Tag: مشہور لطائف

  • آپ کہاں جا رہی ہیں؟

    علامہ انور صابری ایک زمانے کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ شاعرِ انقلاب ان کا لقب تھا، اور شاعری بھی بڑی انقلابی تھی۔

    تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ مشاعروں کی جان تھے۔ بڑے تن توش کے آدمی تھے۔ رنگ گہرا سانولا تھا۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ہم نے خود دیکھا بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ ڈالتے، سامنے پڑے ہوئے کسی بھی کاغذ پر لکھ کر وہیں چھوڑ کر اٹھ جاتے تھے۔ اس وجہ سے نہ جانے کتنا کلام ضائع ہو گیا۔

    انور صابری کے لطیفے بھی بہت مشہور ہیں۔

    ایک بار وہ پاکستان گئے ہوئے تھے۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کے بعد تفریحاً بس سے مری جانے کی ٹھانی اور تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ والی نشست پر انہی کے سے جان جثہ کی ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری صاحب نے وقت گزاری کے لیے ان خاتون سے پوچھا: آپ کہاں جا رہی ہیں؟

    خاتون نے کہا: میں مری جا رہی ہوں۔ صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ اب ان خاتون نے پوچھا، اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟

    انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا: میں مرا جا رہا ہوں!

    (علمی و ادبی شخصیات سے منسوب لطائف، از طارق غازی اور سلمان غازی)

  • زبان اور اندازِ بیان

    زبان اور اندازِ بیان

    دنیا کی مختلف زبانیں‌ سیکھنے والوں کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے قواعد، املا اور رسمُ‌ الخط سے واقف ہوجائیں‌ بلکہ کسی بھی زبان کو خوب خوب سیکھنے کے ساتھ اس کے مختلف لب و لہجوں اور مقامی لوگوں کے اندازِ بیاں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیرمقامی اور دور دراز کا رہنے والا سلیس اور بامحاورہ زبان بول اور اچھی طرح سمجھ سکے۔

    یہاں ہم ایک مشہور واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو ممتاز ادیب اور نقاد آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا۔

    ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان (منشی) کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔

    انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر کر دی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالائقی کا اعتراف کرتا ہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

  • طوطی بولتا ہے!

    طوطی بولتا ہے!

    تذکیر و تانیث پر دہلی اور اودھ کے اسکولوں میں بڑی معرکہ آرائی رہی۔ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دو اسکولوں نے اپنایا۔ دہلی نے جہاں اسے عظمت عطا کی، وہیں اودھ نے اس کے حُسن میں چار چاند لگائے۔

    ظاہر ہے بعض چیزوں میں اختلاف بھی ہوا، لیکن ہم دونوں اسکولوں کی نیت پر شبہ نہیں کر سکتے کہ دونوں ہی اس زبان کے عاشق تھے۔ میرے نزدیک ایسے اختلافات کو بنیاد بنا کر بحث و مباحثہ کرنا تضیعِ اوقات ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو لطائف سامنے آئیں ان سے محظوظ ضرور ہوا جا سکتا ہے۔

    ایسے واقعات نہ تو کسی اسکول کی طرف داری میں پیش کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مقصد کسی کی تضحیک ہوتا ہے، یہ صرف تفننِ طبع کے لیے ہیں۔

    ایک مرتبہ استاد ابراہیم ذوق نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا شعر تھا:

    ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
    خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا

    شعر سنتے ہی ان کے ایک لکھنوی دوست نے ٹوکا اور کہا حضرت آپ نے طوطی کو مذکر کیسے باندھا جب کہ اس میں علامتِ تانیث کے طور پر یائے معروف موجود ہے۔

    استاد نے کہا کہ محاورے پر کسی کا اجارہ نہیں۔ آپ میرے ساتھ چوک چلیے جہاں چڑی ماروں کا ٹولہ آتا ہے اور سنیے وہ کیا ہانک لگاتا ہے۔

    دونوں جامع مسجد، دہلی کے ساتھ لگنے والے بازار پہنچے۔ وہاں بہت سے چڑی مار تیتر، بٹیر، مینا، بیا اور طرح طرح کے پنچھی لیے بیٹھے تھے۔ ایک بانکا طولی لیے چلا آتا تھا۔ استاد ذوق نے کہا۔ ذرا ان سے تو دریافت کیجیے۔ اس شخص نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    بھیا آپ کی طوطی کیسے بولتی ہے۔ اس نے جواب دیا: بولتی تمہاری ہوگی، یاروں کا طوطی خوب بولتا ہے۔

    یہ سن ذوق نے کہا۔ اس پر نہ جائیے کہ یہ ان لوگوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خواص کی زبان بھی ہے۔

    ( زبان و ادب سے متعلق تذکروں‌ سے انتخاب، سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں اس واقعہ کو زیادہ تفصیل سے نقل کیا ہے)