Tag: مشہور فلمیں

  • درس و تدریس سے جڑے مسائل پر چند متاثر کُن فلمیں

    درس و تدریس سے جڑے مسائل پر چند متاثر کُن فلمیں

    بلاشبہ استاد کسی بھی قوم اور معاشرے کا معمار ہوتا ہے جو ایک قوم کی ترقیّ و خوش حالی ہی کی کلید نہیں بلکہ تہذیبی اقدار کے حامل مضبوط معاشرے کی تشکیل میں اس کا کردار نمایاں اور بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اساتذہ اور درس و تدریس سے وابستہ شخصیات ہر شعبۂ زندگی کے لیے ماہرین اور کارپرداز تیّار کرتے ہیں۔

    درس و تدریس ایک ایسا مقدّس پیشہ ہے جس میں اساتذہ کو محنت اور لگن کے ساتھ جدید رجحانات اور تدریسی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پیشہ اساتذہ سے صبر و تحمل کا بھی تقاضا کرتا ہے کیوں کہ ہر بچّہ یا طالبِ علم دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے سگے بہن بھائیوں کی ذہنی استعداد، ان کی کارکردگی، لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوسکتی ہے۔ کچھ بچّے ذہین ہوتے ہیں اور زیادہ جلدی سیکھتے یا کسی بھی سوال کو سمجھ لیتے ہیں۔

    ایک اچھا استاد وہی ہے جو یہ جان لے کہ جس طرح کسی باغیچے میں طرح طرح کے پودے ہوتے ہیں، اور مالی اگر ان پر الگ الگ توجہ نہ دے اور ان کی صحیح دیکھ بھال نہ کرے تو وہ سوکھ سکتے ہیں، اسی طرح ایک استاد کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ہر طالبِ علم کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کی راہ نمائی کرے۔

    دنیا بھر میں اس موضوع پر فلمیں‌ بھی بنائی گئی ہیں۔ فلم انڈسٹری، خاص طور پر ہالی وڈ میں درس و تدریس سے جڑے مسائل کو اجاگر کرتی فلموں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ تعلیم دینا اور اس کا حصول آسان نہیں ہے۔ اس میں‌ بڑی توانائی اور کوشش کا دخل ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے معاشی یا نسلی و گروہی امتیاز کے ساتھ وہ مسائل پیش آتے ہیں جن کا تعلق صرف اساتذہ اور ان کے طالبِ علموں سے ہوتا ہے۔

    یہاں ہم ان فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں طلبہ کے مسائل کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا اور یہ فلمیں اساتذہ کی ذہن سازی اور راہ نمائی کا ذریعہ ہی نہیں‌ بلکہ والدین کے لیے بھی مفید اور معلوماتی ثابت ہوئیں۔

    ٹُو سر وِد لو
    1967ء میں‌ برطانیہ میں‌ بننے والی اس فلم میں‌ نسل پرستی اور سماجی عدم مساوات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ یہ فلم یک سابق انجینئر مارک ٹھیکیرے کی کہانی بیان کرتی ہے جو لندن میں رہنے والے کم معیار کے ایک علاقے میں تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ جلد ہی وہ محسوس کرتا ہے کہ ریاضی یا کسی دوسرے مضمون کی تعلیم دینے کے بجائے اسے اپنے طلبہ کو یہ بتانا چاہیے کہ انھیں اس معاشرے میں‌ زندہ کیسے رہنا ہے۔ یہ ایک المیے اور تکلیف دہ حالات کی عکاسی کرتی فلم تھی جس میں‌ تعلیم کے بعد طلبہ کی راہ نمائی کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

    ایجوکیٹنگ ریٹا
    برطانیہ میں 1983ء ہلکی پھلکی کامیڈی کے ساتھ اس فلم میں‌ خود شناسی اور قوّتِ فیصلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ فلم میں‌ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ تعلیم کے ذریعے ہی کسی فرد کو اپنے بارے میں‌ جاننے اور فیصلہ کرنے میں‌ مدد ملتی ہے۔ فلم میں‌ ایک نوجوان عورت کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب وہ اوپن یونیورسٹی کے تفویض کردہ پروفیسر سے شادی کرنے کی خواہش میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے استاد اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے سکھاتے ہیں کہ کوئی بھی اپنے خیالات کی قدر کیسے کرسکتا ہے اور اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے فیصلہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔

    بریک فاسٹ کلب
    یہ استاد اور طالب علم کے تعلق پر مبنی ایک مختلف کہانی ہے جس میں ان کے تعلیمی نظام اور ان کی آپس میں ہونے والی اونچ نیچ کو اجاگر کیا گیا تھا۔

    اسٹینڈ اینڈ ڈیلیور
    امریکا میں 1988ء میں‌ ایک حقیقی کردار پر مبنی فلم پیش کی گئی جس میں‌ ہائی اسکول کے ریاضی کے استاد کی زندگی کا احاطہ کیا گیا تھا، جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بھاری تنخواہ والی ملازمت چھوڑ دیتا ہے۔ وہ باغی اور غیر منظّم طلبہ کو ترغیب دیتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے کس طرح وہ اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

    ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی
    امریکا میں‌ بننے والی 1989ء کی اس فلم نے ایک ایسے حسّاس آدمی کی کہانی بیان کی تھی جسے وہ سب کرنا پڑا جو وہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہ اپنے تعلیمی ادوار میں‌ جو کچھ سوچتا تھا اور جو کرنا چاہتا ہے وہ نہیں‌ کر پا رہا تھا۔ یہ وہ المیہ ہے جس کا شکار پاکستان جیسے ممالک کے کئی طلبہ اور لوگ ہیں جو اپنی پسند کے مضامین پڑھنے اور کام کرنے سے محروم ہوگئے اور ایسی زندگی گزاری جو دراصل ان کی خواہش نہیں‌ تھی اور اسی باعچ وہ عدم دل چسپی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہ کرسکے۔

  • اَن پڑھ نوجوان جو ’سلمٰی‘ کی کام یابی کی وجہ بنا!

    اَن پڑھ نوجوان جو ’سلمٰی‘ کی کام یابی کی وجہ بنا!

    پاکستان کی فلمی دنیا میں سن ساٹھ کے عشرے کا آغاز ایک دل چسپ فلم سے ہوا۔ مصنّف تھے نذیر اجمیری، فلم ساز اور ہدایت کار تھے اشفاق ملک اور فلم کا نام تھا ’سلمٰی۔‘

    اس میں اگرچہ بہار، اعجاز، یاسمین، اے شاہ شکار پوری اور طالش جیسے ہِٹ اداکار موجود تھے لیکن بنیادی طور پر یہ علاؤالدّین کی فلم تھی جنھوں نے ایک بدھو اور اَن پڑھ نوجوان کا کردار ادا کیا تھا، لیکن ایسا بدھو جو کبھی کبھی بڑے پتے کی بات کہہ جاتا ہے۔

    علاؤ الدّین کی تعلیم کے لیے منشی شکار پوری کو ملازم رکھا جاتا ہے، لیکن جب وہ الف۔ بے کی پٹی شروع کرتا ہے تو علاؤالدّین اُس سے کہتے ہیں ’ ماسٹر جی ’الف‘ سے لے کر ’ی‘ تک تو مجھے معلوم ہے، ذرا یہ بتائیے کہ الف سے پہلے کیا ہوتا ہے اور ’ی‘ کے بعد کیا آتا ہے۔‘

    منشی یہ سُن کر چکرا جاتا ہے اور علاؤالدّین کی ذہانت کا ایسا قائل ہوتا ہے کہ ساری فلم میں اس کی عقل مندی کے گُن گاتا رہتا ہے۔ اس کے منہ سے تعریفیں سن کر ایک پڑھی لکھی معزّز خاتون کا رشتہ علاؤالدّین کے گھر پہنچ جاتا ہے۔

    ظاہر ہے یہ ایک اَن مِل بے جوڑ رشتہ ہے، لیکن سلمٰی (بہار) فیضو (علاؤالدین) کی سادگی اور بھولپن سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد پہلا منظر یہ دکھایا جاتا ہے کہ علاؤ الدّین تختی لکھ رہے ہیں اور بہار ان کی ٹیچر بنی ہوئی ہیں۔

    مرکزی کردار کی سادگی اور بھولپن اس فلم کی اصل جاذبیت تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فلم سلمٰی اس سے پہلے ’شاردا‘ (1942ء) کے نام سے بھی بن چکی تھی اور ہٹ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں علاؤالدین والا کردار واسطی نے ادا کیا تھا۔

    لیکن اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ 1942ء اور 1960ء کی کام یابیوں کے بعد یہی کہانی 1974ء اور 1980ء میں بھی آزمائی گئی اور اسے دونوں مرتبہ زبردست کام یابی حاصل ہوئی۔

    1974ء میں تو اشفاق ملک ہی نے اسے پنجابی کے روپ میں ڈھالا اور’بھولا سجن‘ کا نام دیا۔ اس میں بھولے سجن کا کردار اعجاز نے ادا کیا۔ 1980ء میں یہ کہانی ہدایت کار جاوید فاضل کے مشّاق ہاتھوں میں پہنچی۔ انہوں نے اسے’صائمہ ‘ کے نام سے فلمایا اور بھولے بھالے ہیرو کے لیے ندیم کا انتخاب کیا۔

    اس کہانی کی متواتر کام یابیوں کا راز اس کے ہیرو کی شخصیت میں مضمر ہے۔ ایک ان پڑھ شخص، پڑھے لکھے لوگوں کے دُنیا میں اکیلا، بے سہارا اور بے یارو مددگار ہے اور اسی لیے ناظرین کی ہم دردی کا مستحق ہے۔ ساٹھ پیسنٹھ برس پہلے فلم بینوں نے ہم دردی کے جو پھول واسطی پہ نچھاور کیے تھے وہی بعد میں علاؤالدین، اعجاز اور ندیم پہ لٹائے گئے۔

    (عارف وقار کے مضمون سے انتخاب)

  • کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    ہالی وڈ، فیشن اور اسٹائل کی دنیا پر ایک عرصے تک راج کرنے والی اداکارہ کیتھرین ہیپبرن امریکی معاشرے اور ثقافت میں ایک بااثر خاتون کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتی ہیں۔

    29 جون 2003ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوجانے والی ہیپبرن کو غیر روایتی انداز کی حامل آزاد اور خود مختار خاتون کہا جاتا ہے جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی۔

    کیتھرین ہیپبرن کو ہالی وڈ میں 66 سالہ کیریئر کے دوران کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں آسکر بھی شامل ہے۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے 4 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور فلم نگری کے اس معتبر ترین ایوارڈ کے لیے 12 مرتبہ نام زد کی گئی۔
    آسکر کے علاوہ فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والی اس اداکارہ نے فیشن اور اسٹائل کی دنیا سے بھی اعزازات سمیٹے۔

    ہیپبرن خوب صورت اور سحر انگیز شخصیت کی مالک تھی جس نے فیشن اور اپنے منفرد انداز کے سبب بھی شہرت حاصل کی۔ اس کا نام بیسویں صدی عیسوی کی ان خواتین کی فہرست میں‌ شامل رہا ہے جنھوں‌ نے اپنے فن اور کارناموں کے سبب دنیا کی معاشرت اور امریکا کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ فہرست شوبزنس اور فیشن انڈسٹری سے متعلق اپنے وقت کے متعدد مشہور رسائل اور معتبر جرائد نے شایع کی تھی۔

    امریکی ثقافت میں بے حد پذیرائی کے سبب اسے ایک ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل ہوگیا جب کہ 1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔

    کیتھرین ہیپبرن کو یہ یقین تھا کہ موت کے بعد اسے ضرور یاد رکھا جائے گا۔ اس نے کئی مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا کے ایک امیر اور خوش حال گھرانے سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907ء کو پیدا ہوئی۔ والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ کو امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

    ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھی اور اس کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر بچّوں حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی پُراعتماد اور باہمّت تھی۔

    گریجویشن کے بعد اسے اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور یوں اس کے شوبز کیریئر کا آغاز ہوا۔ نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک رہتے ہوئے اس نے متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور پہچان بناتی چلی گئی۔ اس نے 1928ء میں شادی کی تھی لیکن چند سال بعد یہ تعلق ختم کردیا۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ اس کی پہلی فلم 1932ء میں پردے پر پیش کی گئی۔ اداکاری کے ابتدائی ایّام میں اس نے حقوقِ نسواں کی علم بردار عورت کے مختلف کردار نبھائے اور پھر ہالی وڈ کی فلموں میں مختلف کردار قبول کرکے خود کو منوانے میں کام یاب رہی۔ اداکارہ نے جہاں فیچر فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتے، وہیں‌ اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام کر کے بھی خود کو منوایا۔

    کیتھرین ہیپبرن کی چند مشہور فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔ فلاڈلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ہیپبرن نے 96 سال کی عمر میں‌ زندگی سے اپنا ناتا توڑا تھا۔

  • ہالی ووڈ کی کام یاب کہانیاں جو ہندی سنیما میں‌ ناکام ہوئیں

    ہالی ووڈ کی کام یاب کہانیاں جو ہندی سنیما میں‌ ناکام ہوئیں

    بولی وڈ کے بعض فلم ساز ایسے ہیں‌ جنھوں‌ نے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے کے لیے آسان راستہ اپنایا اور باکس آفس پر زبردست کام یابی سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی کہانیوں پر ہندی فلمیں بنائیں، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی اور وہ فلمیں فلاپ ثابت ہوئیں۔

    یہاں ہم ان چند فلموں کا ذکر کررہے ہیں جو ہالی ووڈ کی کام یاب ترین فلموں مبنی تھیں‌۔ تاہم ہندی فلم بینوں نے انھیں‌ پسند نہیں کیا۔

    مشہور فلم ‘سلیپنگ ود دی اینیمی’ کا مرکزی کردار جولیا رابرٹس نے نبھایا تھا۔ یہ ایک ایسی عورت تھی جو اپنے شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک روز بھاگ جاتی ہے اور نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اسی کہانی سے متاثر ہو کر 1995ء میں فلم ‘یارانہ’ بنائی گئی تھی جس میں مشہور اداکارہ مادھوری ڈکشٹ نے وہی کیا جو جولیا رابرٹس نے اپنی فلم میں کیا تھا، لیکن فلم کا یہ ہندی روپ شائقین کو متاثر نہیں کرسکا۔

    اس ناکامی کے باوجود اپنے وقت کی مشہور ہیروئن جوہی چاولہ کو کاسٹ کرتے ہوئے فلم ‘دراڑ’ بنائی گئی یہ بھی ‘سلیپنگ ود دی اینیمی’ کی کہانی پر مبنی تھی۔ یہ فلم 1996ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ تاہم دونوں فلمیں ناکام ثابت ہوئیں۔

    ہالی وڈ میں 1953ء میں ‘رومن ہالیڈیز’ اور اس سے قبل 1934ء میں ‘اِٹ ہیپنڈ ون نائٹ’ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جسے بولی ووڈ نے نام ور ہیرو راج کپور اور نرگس پر ‘چوری چوری’ کے نام سے فلمایا تھا، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس ناکام فلم کی کہانی ہالی ووڈ کی مذکورہ فلموں سے تقریباً ملتی جلتی تھی۔

    مشہورِ زمانہ گریگوری پیک کی ایک فلم ‘میكیناز گولڈ’ تھی، جو 1969ء میں‌ ریلیز ہوئی۔ اس میں‌ خزانے کی تلاش کے مناظر کو بڑے پردے پر نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا اور اس فلم نے شائقین کی توجہ حاصل کی تھی۔ بولی وڈ میں اسی فلم کی کہانی کو متعدد بار الگ الگ ناموں سے پیش کیا گیا، لیکن وہ سب فلاپ ہوئیں۔

    اس ضمن میں پہلے 1988ء کی دھرمیندر اور شتروگھن سنہا کی ‘زلزلہ’ کا نام لیا جاتا ہے اور بعد میں جوہی چاولہ اور عامر خان کی جوڑی کو ‘دولت کی جنگ’ میں‌ آزمایا گیا۔ یہ 1992ء میں پردے پر پیش کی گئی اور یہ بھی خزانے کی تلاش پر مبنی تھی۔ بولی وڈ کی یہ دونوں کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔

    بولی وڈ میں 1960 کی انگریزی فلم ‘اسکول فار اسكاؤنڈرلس’ اور ‘دی ہچ’ کی کہانی پر بھی ہندی فلمیں‌ بنائی گئیں‌ جن کو خاص کام یابی نہیں مل سکی۔

  • فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    1727 میں جرمن سائنس داں ڈاکٹر ہرمیان اسکولرس ایک روز سلور نائٹریٹ میں کھڑیا ملا رہے تھے۔ اس مرکب میں کھڑکی کے ذریعہ سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں جس سے وہ مرکب آہستہ آہستہ سیاہ ہوتا جارہا تھا۔

    اس کی بدلتی ہوئی رنگت دیکھ کر ڈاکٹر اسکولرس نے اس پر یہ تجربہ کرنا شروع کیا کہ وہ بار بار مرکب کو سورج کی روشنی کے سامنے رکھنے لگے۔ آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سلور نائٹریٹ اور کھڑیا مٹی کے مرکب پر سورج کی روشنی کا سیدھا اثر پڑتا ہے۔

    کہتے ہیں اس وقت لندن کے ایک سائنس داں لوئی بھی غالبا اسی موضوع پر تحقیق کررہے تھے، لیکن 1781 میں ان تجربات کے تمام کاغذات اور ان کا فارمولا آسٹریلیا کے ایک سائنس داں جوزف ویزوپ کے ہاتھ آگیا۔

    اس موقع پر ان کے معاون چیس ہیوم نے ان کے سامنے فوٹو گرافی کے عمل پر تحقیق کرنے کی تجویز پیش کی۔

    ڈاکٹر ویزوپ کے لڑکے تھامس کو جب اپنے والد کی تحقیق کا علم ہوا تو وہ انھی کے فارمولے کی بنا پر کیمرے کی ایجاد میں مصروف ہوگئے۔

    مسلسل کوشش کے بعد تھامس نے 1799 میں ہوائیاں نامی مرکب ایجاد کیا۔ آج کل تصویروں کو پائیدار اور مستقل بنانے کے لیے اسی کو کام میں لایا جاتا ہے۔

    لگاتار تجربے کرتے رہنے اور کڑی محنت کے باعث تھامس کی صحت گرنے لگی اور 1805 میں صرف 35 سال کی عمر میں یہ عظیم سائنس داں راہیِ ملکِ عدم ہوا۔

    (پریم پال اشک کی کتاب فلم شناسی سے ایک ورق)

  • کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑیوں‌ کے فلم یا ٹیلی ویژن اداکار بن جانے کے بعد اگر اس میدان میں‌ ان کی پرفارمنس اور باکس آفس پر کام یابی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں‌ ضرور کچھ تفریق کی جاسکتی ہے، لیکن یہ جن شخصیات کا تذکرہ ہے انھوں‌ نے ہر میدان میں اپنی شہرت اور مقبولیت ضرور برقرار رکھی ہے۔

    آپ کی دل چسپی کے لیے کھیل کی دنیا کے وہ چند نام جو اب فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکار اور میزبان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

    ڈوین جانسن کی شہرت کا سفر تو بطور ریسلر شروع ہوا تھا، لیکن ہالی وڈ نے انھیں مشہور ترین اداکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ وہ راک کی عرفیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ممی ریٹرنز اور اسکورپین کنگ جیسی مشہورِ زمانہ فلموں میں ڈوین جانسن نے کردار نبھا کرخوب شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد فاسٹ اینڈ فیوریئس جیسی فلم نے ان کی شہرت کو مہمیز دی۔

     

     

    امریکا سے تعلق رکھنے والے مشہور ریسلر جان سینا آج ایک کام یاب اداکار اور ٹیلی ویژن کی دنیا کے مقبول میزبان ہیں۔ وہ پہلوانی کے میدان میں مقبولیت سمیٹنے والی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں شوبزنس کی دنیا میں بھی زبردست کام یابی ملی۔ انھوں نے ایکشن فلم 12 راؤنڈ میں جہاں اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی وہیں جب کامیڈی فلم ٹرین ریک میں کردار سونپا گیا تو اسے بھی خوبی سے نبھایا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

     

     

    فٹ بال کے میدان کا روشن ستارہ وینی جانز جب معروف ہدایت کار گائے رچی کی نظروں میں آیا تو وہ اسے سنیما میں لے آئے اور ایک کام یاب اداکار ثابت ہوئے۔ وہ لگ بھگ دو عشروں سے فلم اور ٹی وی پر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

     

     

    جوڈو کی کھلاڑی رونڈا روزی نے بیجنگ اولمپکس میں کانسی کا تمغا اپنے نام کیا تھا۔ ان کی جوڈو میں مہارت نے فلم سازوں کو متوجہ کیا اور یوں وہ بڑے پردے کی اداکارہ بن گئیں۔ رونڈا روزی کو فلم نگری کے روشن ستاروں سلویسٹر اسٹالون، میل گبسن اور ہیریسن فورڈ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تاہم اداکاری کی وجہ سے انھیں کھیل کی دنیا سے دور ہونا پڑا۔

     

     

    امریکا کے ایک اور فٹ بالر کارل ویدر نے کئی دہائی قبل کھیل کے میدان کو چھوڑ کر فلم نگری میں قدم رکھا تھا۔ انھیں پریڈیٹر جیسی مشہور فلم میں ہالی وڈ کے نام ور اداکار آرنلڈ شوارزنیگر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ایک فلم ایکشن جیکسن میں ان کے مرکزی کردار کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ یہ تین دہائی قبل ریلیز ہونے والی فلم ہے۔