Tag: مشہور فلمی نغمہ نگار

  • سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    تنویر نقوی کا نام پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کئی کے لیے یادگار اور لازوال گیت تخلیق کیے۔ آج اردو کے اس مشہور شاعر کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1972ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ 6 فروری 1919ء کو لاہور کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے تنویر نقوی نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور وہ 21 سال کے تھے جب ان کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ 1938ء میں تنویر نقوی نے اپنے وقت کے مشہور ہدایت کار نذیر کی ایک فلم کے لیے نغمہ نگاری سے فلمی صنعت میں‌ خود کو متعارف کروایا۔

    تنویر نقوی کو ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ہدایت کار اے آر کار دار نے بمبئی بلوا لیا تھا جہاں آٹھ برس قیام کے دوران انھوں نے دس سے زائد فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک بے حد مقبول نغمہ "آواز دے کہاں ہے تو” بھی شامل ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں تنویر نقوی پاکستان آئے اور یہاں‌ کی فلمی صنعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں‌ کے سبب خوب نام کمایا۔ تنویر نقوی کے مقبول نغمات کی فہرست میں "جان بہاراں، رشکِ چمن ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں، رم جھم رم جھم پڑے پھوار شامل ہیں۔

    1965ء کی جنگ ہوئی تو تنویر نقوی کا نغمہ "رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو” محاذِ جنگ پر لڑنے والے سپاہی سے لے کر ہر شہری کی زبان پر تھا۔ تنویر نقوی کو ان کی گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈز دیے گئے۔ انھوں‌ نے نعتیہ کلام بھی لکھا جن میں‌ فلم نورِ اسلام کی نعت "شاہِ مدینہ، یثرب کے والی” بھی شامل ہے۔

  • مقبول ترین ملّی نغمات کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    مقبول ترین ملّی نغمات کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں‌ کلیم عثمانی کا نام ان کے ملّی نغمات اور فلمی گیتوں‌ کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ممتاز شاعر اور نغمہ نگار کلیم عثمانی 28 اگست 2000 کو وفات پا گئے تھے اور آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا جو 28 فروری 1928 کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد انھو‌ں نے ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ فلم نگری کے لیے گیت نگاری شروع کی تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی فلمیں‌ ملیں اور ان کے گیت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ نغمہ ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ نغمہ بہت مقبول ہوا۔ اسی طرح جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین جیسی فلموں میں بھی انھوں نے اپنے تحریر کردہ نغمات سے رنگ بھرے۔

    1973 میں انھیں فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔

    "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

    کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آج گلزار کی سال گرہ ہے!

    آج گلزار کی سال گرہ ہے!

    سمپورن سنگھ نے اردو، ہندی کے الفاظ کو کچھ اس حُسن و کمال سے باندھا، انسانی جذبات، احساسات اور لطیف کیفیات کو اس وارفتگی سے سمیٹا کہ شعر و سخن کی دنیا میں ان کی پہچان "گلزار” ہو گئی۔

    آج ممتاز فلم ساز، ہدایت کار، ادیب اور مشہور گیت نگار گلزار اپنی 86 ویں سال گرہ منارہے ہیں۔

    انھوں‌ نے تقسیمِ ہند سے قبل پاکستان کے شہر جہلم میں‌ آنکھ کھولی، 1936 میں پیدا ہونے والے گلزار کا نام سمپورن سنگھ رکھا گیا۔ تقسیم کے وقت ان کا خاندان بھارت ہجرت کرگیا جہاں‌ انھوں‌ نے نئی زندگی شروع کی اور فلم نگری میں‌ قدم رکھ دیا۔

    ہندی فلموں‌ کے لیے نغمہ نگاری کا آغاز ہوا تو جیسے شہرت اور مقبولیت ان کی منتظر ہی تھی۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کا خوب چرچا ہوا اور آج بھی ان کی شہرت اور مقبولیت روزِ اوّل کی طرح برقرار ہے۔

    گلزار کے چند مشہور ترین گیتوں‌ میں‌ ” تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں‌، تجھ سے ناراض‌ نہیں‌ زندگی حیران ہوں‌ میں، آنے والا پَل جانے والا ہے، دل تو بچہ ہے جی، نیناں ٹھگ لیں گے” شامل ہیں۔ ان کے گیت بھارت کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائے اور انھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

    ہندوستان کے اس شاعر کی ایک غزل باذوق قارئین کے لیے پیش ہے۔

    شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
    آج پھر آپ کی کمی سی ہے

    دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے
    نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

    کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
    برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

    وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
    عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

    آئیے راستے الگ کر لیں
    یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

  • "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    عشق میں کیا کیا میرے جنوں کی، کی نہ برائی لوگوں نے
    کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
    میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
    شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

    1970 کی دہائی میں یہ کلام بہت مشہور ہوا، آواز تھی محمد رفیع کی جن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی نہایت ذوق و شوق سنے جاتے ہیں اور بہت مقبول ہیں۔

    محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی اس غزل کی دھن اس وقت کے معروف موسیقار جے دیو نے تیار کی تھی۔ فلم کے لیے لکھا گیا یہ کلام اور ترتیب دی گئی موسیقی کا تو بہت شہرہ ہوا، لیکن چند وجوہ کی بنا پر فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    اس غزل کے شاعر تھے ظفر گورکھپوری جو دنیائے سخن میں فلمی گیت نگار اور ادبِ اطفال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں‌ کے لیے نظمیں ہی نہیں کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں بچوں‌ کے لیے ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری جوہر قابلِ داد ہے۔ فلمی گیتوں اور دوہوں میں بھی انھوں نے خوبی سے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    ظفر گورکھپوری کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ انھیں فلمی دنیا کی چکاچوند اور مال و زر سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور درس و تدریس کے ذریعے نئی نسل کی تربیت کرنا اور کردار سازی تھا۔

    ظفر گورکھپوری کا نام ظفرالدین اور تخلص ظفرتھا۔ وہ 5 مئی 1935 کو ضلع گورکھپور، یو پی میں پیدا ہوئے، وہ نوعمری میں‌ ممبئی آگئے تھے جہاں‌ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فلم کے لیے نغمہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، 2017 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    1996 میں ہندی فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی جس کا ایک گانا بہت مقبول ہوا۔

    ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کرو گے
    توڑو گے میرا دل مجھے برباد کرو گے
    دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

    ظفر گورکھپوری کے گیتوں کو اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں نے گایا جن میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشور کمار، کمار سانو وغیرہ شامل ہیں۔