Tag: مشہور لائبریری

  • علم دوست خدا بخش

    علم دوست خدا بخش

    جب کبھی کہیں‌ اجاڑ موسم آتا ہے تو پرندے وہاں سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال کتابوں کا ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جب تاتاریوں نے بغداد کو لوٹا تو وہاں کی کتابیں ٹونک تک پہنچیں اور جب عیسائیوں نے قرطبہ پر دھاوا بولا تو وہاں‌ پٹنہ تک گئیں۔

    ہمارا یہ باب پٹنہ کے لیے مخصوص ہے۔ ایک صاحب تھے "خدا بخش”۔ علم و ادب پر ان کے اتنے احسانات ہیں‌ کہ دل سے ان کے لیے یہی صدا نکلتی ہے کہ خدا بخشے۔

    ان کے والد جب انتقال کرنے لگے تو ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک ہزار چار سو کتابیں‌ بیٹے کے حوالے کرگئے اور کہہ گئے کہ جوں‌ ہی حالات اجازت دیں ان کتابوں کو عوام کے لیے کھول دینا۔

    خدا ایسی کتابیں اور ایسے بیٹے سب کو دے۔ خدا بخش علم کے اس خزانے میں‌ نئے نئے جواہر بھرتے گئے، یہاں‌ تک کہ ان کے پاس چار ہزار مخطوطے جمع ہوگئے۔ اب یہ کھیتی پک کر تیّار تھی۔ بیٹے نے باپ کا خواب پورا کر دکھایا۔ 29 اکتوبر 1891ء کو یہ کتب خانہ وقف قرار پایا اور کتب خانے کا نام رکھا گیا ” اورینٹل پبلک لائبریری” اس کے نام میں‌ نہ کسی شخصیت کا نام شامل تھا، نہ کسی کاروباری ادارے کا۔ مگر اس زمانے میں‌ عوام طے کیا کرتے تھے کہ ان کا محسن کون ہے۔

    چناں چہ لوگ نہ مانے۔ انھوں نے اورینٹل پبلک لائبریری کو اوّل دن سے خدا بخش لائبریری کہا اور بانکی پور کے بارونق علاقے میں وہ آج بھی خدا بخش لائبریری کے نام سے ماضی کی عظمتوں کا مینارہ بنی کھڑی ہے اور اس کی کرنیں‌ کہاں‌ کہا‌ں نہیں بکھری ہیں۔

    (نام ور براڈ کاسٹر، محقّق، مصنف اور سفر نامہ نگار رضا علی عابدی کے قلم سے)

  • صدیوں پرانے مقدس اوراق جنھیں صحرا کی ریت نگل رہی ہے

    صدیوں پرانے مقدس اوراق جنھیں صحرا کی ریت نگل رہی ہے

    براعظم افریقا اور اس کے صحرا دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس براعظم کے مختلف قدیم اور تاریخی شہر صدیوں‌ سے تجارت اور خرید و فروخت کا مرکز رہے ہیں اور یہاں کی منڈیوں میں قریب اور دور دراز کے مقامات سے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

    اسی براعظم کے ایک صحرا کے درمیان "شنقیط” بھی صدیوں سے آباد ہے اور موریطانیہ کے اس شہر میں ہزاروں سال سے تاجروں کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔

    آج کے دور میں تو یہ شہر اور ایسی کئی بستیاں جدید سہولیات اور سڑکوں یا عمارتوں سے بھر چکی ہیں، مگر شنقیط وہ شہر ہے جو ہزاروں برس پہلے بھی علم و فنون اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس کا ثبوت یہاں موجود قدیم لائبریریاں ہیں جو آج موریطانیہ کا خوب صورت ثقافتی ورثہ مانی جاتی ہیں۔

    ان کتب خانوں میں ہزار برس پرانے تحریری نسخے اور دیگر قدیم دستاویزات آج بھی محفوظ ہیں۔ تاہم ان قدیم نسخوں، مقدس اوراق اور مختلف کتب کو چند برسوں کے دوران صحرا کی ریت نے برباد کرنا شروع کر دیا ہے۔

    تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ ایک اہم گزر گاہ رہا ہے اور شنقیط سے ماضی بعید میں حج کے لیے قافلے روانہ ہوتے تھے۔ حج کے دوران لوگ جو مذہبی کتب، مقدس نسخے اور اشیا اپنے ساتھ لاتے ان میں سے کچھ یہاں موجود کتب خانوں میں رکھ دیتے تاکہ طالب علم اور مقامی لوگ استفادہ کرسکیں۔

    چند برس قبل تک شنقیط کی ایسی چند لائبریریوں میں قرونِ وسطیٰ سے لے کر موجودہ دور کی تقریباً سات سو کتابیں اور مخطوطات موجود تھے۔

    ماہرین کے مطابق اس شہر کی لائبریریوں میں نویں صدی عیسوی تک کی تحاریر بھی محفوظ ہیں۔

    شنقیط کی ان لائبریریوں کی عمارتیں پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں اور یہ اس دور کے کاری گروں کی مہارت کا نمونہ ہیں۔ تاہم ان کی مکمل دیکھ بھال اور مرمت کے ساتھ ان کو صحرا کی ریت سے بچانے کی ضرورت ہے جو ان نوادر اور قدیم نسخوں کو آہستہ آہستہ نگل رہی رہی ہے۔

  • سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    تاریخ‌ بتاتی ہے کہ سندھ دھرتی نے کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کے خوب صورت رنگ دیکھے۔

    ہزاروں سال کے دوران اس دھرتی پر علم و فنون کے مختلف شعبوں‌ کی قابل اور عالم فاضل شخصیات نے آنکھ کھولی اور انھوں‌ نے اپنی دانش و حکمت کو تحریر و تصویر کیا اور یہی علمی سرمایہ کتب خانوں‌ تک پہنچا جن سے بے شمار تشنگانِ علم سیراب ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

    ہم یہاں‌ "اسلامی کتب خانے” نامی کتاب سے ایک صفحہ نقل کر رہے ہیں‌ جس سے آپ حیدر آباد، سندھ کے چند اہم اور مشہور کتب خانوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ اس کتاب کے محقق اور مؤلف محمد زبیر (علی گڑھ) ہیں۔

    حیدرآباد میں جو کتب خانے قائم ہوئے ان میں کتب خانہ "شمس العلما مرزا قلیج بیگ” کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ اس میں عربی، فارسی، ترکی اور سندھی کتابوں کے ذخائر موجود ہیں۔

    ضلع حیدرآباد کے قصبہ پیر جھنڈا میں "کتب خانہ پیر رشد ﷲ راشدی” کو قابلِ دید کہا جاتا ہے۔ پیر صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ "انہوں نے اس کتب خانے پر بے پناہ روپیا خرچ کیا۔ لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں، ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقل اپنے خرچ پر کاتب بھیج کر کرائیں۔

    مولانا عبیداﷲ سندھی نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا تھا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ "پیر صاحب کے پاس علومِ دینیہ کا بے نظیر کتب خانہ تھا۔ میں دورانِ مطالعہ وہاں جاتا رہا اور کتابیں مستعار بھی لاتا رہا۔ میری تکمیلِ مطالعہ میں اس کتب خانہ کے فیض کو بڑا دخل تھا۔”

    ان کے علاوہ اور بھی کتب خانوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً "کتب خانہ لواری شریف” ضلع حیدرآباد میں ہے۔ اس ضلع کے قصبات ٹنڈو سائیںداد میں "کتب خانہ خواجہ محمد حسین فاروقی مجددی” ، ٹنڈو میر نور محمد میں "کتب خانہ میر نور محمد”، مٹیاری میں "کتب خانہ پیر غلام محمد سرہندی” ، ہالا میں "کتب خانہ مخدوم مولانا غلام حیدر” ہیں۔ ان میں مخطوطات، نوادرات اور مطبوعات کے عمدہ ذخائر جمع ہیں۔

  • الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    آئیے سوئٹزرلینڈ کی ایک قدیم اور پُرشکوہ عمارت کی سیر کو چلتے ہیں۔

    اس عمارت میں‌ ایک کتب خانہ ہے جو ایبے لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ عمارت کا منفرد طرزِ تعمیر، خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھ کر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اندر جاکر آپ خوف زدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر داخل ہونے سے پہلے آپ یہ جان لیں‌ کہ اس عظیم الشان عمارت میں چند حنوط شدہ جسم بھی رکھے ہوئے ہیں تو فیصلہ کرسکتے ہیں‌ کہ اندر داخل ہونا ہے یا نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ تجسس خوف پر غالب آجائے گا اور آپ سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گالیں‌ کی اس لائبریری کے اندر  ضرور جائیں گے۔

    یہ کتب خانہ قدیم رسائل، نوادر اور حیرت انگیز موضوعات پر کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مخطوطات اور قدیم نقشے بھی محفوظ ہیں۔ صدیوں پہلے یہاں ایک معبد قائم کیا گیا تھا اور بعد کے ادوار میں یہاں کتب خانہ بنا دیا گیا۔ آج اس دو منزلہ کتب خانے کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔

    یہ کتب خانہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں ہر طرف لکڑی کی الماریوں میں کتابیں محفوظ ہیں۔ یہاں کے در و دیوار سے اس عمارت کی شان و شوکت اور اس کا حسن جھلکتا ہے۔ یہاں لکڑی کا کام نہایت نفیس اور باریکی سے کیا گیا ہے۔ الماریوں کے علاوہ زینے اور چھت کو جس مہارت سے منقش اور مزین کیا گیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار بھی مانی جاتی ہے جس میں ہوا اور روشنی کی آمدورفت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے جب کہ اس کے ہال کی بناوٹ بھی ایک خاص پیمائش اور ڈھب سے کی گئی ہے۔ 1983 میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں لائبریری میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی طرف۔ کہتے ہیں کہ یہ لگ بھگ تیرہ سو برس پہلے حنوط کیے گئے جسم ہیں جو مرکزی ہال میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔