Tag: مشہور لوک کہانی

  • ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔

    اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کرسکا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ اس کی بہت عزّت کرتی تھی۔

    ایک دن اس نے اپنی ماں سے اجازت لی اور کرانو سے ملنے اس کے گھر آئی۔ کرانو اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ژیانگ اس کے لیے شربت لائی اور ادب سے اسے پیش کیا۔ کرانو نے پہلی بار کسی کو اپنے گھر میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے ژیانگ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح ژیانگ کا کرانو کے گھر آنا جانا ہو گیا۔

    کرانو کا گھر چھوٹا سا تھا۔ اس کی تمام چیزیں بکھری رہتی تھیں۔ ژیانگ نے اس کا گھر سلیقے سے سجا دیا۔ کرانو بہت سادگی سے رہتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ تھی۔ ژیانگ نے اس کا ذکر اپنے باپ چانگ سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ کرانو کنجوس ہے اور دولت جمع کر رہا ہے۔

    ایک دن ژیانگ اپنے گھر میں تھی تو اس نے اپنی کھڑکی سے کرانو کو ایک تھیلا ہاتھ میں لٹکائے جاتے دیکھا۔ ژیانگ سوچنے لگی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ ژیانگ نے فوراً یہ بات اپنے باپ کو بتائی۔ وہ سمجھ گیا کرانو اپنی دولت کہیں دفن کرنے جا رہا ہے۔ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر کرانو کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرانو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اور چانگ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    جب چانگ نے کرانو کو بینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر آکر اس نے ژیانگ سے کہا کہ وہ ٹوہ لگائے کہ آخر کرانو نے بینک میں کیا جمع کرایا ہے۔ دوسرے دن ژیانگ نے کرانو کو قہوہ پیش کرتے ہوئے کہا، "کل آپ کسی دوست سے ملنے گئے تھے شاید؟”

    کرانو نے پہلے تو قہوے کا شکریہ ادا کیا پھر کہا، "نہیں میں بینک گیا تھا، لاکر میں ایک قیمتی چیز رکھنے۔” لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چیز کیا تھی۔ ژیانگ نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے تمام بات اپنے باپ چانگ کو بتا دی۔

    چانگ ایک لالچی اور خود غرض انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح کرانو کی دولت حاصل کرے گا۔ تھوڑے دن بعد ہی ژیانگ کا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی بات پکّی کر دی گئی۔ چانگ سوچ رہا تھا کہ اب ژیانگ کی شادی کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہو گی، سو کوئی ترکیب کرنی چاہیے کہ کرانو کی دولت جلد از جلد ہاتھ آ جائے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ آخر ایک خطرناک خیال اس کے ذہن میں آیا۔

    ایک دن اس نے ژیانگ سے کہا، "ہوسکتا ہے کرانو اپنی دولت کسی دوست کے حوالے کر دے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کی دولت حاصل کر لیں۔”

    ژیانگ نے تعجب سے پوچھا، "مگر ہم اس کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟”

    چانگ مکّاری کے ساتھ بولا، "وہ آج کل بیمار ہے، اس لیے زیادہ تر اپنے بستر میں رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جائے۔ اس کے کمرے میں بے شمار کاغذ ہیں، جلد ہی آگ پکڑ لیں گے، لیکن اس سے پہلے تم اس کے لاکر کی چابی اور بینک کے کاغذات حاصل کر لو۔”

    باپ کی یہ سازش سن کر ژیانگ لرز کر رہ گئی۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر چانگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سبز باغ دکھائے اور اس پر سختی بھی کی۔ مجبوراً ژیانگ اس کے ساتھ اس سازش میں شریک ہونے کو تیار ہو گئی، لیکن اس نے آگ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ چانگ نے کہا کہ وہ آگ خود لگے گا۔

    چنانچہ ژیانگ جب اگلے روز کرانو کے گھر گئی تو اس نے کرانو کو اپنی شادی کے بارے میں بالکل نہیں بتایا، لیکن کسی نہ کسی طرح بینک کے کاغذات اور چابی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ پھر کرانو کی غیر موجودگی میں وہ صفائی کے بہانے اس کے گھر میں رک گئی اور کرانو کے سارے گھر میں تیل چھڑک دیا۔ کرانو کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ یہ کام کر کے وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی کرانو واپس گھر آیا، چانگ نے دروازہ بند کر کے آگ کی مشعل کھڑکی سے اندر پھینک دی۔

    کرانو جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بُو محسوس ہوئی اور پھر آگ تیزی سے پھیلتی گئی۔ چانگ اور ژیانگ اپنے گھر جا چکے تھے۔ پھر وہ اس وقت باہر نکلے جب محلّے والوں نے شور مچایا کہ کرانو مر چکا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔ لوگوں نے یہی خیال کیا کہ شاید کھانا پکانے کے لیے اس نے آگ جلائی ہو گی اور غلطی سے آگ کپڑوں میں لگ گئی ہو گی۔

    اس درد ناک واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن ژیانگ اور چانگ بینک جا پہنچے۔ انہوں نے خود کو کرانو کا رشتے دار ظاہر کیا اور لاکر کھولنے میں کام یاب ہو گئے۔ لاکر میں اس تھیلے کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا:

    "لاکر کھولنے والے پر سلامتی ہو۔ اس لاکر میں میری زندگی کی سب سے عمدہ کہانی ہے۔ میری یہ کہانی دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک شخص مجھے اس کے پندرہ ہزار پاؤنڈ دینے کو تیار ہے، مگر میں ابھی اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ میں اسے اس وقت بیچوں گا جب ژیانگ کی شادی ہو گی۔ میں اس کہانی کو بیچ کر ساری رقم ژیانگ کو دے دوں گا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اپنی بیٹی جیسی۔ اگر میں اس کی شادی سے پہلے مَر جاؤں تو ژیانگ اس کہانی کو بیچ سکتی ہے۔”

    اتنا خط پڑھ کر ژیانگ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو خط سن رہا تھا۔ اس وقت تک وہ تھیلے میں سے سارے قیمتی کاغذات نکال چکا تھا۔

    "کاش! میں اسے اپنی شادی کی خبر سنا دیتی!”

    ژیانگ کی یہ بات سن کر چانگ نے کہا، "کوئی فرق نہیں پڑتا، پندرہ ہزار پاؤنڈ تو اب بھی مل ہی جائیں گے۔ تم باقی خط پڑھو۔” ژیانگ پھر پڑھنے لگی:

    "لیکن کہانی کا یہ صرف ایک حصّہ ہے۔ دوسرا حصّہ بہت اہم اور ضروری ہے اور وہ حصّہ میرے تکیے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے، جسے میری موت کے بعد ژیانگ نکال سکتی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش رکھے!”

    خط کا آخری حصّہ پڑھتے پڑھتے ژیانگ کی آنکھیں بھر آئیں۔ چانگ بھی حیرت اور افسوس سے سوچ رہا تھا، "کاش میں نے لالچ نہ کیا ہوتا۔”

    (چینی ادب سے اردو ترجمہ)

  • لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    دوستو! کئی سال پہلے ایک گاؤں میں کوئی لکڑہارا اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا اور لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف نکل جاتا۔

    اس کی گزر بسر اور معاش کا ذریعہ یہی لکڑیاں تھیں جنھیں جنگل سے لاکر شہر میں فروخت کرکے ان کے دام وصول کرلیتا تھا۔ کسی طرح تنگی ترشی سے اس کا گھر چل رہا تھا، لیکن اس کی بیوی نہایت تنک مزاج اور بدخُو تھی۔ اس کی زبان پر ہر وقت شکوہ رہتا۔

    ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ لکڑہارے کی جنگل کے ایک شیر سے دوستی ہو گئی۔ شیر جیسا درندہ اسے لکڑیاں چننے میں مدد دینے لگا تھا۔ لکڑہارا بے تکلفی سے اس کے ساتھ اپنے دل کی باتیں بھی کرنے لگا تھا۔

    ایک دن لکڑہارے نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا اور کہا کہ میں اپنے دوست کو کسی دن اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں۔ بیوی بہت چیخی چلائی کہ بھلا درندے اور انسان کی کیسی دوستی؟ لکڑہارے کے سمجھانے پر وہ خاموش تو ہو گئی، لیکن اندر سے بہت خوف زدہ تھی۔ ایک دن موقع مناسب جان کر لکڑہارا شیر کو گھر لے آیا۔ بیوی نے شیر کو دیکھتے ہی چلّانا شروع کر دیا اور خوب برا بھلا کہا۔

    اپنے دوست کی بیوی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شیر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے لکڑہارے سے جو بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا، کہا کوئی بات نہیں، بس تم ایسا کرو کہ اپنے کلہاڑے سے میرے سَر پر ایک ضرب لگا دو۔ لکڑہارے نے کہا میں اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟ جب شیر نے زیادہ اصرار کیا، تو اس نے شیر کے سر پر ضرب لگا دی، جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا اور شیر واپس جنگل چلا گیا۔

    لکڑہارا کئی دن تک خوف و ندامت کے باعث جنگل نہ گیا۔ گھر میں‌ نوبت فاقوں تک آگئی تو بھوک سے مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے جنگل کا رخ کیا۔ ابھی وہ درخت پر چڑھ کر لکڑیاں کاٹ ہی رہا تھا کہ دُور سے شیر آتا نظر آیا۔ خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا۔

    شیر عین اس درخت کے نیچے آن کھڑا ہوا اور لکڑہارے سے کہا کہ گھبراؤ نہیں۔ ہم اب بھی دوست ہیں۔ تم ذرا نیچے آؤ۔ لکڑہارا ڈرتے ڈرتے درخت سے نیچے اترا۔ شیر نے کہا تم میرے سَر کے بال اٹھا کر دیکھو وہ زخم تازہ ہے یا پھر بَھر چکا ہے؟ لکڑہارے نے ہچکچاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا اور بتایا کہ زخم کا تو نشان تک نہیں ہے۔ شیر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، لیکن میرے دوست تمھاری بیوی کی باتوں سے جو گھاؤ میرے دل پر لگا ہے، وہ اب بھی تازہ ہے۔

    اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔