Tag: مشہور قوال

  • مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی گائیک اور قوّال منشی رضی الدّین کی برسی ہے۔ وہ 4 جولائی 2003ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    منشی رضی الدّین کا تعلق رام پور سے تھا جہاں انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے آبا و اجداد فنِ گائیکی اور قوّالی کے لیے مشہور تھے۔ یہ گھرانا امیر خسرو اور بہادر شاہ ظفر کے دور میں فنِ‌ موسیقی سے وابستہ تھا۔

    منشی رضی الدّین ابتدا میں نظام حیدر آباد(دکن) کے دربار سے وابستہ رہے اور بہت عزّت اور داد و انعام پایا۔ 1956ء میں وہ پاکستان آگئے اور اپنے رشتے کے بھائیوں کے ساتھ مل کر منشی رضی الدّین، منظور نیازی اور برادران کے نام سے قوّال گروپ تشکیل دیا۔

    1966ء سے انھوں نے اس فن میں اپنی الگ شناخت بنانے کا فیصلہ کیا جس میں ن کے بیٹے فرید ایاز اور ابو محمد بھی شامل تھے۔

    منشی رضی الدّین ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ علمِ موسیقی جانتے تھے اور مشہور ہے کہ وہ شعر کا مضمون بھانپ کر اپنی قوّالیوں میں اس کی تکرار کیا کرتے تھے جس سے ان کی گائیکی میں‌ سوز پیدا ہوتا اور ان کی گائیکی پُراثر ثابت ہوتی۔ وہ ریاض کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اپنے فن کے ساتھ مخلص تھے۔

    منشی رضی الدّین کا پسندیدہ ساز تان پورہ تھا اور ان کی قوالیوں میں تان پورے کا استعمال دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے قوّالی کے فن میں چار دہائیوں سے زائد عرصے کے طویل سفر میں کلاسیکی انداز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بخوبی اپنی آواز میں ڈھالتے رہے۔

    منشی رضی الدّین کو گائیکی اور قوّالی کے فن کے لیے خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

    کلاسیکی گائیکی کے اس نام ور فن کار کا مدفن لاہور میں ہے۔

  • پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
    کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آیا ہوں بن کر سوالی…..

    یہ نعتیہ کلام آپ نے ضرور سنا ہو گا جسے غلام فرید صابری قوال نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس خوب صورت قوالی(نعتیہ کلام) کے‌ خالق پُرنم الہٰ آبادی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    کئی مشہور قوالیوں، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور گیتوں کے اس خالق کا اصل نام محمد موسیٰ ہاشم تھا۔

    1940 میں الہٰ آباد، ہندوستان میں پیدا ہونے والے اس خوب صورت شاعر نے اپنے دور کے مشہور اور استاد شاعر قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی۔ پُرنم الہٰ آبادی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    انھوں نے شاعری میں صوفیانہ اسلوب اپنایا اور ایسا کلام تخلیق کیا جو لازوال ہے۔ کہتے ہیں وہ ہندوستان فلم انڈسٹری میں گیت نگار کی حیثیت سے جگہ بنا رہے تھے، لیکن پھر سب کچھ چھوڑ کر عشقِ رسول ﷺ کا یہ راستہ چنا اور بے پناہ شہرت اور عزت پائی۔

    سادہ اور عام فہم ہونے کی وجہ سے پُرنم الٰہ آبادی کا کلام عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوا اور اسے گانے والوں کو بھی خوب شہرت ملی۔ وہ ایک سادہ اور گوشہ نشیں شاعر تھے۔

    29 جون 2009 کو انھوں نے اس عارضی ٹھکانے سے ہمیشہ کے لیے رخصت باندھ لی۔