Tag: مشہور قتل

  • مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    جان ایف کینیڈی امریکی کی سیاسی تاریخ کے مقبول ترین صدور میں سے ہیں جنھیں 1963ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    ان کے قتل کے اسباب، محرّکات اور قاتل کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اس واقعے پر فلمیں بنائی گئیں۔ دنیا بھر کے اخبارات، رسائل و جرائد میں طویل مضامین کی اشاعت کے ساتھ ٹیلی ویژن چینلوں پر اس واقعے کو موضوعِ بحث بنایا گیا اور ساتھ ہی دنیا میں اس پر قیاس آرائیوں کے ساتھ الزام تراشیوں کا بھی طوفان آیا، اور آج بھی یہ قتل ایک معمّا ہی ہے۔

    جان ایف کینیڈی امریکا کے 35 ویں صدر تھے جنھیں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں گولیاں مار دی گئی تھیں۔ ایک شخص جس کا نام لی ہاروے اوسوالڈ تھا، کو مشکوک اور صدر کا قاتل گردانا گیا اور جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی صدر کے قتل کے ابتدائی 12 گھنٹے کے اندر کی گئی تھی۔

    24 نومبر کو ایک اور قتل ہوا۔ ڈیلاس پولیس اسٹیشن کے اندر جیک روبی نامی شخص نے اوسوالڈ کو گولی مار دی اور وہ ہلاک ہو گیا۔

    اب روبی کو قتل کے اس ملزم اوسوالڈ کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا اور اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ تاہم وہ اس سزا پر عمل درآمد سے پہلے ہی 1967ء میں کینسر کے سبب اپنی زندگی سے محروم ہو گیا۔

    جان ایف کینیڈی کو امریکیوں کا محبوب صدر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں‌ کئی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کیا، لیکن اپنے والد کی منصوبہ بندی اور کوشش سے سیاست کے میدان سے ہوکر امریکا کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کام یاب ہوئے۔ نوجوان صدر جان ایف کینیڈی عین عالم شباب میں مارے گئے۔ موت کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔ وہ بالخصوص امریکی نوجوانوں میں بہت مقبول تھے اور کہتے ہیں ایک نسل ان کی پرستار تھی۔

    جان ایف کینیڈی کا دور امریکا کی تاریخ کا بہترین دور قرار دیا جاتا ہے، حالاں کہ صدر کی زیادہ تر پالیسیاں اور سیاسی کام یابیاں نامکمل ہی رہیں۔ عہدۂ صدارت پر ان کے ایک ہزار سے زائد دنوں میں بہت سے کام ادھورے ہی رہے۔

    وہ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ تھے۔ امریکا کی سیاسی تاریخ‌ اور مختلف ادوار پر گہری نظر رکھنے والوں اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کینیڈی زندہ رہتے تو شاید امریکا میں سماجی تفریق کم ہوتی۔

    کیا جے ایف کے کہلائے جانے والے امریکی صدر کا قاتل لی ہاروے اوسوالڈ ہی تھا یا کوئی اور؟ لوگ کل کی طرح آج بھی یہ سوال کرتے ہیں۔ 2017ء میں صدر کے قتل سے متعلق ڈھائی ہزار سے زائد دستاویزات جاری کرتے ہوئے اسے قومی عام کر دی گئی ہیں۔

  • معروف اداکار اور پروڈیوسر سلطان خان کی برسی

    معروف اداکار اور پروڈیوسر سلطان خان کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار سلطان خان کو‌ 8 دسمبر 1994ء کو قتل کردیا گیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں‌ سلطان خان زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    سلطان خان نے متعدد ڈراموں میں شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا اور پی ٹی وی کے ناظرین میں مقبول ہوئے۔ ان کے چند ٹیلی وژن ڈراموں میں‌ تعبیر، چٹان، انا، برزخ، لاتوں کے بھوت اور روزی شامل ہیں۔

    سلطان خان کو بی بی سی کے ڈرامے Ammuculated Conception میں‌ بھی کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

    انھوں نے صرف اداکاری کے شعبے ہی میں‌ نام نہیں‌ کمایا نہیں‌ بلکہ پروڈیوسر کے طور پر ان کا مشہور ترین ڈراما فن کار گلی تھا، جو ہر لحاظ سے کام یاب اور شان دار ثابت ہوا۔ ٹیلی وژن ناظرین نے اسے بے حد پسند کیا اور یہ اپنے وقت کے چند مقبول ترین ڈراموں میں شامل تھا۔

    ان کا ڈراما کھلی کھڑکیاں مکمل ہوچکا تھا، لیکن سلطان خان اسے نشر ہوتا نہ دیکھ سکے۔ ان کے قتل کے بعد یہ ڈراما ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔

    سلطان خان کراچی کی ڈیفنس سوسائٹی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شیطان صفت عورت جس کی پیرول پر رہائی متنازع بنی

    شیطان صفت عورت جس کی پیرول پر رہائی متنازع بنی

    دنیا کی مختلف اقوام، قبائل اور مختلف گروہوں میں زمین اور وسائل پر قبضہ کرنے یا کسی تنازع کے سبب خوں ریز تصادم اور ہول ناک جنگیں‌ بھی لڑی گئیں، جن میں غلبہ پانے اور اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے جاسوسوں کی مدد لی جاتی تھی جو دشمن کی کم زوریاں جاننے اور اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے سازشیں‌ رچاتے تھے۔ تاریخ کے اوراق میں ہمیں‌ کئی جاسوسوں اور خفیہ ایجنٹوں‌ کا ذکر ملتا ہے جنھوں‌ نے اپنے مقصد کے لیے سازشیں اور قتل کیے یا اپنی تنظیم اور گروپ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت اور خوف پھیلایا۔

    تاریخ میں کئی عورتوں کا نام بھی اس حوالے سے محفوظ ہے اور انھیں‌ دنیا کی خطرناک اور سفاک خواتین کہا جاتا ہے۔

    جرمنی کی بریجیٹ مونہاہت ایک ایسا ہی نام ہے جسے شیطان صفت عورت کہا جاتا ہے۔ 1949 کو پیدا ہونے والی بریجیٹ ریڈ آرمی فیکشن کی سرکردہ رکن تھی جو انتہائی بائیں بازو کا شدت پسند گروپ تھا جس نے ستر کی دہائی میں مغربی جرمنی میں خوف اور دہشت پھیلائی۔ اس دوران متعدد افراد اغوا اور قتل ہوئے جب کہ اس عرصے میں تخریبی کارروائیوں‌ اور بم دھماکوں میں‌ بھی بہت نقصان ہوا۔

    1977 میں یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔ دہشت اور خوف کی اس لہر کو ’جرمن خزاں‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ گروپ مغربی جرمنی کی سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا جسے ہائی جیکنگ اور اغوا اور قتل میں ملوث بتایا جاتا ہے۔

    یہ سفاک اور قاتل عورت جس کا نام بریجیٹ تھا، اس گروپ کی اہم اور نہایت متحرک رکن تھی جسے 1982 میں گرفتاری کے بعد پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر نو افراد کی ہلاکت میں ملوث ہونے الزام ثابت ہونے پر اضافی 15 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

    بریجیٹ پر ایک بینکر کے قتل کا الزام بھی تھا جسے قتل سے پہلے پھول پیش کیے اور پھر قریب سے گولی مار دی گئی جس کے نتیجے میں وہ اپنی جان سے گیا۔ اس کےعلاوہ جرمنی کی اس سفاک عورت نے ایک امریکی کمانڈر اور اس کی اہلیہ کو راکٹ لانچر سے اڑا دینے کی کوشش بھی کی تھی۔

    بریجیٹ مونہاہت کو 2007 میں پیرول پر رہا کر دیا گیا تو اس فیصلے پر جرمنی میں ایک بحث چھڑ گئی۔ یہ فیصلہ جرمنی کے سیاسی اور قانونی حلقوں ہی میں زیرِ بحث اور متنازع نہیں‌ بنا بلکہ اس خاتون یا اس گروہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں مرنے والے افراد کے اہلِ خانہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔

  • لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    دنیا بھر کے کروڑوں شیدائیوں کے محبوب گلوکار، جان لینن کی زندگی شعلۂ مستعجل کے مانند بھڑکی اور آن کی آن میں بجھ گئی۔ وہ صرف چالیس کا تھا جب اسے سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔

    8 ستمبر 1980 کو شام پانچ بجے وہ اپنی بیوی کے ساتھ ریاست ڈکوٹا میں واقع اپنے اپارٹمنٹ سے ریکارڈنگ اسٹوڈیو جانے کے لیے باہر نکلا۔ راستے میں آٹو گراف کے خواہش مندوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان میں وہ آدمی مارک ڈیوڈ چیپ مین بھی تھا جس کے ہاتھ اس کے خون سے رنگنے والے تھے۔

    اس نے آٹو گراف حاصل کرنے کے لیے لینن کی مشہور البم Double Fantasy کا کور آگے بڑھایا جس پر لینن نے دستخط کر دیے۔

    جان اور یوکو چند گھنٹے بعد ریکارڈنگ اسٹوڈیو سے فارغ ہوکر واپس آئے اور کار سے اترے تو چیپ مین وہاں موجود تھا۔ اس نے لینن کو پکارا۔

    ”مسٹر لینن…“ پھر اس نے اپنے پستول کی چار گولیاں لینن کے جسم میں اتاردیں۔ پولیس پہنچی تو چیپ مین بڑے سکون کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا ہوا تھا، البتہ اس نے اپنا پستول نیچے پھینک دیا تھا۔ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں نے معمول کے پروگرام روک کر جان لینن کے انتقال کی خبر نشر کی۔

    یوکو اونو نے اپیل جاری کی، ”جان بنی نوع انسان سے محبت کرتا تھا۔ براہِ کرم، آپ بھی اس سے محبت کا اظہار کریں۔“

    14 دسمبر کو دنیا بھر میں جان لینن کے کروڑوں مداحوں نے اس کی یاد میں سَر جھکا کر اسے نذرانہ محبت پیش کیا۔

    (ممتاز شاعر، ادیب اور سینئر صحافی احفاظ الرّحمٰن کی کتاب ”جنگ جاری رہے گی“ سے ایک ورق)

  • قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    یہ 1860 کی بات ہے، اسکاٹ لینڈ پولیس نے ایک ایسے قتل کی تفتیش شروع کی جس نے افسران کو گویا چکرا کے رکھ دیا۔

    مسٹر کینٹ نے پولیس کو رپورٹ کی تھی کہ ان کا چار سالہ بچّہ گھر سے غائب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے گھر میں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے، مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

    بعد میں بچے کی لاش گھر کے احاطے سے باہر بنائے گئے ایک ٹائلٹ سے برآمد ہوئی۔ اس معصوم کا گلا کٹا ہوا تھا جب کہ قاتل نے سینے میں چُھرا بھی گھونپا تھا۔

    مسٹر کینٹ سے تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ انھوں نے صبح بچے کو بستر پر نہ پاکر ہر جگہ تلاش کیا اور ناکامی کے بعد پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں‌ صبح بیدار ہونے کے بعد گھر سے باہر جانے والا ایک دروازہ بھی کُھلا ملا تھا۔

    پولیس نے دروازے سے متعلق مسٹر کانٹ کی بات کو اہمیت ضرور دی تھی، لیکن انھیں شک تھا کہ قاتل باہر سے نہیں آیا بلکہ گھر کا کوئی فرد ہی ہے۔

    جائے وقوع سے شواہد اکٹھا کرنے کے بعد تفتیش شروع ہوئی جس میں کانٹ فیملی اور گھر کے ملازمین سبھی کو شامل کیا گیا۔

    اس خاندان کے بارے میں ابتدائی معلومات سے پولیس کے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ قاتل گھر کا ہی فرد ہے۔
    کنبے کے سربراہ مسٹر کانٹ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی جو چار بچوں کی ماں تھی، اس کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے چار بچوں کے علاوہ اس گھر میں مسٹر کانٹ اپنی دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

    قاتل کو پکڑنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی محکمے کے افسر جیک وِچر کا انتخاب کیا گیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین افسر سمجھے جاتے تھے اور اس سے قبل کئی پیچیدہ اور پُراسرار کیسوں کو نمٹا چکے تھے۔

    اس تفتیشی افسر کا خیال تھا کہ یہ قتل بچے کی سولہ سالہ سوتیلی بہن نے کیا ہے۔ وہ اسے عدالت تک لے آیا، لیکن ثابت نہیں کرسکا کہ وہی اُس بچے کی قاتل ہے۔ یوں مقتول کی سوتیلی بہن بری ہو گئی۔

    یہ اس زمانے کا مشہور کیس تھا اور اس ناکامی نے وِچر کی قابل اور ذہین افسر جیسی شہرت کو بھی مشکوک کردیا۔ اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبارات نے اس کے خلاف لکھنا شروع کر دیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے حاسدین کی جانب سے بھی اس کی مخالفت زوروں پر تھی۔

    تاہم پانچ سال بعد سب کو وَچر کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا، کیوں‌ کہ اسی لڑکی نے ایک پادری کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچ کر اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ اس اعتراف پر اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    رہائی کے بعد وہ آسٹریلیا چلی گئی جہاں نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور باقی زندگی جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہوئے گزاری۔

    اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے اسی مشہور قتل پر برطانوی مصنفہ کیٹ سمرسکیل نے ایک کہانی بُنی جو لندن میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔

    1965 میں پیدا ہونے والی سمرسکیل نے صحافت کی تعلیم مکمل کرکے ٹیلی گراف میں آرٹ اور ادب کے صفحے کی ادارت کی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    انھوں نے ”دی سسپِیشنز آف مسٹر وِچر“ کے نام سے کتاب لکھی جو پُرتجسس واقعات اور مہم جوئی سے متعلق ہی نہیں تھی بلکہ اس میں اُس دور کے طرزِ زندگی اور معاشرتی حالات کا احاطہ بھی کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی یہ کہانی ٹیلی ویژن پر ڈرامائی شکل میں پیش کی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف انیسویں صدی کے سنسنی خیز کیس کی تفصیلات سامنے لاتی ہے بلکہ اس دور کے سماج کی اور ایک خاندان کی ذاتی زندگی کی خوب صورت عکاسی ہے اور یہ کتاب برطانوی ادب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔