Tag: مشہور فلمی گیت

  • یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    سیف الدین سیف بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، لیکن فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر فلم کرتار سنگھ (1959ء) بنا کر انھوں نے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 12 جولائی 1993ء کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

    سیف الدین سیف نے 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا اور ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کی، ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہوئے تو اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نصیب ہوئی جس نے ان میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    انھوں نے فلمی مکالمے لکھنا ذریعہ معاش بنایا اور بعد میں‌ گیت نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ سیف کو شروع ہی سے شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل، رباعی، طویل و مختصر نظموں کے ساتھ گیت نگاری میں‌ نام کمایا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ‌ سخن رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اس نغمہ نگار کے کئی گیت مقبول ہوئے اور فلموں کی کام یابی کا سبب بنے جن میں اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

  • لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تدریس سے منسلک رہے، ہندوستان سے تعلق تھا۔

    شہریار نے نظم، غزل اور گیت جیسی اصنافِ‌ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب نام پیدا کیا، انھوں‌ نے اپنے وقت کی کام یاب ترین فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    شہریار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو زبانوں میں ہوا۔ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرنے والے اس شاعر نے 13 فرروری 2012 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ یہاں‌ ہم ان کا ایک مشہور فلمی گیت باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے
    ہر ایک آنکھ شبنمی، ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں
    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی
    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے

  • ‘خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے’

    ‘خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے’

    معروف شاعر اور ہندوستان کے مشہور گیت نگار راجیندر کرشن 1919ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1988ء میں ممبئی میں اس دنیا کو خیرباد کہا۔ انھوں نے غزل کے ساتھ گیت نگاری میں بھی نام کمایا۔ یہاں‌ ہم 1958ء کی مشہور فلم عدالت کا ایک مقبولِ عام گیت پیش کررہے ہیں جس کے تخلیق کار راجیندر کرشن ہیں۔

    شاید یہ درد بھرا نغمہ مشہور مغنیہ لتا کی آواز میں آپ نے بھی سنا ہو، لیکن اپنی ہیئت کے اعتبار سے یہ غزل ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
    خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے

    گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
    غم راہ میں کھڑے تھے، وہی ساتھ ہو لیے

    مرجھا چکا ہے پھر بھی یہ دل پھول ہی تو ہے
    اب آپ کی خوشی اسے کانٹوں میں تولیے

    ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
    یوں چپ سی کیوں لگی ہے، اجی کچھ تو بولیے

  • سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    تنویر نقوی کا نام پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کئی کے لیے یادگار اور لازوال گیت تخلیق کیے۔ آج اردو کے اس مشہور شاعر کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1972ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ 6 فروری 1919ء کو لاہور کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے تنویر نقوی نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور وہ 21 سال کے تھے جب ان کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ 1938ء میں تنویر نقوی نے اپنے وقت کے مشہور ہدایت کار نذیر کی ایک فلم کے لیے نغمہ نگاری سے فلمی صنعت میں‌ خود کو متعارف کروایا۔

    تنویر نقوی کو ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ہدایت کار اے آر کار دار نے بمبئی بلوا لیا تھا جہاں آٹھ برس قیام کے دوران انھوں نے دس سے زائد فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک بے حد مقبول نغمہ "آواز دے کہاں ہے تو” بھی شامل ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں تنویر نقوی پاکستان آئے اور یہاں‌ کی فلمی صنعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں‌ کے سبب خوب نام کمایا۔ تنویر نقوی کے مقبول نغمات کی فہرست میں "جان بہاراں، رشکِ چمن ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں، رم جھم رم جھم پڑے پھوار شامل ہیں۔

    1965ء کی جنگ ہوئی تو تنویر نقوی کا نغمہ "رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو” محاذِ جنگ پر لڑنے والے سپاہی سے لے کر ہر شہری کی زبان پر تھا۔ تنویر نقوی کو ان کی گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈز دیے گئے۔ انھوں‌ نے نعتیہ کلام بھی لکھا جن میں‌ فلم نورِ اسلام کی نعت "شاہِ مدینہ، یثرب کے والی” بھی شامل ہے۔

  • بانسری بجانے کے شوق نے لعل محمد کو فلمی موسیقار بنا دیا!

    بانسری بجانے کے شوق نے لعل محمد کو فلمی موسیقار بنا دیا!

    29 ستمبر 2009 کو نام وَر موسیقار لعل محمد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں‌ نے اردو، پشتو، سندھی ، گجراتی اور بنگالی کی متعدد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ آج پاکستان کے اس نام ور موسیقار کی برسی ہے۔

    لعل محمد 1933 میں راجستھان کے شہر اودے پور میں پیدا ہوئے۔ انھیں کم عمری ہی میں بانسری بجانے کا شوق ہو گیا تھا اور اسی شوق کی بدولت انھیں‌ دنیائے موسیقی میں‌ قدم رکھنے کا موقع ملا۔

    1951 میں لعل محمد ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے جہاں‌ ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے بانسری بجاتے ہوئے سنا اور پھر ریڈیو پاکستان میں‌ ملاقات کرنے کو کہا۔ لعل محمد کو کیا معلوم تھا کہ ان کا یہ شوق انھیں ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی ملازمت دلوا دے گا۔ وہاں ان کی ملاقات بلند اقبال سے ہوئی جن کا مشہور گائیک گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لعل محمد کی بانسری کے سُروں اور بلند اقبال کی دھنوں‌ ایک ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ سنگت فلم نگری کو کئی سریلے گیت دے گئی جن کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

    ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کے بعد 1961 میں لعل محمد اور بلند اقبال کی اس سنگت کو مشہور فلمی ہدایت کار باقر رضوی نے اپنی ایک فلم میں آزمایا اور کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے نغمات کی مقبولیت کے بعد لعل محمد کو مختلف زبانوں‌ میں‌ بننے والی فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا جن میں بلند اقبال ان کے ساتھ تھے۔ ان فلموں‌ میں‌ مسٹر ایکس، چھوٹی بہن، جاگ اٹھا انسان، آزادی یا موت، دوسری ماں، منزل دور نہیں، جانور، پازیب، ہنستے آنسو سرِ فہرست ہیں۔ اس جوڑی نے کئی البیلے گیت، شادمانی کے نغمے دیے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اس موسیقار جوڑی نے "دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں” جیسے مقبولِ‌ عام گیت کی موسیقی ترتیب دی۔ "اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” وہ گیت ہے جسے آج بھی گنگایا جاتا ہے اور اس کی موسیقی لعل محمد نے ترتیب دی تھی۔

  • ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ تھیں جو 29 ستمبر 1971 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی برسی ہے۔

    1936 میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لینے والی نسیم بیگم نے بھی موسیقی اور راگ راگنیوں، سُر اور تال سے ناتا جوڑا اور اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، لاہور سے کیا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ نسیم بیگم کو اس وقت کے فلمی موسیقار شہر یار نے متعارف کروایا۔ وہ فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ کے ذریعے فلمی صنعت سے وابستہ ہوئیں اور ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت نے نسیم بیگم پر فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے۔

    نسیم بیگم نے پانچ برسوں‌ میں‌ چار نگار ایوارڈز اپنے نام کیے اور بہترین گلوکارہ کہلائیں۔نسیم بیگم کو یہ نگار ایوارڈز مشہور فلمی نغمات سو بار چمن مہکا‘ اس بے وفا کا شہر ہے‘ چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم‘ کے لیے دیے گئے تھے۔

    پاکستان کی اس مقبول گلوکارہ نسیم بیگم کے دیگر نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ ہم نے جو پھول چُنے اور مکھڑے پہ سہرا ڈالے‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ جب کہ ملّی نغمہ اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو‘ شامل ہیں۔

    دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ ان کی آواز میں ایک مقبول ترین گیت تھا جو سرحد پار بھی سنا اور بے حد پسند کیا گیا۔

    نسیم بیگم نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں جن میں سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا شامل ہیں‌، کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • "صدر” کا حکم

    "صدر” کا حکم

    مشہور شاعر اور فلم کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے شکیل بدایونی جگر مراد آبادی کے شاگرد تھے۔

    ایک مرتبہ راندیر (سورت، انڈیا) میں شکیل بدایونی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جگر مراد آبادی بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل بدایونی نے مائک پر کہا:

    ’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لیے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

    جگر صاحب نے مائک ہاتھ میں لیا اور کہا:

    ’’اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں۔‘‘

    وہ دور بڑی محبت، رواداری، بزرگوں کی عزت اور تکریم کرنے والا دور تھا۔ جگر صاحب کی بات سن کر شکیل بدایونی کچھ نہ کہہ سکے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ شروع ہوا۔

    تمام شاعر کلام پڑھ چکے اور صرف دو یعنی جگر صاحب اور شکیل بدایونی کلام سنانے سے رہ گئے تو شکیل بدایونی مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

    یہ مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ صدرِ محفل سب سے آخر میں‌ کلام سناتے ہیں۔

    لیکن شکیل بدایوںی کے ساتھ ہی جگر صاحب بھی اٹھ کر آگے آ گئے اور کہنے لگے:

    ’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

    اس پر شکیل برجستہ بولے: ’’جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر میرا حکم ہے کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے۔‘‘

    محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل بدایونی کی بات ماننی پڑی۔

  • "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    عشق میں کیا کیا میرے جنوں کی، کی نہ برائی لوگوں نے
    کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
    میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
    شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

    1970 کی دہائی میں یہ کلام بہت مشہور ہوا، آواز تھی محمد رفیع کی جن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی نہایت ذوق و شوق سنے جاتے ہیں اور بہت مقبول ہیں۔

    محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی اس غزل کی دھن اس وقت کے معروف موسیقار جے دیو نے تیار کی تھی۔ فلم کے لیے لکھا گیا یہ کلام اور ترتیب دی گئی موسیقی کا تو بہت شہرہ ہوا، لیکن چند وجوہ کی بنا پر فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    اس غزل کے شاعر تھے ظفر گورکھپوری جو دنیائے سخن میں فلمی گیت نگار اور ادبِ اطفال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں‌ کے لیے نظمیں ہی نہیں کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں بچوں‌ کے لیے ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری جوہر قابلِ داد ہے۔ فلمی گیتوں اور دوہوں میں بھی انھوں نے خوبی سے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    ظفر گورکھپوری کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ انھیں فلمی دنیا کی چکاچوند اور مال و زر سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور درس و تدریس کے ذریعے نئی نسل کی تربیت کرنا اور کردار سازی تھا۔

    ظفر گورکھپوری کا نام ظفرالدین اور تخلص ظفرتھا۔ وہ 5 مئی 1935 کو ضلع گورکھپور، یو پی میں پیدا ہوئے، وہ نوعمری میں‌ ممبئی آگئے تھے جہاں‌ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فلم کے لیے نغمہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، 2017 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    1996 میں ہندی فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی جس کا ایک گانا بہت مقبول ہوا۔

    ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کرو گے
    توڑو گے میرا دل مجھے برباد کرو گے
    دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

    ظفر گورکھپوری کے گیتوں کو اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں نے گایا جن میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشور کمار، کمار سانو وغیرہ شامل ہیں۔