکارہ سمیتا پاٹیل کو متعارف کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ تاہم، سمیتا نے فلم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کثیر کرداروں پر مبنی فلم (ensemble drama) میں کام کرنے سے غیر مطمئن تھیں۔ بعد میں یہ کردار زینت امان کو دے دیا گیا۔

    فلم کرانتی : امیتابھ بچن

    امیتابھ بچن

    منوج کمار دراصل شتروگھن سنہا والے کردار کے لیے امیتابھ بچن کو لینا چاہتے تھے، لیکن اطلاعات کے مطابق "بگ بی” نے یہ فلم ٹھکرا دی، اور یوں شتروگھن سنہا کو اس فلم میں شامل کیا گیا۔

  • تخلیقی اور جمالیاتی نقطۂ نظر کے حامل چند مشہور فلم ڈائریکٹرز

    تخلیقی اور جمالیاتی نقطۂ نظر کے حامل چند مشہور فلم ڈائریکٹرز

    ہالی وڈ سمیت دنیا بھر کی فلموں کے کئی ہدایت کار اپنے شان دار کام اور بلاشبہ تخلیقی ذہانت کا شاہ کار کہی جانے والی فلموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان میں کئی نام ایسے ہیں جو کئی برس پہلے ہم سے جدا ہو چکے ہیں، لیکن ان کی لازوال فلموں کے ساتھ ان کا نام بھی ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان کی ہدایت کاری کا کمال ان کا تخلیقی نقطہ نظر اور فلم بندی میں جمالیاتی اظہار کی انفرادیت کے ساتھ کچھ تجربات رہے ہیں جو نئے ہدایت کاروں کے لیے مثال ہیں۔

    دنیا کا ہر عظیم ہدایت کار پردے کے پیچھے اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔ وہ عام سنیما بینوں‌ کے لیے بس ایک نام ہوسکتا ہے اور فلم ڈائریکٹر کو جانے اور سراہے بغیر یہ عام سنیما بین ان کی فلمیں‌ ایک سے زائد مرتبہ دیکھتے اور ہر بار پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک بہترین ہدایت کار آرٹ کی شکل میں جدت لاتا ہے اور تجربات کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ نئی تکنیکوں کے ساتھ رسک لینا جانتا ہے اور پھر اس کی سوچ بچار اور اداکاروں سے لے کر لوکیشنز تک اس کا انتخاب ایک شاہ کار کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ہم چند بہترین فلمی ہدایت کاروں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے خاموش اور ناطق فلموں کے ساتھ کامیڈی، ڈرامہ، ویسٹرن، میوزیکل فلمیں بنائیں اور خود کو باکمال ثابت کیا۔

    اکیرا کوروساوا
    اکیرا کروساوا نے 1936 میں فوٹو کیمیکل لیبارٹریز کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ٹوکیو کے اس فلمی ہدایت کار کی اس وقت عمر 25 سال تھی۔ انھوں نے 1943 میں اپنی پہلی فیچر فلم Sanshiro Sugata بطور ہدایت کار سنیما کے لیے تخلیق کی۔ بعد کے برسوں میں ڈرنکن اینجل (1948)، راشو مون (1950)، سیون سامورائی (1954)، ہائی اینڈ لو (1963) اور آخری فلم 1993 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    کروساوا ایک ماہر اسکرین رائٹر تھے جن کا کیریئر تقریباً 60 سال پر محیط رہا اور اس میں انھوں نے ٹی وی اور تھیٹر کے لیے بھی کام کیا۔ اکیرا کروساوا نے مغرب میں جاپانی فلموں کو مقبول بنانے میں کردار ادا کیا۔ ان کے کام کو انگمار برگ مین اور کئی بڑے فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے سراہا۔

    بلی وائلڈر
    آسٹریا کے ہدایت کار بلی وائلڈر نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز جرمنی میں بطور اسکرپٹ رائٹر کیا۔ بدقسمتی سے جرمنی میں نازیوں کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کے کئی لوگوں کی ہلاکت کے بعد وائلڈر 1930 کی دہائی میں جرمنی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ وہ اگلے دس برس بعد یعنی 1940 کی دہائی تک ہالی وڈ کے عظیم ہدایت کاروں میں سے ایک مشہور ہوئے۔ وائلڈر نے ڈبل انڈیمنٹی (1944)، سن سیٹ بلیوارڈ (1950)، سبرینا (1954)، وٹنس فار دی پراسیکیوشن (1957)، سم لائک اٹ ہاٹ (1959) جیسی کلاسک کے ساتھ کامیڈی سے لے کر مختلف موضوعات پر فلموں کو مقبول بنایا۔

    انھوں نے 1981 میں اپنی آخری فلم بطور ہدایت کار کی تھی۔ وائلڈر کو 21 آسکرز کے لیے نام زد کیا گیا تھا، جس میں سے چھے آسکرز وہ جیتنے میں کام یاب ہوئے اور دو ایوارڈز بہترین ہدایت کاری کے لیے حاصل کیے۔

    فرینک کیپرا
    کیپرا کی فلمیں اس آئیڈیلزم کو اپنی گرفت میں لاتی ہیں کہ امریکہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ فلمیں اٹ ہیپنڈ ون نائٹ (1934)، مسٹر ڈیڈز گوز ٹو ٹاؤن (1936)، یو کانٹ ٹیک اٹ ود یو (1938)، اٹز اے ونڈر فل لائف (1946) ہیں۔ فرینک کیپرا اس انفرادیت کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کیمرے کے پیچھے محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ وہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اپنے کام کی وجہ سے خوب پہچانے گئے۔ کیپیرا نے پانچ آسکر جیتے اور امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ اور ڈائریکٹرز گلڈ آف امریکہ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز حاصل کیے۔ ان کی آخری تھیٹر فلم 1961 کی پاکٹ فل آف میرکلز تھی۔

    ژاں لوک گوڈارڈ
    فرانس میں فلمی صنعت میں نئی لہر کے ایک ستون کے طور پر ژاں لوک گوڈارڈ کو سب سے زیادہ بااثر ہدایت کار کہا جاتا ہے۔ وہ سوئس باشندےے تھے، لیکن فرانس میں ان کا وقت فلمی دنیا میں کام کرتے اور نام بناتے ہوئے گزرا۔ گوڈارڈ کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے دوسرے ڈائریکٹروں کے مقابلے میں بیانیہ، تسلسل، آواز اور کیمرہ ورک کو بہت اہمیت دی اور اپنی فلموں کو انفرادیت بخشی۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اداکاروں کو موقع دیتے تھے کہ وہ اپنی پرفارمنس کو دریافت کرسکیں۔ وہ جان سکیں کہ کس کردار کے لیے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اکثر نامکمل اسکرپٹ کے ساتھ فلم بندی کرنے والے ہدایت کار بھی مشہور تھے۔ بریتھ لیس (1960)، اور ویک اینڈ (1967) کے علاوہ کئی فلمیں گوڈارڈ کے فن کا کمال ہیں۔ انھیں بڑے فلم سازوں نے بھی سراہا اور ان کے کام کو مثالی قرار دیا ہے۔

    الفریڈ ہچکاک
    الفریڈ ہچکاک نے اپنے کیریئر میں 50 سے زیادہ فلموں کی ہدایت کاری کی۔ انھوں نے سنسنی خیز، سسپنس اور ڈراؤنی کہانیوں کو سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔ ہچکاک نے برطانیہ میں اپنے کیرئیر کا آغاز خاموش فلم سے کیا تھا اور ان کی 1929 کی فلم بلیک میل پہلی برطانوی "ٹاکی” تھی۔ 1930 کی دہائی کے آخر میں ہالی ووڈ میں منتقل ہونے کے بعد، ہچکاک نے ریبیکا (1940) بنائی، جس نے انھیں بہترین ہدایت کار کے لیے پانچ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کروایا۔ ہچکاک نے کلاسیکی فلمیں بنائیں جن میں ڈائل ایم فار مرڈر (1954)، ریئر ونڈو (1954)، ٹو کیچ اے تھیف (1955)، ورٹیگو (1958)، سائیکو (1960) شامل ہیں۔

    اسٹینلے کبرک
    کہا جاتا ہے کہ اسٹینلے کبرک کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کام کرنا مشکل تھا۔ ڈاکٹر اسٹرینج لو (1964)، اے کلاک ورک اورنج (1971)، فل میٹل جیکٹ (1987) جیسی فلموں کے ساتھ، کبرک نے 13 تھیٹر فلموں کی ہدایت کاری کی اور یہ سب ایک شاہ کار ہیں۔ کبرک کو ان کے کیرئیر میں 13 اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد کیا گیا تھا لیکن اپنی ہدایت کاری کے لیے انھوں نے بہت کم ایوارڈ جیتے۔ تاہم ان کی ہدایت کاری کا انداز بہت منفرد رہا، خاص طور پر کیمرہ ورک اور فریمنگ نے بہت سے دوسرے ہدایت کاروں کو متاثر کیا۔ کبرک کی کئی فلموں کو بیسویں صدی میں اہم قرار دیا گیا۔

  • ہماری فلمیں!

    ہماری فلمیں!

    فلم ہر دور میں ایک ایسا میڈیم رہا ہے جس نے ہر طبقۂ عوام کو یکساں‌ متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر رومانوی فلمیں ایک زمانہ میں بہت دیکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کئی دہائیوں پہلے جو فلمیں بنا کرتی تھیں ان میں محبّت کے راستے میں ایک ولن کو رکاوٹ اور ظالم سماج کو حائل ضرور دکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی رنگین اور اکثر سنگین موڑ فلموں‌ میں آتے تھے، جو فلم کی کام یابی کی ضمانت تو ہوتے تھے، لیکن ان کے کردار عام زندگی سے اتنے مختلف ہوتے تھے یا کہانی میں واقعات کو اس قدر غیر فطری انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ فلم بین بعد میں ان پر ہنستے ہی تھے۔

    اردو زبان کے بڑے بڑے ادیبوں، خاص طور پر مزاح نگاروں نے ایسی ہی فلمی کہانیوں‌ پر مزاحیہ تحریریں سپردِ قلم کی ہیں‌۔ یہاں ہم اردو زبان کے مقبول ترین طنز و مزاح نگار شفیق الرحمان کے ایک ایسے ہی مزاحیہ مضمون سے چند پارے پیش کررہے ہیں جو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردیں‌ گے۔ ملاحظہ کجیے:

    ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر، وکیل، تھانیدار، یہ سب ہماری فلموں کی جان ہیں۔ جس فلم میں ایک آپریشن، ایک عدالت کا سین اور ایک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن فلموں کا ڈاکٹر آل راؤنڈ ہوتا ہے۔ یعنی ہاتھ میں نشتر، گلے میں ربڑ کی نلکی، سر پر ہیڈ مرر اور دیوار پر بینائی ٹسٹ کرنے کے حروف۔ پتہ نہیں یہ سب چیزیں ایک ہی شخص ایک ہی کمرے میں کیونکر استعمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کا محبوب فقرہ یہ ہے، ’’حالت نازک ہے، دماغی صدمہ پہنچا ہے۔ اگر ایسا ہی صدمہ دوبارہ پہنچایا جا سکے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دماغ کا آپریشن کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسا آپریشن جو بڑے بڑے تجربہ کار سرجن نہیں کرسکتے۔

    ایک خطرے سے ہم آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر فلم میں کوئی ایسا سین آجائے جہاں فضا میں سکون ہو۔ ایکٹر بولتے بولتے دفعتاً خاموش ہوجائیں۔ کوئی خوش خبری سنا دے یا بہت بری خبر لے آئے۔ دو پرندے (ہمارے پرانے دوست) بیٹھے ہیں۔ سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو اور ہوا چل رہی ہو، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور کوئی نہ کوئی گائے گا۔ کسی نہ کسی ایکٹر کو بیٹھے بٹھائے دورہ اٹھے گا اور دیکھتے دیکھتے وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اسے گانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور کچھ نہیں تو فوراً وہی ہمارا دیرینہ رفیق ایک سادھو گاتا ہوا سامنے سے گزر جائے گا۔

    اور یہ لاٹری کی علت بھی سچ مچ سمجھ میں نہیں آئی۔ فلم میں جہاں کہیں ہیرو لاٹری کا ٹکٹ لے لے، بس فوراً سمجھ لیجیے کہ یہ تین چار لاکھ یوں وصول کر لے گا۔ یہ یک طرفہ کارروائی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ یا تو یوں ہو کہ فلم کے تمام ایکٹروں کو لاٹری کے ٹکٹ خریدتے دکھایا جائے۔ پھر کسی ایک کے نام انعام نکل آئے تو کوئی بات بھی ہوئی۔ لیکن جو سب سے غریب ہوتا ہے، اسے کوئی مجبور کر کے ایک ٹکٹ دلوا دیتا ہے۔ یک لخت وہ امیر ہو جاتا ہے اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر بمبئی یا لاہور بھاگ جاتا ہے۔ وہاں سارا روپیہ خرچ کر کے پاگل یا کانا ہوکر واپس آجاتا ہے۔ آتے ہی اس کی بیوی فوراً اسے معاف کر دیتی ہے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر کے اس کا دماغ یا آنکھیں درست کر دیتا ہے اور جہاں سے یہ قصہ شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

    اور زمینداروں کے متعلق لگاتار فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ زمیندار ایک نہایت رومانوی ہستی ہے جس کا کام صبح سے شام تک شعر و شاعری اور محبت کرنا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں۔ چرواہے بیلوں اور بھینسوں کے پاس بیٹھ کر محبوب کی یاد میں بانسری بجاتے ہیں۔ ہر ہل چلانے والا ایک زبردست گویا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے گاتا ہی رہتا ہے۔ ہر زمیندار کے لڑکے کا فرض ہے کہ وہ ضرور کسی سے محبت کرے اور زمیندار کا فرض ہے کہ وہ پہلے تو رسماً خفگی ظاہر کرے، پھر شادی پر رضامند ہو جائے۔

  • بڑے فلمی بینر تلے بننے والی وہ فلمیں جو بڑی ناکامی سے دوچار ہوئیں

    بڑے فلمی بینر تلے بننے والی وہ فلمیں جو بڑی ناکامی سے دوچار ہوئیں

    فلم ساز ادارے ہر سال خطیر رقم خرچ کرکے فلم بینوں کی تفریح کا سامان کرتے ہیں اور فلموں کی تشہیر کے لیے دن رات محنت کے علاوہ خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ پھر فلم بینوں کی پسند اور ناقدین کی رائے کے ساتھ مخصوص نظام کے تحت باکس آفس پر کسی فلم کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

    لیکن اس ساری محنت اور بھاری سرمایہ کاری کے باوجود کوئی فلم باکس آفس پر کام یابی کا ریکارڈ بنائے گی یا فلاپ ہوسکتی ہے، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی فلم کی کام یابی اور ناکامی میں کئی عوامل شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر ناکام اور بھاری مالی نقصان اٹھانے والی فلموں کی بات کریں‌ تو اس کی بڑی وجہ مرکزی کردار کے لیے غلط ناموں کا انتخاب، ناقص عکس بندی، کم زور اسکرپٹ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ فلم کی ریلیز کے موقع پر کوئی سیاسی یا سماجی نوعیت کا تنازع بھی فلم کی کام یابی اور ناکامی پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

    یہ دنیا کے چند مشہور فلم ساز اداروں اور بڑے اسٹوڈیوز کی وہ فلمیں‌ ہیں‌ جن پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے لیکن ہالی ووڈ، پیرا ماؤنٹ، ڈزنی، فوکس، یونیورسل، کولمبیا پکچرز، وارنر بردارز جیسے بڑے اداروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

    The Rhythm Section
    اس فلم میں Jude Law اور Blake Lively نے مرکزی کردار ادا کیے تھے لیکن ناقدین کی جانب سے انھیں نہیں سراہا گیا اور فلم پر منفی تبصرے سامنے آتے رہے جس نے اسے مجموعی طور پر ناکامی سے دوچار کیا۔ ایکشن اور مہم جوئی پر مبنی اس فلم کے ہدایت کار Reed Morano ہیں اور یہ ایک ناول پر مبنی فلم تھی 2020ء میں فلم کی ریلیز کے بعد اسٹوڈیو نے باکس آفس پر پروڈکشن بجٹ کی رقم نکالنے کے لیے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس فلم کا خسارہ 40 ملین امریکی ڈالر بتایا جاتا ہے اور یہ فلمی صنعت میں ناکامی کی ایک بدترین مثال ہے۔

    Call of the Wild
    فوکس جیسے بڑے بینر تلے جیک لندن کے ناول پر مبنی ‘کال آف دی وائلڈ’ میں لائیو ایکشن کرداروں کے ساتھ سی جی آئی اینیمیٹڈ ایک کتّے کو بھی دکھایا گیا ہے جو مرکزی کردار یعنی ہیریسن فورڈ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ فلم فروری 2020 میں ریلیز ہوئی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر میں کرونا کے وبائی مرض کی وجہ سے تھیٹر وغیرہ بند کیے جارہے تھے جس کے باعث فلم کی ریلیز کا روایتی شیڈول متاثر ہوا۔ اس فلم کو ریلیز کے بعد باکس آفس پر پرفارم کرنے کا بہت کم وقت ملا اور اس نے 60 ملین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔

    Charlie’s Angels (2019)
    الزبتھ بینکس نے اس امریکی ایکشن کامیڈی فلم کی کہانی ہی نہیں لکھی بلکہ وہی اس کی ہدایت کار بھی تھیں اس فلم میں کرسٹن اسٹیورٹ، نومی اسکاٹ اور ایلا بالنسکا نے مرکزی کردار نبھائے۔ 2019ء کی اس فلم کی کام یابی کے لیے پُرجوش نظر آنے والے الزبتھ بینکس کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب باکس آفس نے اسے سال کی سب سے مایوس کن فلم قرار دیا۔ اس فلم کا خسارہ 40 ملین ڈالر بتایا گیا جو فلمی صنعت کی تاریخ میں بدترین ریکارڈ ہے۔

    Solo: A Star Wars Story
    یہ پہلی لائیو ایکشن اسٹار وارز فلم تھی جس کی باکس آفس پر مایوس کن کارکردگی رہی۔ اس فلم نے دنیا بھر میں صرف 393.2 ملین ڈالر کی کمائی کی۔ اس فلم کے خسارے کا تخمینہ 77 ملین ڈالر ہے۔

    Ben-Hur
    یہ 2016 کی ہالی ووڈ کی سب سے بڑی ناکام فلم تھی جو باکس آفس پر ڈھے گئی اور اپنے ساتھ فلم ساز ادارے کے 80 ملین لے ڈوبی یہ 1959 کی کلاسیک کا درجہ رکھنے والی فلم بن ہر کا ایک نیا ورژن تھا۔ اس زمانے میں اس کہانی کو دنیا بھر میں دیکھا گیا تھا لیکن اس بار ناقدین اور سامعین دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔

    Gods of Egipt
    یہ فلم مصر کے قدیم دور اور ثقافت کی درست عکاسی نہیں کرسکی اور اسے ناقدین کی جانب سے کڑی تنقید سہنا پڑی فلم میں Gerard Butler اور Nikolaj Coster-Waldau کی مایوس کن اداکاری پر فلم بینوں نے منفی باتیں کیں اور یہی وجہ تھی کہ اسے مضحکہ خیز اور بدترین فلم کے طور پر Golden Raspberry Awards کے لیے پانچ نام زدگیاں موصول ہوئیں۔ فلم اسٹوڈیو کو 85 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔

    Fantastic Four
    امریکی فلم ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر جوش ٹرینک کی یہ فلم بھاری مالی نقصان کے ساتھ ایک بدترین فلم قرار پائی۔ فنٹاسٹک فور فاکس اسٹوڈیو کی پیشکش تھی۔ اس فلم میں مائلز ٹیلر، کیٹ مارا، مائیکل بی جورڈن، اور جیمی بیل نے نمایاں کردار نبھائے۔ ناقدین نے اسے ناقص پلاٹ اور بدترین کردار نگاری کے ساتھ مجموعی طور پر ایک بری فلم قرار دیا اور یہ فلم بینوں کو متاثر نہیں کرسکی۔ اس فلم نے 90 ملین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔

    ان فلموں کے علاوہ Peter Pan جو 2003 میں‌ ریلیز ہوئی تھی، ایک اندازے کے مطابق 90 ملین ڈالر لے ڈوبی۔ اسی طرح کولمبیا پکچرز کی Stealth بھی 96 ملین خسارے کے ساتھ باکس آفس پر کوئی ہلچل نہیں‌ مچا سکی تھی۔ Mortal Engines وہ فلم تھی جس نے 175 ملین ڈالر جب کہ Strange World کا مجموعی خسارہ 195 ملین ڈالرز تک رہا جو ایک بدترین ریکارڈ ہے۔

  • فلموں کے وہ ولن جن کے سامنے ہیرو بھی ماند پڑ گئے

    فلموں کے وہ ولن جن کے سامنے ہیرو بھی ماند پڑ گئے

    کیا برصغیر پاک و ہند میں‌ ماضی میں‌ اور آج بھی ہیرو اور ہیروئن کے بغیر کوئی تفریحی اور رومانوی فلم مکمل قرار دی جاسکتی ہے اور فلم بین اسے دیکھنا پسند کریں‌ گے؟ یقیناً نہیں۔ اسی طرح عام فلموں سے ولن کو بھی دور نہیں رکھا جاسکتا۔

    ہمارے یہاں زیادہ تر ولن محبّت کے راستے میں دیوار بن جاتا ہے یا پھر اسے خیر، نیکی اور امن کا دشمن دکھایا جاتا ہے۔ ہالی وڈ میں بھی خیر اور شر کے درمیان لڑائی میں ولن کے کردار کو نمایاں کیا جاتا ہے، لیکن منفی کرداروں کو اپنی بہترین پرفارمنس سے یادگار بنا دینا اور ہیرو کے مقابلے میں فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی بھی فلمی صنعت میں منفی نوعیت کے اس کردار کو نبھاتے ہوئے اپنی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کرنے اور اپنی پرفارمنس کو یادگار بنا دینے والے چند فن کاروں کا یہ تذکرہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ شاید آپ نے بھی وہ فلمیں‌ دیکھی ہوں جن میں ان فن کاروں نے ولن کے کردار کو یادگار بنا دیا۔

    آغاز کرتے ہیں بیٹ مین: دی ڈارک نائٹ سے جو 2008ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ‘جوکر’ کا منفی کردار آنجہانی ہیتھ لیجر نے نبھایا تھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسی برس اداکار کی موت واقع ہوگئی تھی۔ تاہم یہ ہیتھ لیجر کا وہ کردار تھا جو ان کی بہترین اداکاری کی بدولت امر ہوگیا۔ ناقدین نے یہاں تک کہا ہے کہ فلم کا ہیرو یعنی بیٹ مین بھی ولن یعنی جوکر کے سامنے دھندلا گیا۔ فلم ’دا ڈارک نائٹ، کے لیے ہیتھ لیجر کو بعد از مرگ معاون اداکار کا ایوارڈ دیا گیا۔

    ہیری پورٹر کی بات ہو تو اس مشہورِ زمانہ سیریز کے مرکزی کردار تو تین بچّے تھے جن کی مہم جوئی اور مقصد میں کام یابی کے لیے فلم بین جذباتی نظر آتے ہیں، مگر اس کا ولن یعنی ‘والڈی مورٹ’ بھی دیکھنے والوں کو متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہا۔ یہ کردار بدی کا استعارہ بن گیا۔ فلم میں اپنی منفی سرگرمیوں اور برائیوں کی طاقت سے اس نے فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ یہ رالف فینیس نامی برطانوی اداکار نے ادا کیا تھا۔

    ایکس مین سیریز کے ‘منیگنیٹو’ کو سپر ولنز کی فہرست میں رکھا جاتا ہے جسے آئن میکلین نے بہت خوبی سے نبھایا۔ وہ ایک بُرے اور منفی سوچ کے حامل پروفیسر کے روپ میں نظر آئے۔ اس کردار کو ہالی وڈ کے بہترین بُرے کرداروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

    بیٹ مین: دی ڈارک نائٹ رائزز کو سال 2012 میں ریلیز ہونے والی کلاسیک فلم کا درجہ حاصل ہوا۔ اس فلم میں ولن ‘بین’ ہیرو پر بھی غالب نظر آتا ہے۔ اس کردار کو ٹام ہارڈی نے اس کمال مہارت سے نبھایا کہ لوگ داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ایک سفاک اور نہایت بے رحم شخص کا کردار تھا جس کی پرفارمنس نے مرکزی کردار کو بھی کچھ پیچھے دھکیل دیا۔

    فلم تھور تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس میں ہیرو سے حسد کرنے والے اس کے بھائی ‘لوکی’ نے شان دار پرفارمنس سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ یہ کردار اداکار ٹام ہیڈلسن نے ادا کیا تھا۔

    عالمی سنیما کے ان چند بہترین ولن کا تذکرہ کرنے کے بعد اگر ہم بولی وڈ کی طرف دیکھیں تو دہائیوں قبل بننے والی متعدد فلموں کے کچھ ولن ایسے ہیں جن کے مکالمے آج تک لوگوں کی زبان پر ہیں۔

    شعلے وہ فلم تھی جس کا خوب چرچا ہوا۔ اسے فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ‘گبر سنگھ’ کے کردار کی بدولت جو کام یابی ملی، اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ آج تک گبر سنگھ کو بولی وڈ کا سب سے بڑا ولن قرار دیا جاتا ہے، اور یہ کردار امجد خان نے نبھایا تھا۔ وہ ایک ڈاکو کے روپ میں اس فلم کی بلاک بسٹر کام یابی میں سب سے اہم ثابت ہوئے اور آج بھی ان کے مکالمے لوگوں کو یاد ہیں۔

    مسٹر انڈیا ایک کام یاب فلم تھی جس میں امریش پوری کا یہ تکیۂ کلام "موگیمبو خوش ہوا” بھارت اور پاکستان میں‌ بھی بچّے بچّے کی زبان پر رہا۔ ان کا خاص لباس اور انداز دیکھنے والوں کو موگیمبو کے منفی کردار سے اس طرح‌ جوڑتا ہے کہ وہ اس زبردست ولن کو دیر تک اسکرین پر دیکھنا چاہتے تھے۔

    مدر انڈیا سماجی نوعیت کی ایسی فلم تھی جس میں کنہیا لال نے ‘سکھی لالہ’ نامی ظالم ساہوکار کا کردار ادا کیا تھا۔ اداکار سکھی لالہ نے اپنی بہترین اداکاری سے اس کردار کو یادگار بنا دیا۔ اسے سماجی نوعیت کے حساس اور سلگتے ہوئے مسائل پر ایک بہترین فلم کہا جاتا ہے۔

  • ہالی وڈ کے وہ اداکار جنھیں لازوال شہرت حاصل ہوئی

    ہالی وڈ کے وہ اداکار جنھیں لازوال شہرت حاصل ہوئی

    دنیا کی سب سے مشہور اور کام یاب فلم انڈسٹری ہالی وڈ نے کئی چہروں کو وہ شہرت اور پہچان دی جو دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ یہاں ہم ہالی وڈ کے ان مرد فن کاروں کا ذکر کررہے ہیں جنھیں ان کی بے مثال اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    جیک نکلسن
    جیک نکلسن ہالی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں تین بار اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ 12 مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے فہرست میں شامل کیے گئے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق مائیکل کین کے بعد جیک نکسن وہ واحد اداکار ہیں جنھیں 1960ء سے لے کر 2000ء تک ہر دس برس بعد آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اداکار جیک نکلسن نے آسکر کے علاوہ فلمی دنیا کے کئی معتبر اور معروف ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ جیک نکسن کی بہترین فلموں میں ”شائننگ، ایز گڈ ایز اٹ گیٹس ون فلیو اور ککوز نیسٹ“ کے نام لیے جاسکتے ہیں جن میں نکسن نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    مارلن برانڈو
    مارلن برانڈو کا نام ”آل ٹائم گریٹیسٹ“ اداکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔ برانڈو نے فلم کے پردے پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور وہ وقت آیا کہ برانڈو کروڑوں فلم بینوں کو متاثر کرنے والے اداکار بن گئے۔ فلم بین ہی نہیں ہالی وڈ کے کئی اداکار بھی مارلن برانڈو سے بہت متاثر تھے۔ فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ مارلن برانڈو ایک غیر روایتی اداکار تھے جن کے لیے انگریزی میں میتھڈ ایکٹر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مارلن برانڈو نے دو آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد کیے گئے۔ اداکار کی بہترین فلموں میں ”دی گاڈ فادر، آن دی واٹر فرنٹ اور لاسٹ ٹینگو ان پیرس کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    ال پچینو
    فلمی دنیا کی تاریخ میں ال پچینو وہ نام ہے جس کی فنی عظمت کو بڑے بڑے فن کار تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کئی عشروں تک فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے اور پرستاروں کے ساتھ فلمی ناقدین کو بھی متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ 70ء کی دہائی میں ال پچینو نے جن فلموں میں کام کیا ان میں بلاشبہ وہ فنِ اداکاری کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ال پچینو آٹھ بار آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور ایک بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ اداکار نے جن فلموں میں لازوال کردار نبھائے ان میں ”سینٹ آف اے وومین“، ڈوگ ڈے آفٹر نون، دی گاڈ فادر پارٹ ٹو شامل ہیں‌۔

    رابرٹ ڈی نیرو
    نیویارک سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈی نیرو کے ماں باپ بھی فن کی دنیا سے وابستہ تھے اور اس جوڑے کے گھر آنکھ کھولنے والے ڈی نیرو کو بھی عظیم ترین اداکاروں میں شمار کیا گیا۔ ڈی نیرو کو ہالی وڈ کے کئی بڑے نام اور دوسرے فن کار اپنا رول ماڈل قرار دے چکے ہیں۔ ڈی نیرو نے دو بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا اور سات مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زدگی عمل میں آئی۔ اس اداکار نے جن فلموں میں‌ بے مثال اداکاری کی، ان میں ”رگنگ بل“، دی ڈیئر ہنٹر اور دی گاڈ فادر (پارٹ ٹو) شامل ہیں۔

    ڈینیل ڈے لیوس
    اداکار ڈینیل ڈے لیوس ان اداکاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھوں نے ناقابلِ فراموش کردار نبھائے اور شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ ڈے لیوس کا تعلق لندن سے تھا اور ان کے والد معروف شاعر جب کہ نانا بھی ایک مشہور شخصیت تھے۔ ڈے لیوس کو فن و ثقافت سے شروع ہی سے لگاؤ تھا اور وہ ایک باصلاحیت انسان تھے جس نے آگے چل کر برطانوی سنیما کی تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ انھیں بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر تین آسکر ایوارڈ دیے گئے۔ ڈینیل ڈے لیوس کی بہترین فلموں میں لنکن، مائی لیفٹ نٹ، اور دیئر ول بی بلڈ شامل ہیں۔

    ٹام ہنکیس
    فلمی دنیا میں ٹام ہینکس کو ایک زبردست اداکار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جن کے حصّے میں اپنی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے دو آسکر ایوارڈ آئے۔ وہ پانچ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ٹام ہنکیس کی مشہور فلموں میں فاریسٹ گمپ، فلاڈیلفیا اور سیونگ پرائیویٹ ریان شامل ہیں۔

    فلمی صنعت میں اپنی لاجواب ادکاری اور بے مثال پرفارمنس سے کروڑوں لوگوں کو متاثر کرنے والے ان فن کاروں‌ کی فہرست میں کئی اور نام بھی شامل ہیں جن کا ذکر کرنے کو ایک دفتر درکار ہے۔ ان فن کاروں کے علاوہ پال نیومین، جیمز اسٹیوورٹ، پیٹر اوٹول، انتھونی کوئن، ہنری فونڈا، گیری کوپر، کرک ڈگلس کے نام بھی فلمی تاریخ کے بہترین فن کاروں میں‌ شامل ہے۔

  • ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    متحدہ ہندوستان میں تھیٹر کے بعد ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو شائقین اس کے دیوانے ہوگئے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر نہایت معیاری اور شان دار فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس دور کے سنیما نے ہندوستان کے لوگوں میں سماجی شعور اجاگر کیا اور ملک کے مختلف طبقات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ پاکستان اور بھارت میں‌ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور پھر رشتوں‌ کا اتار چڑھاؤ، رومانس اور مار دھاڑ فلموں میں عام ہوگئی۔ کئی فلم ساز اور ہدایت کار مایوس ہو کر فلم انڈسٹری سے دور ہوگئے۔

    پاکستانی سنیما کی بات کی جائے تو یہاں بھی بامقصد فلمیں بنائی گئیں اور بڑا کام ہوا لیکن ایسی فلمیں‌ ناکام ہونے لگیں اور مالی خسارے نے کئی بڑے اور باکمال فلم سازوں، ہدایت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں ہم سینئر صحافی، مصنّف اور محقق عارف وقار کی ایک تحریر بعنوان ‘جب پہلی بامقصد فلم بنی’ سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس میں انھوں نے پاکستان کی پہلی بامقصد فلم کا ذکر کیا ہے اور اس فلم کے ذریعے کسانوں‌ کو پیغام دیا گیا تھا کہ زیادہ اناج اگانا ہماری ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "میرے بچپن میں ریڈیو سے دو گانے بڑی کثرت سے بجا کرتے تھے:

    دِل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
    ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ

    اور انھی گلوکاروں کی آواز میں ایک اور دو گانا بھی مشہور تھا:

    او پردیسیا بُھول نہ جانا

    میں عرصہ دراز تک انھیں کسی بھولی بسری ہندوستانی فلم کے گیت سمجھتا رہا لیکن کالج کے زمانے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ گانے والے علی بخش ظہور اور منّور سلطانہ ہیں اور یہ پاکستانی فلم ’ بے قرار ‘ کے گانے ہیں جو کہ 1950 میں بنی تھی۔

    آج فلم بے قرار کے بارے میں سوچتا ہوں تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی پہلی بامقصد فلم تھی اور اس کا مقصد ملک کے کسانوں کو یہ باور کرانا تھا کہ زیادہ اناج اگانا اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔

    فلم میں ایک غریب کاشت کار گندم کی بہتر پیداوار حاصل کر کے حکومت کے انعام و اکرام کا حق دار ٹھہرتا ہے اور اس طرح زمین دار کے عیاش بیٹے کی دشمنی مول لے لیتا ہے۔ یہ دشمنی بعد میں رانی نام کی لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

    فلم کے مصنف اور ہدایت کار نذیر اجمیری تھے جنھوں نے خاموش دور میں ایک اداکار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں ایک اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فلم انڈسٹری میں اپنا مقام مستحکم کر لیا تھا۔

    پاکستان آنے سے پہلے انھوں نے بمبئی میں فلم ’ مجبور‘ بنائی تھی جِس میں پہلی بار لتا منگیشکر کو واحد آواز میں گانے کا موقع ملا تھا ( اس سے پہلے وہ صرف کورس میں گاتی رہی تھیں)۔

    نذیر اجمیری کے ساتھ ماسٹر غلام حیدر بھی پاکستان آگئے تھے اور دونوں نے ایس گُل کے اشتراک سے ایک فلم کمپنی شروع کی اور یوں فلم ’بے قرار‘ وجود میں آئی جس کے ہیرو خود ایس گُل تھے اور موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔

    اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ شاید اسی لئے اچھے موضوع اور دل کش موسیقی کے باوجود یہ کاروباری طور پر نا کام رہی۔ البتہ اس کے ایک برس بعد بننے والی پنجابی فلم ’چن وے‘ نے کاروباری سطح پر تہلکہ مچا دیا۔”

    چن وے کے بارے میں‌ عارف وقار لکھتے ہیں:

    چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔

    چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وُڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔

    چن وے کی کام یابی میں اس کے گیتوں کا بڑا دخل تھا۔ اور گیت بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے:

    تیرے مکُھڑے دا کالا کالا تِل وے
    میرا کڈھ کے لے گیا دِل وے
    وے منڈیا سیالکوٹیا!

    پنجاب کی سڑکوں پہ ہر من چلا یہ گیت گنگناتا پھرتا تھا۔ لیکن نور جہاں کے فن کی پختگی اور گلے کا ریاض اُس گانے میں نظر آتا ہے جس کے بول ہیں:

    ’چن دیا ٹوٹیا وے دِلاں دیا کھوٹیا‘

    ’تان پلٹے‘ کے جو کرتب نور جہاں نے اس گیت میں دکھائے شاید انھی کے پیشِ نظر یہ افواہ اڑی تھی کہ اس فلم کا میوزک بھی نور جہاں نے خود دیا ہے۔ چن وے کے گیت پاپولر شاعر ایف۔ ڈی شرف نے لکھے تھے جو قریبی حلقوں میں ’ بھا شرف ‘ کے نام سے معروف تھے اور قبل ازیں کلکتے میں بننے والی کئی پنجابی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھ چکے تھے۔”

  • 2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    سنیما کی جادوئی دنیا میں کسی فلم کی کام یابی کا درجہ اور کمائی کی انتہا باکس آفس کے ذریعے معلوم کی جاتی ہے۔ سنہ 2023ء میں جہاں کئی بڑے ناموں کے باوجود ہالی ووڈ کی فلموں نے شائقین کو مایوس کیا اور باکس آفس پر بھی امتیازی پوزیشن نہیں پاسکیں، وہیں بعض فلموں نے زبردست کام یابیاں اپنے نام کی ہیں۔

    آج بڑے پردے پر فلم سازی اور پیش کاری کا انداز ہی نہیں‌ تفریح کے ذرایع بھی بدل گئے ہیں، اور ہالی ووڈ بھی نئے رجحانات اپنا رہا ہے۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی اُن چند فلموں‌ کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی وجہ سے سنیما کی رونق بڑھ گئی اور بزنس کے اعتبار سے ان فلموں نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو پر کام یابی کے اعتبار سے سرِ فہرست فلم ‘ باربی’ رہی جس نے ریلیز کے ساتھ ہی 2023 کے سب سے بڑے اوپننگ بزنس کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل رواں برس ریلیز ہونے والی فلم ‘دی سپر ماریو برادرز’ نے اوپننگ پر ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ سپر ماریو برادرز مووی سب سے ہٹ اینیمیٹڈ فلم بن کر سامنے آئی۔ ان کے علاوہ دیگر فلموں نے زبردست بزنس کے ساتھ شائقین کو خوب محظوظ بھی کیا۔

    رواں سال باکس آفس پر کام یاب ہونے والی ہالی ووڈ کی چند فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    باربی
    یہ ایک میوزیکل کامیڈی فلم ہے جس میں اداکارہ مارگو روبی اور اداکار رائن گوزلنگ کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہ اس سال کی سب سے کام یاب فلم بن گئی۔

    باربی کو دنیا بھر میں‌ بچّے ہی نہیں‌ بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ اسی کردار پر مبنی یہ فلم ایک ایسی گڑیا کے بارے میں ہے جو اپنی دنیا سے نکل کر اصل دنیا کا سفر کرتی ہے اور وہاں اسے اپنے لیے جگہ کی تلاش ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد دنیا بھر میں باربی ڈولز کی فروخت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ باکس آفس کی مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو کے مطابق باربی نے دنیا بھر سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا ہے جو اس سال کسی بھی فلم کا سب سے زیادہ بزنس ہے۔

    دی سپر ماریو برادرز مووی
    ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کرنے والی اس فلم کا باکس آفس پر دوسرا نمبر ہے۔ گیمنگ کونسول ننٹینڈو کے مقبول ترین ویڈیو گیم ‘سپر ماریو برادرز’ پر بننے والی اس فلم کو دنیا بھر میں شائقین نے پسند کیا۔

    اس فلم کی کہانی ماریو نامی پلمبر کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ ایک شہزادی کو آزاد کرانے کے لیے نکلتا ہے۔ کرس پریٹ، جیک بلیک اور سیٹھ روجن نے فلم کے کرداروں کو اپنی آواز دی ہے اور شائقین کی توجہ اور دل چسپی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

    اوپن ہائمر
    اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر نولن ہیں اور اس سال باکس آفس پر اس فلم نے بزنس کے اعتبار سے تیسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ فلم نے دنیا بھر سے 95 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ یہ ایٹم بم کے خالق کے نام پر بنائی گئی فلم ہے جس میں کلین مرفی نے جے رابرٹ اوپن ہائمر کا کردار نبھایا ہے۔

    فلم میں ان حالات و واقعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں امریکہ نے ایٹم بم بنانا ضروری سمجھا۔ فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ایٹم بم بنانے کے بعد اس کے موجد میں کیا تبدیلیاں آئیں اور وہ حکومت کے عتاب کا بھی نشانہ بنا۔

    گارڈیئنز آف دی گیلکسی والیوم 3
    ہدایت کار جیمز گن کی اس فلم نے باکس آفس پر 84 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم میں اسٹار لارڈ اور اس کے ساتھیوں کا سامنا ایک ایسے حریف سے ہوتا ہے جو دنیا کا فاتح بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ فلم میں کامیڈی کے ساتھ ساتھ ایکشن کا بھی تڑکا لگایا گیا ہے۔

    فاسٹ ایکس
    یہ مشہورِ زمان ہ فاسٹ اینڈ دی فیوریس سیزیز کی دسویں فلم باکس آفس پر دنیا بھر سے 70 کروڑ 47 لاکھ سے زائد ڈالرز کمانے کے ساتھ شائقین کی دل چسپی کا مرکز بھی بنی۔ فلم اسٹار کاسٹ پر مشتمل تھی جس میں مرکزی کردار ون ڈیزل نے ادا کیا تھا جس کے پیچھے ایک ایسا شخص پڑ جاتا ہے جو اپنے باپ کی موت کا ذمے دار ڈومینیک اور اس کے ساتھیوں کو سمجھتا ہے۔ اس فلم میں حیران کن اسٹنٹس پیش کیے گئے ہیں۔

    اسپائیڈر مین: اکروس دی اسپائیڈر ورس
    چند سال قبل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اینیمیٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین ان ٹو دی اسپائیڈر ورس’ نے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا اور اس سال اسی سیریز کی یہ دوسری فلم ریلیز ہوئی جس نے دنیا بھر میں 69 کروڑ پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ اس فلم کی کہانی بھی مائلز مورالیس نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جس کی دوسری دنیا کی تمام اسپائیڈر مخلوق مخالف ہوجاتی ہے۔ تاہم مائلز مورالیس اپنے ہم خیال اور اسپائیڈر فرینڈرز کی مدد سے مشکلات سے نکلتا چلا جاتا ہے۔

    دی لٹل مرمیڈ
    والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کی فلم دی لٹل مرمیڈ نے دنیا سے تقریباً 57 کروڑ ڈالرز کمائے ہیں۔ اس میوزیکل رومانوی فلم کی کہانی ایریل نامی ایک ایسی جل پری کے گرد گھومتی ہے جس نے کبھی انسانوں کو نہیں دیکھا تھا اور جب پانی میں رہنے والی یہ مخلوق انسانوں کی دنیا میں آتی ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    مشن امپاسبل: ڈیڈ ریکننگ پارٹ ون
    مشہور اداکار اور پروڈیوسر ٹام کروز کی اس فلم نے باکس آفس کے مطابق تقریباً 56 کروڑ 75 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم کی کہانی امپاسبل مشن فورس نامی ایک تنطیم کے گرد گھومتی ہے جس کا کام دنیا بھر میں امن قائم کرنا اور کسی بھی ایک ملک کی دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کو روکنا ہے۔

    رواں‌ برس انڈیانا جونز کی واپسی اور مشہورِ زمانہ سپہ سالار نپولین پر بننے والی فلم باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ اسی طرح یہ سال سپر ہیروز کے لیے بھی زیادہ اچھا نہیں رہا جس کی مثال شیزام، کیپٹن مارول اور دی فلیش ہیں۔

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    مجھے یاد ہے کہ ایک دن آسٹریلیا سے نریش نام کے ایک آدمی کا میرے پاس فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔

    میں نے سوچا کہ کوئی NRI ہے جو مجھ سے فلم بنوانا چاہتا ہے۔ وہ کم بخت جب تک نہیں ملا میں نئے نئے خواب بُنتا رہا۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور وہ ایک دن ایک دو تحفے لے کر میرے دفتر میں حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بہت دیر تک دھڑکتا رہا۔ سوچا پتا نہیں کہ کیا مژدہ سنانے والا ہے۔ جب کفر ٹوٹا تو میں ٹھس سے نیچے بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون ہے جو دلیپ صاحب کی زبردست فین ہے اور ایک بار دلیپ صاحب کا دیدار کرنا چاہتی ہے۔

    کچھ دیر تک میں آنا کانی کرتا رہا۔ جب اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے ہامی بھرنی پڑی۔ وہ اگلے دن اس خاتون کے ہمراہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ سوچا یہ خاتون کون ہے۔ کیا سائرہ جی کے ہوتے ہوئے اس کی ملاقات دلیپ صاحب سے ممکن ہے۔ میں رات بھر اسی ادھیڑ بن میں پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔

    اگلے روز جب میں آفس میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ، پر بے حد خوب صورت خاتون کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی رسوائی کا سامان خود ہی کر لیا ہے۔ میں بڑا حساس اور جذباتی آدمی ہوں۔ چہرے سے آدمی کے دل کی بات پڑھ سکتا ہوں۔ ایک عورت اتنی دور سے چل کر آئی تھی۔ انسانیت کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔

    نریش نے جب اس خاتون سے میرا تعارف کرایا تو میں اسے ازراہِ مروّت آفس میں لے آیا۔ چائے، شربت سے اس کی خاطر تواضع کی۔ بہت جلد وہ مجھ سے گھل مل گئی۔ پتا چلا کہ وہ ایک آرمینین خاتون ہے۔ ایک بار اس نے محبوب خان کی فلم "آن” دیکھی۔ یہ فلم آرمینی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ اس زبان میں اس کا ٹائٹل "منگلا” رکھا گیا تھا۔ (فلم میں نمی کا نام منگلا تھا) کاسٹنگ میں دلیپ کمار کا نام فلپ کمار لکھا گیا تھا۔ اینا (یہ اس خاتون کا نام تھا) نے جب یہ فلم دیکھی تو دلیپ کمار پر فدا ہو گئی۔

    ان دنوں وہ ایک دم جوان تھی، خوب صورت تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے فلپ کمار کی تلاش میں بمبئی چلی آئی۔ لوگوں سے پوچھا۔ اسٹوڈیو کے چکر لگائے مگر اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ فلپ کمار کہیں نہیں ملا۔ وہ اگر فلم کا اصلی نام بھی جانتی تو اس کی مشکل آسان ہو سکتی تھی مگر نام میں بھی لوچا تھا۔ یہاں نہ کوئی فلپ کمار کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی نے "منگلا” فلم کے بارے میں سنا تھا۔ (وہ منگلا بھی صحیح ڈھنگ سے بول نہیں پا رہی تھی منگلا کو منگالا کہتی تھی) آخر ایک مہینے تک ممبئی کی خاک چھاننے کے بعد جب کچھ بھی اس کے ہاتھ نہ آیا تو وہ مایوس و نامراد اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔

    اس بیچ اس کی شادی ہوئی۔ اس نے پہلی ہی رات کو اپنے شوہر کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ وہ فلپ کمار سے جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ وہ بھلے ہی اس کی بیوی بن چکی ہے پر وہ یہی تصور کرے گی کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے۔ اس کا شوہر بھی بڑا دل دار اور وسیع القلب تھا۔ اس نے اس کے جذبات کو سراہا اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔

    اسی بیچ اینا آسٹریلیا آگئی۔ ایک دن وہ ایسے ہی گھومتے گھماتے نریش کی دکان کے پاس آ کے رک گئی جہاں ہندی فلموں کے کیسٹ ملتے تھے۔ اینا نے اس سے فلم "منگالا” کا کیسٹ مانگا۔ نریش نے اپنے رجسٹر کو خوب کھنگالا مگر "منگلا” نام کی کوئی فلم اس پورے رجسٹر میں کہیں دکھائی نہ دی۔ دل برداشتہ ہو کر وہ ایک ایک کیسٹ بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی خوشی اور حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب اس کے ہاتھ "آن” کا کیسٹ لگا۔ وہ دیوانہ وار اس کیسٹ کو چومنے لگی۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس فلم کے پیچھے اس نے کس قدر خاک چھانی تھی اس نے نریش کو اپنے دل کی کیفیت سے آشنا کر دیا اور اس نے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے انڈیا لے جا کر دلیپ کمار سے ایک بار ملا دے گا۔

    نریش نے فلم ڈائریکٹری سے میرے آفس کا نمبر ڈھونڈ نکالا تھا، اس طرح نریش نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تھا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

    یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی لو اسٹوری تھی اور اس لو اسٹوری کے ٹوٹے تار کو جوڑنے کا ذمہ مجھے سونپا جارہا تھا۔ میں محبت کرنے والوں کا امین ہوں، پر یہ جو عشقیہ داستان تھی اس میں ملن کم اور جوکھم زیادہ نظر آرہا تھا۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف اینا کی تڑپ اور دوسری طرف میری مجبوریاں۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا اتنا آسان نہ تھا۔

    اینا بھی اب کے طے کرکے آئی تھی کہ وہ دلیپ کمار سے مل کے ہی جائے گی چاہے دنیا اِدھر ادھر ہو جائے۔ میں نے اینا سے دو دن کی مہلت مانگی۔ وہ خوشی خوشی نریش کے ساتھ چلی گئی مگر میں اضطراب اور تذبذب کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔

    میں اسی دن شام کے وقت صاحب سے ملنے سائرہ جی کے بنگلے پر چلا گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصلی مدعے پر آگیا۔ میں نے دلیپ کمار صاحب سے کہا کہ ایک خاتون آسٹریلیا سے خاص طور پر ان سے ملنے چلی آئی ہے۔ اسے صرف پانچ منٹ چاہییں۔ وہ بس ان سے مل کر چلی جائے گی۔ دلیپ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی یہ پراسرار خاموشی میرے لیے سوہان روح بنتی جا رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولے: "کیوں مجھے آپ مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟”

    میں نے انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ خاتون پانچ منٹ مل کر چلی جائے گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر کار انہوں نے ملنے کے لیے ہامی بھرلی۔ میں نے اسی وقت نریش کو فون کرکے اطلاع دی۔

    اگلے دن ہم بغل کی بلڈنگ میں شوٹنگ کر رہے تھے کہ ایک نوکر میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ اینا، نریش کے ساتھ نیچے کھڑی ہے۔ پتا نہیں اینا کے نام سے مجھ پر لرزہ کیوں طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ اینا پاگل پن کی حد تک دلیپ صاحب کو چاہتی ہے۔ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔

    میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری حالت تو اس سانپ سے بدتر تھی جس کے منہ میں چھچھوندر ہو۔ جسے وہ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی۔ میں عجیب مشکل سے دوچار تھا۔ نہ ہی میں سامنے آنے کی حالت میں تھا اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں۔ آگے پیچھے کے راستے مجھے مسدود نظر آرہے تھے۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ان کے گھر کے ہی ایک آدمی کو اعتماد میں لیا اور اس کے ساتھ نریش اور اینا کو روانہ کر دیا۔

    جونہی دلیپ صاحب اینا سے ملنے نیچے اتر آئے تو میں اپنے دل کو تھام کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑا رہا۔ وہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اینا نے اپنے محبوب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ جب تک دلیپ صاحب کے پاس بیٹھی رہی بہت ہی ڈھنگ اور قاعدے سے بیٹھی رہی۔ اس میٹنگ کے دوران سائرہ جی برابر موجود رہیں، مگر اینا نے کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ میٹنگ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اینا کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میری بات بھی رہ گئی۔ سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ ہم سب کی عزّت سلامت رہی۔

    (ہندوستانی ہدایت کار اور ادیب دیپک کنول کی کتاب ‘دلیپ صاحب’ سے)