Tag: مشہور فلمی گانے

  • ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    1964 میں ہندی فلم "دُور کی آواز” ریلیز ہوئی جس کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا۔ اس کے خالق شکیل بدایونی تھے۔ یہ اس مشہور شاعر اور گیت نگار کے تخلیق کردہ اُن فلمی گیتوں‌ میں سے ایک ہے جنھیں‌ آج بھی گنگنایا اور پسند کیا جاتا ہے۔

    اس کا عنوان تھا "ہم بھی اگر بچے ہوتے” جو آشا بھونسلے، مناڈے اور محمد رفیع کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوا اور اس کے موسیقار روی تھے۔

    آپ نے بھی یہ نغمہ سنا ہو گا۔ آج اپنی یادوں کی چلمن اٹھا کر جھانکیے اور مان لیجیے کہ اس گیت کے بولوں میں ایک ایسی حقیقت اور سچّائی پوشیدہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں‌ کرسکتا۔

    ہم بھی اگر بچے ہوتے
    نام ہمارا ہوتا گبلو ببلو
    کھانے کو ملتے لڈو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کوئی لاتا گڑیا، موٹر، ریل
    تو کوئی لاتا پھرکی، لٹو
    کوئی چابی کا ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کتنی پیاری ہوتی ہے یہ بھولی سی عمر
    نہ نوکری کی چنتا، نہ روٹی کی فکر
    ننھے منے ہوتے ہم تو دیتے سو حکم
    پیچھے پیچھے پاپا ممی بن کے نوکر
    چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافی کھاتے، پیتے دُدّو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

    کیسے کیسے نخرے کرتے گھر والوں سے ہم
    پل میں ہنستے پل میں روتے کرتے ناک میں دم
    اکڑ بکڑ لکا چھپی، کبھی چھُوا چھو
    کرتے دن بھر ہلہ گلہ دنگا اور ادھم
    اور کبھی ضد پر اڑ جاتے جیسے اڑیل ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    اب تو یہ ہے حال کہ جب سے بیتا بچپن
    ماں سے جھگڑا باپ سے ٹکر بیوی سے اَن بَن
    کولہو کے ہم بیل بنے ہیں، دھوبی کے گدھے
    دنیا بھر کے ڈنڈے سَر پہ کھائیں دنادن
    بچپن اپنا ہوتا تو نہ کرتے ڈھینچو ڈھینچو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

  • "صدر” کا حکم

    "صدر” کا حکم

    مشہور شاعر اور فلم کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے شکیل بدایونی جگر مراد آبادی کے شاگرد تھے۔

    ایک مرتبہ راندیر (سورت، انڈیا) میں شکیل بدایونی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جگر مراد آبادی بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل بدایونی نے مائک پر کہا:

    ’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لیے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

    جگر صاحب نے مائک ہاتھ میں لیا اور کہا:

    ’’اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں۔‘‘

    وہ دور بڑی محبت، رواداری، بزرگوں کی عزت اور تکریم کرنے والا دور تھا۔ جگر صاحب کی بات سن کر شکیل بدایونی کچھ نہ کہہ سکے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ شروع ہوا۔

    تمام شاعر کلام پڑھ چکے اور صرف دو یعنی جگر صاحب اور شکیل بدایونی کلام سنانے سے رہ گئے تو شکیل بدایونی مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

    یہ مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ صدرِ محفل سب سے آخر میں‌ کلام سناتے ہیں۔

    لیکن شکیل بدایوںی کے ساتھ ہی جگر صاحب بھی اٹھ کر آگے آ گئے اور کہنے لگے:

    ’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

    اس پر شکیل برجستہ بولے: ’’جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر میرا حکم ہے کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے۔‘‘

    محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل بدایونی کی بات ماننی پڑی۔

  • "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    ہنستے کھیلتے ماحول میں بننے والی فلم ’گُلنار‘ پر سب نے بڑی جان ماری کی۔ میوزک ماسٹر غلام حیدر کا تھا جنھوں نے بڑی مدھر دُھنیں تیار کی تھیں اور موسیقی کا جادو بکھیرا تھا۔

    ’خاندان‘ اور ’شہید‘ کے بعد وہ ایک بار پھر معراج پر پہنچے تھے۔ نغمے فلم کی نمائش سے قبل ہی زبان زدِ عام ہو گئے۔

    خاص طور سے یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا، ’چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں…..‘

    باقی سبھی گانے بھی ہٹ ہوئے اور غلام حیدر کا نام ایک بار پھر انڈسٹری میں گونجنے لگا۔

    ’نور جہاں‘(ملکہ ترنم) پہلے ہی ٹاپ پر تھی، اب وہ اور اونچی اڑانیں بھرنے لگی۔ فلم سے سب کو بڑی توقعات تھیں مگر جب مارکیٹ میں اُتاری گئی تو سوائے ہٹ میوزک کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

    کئی خوبیوں کے باوجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فلم میں حقیقی ماحول اور پس منظر عنقا تھا جس نے تماش بینوں کو مایوس کیا اور تبصرہ نگاروں (ناقدین) نے بھی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

    (البتہ) شوکت تھانوی کی ایکٹنگ سب کو اچھی لگی اور اُنھوں نے اداکاری کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ کئی فلموں میں کام کیا۔

    (ہندوستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ایک کتاب سے انتخاب)