Tag: مشہور قلعے

  • قلعہ بجنوٹ جسے شہاب الدّین غوری نے مسمار کروا دیا تھا

    قلعہ بجنوٹ جسے شہاب الدّین غوری نے مسمار کروا دیا تھا

    قلعہ بجنوٹ کا پرانا نام ونجھروٹ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کو شہاب الدّین غوری کے حکم پر تباہ کر دیا گیا تھا۔

    قدیم آثار پر معلوماتی کتابوں میں اس قلعے کو راجا ونجھہ یا بجا بھاٹیا سے منسوب کیا گیا ہے اور اس کی تعمیر کا سنہ 757ء لکھا ہے۔ بعض مؤرخین ان باتوں سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ راجہ ونجھا نے اسے 1178ء ہی میں تعمیر کروایا تھا لیکن اسے غوری نے مسمار کر دیا تھا۔ بعد میں راجہ کہڑ کے بیٹے راجہ تنو نے اسے ازسر نو تعمیر کیا۔ مؤرخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قلعے کا نام بیجا نوٹ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجنوٹ ہو گیا۔ پھر یہ موسم اور حالات سے لڑتا رہا اور صدیوں بعد اس قلعے کو 1757ء میں موریا داد پوترہ نے دوبارہ تعمیر کروایا۔ اس تعمیر کے دو سو سال بعد آخر کار اس کا اوپری حصّہ منہدم ہو گیا۔ آج بھی اس قلعے کی بنیاد پر عمارت کے کھنڈر دیکھے جاسکتے ہیں، جن سے وہاں آمدورفت اور سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    یہ قلعہ بہاولپور شہر سے 163 کلومیٹر دور اور نواں کوٹ قلعہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی تعمیر میں مقامی چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ اس قلعے کو گولائی میں چاروں اطراف سے 300 فٹ تک پھیلایا گیا تھا۔ اس کے شمالی حصّے کی طرف 11 فٹ چوڑا داخلی دروازہ ہے اور تین کمرے اس کے اوپر بنائے گئے تھے۔ قلعے کی دیواریں 21 فٹ تک بلند رکھی گئی تھیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق قلعے کے 4 بڑے اور 2 چھوٹے برج تھے جن پر جانے کے لیے سیڑھیاں موجود تھیں۔ ایک برج مکمل طور پر مسمار ہو چکا ہے جب کہ باقی 3 انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور اب تقریباً ڈھیر ہوچکے ہیں ۔

    قلعہ بجنوٹ کے اندر پانی کے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جو 21 فٹ پر محیط تھے اور ان کی گہرائی 40 فٹ تک تھی۔

  • نیرون کوٹ: نامکمل تاریخ، ادھوری کہانی…

    نیرون کوٹ: نامکمل تاریخ، ادھوری کہانی…

    سندھ، جسے ہزار ہا سال قدیم تہذیبی، ثقافتی ورثے سے مالا مال اور علم و فنون کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے کئی مشہور شہر ایسے ہیں‌ جن کے بارے میں تاریخ کے صفحات میں زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ قدیم ترین اور مشہور نیرون کوٹ بھی ایسا ہی ایک شہر ہے۔ معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سندھ کے موجودہ دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کا پرانا نام ہے جسے میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1768ء میں بسایا تو اسے نام بھی دے دیا۔

    ایک مؤرخ ابو عبداللہ محمد الادریسی نے نیرون کوٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دریا کے کنارے آباد تھا اور سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ مشہور مؤرخ شیر علی قانع ٹھٹھوی نے بھی اپنی لائقِ مطالعہ اور اہم کتاب تحفۃُ الکرام میں اس شہر کا ذکر کیا ہے۔ تاہم اس شہر کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔

    نیرون کوٹ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں کوئی قلعہ تھا اور قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ ایک فوج کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مقام کے چند نام رون، ارون، ارون پور پٹالہ، پٹال پور اور پٹالہ بندر بھی تاریخی کتب میں‌ درج ہیں۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس شہر کے قریب دریا بہتا تھا، لہٰذا یہاں بندرگاہ بھی رہی ہوگی اور اس کا نام پٹالہ بندر ہوسکتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ اس علاقے پر صدیوں‌ کے دوران مختلف عرب حکم راں، مغل شہنشاہ اور سلاطین نے راج کیا جب کہ مشہور محقق اور مؤرخ سر چارلس ایلیٹ کے مطابق یہ سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ سے شمال کی جانب منصورہ اور ٹھٹھہ کے تقریباً درمیان واقع تھا۔ یہ بستی اور بندرہ گاہ کیسے نیرون کوٹ میں تبدیل ہوئی اس پر تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔

    بعض مؤرخین کے مطابق چھٹی صدی عیسوی میں رائے گھرانے کا ’’رائے سمیرس ماہی‘‘ اس علاقے کا حاکم تھا۔ اسی طرح بعض نے نیرون کو ایک ہندو حکم راں لکھا ہے اور اسی نام سے یہ علاقہ بھی آباد تھا اور نیرون ایک بندرگاہ تھی جو وقت کے ساتھ سمندر برد ہوگئی، پھر اس کے نزدیک شہر تعمیر ہوا اور جب دریا کا رخ بدلا تو یہ بندرگاہ ایک بستی بنی اور پھر اسی جگہ موجودہ شہر آباد ہوگیا۔ تاہم اس حوالے سے کوئی واضح بات سامنے نہیں‌ آئی اور نیرون کوٹ یا بندرگاہ کے ختم ہونے کے حوالے سے اور اسی مقام کو حیدر آباد کے نام سے بسائے جانے پر اختلاف ہے۔

    بعض مؤرخین کے مطابق نیرون کوٹ پر عربوں کی حکومت تین سو سال تک رہی۔ بعد ازاں دہلی حکومت نے یہاں نوابوں کی تقرری کرکے قلعے کو سنبھالا اور علاقے کا انتظام چلاتے رہے۔ دہلی کا زور ٹوٹا تو یہاں سومرا نے طاقت کے زور پر اپنی حکومت قائم کرلی اور بحسن و خوبی علاقے کا انتظام چلاتے رہے اور پھر موجودہ شہر حیدر آباد کی بنیاد رکھی گئی۔ کلہوڑو خاندان کی شخصیات نے شہر آباد کرنے کے بعد یہاں کے لوگوں کا بہت خیال رکھا اور ان کے دل جیتنے میں کام یاب رہے۔

  • صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    عالی شان محلّات، بلند و بالا قلعے اور پُرشکوہ عمارات صدیوں سے شاہان و امرا کی شان و شوکت کی علامت اور یادگار کے طور پر تعمیر کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں عظمتِ رفتہ کی یہ نشانیاں ہمارے لیے دیدنی ہیں۔

    یورپ کی بات کی جائے تو وہاں‌ ہر سال کروڑوں سیاح ایسے محلّات اور قلعوں کی سیر کو آتے ہیں‌، جن کا منفرد طرزِ تعمیر ہی نہیں‌ ان سے منسوب داستانیں، مستند تاریخی واقعات اور حقائق بھی ان کی دل چسپی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں ہم یورپ کی اُن پانچ عمارتوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی شان و شوکت اور تب و تاب آج بھی برقرار ہے۔

    ونڈسر کیسل
    یہ عظیم الشان برطانوی محل قدیم ترین شاہی رہائش گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ صدیوں‌ سے اس محل میں شاہی خاندان آباد ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ونڈسر کیسل کی تعمیر 1078 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی اور کسی زمانے میں یہ عمارت شاہی افواج کی قیام گاہ کے ساتھ ساتھ بطور جیل بھی استعمال ہوتی رہی۔ یہ ایک پُرشکوہ عمارت اور طرزِ‌ تعمیر کے اعتبار سے نہایت خوب صورت ہے جو برطانوی ملکہ کی مرکزی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ برطانوی تاج دار کی اس محل میں موجودگی کی صورت میں یہاں مخصوص مینار پر ان کا پرچم لہرا دیا جاتا ہے۔

    شوئن برُن پیلس
    لگ بھگ تین صدی اور اس سے کچھ زائد عرصہ ہوا جب پندرہویں صدی عیسوی کی ایک عمارت کی ازسرِ نو تعمیر کے ساتھ اس کے وسیع احاطے میں ایک محل کھڑا کر دیا گیا اور اسے شوئن برُن پیلس کا نام دیا گیا جس کا مقامی زبان میں مطلب خوب صورت بہار تھا۔ یہ محل آسٹرو ہنگیرین بادشاہت کی یادگار ہے جسے آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹیریسا نے یوں آباد کیا کہ یہ یورپی شاہی خاندانوں کا سب سے بڑا اور اہم مرکز بن گیا۔ آج کے جمہوریہ آسٹریا کے شہر ویانا میں سالانہ لاکھوں‌ لوگ اس عظیم الشان محل کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    ویرسائیے پیلس
    یہ 1677 کی بات ہے جب فرانس کے دارالحکومت پیرس کے نواح میں اس وقت کے بادشاہ لُوئی (چہار دہم) نے ویرسائیے پیلس کو شاہی رہائش گاہ کے طور پر اپنایا۔ یہ محل اٹھارہ سو کمروں پر مشتمل ہے اور یورپ کے بڑے محلات میں سے ایک ہے۔ ویرسائیے پیلس کی خوب صورتی اور اس کا طرزِ تعمیر اس دور میں مثالی ثابت ہوا اور مشہور ہے کہ یورپ کے دیگر حکم رانوں اور امرا نے اسی طرز پر اپنے قصر تعمیر کروائے۔ فرانس کا یہ محل آج بھی سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

    پیٹر ہوف پیلس
    خلیج فن لینڈ کے کنارے تعمیر کیا گیا یہ محل روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے مغرب کی طرف واقع ہے اور سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز ہے۔ تاریخ‌ کی کتب بتاتی ہیں‌ کہ اس محل میں موسمِ گرما میں روسی زار پیٹر اوّل قیام کرتا تھا۔ 1723 کی اس عظیم یادگار کی انفرادیت اور اس کا حُسن اس میں‌ بنائی گئی آبی راہ داریاں ہیں۔ اس کے بیرونی اور داخلی راستوں پر حوض، تالاب اور ان میں‌ موجود فوّارے اس کی دل کشی بڑھاتے ہیں۔

    توپکاپی پیلس
    ترکی جانے والے سیاح مشہور شہر استنبول کا توپکاپی پیلس دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ اس محل کے چار بڑے حصّے ہیں اور اسے ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے جو پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں اس وقت کے سلاطین کی رہائش گاہ ہی نہیں‌ بلکہ انتظامی امور کا مرکز بھی تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ یہ محل ایک چھوٹے سے شہر کی طرح تھا جس میں لگ بھگ پانچ ہزار رہتے اور اپنے اپنے کام انجام دیتے تھے۔

  • وسچیرنگ قلعہ جسے آگ لگا دی گئی تھی!

    وسچیرنگ قلعہ جسے آگ لگا دی گئی تھی!

    جرمنی اپنی تاریخ، تمدن اور ثقافتی رنگا رنگی کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ سیر و سیاحت کے لیے اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔

    جرمنی میں‌ کئی صدی پرانے محلات، قلعے اور ایسی عمارتوں‌ کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں جو اپنے طرزِ تعمیر، محلِ وقوع ہی کے لحاظ سے منفرد نہیں‌ بلکہ ان سے متعلق شخصیات کے حالات، اس دور کے بعض مستند واقعات اور اکثر قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں اور سیاحوں کی توجہ اور دل چسپی کا باعث ہیں‌۔

    جرمنی کے ایک علاقے نارتھ رائن ویسٹفیلیا کا وسچیرنگ قلعہ بھی اپنی تعمیر کے لحاظ سے منفرد ہے۔ اس قدیم قلعے کی تعمیر کے بارے میں‌ تاریخ میں‌ لکھا ہے کہ یہ 1271 میں‌ بنایا گیا اور اس وقت کے ایک بشپ گیرارڈ وون کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا اور بعد کے عرصے میں‌ اس میں‌ توسیع اور تبدیلیاں‌ کی جاتی رہیں۔

    وسچیرنگ قلعے کے طرزِ تعمیر میں‌ دفاعی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پتھر اور مٹی استعمال کی گئی ہے جب کہ اس دور میں قلعے کو محلِ وقوع کے لحاظ سے اہمیت دیتے ہوئے ایک تالاب اور کھائی کے وسط میں تعمیر کیا گیا اور یہ آج بھی اسی جگہ کھڑا ہوا ہے۔ قلعہ‌ کے اندر مختلف محرابیں اس وقت کے طرزِ تعمیر کی خوب صورتی رہی ہو گی۔ یہ قلعہ تین منزلہ ہے جس کی مرکزی عمارت کی شکل گھوڑے کی نعل جیسی ہے۔

    بیرونی یلغار، خانہ جنگی اور لوٹ مار نے اس قلعے کو بھی اجاڑا اور 1521 میں‌ اسے آگ لگا دی گئی، جس میں یہ عمارت بری طرح متاثر ہوئی جب کہ دوسری جنگِ عظیم میں بھی اسے نقصان پہنچا تھا۔

    ‌پتھروں کی مضبوط دیواروں والے اس قلعے کی چھت سرخ ٹائلوں سے مزین ہے جب کہ اس کے چاروں اطراف درخت اور سبزہ موجود ہے جو اس قلعے کی دل کشی اور حُسن میں اضافہ کرتے ہیں۔

  • سومینلینا: خوں ریزی اور سمندر کے غیظ وغضب کا گواہ

    سومینلینا: خوں ریزی اور سمندر کے غیظ وغضب کا گواہ

    دنیا کے چند بڑے سمندری قلعوں میں سے ایک 18 ویں صدی کا قلعہ فن لینڈ میں سومینلینا میں واقع ہے، جو دارالحکومت ہیلسنکی کا حصہ ہے۔

    فن لینڈ وہ یورپی ملک ہے جو اپنے ثقافتی اور تاریخی مقامات کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور یورپ میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ فن لینڈ میں آنے والے سیاحوں کی اکثریت اس قلعے کو دیکھنے کے لیے ہیلسنکی کا رخ کرتی ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قلعہ روسی فوج کے حملوں سے بچنے اور ان کا مقابلہ  کرنے کی غرض سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے کی تعمیر 1748 میں شروع ہوئی تھی۔

    اس قلعے کے اطراف کئی سرنگیں ہیں اور جزیرے کے آس پاس پگڈنڈی بنی ہوئی ہے۔ 1808 میں جب سویڈن نے ہتھیار ڈالے تو اس قلعے پر روس کا قبضہ ہو گیا جو 1918 میں فن لینڈ کی آزادی کے بعد اس کی ملکیت بن گیا۔

    یونیسکو نے اس قلعے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے کر اہم تاریخی یادگاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس قلعے کو جزیرے پر سمندر کے بالکل قریب بنایا گیا ہے۔ سمندری لہریں اس کی مضبوط دیواروں سے ٹکراتی ہیں اور یہ سیاحوں کے لیے ایک پرکشش منظر ہوتا ہے۔

  • خوب صورت جھیل اور پُراسرار قلعہ

    خوب صورت جھیل اور پُراسرار قلعہ

    فن لینڈ یورپ کا وہ ملک ہے جو اپنی ثقافتی رنگارنگی اور قدرتی حُسن کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اس ملک کے مختلف صوبوں میں قدیم اور پُرکشش تاریخی مقامات بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    فن لینڈ کا شہر ہیمینلِنا بھی اپنی ایک خوب صورت جھیل اور اس کے ساتھ بنے قدیم اور پُراسرار قلعے کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔

    اس قلعے کو ٹواسٹیا کہا جاتا ہے جو تیرہویں صدی عیسوی کی یادگار ہے اور تاریخی ورثہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعے کو جس جھیل کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے اسے واناجویسی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    صدیوں پہلے کے فنِ تعمیر کے اس خوب صورت نقش کی بیرونی دیواروں کے اندر گولائی میں ایک ہال ہے جو بلندی تک چلا گیا ہے اور اس کے اوپر مزید چھوٹے چھوٹے ٹاور موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی دیوار کے نچلے حصے میں اس وقت کے صنعت گروں نے گرینائٹ استعمال کیا تھا، جب کہ اوپر کی طرف سرخ اینٹوں کا کام کیا گیا ہے۔ تاریخ نویسوں کے مطابق اس قلعے کی دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت تھی۔

    وقت کے ساتھ اس قدیم عمارت کو بھی نقصان پہنچتا رہا۔ اس کی پانچ برجیوں میں سے اب دو ہی یادگار کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ 1953 میں حکومت نے اس قلعے کی مرمت اور بحالی کا کام کراویا اور 1979 اسے میوزیم میں تبدیل کرکے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

    اس تاریخی قلعے اور میوزیم کی سیر کے لیے آنے والے اس کی چوکیوں اور ٹاور سے جھیل کا نظارہ بھی کرتے ہیں۔

  • "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    یوں تو وطنِ عزیز میں کائنات کا ہر رنگ، ہر نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اور قدرتی حسن میں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں، کوہ سار، چشمے، جھیلیں، دریا اور سمندر کے علاوہ صحرا، ریگستان اور حسین و سرسبز وادیاں شامل ہیں، مگر یہ خطۂ زمین اپنی تہذیب اور بیش قیمت آثار کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    پاکستان کے قدیم تہذیبی آثار اور تاریخی عمارتوں کی سیر کرنے والا آج بھی انھیں دیکھ کر مبہوت اور دنگ رہ جاتا ہے۔

    ہمارے ملک میں اہم تاریخی اور قدیم دور کی یادگاروں میں کئی قلعے بھی شامل ہیں جنھیں مختلف بادشاہوں، راجاؤں نے تعمیر کروایا اور یہ شان و شوکت اور ان کے دورِ سلطانی کی عظیم نشانیاں ہیں۔

    قلعہ رام کوٹ بھی انہی میں‌ سے ایک ہے جو آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کے نزدیک واقع ہے۔ کشمیر کی حسین وادی کے علاقے دینا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ تاہم سیر کے لیے جانے والے جب آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے قلعے کو سفر کریں تو سڑک کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر کے راجاؤں نے یہاں کئی قلعے تعمیر کروائے تھے اور رام کوٹ بھی اسی دور کی یادگار ہے۔

    یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم کیا گیا تھا، جس کے اطراف دریا اور سبزہ ہی سبزہ تھا۔ قلعے کے اندر مختلف کمرے، ہال اور تالاب بھی موجود ہیں اور یہ در و دیوار ماضی کی شان و شوکت کی کہانی سناتے معلوم ہوتے ہیں۔

    بدقسمتی سے اس اہم تاریخی ورثے اور طرزِ تعمیر کے شاہ کار کو حکومت اور انتظامیہ کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے نہ تو دنیا اور مقامی سیاحوں کی توجہ حاصل ہوئی اور نہ ہی اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کا کوئی بہتر اور مناسب انتظام کیا جاسکا۔ ماہرینِ آثار کے مطابق دفاعی اعتبار سے اس قلعے کی تعمیر کا مقام نسبتا بلند اور رسائی کے لحاظ سے پُرپیچ اور دشوار ہے، لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے سفری سہولیات دے اور اس کی مرمت اور دیکھ بھال کرے۔

  • باغ سَر کا قلعہ دیکھیے، جھیل کی سیر کیجیے

    باغ سَر کا قلعہ دیکھیے، جھیل کی سیر کیجیے

    اگر آپ آزاد کشمیر گئے ہوں‌ تو باغ سَر جانے کا اتفاق بھی ہوا ہو گا جو خوب صورت اور تاریخی مقامات کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    وادی کے ضلع بھمبر کی طرف سطحِ سمندر سے 975 میٹر کی بلندی پر ایک جھیل ہے جو ’’باغ سر جھیل‘‘ کے نام ہی سے پہچانی جاتی ہے، لیکن اس جھیل کا نظارہ کرنے کے لیے آپ کو اس قلعے کے دامن میں پہنچنا ہو گا جو خود بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

    مشہور ہے کہ شہنشاہ جہانگیر دورۂ کشمیر پر تھا تو بیمار ہوا اور باغ سر ہی میں وفات پائی۔ شہنشاہ کی موت کے بعد اس کا جسدِ خاکی باغ سر سے لاہور لے جایا گیا تھا۔

    باغ سَر دراصل قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ ہے جہاں‌ یہ قلعہ اور اس کے دامن میں‌ واقع جھیل بہت مشہور ہے اور یہ اسی علاقے کے نام سے منسوب مقام ہیں۔ کہتے ہیں‌ قلعہ باغ سَر میں‌ کئی بادشاہوں‌ نے قیام کیا اور اس علاقے کی آب و ہوا اور فطرت سے لطف اندوز ہوئے۔

    قلعے میں‌ موجود جھیل اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہے اور یہ تقریبا نصف کلومیٹر طویل ہے۔ اس علاقے میں‌ مغل دور کے تعمیر کردہ کئی باغات بھی موجود ہیں۔

  • راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    پاکستان کے قدیم آثار اور تاریخی مقامات کے حوالے سے چولستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    یہاں مختلف شہروں اور مضافات میں کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں جب کہ بہاول نگر، چولستان کی طرف جائیں تو بہت سے قلعے اور آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں قلعہ پھلڑا بھی شامل ہے۔

    قلعہ پھلڑا کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ اسے بیکا نیر کے راجا نے کسی زمانے میں تعمیر کروایا تھا۔ اس راجا کا نام بیکا لکھا ہے اور یہ قلعہ کسی زمانے میں‌ راجا اور افواج کا اہم دفاعی حصار رہا ہو گا۔

    1750 تک یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن گیا اور کرم خان اربائی نے اس کی تعمیر و مرمت کروائی۔ یہ قلعہ جنگ اور دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ اس قلعے کی بیرونی دیواروں کو پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

    ماہرین ثقافت اور آثار سے متعلق محققین کے مطابق اس کی دو طرفہ دیواروں کے درمیان مٹی بھری گئی تھی جو دفاعی اعتبار سے نہایت کارگر تھی۔ اسے دشمن کی گولہ باری آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ اسے دھوڑا کہا جاتا تھا۔

    قلعے کے چاروں کونوں پر مینار قائم کیے گئے تھے جب کہ قلعے کے اندر 118 فٹ گہرا ایک کنواں بھی ہے۔ درمیان میں رہائشی کمرے اور قلعے کے جنوبی حصے کی طرف ایک سہ منزلہ اقامت گاہ موجود ہے جو کبھی خوب صورت اور طرزِ تعمیر کا شاہ کار رہی ہو گی۔